سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(84) کوئی شخص اس خیال سے یا رسول اللہ یا، یا علی، یا یا بھیکھ وغیرہ بار بار کہے

  • 3866
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1147

سوال

(84) کوئی شخص اس خیال سے یا رسول اللہ یا، یا علی، یا یا بھیکھ وغیرہ بار بار کہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں، کہ اگر کوئی شخص اس خیال سے یا رسول اللہ یا، یا علی، یا یا بھیکھ وغیرہ بار بار کہے، کہ ہو سکتا ہے کہ ان کو اپنے علم طبعی جزئی کے لحاظ سے میرے حال کی خبر ہوتی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خبر نہ وتی اور علم ذاتی کلی خداوند تعالیٰ ہی کے لیے جانتا ہو، تو اس گمان پر ایسے الفاظ کہنا جائز ہے یا نہیں اور کسی اور طریقہ سے بھی ایسے الفاظ کہنے جائز ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جاننا چاہیے کہ غیب کا علم خواہ جزئی ہو یا کلی، خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے، اور اس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں، آپ کہہ دیں ’’آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا، بلکہ کسی کو بھی مر کر اٹھنے کا بھی علم نہیں ہے۔‘‘ ، ’’اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ان کو صرف وہی جانتا ہے۔‘‘ ،’’اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں اکٹھی کر لیتا۔‘‘ ’’اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا یا تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہو گا، میں تو صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں۔‘‘

یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کے حال کی خبر نہ ہو سکی، عزیر علیہ السلام اپنے ٹھہرنے کی مدت، گدھے کی کیفیت اور اپنے زندہ ہونے کا حال نہ جان سکے، اصحاب کہف کو اپنے سونے کی مدت کا علم نہ ہوسکا، حضرت عائشہ صدیقہ کی برأت آنحضرت ﷺ کو وحی نازل ہونے سے پہلے معلوم نہ ہو سکی، روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کرنے والوں کو وحی نازل ہونے تک آپ جواب نہ دے سکے، یہ سب واقعات قرآن مجید میں ہیں، اور احادیث اور متقدمین کی کتب اس مضمون سے بھری پڑی ہیں، ہاں اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو کچھ بتا دیں، تو اس کو علم ہو جاتا ہے لیکن پھر وہ غیب بہ حیثیت غیب باقی نہیں رہ جاتا، کیونکہ غیب تو وہ ہے جو حواس ظاہری اور باطنی سے غائب ہو ورنہ آدمی وجدان اور استدلال سے کوئی باتیں معلوم کر لیتا ہے۔

اور پھر غیب بھی مختلف ہیں، مادر زاد اندھے کے لیے رنگوں کی دنیا غیب ہے، اور راگ اور نغمے کی دنیا حاضر بہرے کے لیے آوازوں کی دنیا غیب ہے اور رنگوں کی معاشرہ نامرد آدمی سے لذت جماعت غیب ہے، اور فرشتہ کے لیے بھوک پیاس غیب ہے، اور جنت و دوزخ حاضر، علی ہذا القیاس، اس غیب کو غیب اضافی کہتے ہیں اور جو تمام مخلوقات سے غیب ہے، مثلاً قیامت کے آنے کا وقت، اور خدا تعالیٰ کے احکام کونیہ، جو روزانہ نازل ہوتے رہتے ہیں، یا خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کا تفصیلی علم یہ حقیقی غیب ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے۔

