السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص ہمیشہ سے تارک نماز، تارک حج، تارک زکوٰۃ رہا، باوجود سمجھانے کے وہ پابند ارکان اسلام نہ ہوا۔ لیکن بج فوت ہونے لگا۔ تو اس کی زبان پر کلمہ لا الہ الا اللّٰہ جاری تھا۔ عجمی لوگ عربی کلمہ کا معنی تو سمجھتے نہیں مگر مطلب جانتے ہیں اور مرتے وقت اکثر لوگ اس کو پڑھ لیتے ہیں، اسی طرح بعض قبر پرست مشرک بھی مرتے وقت کلمہ پڑھ لیتے ہیں۔ مرزائی بھی کلمہ عند النزع کہہ لیتے ہیں، تو کیا حدیث: ((من کان اٰخر کلامه لا اله الا اللّٰہ دخل الجنة)) کے یہ لوگ مصداق ہو سکتے ہیں یا نہیں، اگر ہو سکتے ہیں تو زندگی میں ان کو کافر، مشرک کیوں کہا گیا۔ اس وقت بھی وہ کلمہ لا الہ الا اللّٰہ پڑھا کرتے تھے۔ اگر مصداق اس حدیث کا نہیں ہو سکتے تو پھر حدیث بظاہر ان کے جنتی ہونے پر دال ہے، اس کی صحیح تفسیر کیا ہے، تاکہ مشرک و کافر دائمی اس حدیث سے مسثنیٰ ہوں۔
امید ہے کہ آپ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔ (عبد القادر حصاری غفر الاباری خطیب جامع مسجد اہل حدیث چک نمبر ۲۵۱ رای، بی ڈاکخانہ خاص ضلع منٹکمری)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث: ((من کان اٰکر کلامه لا اله الا اللّٰہ)) اپنی جگہ ٹھیک ہے، ہم نے آج تک کوئی ایک مرنے والا نہیں دیکھا کہ وہ مشرک وغیرہ ہو اور اس کا آخر کلام کلمہ لا الہ الا اللّٰہ ہو۔
یہ اختیاری چیز نہیں بلکہ وہ اللہ کی طرف سے جاری ہوتا ہے، مشرک کا خاتمہ اس کلمہ پر باوجود مشرک ہونے کے نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کسی کے مشاہدے میں یہ چیز آئی ہو تو وہ لفظاً کلمہ ہے جس کی شہادت اس کے پہلے حالات ہیں جیسے وہ اپنی صحت و تندرستی میں کلمہ کا لفظ پڑھتا تھا، اور معنی نہیں سمجھتا تھا۔ ایسے ہی موت کے وقت سمجھنا چاہیے، ہاں جو صحیح معنوں میں توحید پر قائم ہے، اس کو مرتے وقت کلمہ نصیب ہو تو اس حدیث کی رو سے اس کے جنتی ہونے کی شہادت ہم دے سکتے ہیں، نیز بعض احادیث میں آیا ہے: ((من قال لا اله الا اللّٰہ دخل الجنة)) اور بعض روایتوں میں ((مستیقنا بہا قلبه)) کی شرف بھی آئی ہے، سو مرتے وقت بھی جو کلمہ زبان پر جاری ہو اس میں بھی شرط ضروری ہے کیونکہ ((انما الاعمال بالخواتیم)) سے مراد اخیری حالت ہے چنانچہ احادیث میں ہے۔
(عبد اللہ امرتسری روپڑی جامعہ قدس) (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۶ شمارہ نمبر ۴۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب