سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) غالباً وہ کسی کے طفیل کے ساتھ دعا مانگنے کو بدعت حسنہ سمجھتے ہیں..الخ

  • 3860
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1293

سوال

(78) غالباً وہ کسی کے طفیل کے ساتھ دعا مانگنے کو بدعت حسنہ سمجھتے ہیں..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت محترم حافظ صاحب السلام علیکم! مولانا عبد اللہ درخواستی کا فتویٰ ارسال ہے، انہوں نے عجیب و غریب فتویٰ دیا ہے غالباً وہ کسی کے طفیل کے ساتھ دعا مانگنے کو بدعت حسنہ سمجھتے ہیں۔ آپ اس پر کچھ تفصیلی روشنی ڈالیں اور اس طفیل کے مسئلہ میں یہ بھی تحریر فرمائیں کہ دعا مانگنے کا سنت طریقہ کیا ہے، مکہ شریف میں مولوی عبد الحق صاحب سے سنا تھا وہ فرماتے تھے: دعا مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے الحمد شریف، پھر دعا، پھر آمین اور پھر درود شریف ، کیا یہ ٹھیک ہے؟ (محمد شفیع خانپوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(از حضرت العلام حافظ صاحب روپڑی) اس طرح دعا کرنا بدعت ہے کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ حدیث میں ہے:

((مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَھُوَ رَدٌّ)) (مشکوٰة)

’’جو کوئی ہمارے دین میں نیا کام جاری کرے جو دین میں نہیں، وہ مکروہ ہے۔‘‘

(اس مسئلہ کی تفصیل ہمارے رسالہ دعا ((بحرمۃ انبیاء)) میں ہے جو عنقریب طبع ہو رہا ہے انشاء اللہ) اور دین میں بدعت حسنہ کا وجود ہی نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے:

((کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٍ))

’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

ہاں دین میں کوئی چیزثابت ہو، جیسے عثمانی رضی اللہ عنہ (جمعہ کی پہلی) اذان پر اجماع ہو گیا اور اجماع شرع دلیل ہے۔ پس شرع میں اس کا وجود ثابت ہو گیا۔ چنانچہ اس کا ذکر فتح الباری میں ہے۔

اب لغوی معنی سے اس کو بدعت کہا جا سکتا ہے ۔ نہ شرعی معنی سے، کیونکہ شرع میں اس کا وجود ہے۔ اسی طرح پہلے کوئی کام ہوتا ہو اور کسی وجہ سے ترک ہو گیا ہو تو اس کو کوئی جاری کرے تو اس کو بھی لغوی معنی سے بدعت کہہ سکتے ہیں، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کو بدعت کہا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے تین دن نماز تراویح پڑھائی، پھر فرض ہونے کے خوف سے ترک کر دی، جیسے مسلم شریف میں ہے۔

اور نبی اکرمﷺ کے بعد سلسلہ وحی منقطع ہونے کی وجہ سے فرض کا خوف نہ رہا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جاری کر دیں، یہ معنی ہیں:((مَنْ سَنَّ سُنَةً حَسَنَةً فِی الْاِسْلَامِ)) (الحدیث) کا۔ یعنی اچھا طریق جو اسلام میں ثابت ہو اور کسی وجہ سے بند ہو گیا ہو۔ کوئی اس کو جار ی کر دے تو اس کے لیے اپنا اور جو اس پر عمل کرے ان سب کا ثواب ہے لیکن دین میں ایسا نیا کام جاری کرنا جو قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو ہو مردود ہے۔

خلاصہ یہ کہ ایک تجدید دین ہے اور ایک احداث فی الدین، تجدید تو ایک شرعی بات کا اجرا ہے، یا لوگوں کو دین کے لیے بیدار کرنا اور احداث فی الدین یہ ہے کہ جو امر قرآن و حدیث سے ثابت نہیں اس کو دین میں داخل کرنا۔

پہلا کام بہت اچھا ہے اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو دین کی تجدید کریں اور دوسرا کام گمراہی ہے، اس لیے اس کومردود فرمایا گیا ہے۔ سائل کا سوال دوسرے سے ہے، مجیب (مولوی عبد اللہ درخواستی) نے اول کے ساتھ جواب دے دیا، اسی کو کہتے ہیں سوال از آسمان جواب از ریسماں۔ خدا تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ (آمین)

نوٹ:

طریقہ دعاء کا جو مولوی عبد الحق صاحب نے فرمایا۔ ٹھیک ہے، چنانچہ دعائے قنوت وتر میں درود شریف آخیر میں اور آمین بھی آخیر میں آئی ہے، چنانچہ ابو زہیر نمیری کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے دعا بہت عاجزی سے مانگی، نبیﷺ نے فرمایا: اس شخص نے دعا کی قبولیت کو واجب کر لیا اگر ختم کرے۔

ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! کس شے کے ساتھ ختم کرے؟ آپﷺ نے فرمایا:آمین کے ساتھ

(مشکوٰۃ باب فی الصلوٰۃ فصل ثانی) (عبد اللہ امر تسری روپڑی جامعہ اہل حدیث لاہور) (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۶ شمارہ نمبر۷)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 156

محدث فتویٰ

تبصرے