اور بزرگان دین کے لیے غیب جزئی ثابت کرنا، تو ایسا ہی ہے، جیسے کوئی بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہو، یہ غیب بھی خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے، اس کو یوں سمجھو کہ مارنا اور زندہ کرنا خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے تو کوئی یوں کہہ سکتا ہے کہ کل طور پر مارنا اور زندہ کرنا تو خدا کا خاصلہ ہے، لیکن جزئی طور پر دوسرے بھی زندہ کرتے اور مارتے ہیں۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ ہم طبعی علم کے متعلق کہتے ہیں، نہ کہ ذاتی علم کے متعلق، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جب ان کو پکاریں، تو اللہ تعالیٰ ان کو کشف یا الہام کی بنا پر مطلع کر دیتا ہو۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا غیب ہونا تو یقینی ہے اور حصول علم ظنی اور ظن یقین کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور پھر ایسا علم ہو جانا بھی تو خرق عادت یا کرامت کے طور پر ہو گا اور شریعت کے کون سے حکم کی بنیاد کرامت یا خرق عادت پر رکھی گئی ہے، ہو سکتا ہے، کہ کسی ولی کی کرامت سے سورج دوبارہ مغرب سے طلوع ہو جائے یا ایک ہی جگہ پر گھنٹہ ، ایک دن یا ایک سال ٹھہرا رہے، کیا اس بنا پر اپنی نمازیں قضا کر لو گے، کہ چلو اس وقت پڑھ لیں گے، علی ہذا القیاس تمام خرق عادات کا یہی حال ہے۔ ہاں اگر یقینی طور پر کوئی چیز ہونے والی ہو تو شریعت اس کے متعلق اپنے حکم نافذ کرتی ہے جیسا کہ دجال کے وقت دنوں کا لمبا ہو جانا، تو اس کے متعلق نمازوں کی کیفیت آنحضرتﷺ نے بیان کر دی ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی ولی کی کرامت سے مردہ سال بعد یا سو سال بعد زندہ ہو جائے۔ تو کیا اس حال پر اس کا ورثہ تقسیم نہ کرو گے، اس کی عورت دوسرا نکاح نہ کرے گی، زمین کے لپیٹے جانے کے خیال سے نماز قصر کر لو گے، کسی کشف کی بناپر مدعی کا صحیح دعوے کو ابان عادل کی موجودگی میں رد کر دو گے؟ کشت کی وجہ سے کسی منافق کو قتل کر دو گے؟ بغیر گواہوں کے کشت کی بنا پر زانی مرد و عورت کو سنگسار کر لو گے؟ آخر کشف و کرامت کی بنا پر آپ کیا کر لیں گے؟ ایسے عقیدے کا نتیجہ سوائے کفر و الھاد اور زندقہ کے اور کیا ہو گا، خدا کی پناہ!

ہاں اگر کبھی غلبہ محبت کی بناپر یا رسول اللہ یا، یا غوث الاعظم زبان سے نکل جائے تو یہ جائز ہے لیکن بار بار اس کا تکرار کرنا، اور اس کا وظیفہ کرنا جائز نہیں ہے، شرک ہے، قرآن مجید میں جا بجا یدعون من دون اللہ، یدعون من دونہ فرمایا گیا ہے، اور اس پر کفر و شرک کا فتویٰ اور خلود نار کی وعید سنائی گئی ہے، ایسی صریح آیات کی تاویل کرنا جہل مرکب ہے بلکہ قرآن مجید میں تحریف کے قائم مقام ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اللہ کے سوا ان کو مت پکارو جو تجھے کوئی نفع نقصان نہ دے سکیں، اگر تو نے ایسا کیا، تو ظالموں میں سے ہو گا، اور فرمایا: کہہ دیں میں اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں۔ ان دونوں آیتوں کے مجموعہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کو بھی اپنے نفع و نقصان کے لیے پکارنا ظالم ہے، اور فرمایا، اس سے زیادہ کون گمراہ تر ہے جو اللہ کے سوائے ہزاروں کو پکارے جو قیامت تک بھی اس کو جواب نہ دیں لیکن وہ تو اس کے پکارنے سے محض بے خبر ہیں۔‘‘

اگر کوئی من دون اللہ کے لفظ سے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال کر کہے کہ یہ تو بتوں کے متعلق ہے، تو اس کے جواب میں کہوں گا، کہ لفظ من ذوی العقول کے لیے آیتا ہے اور داؤد نون سے جمع بھی ذوی العقول کے لیے آتی ہے، تمہارا اعتراض کیسے صحیح ہو سکتا ہے، اگر کویء کہے کہ اس طرح تواپنے بھائی، بیٹے، اور عزیزوں کو بھی نہیں پکار سکے گا، تو میں کہوں گا، کہ لفظ میں لا یستجیب لہ اور کلمہ وہم عن دعانہم غافلون تمہارے اعتراض کا جواب دے رہے ہیں۔

اگر کوئی اعتراض کرے کہ کسی مفسر نے بھی اپنی تفسیر میں ایسا نہیں لکھا ہے کہ یا آدم نہ کہنا، یا شیث نہ پکارنا ، اور یا ادریس مت کہنا، یہ شرک ہے، یا ابراہیم یا موسیٰ یا عیسیٰ یا رسول اللہ یا علی یا نبی یا حسین یا سالار یا بھیکھ کہنا منع ہے، کفر ہے، تو میں کہوں گا کہ لفظ من دون اللہ ایک قاطع تلوار ہے جو تمہارے اعتراضات کا جواب دے رہ ہے اور پھر بھی اگر کوئی کہے کہ نہیں جزئیات کی تفصیل ضروری تھی، تو میں کہوں گا، لوگ ہزاروں نبیوں ، ولیوں، صدیقوں، شہیدوں کو پکارتے ہیں، اگر ان کے ناموں کی تفصیل تفاسیر میں بیان کی جاتی، تو اس سے کئی جلدیں تیار ہو جاتیں، مفسرین کی ایسے لغو کام میں عمریں بسر ہو جاتیں، اور پھر بھی تم کو شاید اعتبار آتا، یا نہ آتا۔

اور پھر قرآن مجید، حدیث شریف اور فقہ کی کتابوں میں جا بجا حکم آیا ہے نماز قائم کرو، زکوٰہ ادا کرو، اللہ پر ایمان لاؤ، تو تمہارے قول کے مطابق تو زید کہہ سکتا ہے، کہ مجھ پر نماز فرض نہیں ہے، کیونکہ میرا نام لے کر تو نہیں فرمایا گیا، کہ اے زید نماز قائم کر، عمرو کہتا کہ میں زکوٰۃ نہیں دوں گا، کیونکہ یہ تو نہیں کہا گیا، کہ اے عمرو زکوٰۃ دے، علی ہذا القیاس، کوئی یہ بھی کہہ دیتا، کہ قرآن میں تو صرف لات و عزیٰ کا ذکر آیا ہے، کالی دیوی، بھوانی، بھیروں، سیتا جسرت رزمچند کرشن، کہنا، شیخ سدو اور میراں وغیرہ کا نام نہیں آیا۔ لہٰذا ان کو سجدہ کرنا یا پکارنا ناجائز ہے ۔

اور پھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے فقہاء اور محدثین کے تمام استنباط اور اجتہاد گاؤ خورد ہو جاتے، ہر آدمی بڑی آسانی سے کہہ جاتا کہ یہ جزئیات اپنے مورد کے لیے خاص ہیں، میرے لیے تو کوئی حکم نہیں ہے۔

اگر کوئی آدمی سوال اٹھائے، کہ حصن حصین میں صلوٰۃ حاجت کے بیان میں یا محمد کے لفظ آئے ہیں، پھر ان کا پڑہنا کیونکر جائز ہوا، تو اس کا جواب یہ ہے، کہ اس وقت آنحضرت ﷺ زندہ اس کے پاس موجود تھے اور اگرحکایت حال ماضیہ کے طریق پر آج بھی انہیں الفاظ کو دہرا لیا جائے تو جائز ہے کیونکہ ان فرمودہ الفاظ میں برکت ہے، کہ وہ آنحضرتﷺ کی زبان سے نکلے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ہم قرآن مجید کی تلاوت میں یا عینی یا موئے وغیرہ الفاظ ندائیہ پڑھتے ہیں، لیکن ان سے مقصود نہ تو ان کو سنانا ہوتا ہے اور نہ یہ عقیدہ ہوتا ہے، کہ وہ سن رہے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 177

محدث فتویٰ

تبصرے