سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) کیا غلام رسول، غلام الٰہی اور مولا بخش جیسے نام رکھنے جائز ہیں؟

  • 3819
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1385

سوال

(37) کیا غلام رسول، غلام الٰہی اور مولا بخش جیسے نام رکھنے جائز ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا غلام رسول، غلام الٰہی اور مولا بخش جیسے نام رکھنے جائز ہیں؟ جب کہ غلام رسول اور غلام الٰہی سے مراد خادم الٰہی ہو۔ اگر اس قسم کے نام جائز نہیں تو پہلے رکھے ہوئے نام تبدیل کرنا ضروری ہیں یا غیر ضروری۔ اگر ضروری ہیں تو بتائیے کہ اگر ان ناموں والے طالب علم ایف الے، بی، اے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو وہ کس طرح اپنے نام تبدیل کر سکتے ہیں، جب کہ ان کی مڈل، میٹرک اور ایف اے وغیرہ کی سندوں پر یہی نام درج ہیں:


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض لوگ غلام رسول وغیرہ قسم کے نام رکھنے کے جواز کی گنجائش اس حدیث سے نکالتے ہیں:

((عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا یقولن احدکم عبدی وامتی کلکم عبید اللّٰہ۔ کُلُّ نِسَاءِکُمْ ماء اللّٰہِ ولکن لیقل غلامی وجاریتی وفتانی (مشکوٰة باب الاسامی فصل اول))

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص یوں نہ کہے: میرا بندہ اور میری بندی ہے تم مرد اللہ کے بندے ہو اور تمہاری عورتیں سب اللہ کی بندیاں ہیں۔ لیکن یوں کہے، میرا غلام اور میری لونڈی اور میری خادمہ۔‘‘

مگر اس حدیث سے پوری تسلی نہیں کیونکہ اس میں نسبت وقتی ہے، اور جب نام ہو گیا تو نسبت پختہ ہو گئی، اس بناپر احتیاط اسی میں ہے کہ اس قسم کے ناموں سے پرہیز کیا جائے۔ نیز جو لوگ یہ نام رکھتے ہیں، ان کا عقیدہ بزرگوں کے متعلق کچھ تصرفات کا ہوتا ہے، اس لیے وہ ان ناموں کے ذریعے ان کی طرف نسبت کو محبوب اور باعث فخر سمجھتے ہیں اگر کسی شخص کا عقیدہ تصرفات کا نہ ہو ، تو ایسا عقیدہ رکھنے والوں سے مشابہت ہے، اس لیے بھی اس قسم کے ناموں سے پرہیز چاہیے۔ اور حدیث مذکور میں جو نسبت ہے وہ صرف آپس میں امتیاز کے لیے ہے یعنی زید کا غلام ہے عمرو کا نہیں۔ اس میں عقیدت کا دخل نہیں، جس سے شرک کا شبہ پڑے، پس احتیاط اسی مین ہے کہ ان ناموں سے پرہیز کیا جائے رہا یہ امر کہ جن لوگوں کے اس قسم کے نام سندوں، سرٹیفکیٹوں، رجسٹریوں وغیرہ کاغذات میں درج ہو چکے ہیں۔ ان کا تبدیل کرنا چونکہ اختیار سے باہر ہے، اس لیے ان کاغذات میں وہ رہیں اور آپس میں گفتگو کے لیے تبدیل کر لینے بہتر ہیں۔ (حافظ عبد اللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ تنظیم اہل حدیث لاہور ۶ مارچ ۱۹۶۴ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 125

محدث فتویٰ

تبصرے