سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(09) حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہوسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں?

  • 3791
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5107

سوال

(09) حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہوسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں?

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

یہاں ہم بعض لوگوں سے سنتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہوسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں اورحضور ہی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنے نور سے پیدا کیا اور میرے نور سے آگے کل کائنات پیدا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور مجسم ہیں آپ نے فرمایا ہے۔ ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا کیا اور قرآن مجید میں ہے۔

﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ‎﴿١٥﴾‏ المائدة

یعنی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور بیان کرنے والی کتاب آئی ہے۔ یہاں نور سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ نور صرف بشر کی شکل بن کر ظہور پذیر ہوئے۔ وہابی دھوکہ کھاگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح معنوں میں دوسرے بشروں کی مثل بشر سمجھنے لگ گئے حالانکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بشربن کر آئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھی فرشتے انسانی شکل اختیار کر کے گئے تھے۔ وہ تھے نور لیکن بشربن کر آئے اور اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نور ہونے کے باوصف بشر کے لباس میں آگئے تو کون سا غیر ممکن کام ظاہر ہوگیا۔ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں۔

آپ اس سوال کا مفصل جواب قلم قلم بند کر کے یہاں بھیج دیں اور ان تمام دلائل کی حقیقت بیان کردیں کیونکہ بریلوی طلباء اس سوال کا تحریری طور پر دلل جواب چاہتے ہیں اس لئے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں:

(شوکت علی: ایئز رول نمبر۶۰ کمرہ نمبر۱۳ ہیلی ہوسٹلی ۔ زراعی کالج لائل پور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے نور میں سے نور سمجھنا گویا آنجناب کو اللہ تعالیٰ میں سمجھنا ہے اور اس کا ہم جنس قرار دینا ہے اور یہ نص قطعی (لم ید ولم یولد )(اس کے اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے) کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کال ذات وصفات میں ایک ہے ۔ اس نے صاف اور مبرہن الفاظ میں فرمادیاہے۔ ﴿لم یتخذ ولدا ولم یکن له شریك فی الملك﴾ یعنی نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے۔ (پارہ نمبر۱۵ سورہ نبی اسرائیل)

سورہ کہف پارہ نمبر۱۵کی شروع آیات میں اللہ تعالیٰ کیسے عجیب انداز میں فراتا ہے ﴿وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ‎﴿٤﴾‏مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ‎﴿٥﴾‏ الكهف

نزول قرآن کے مقاصد میں سے ایک مقصد عالی یہ بھی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے اس بات کا کوئی علم نہ ان کے پاس ہے اور نہ ان کے آباو واجداد کے پاس تھا بڑی بات ہے جوان کی زبان سے نکلتی ہے اور وہ لوگ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:

﴿مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا ‎﴿٣﴾ الجن

(جن) نہ اس کی بیوی ہے ، نہ اولاد۔

ایک جگہ دارد ہے۔ ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ‎﴿٩٠﴾‏ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ‎﴿٩١﴾ مريم

جولوگ رحمن کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں وہ ایسی ناپسندیدہ بات کہتے ہیں۔ کہ قریب ہے اس کے باعث آسمان پھٹ جائیں ۔زمین میں شگاف پڑ جائیں اور پہاڑ کپکپا کر گرجائیں۔

اسی طرح متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کی کمر توڑی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی اس کا ہم جنس اور شریک نہیں۔ ایسے حضرات کی سمجھ میں یہ موٹی سی بات بھی نہیں آتی کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نور میں سے تھے تو کیوں نہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں خدائی صفات آئیں۔ آپ کی ازواج مطہرات بھی تھیں اور بیٹے بیٹیاں بھی لیکن اللہ تعالیٰ ذات میں یہ صفات نہیں ہیں۔

۲۔ وہ لوگ جو یہ حدیث کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنے نور سے پیدا کیا اور میرے نور سے کل کائنات پیدا کی بیان فرمایا کرتے ہیں۔ وہ خدا جانے کیوں بینا لوگوں کو نابینا سمجھ رہے ہیں۔ یہ حدیث ہے ہی کہاں معاذ اللہ ایسی من گھڑت باتیں کرنا عام لوگوں سے تو شاہد ممکن ہوں لیکن جو شخص علم و دین سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہے اس کی شان کے شایان نہیں کہ ایسی وضعی باتوں کو ’’حدیث نبوی) کہے۔

اس موضوعہ بات کو اگر حدیث نبوی صلی اللہ علی وسلم مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نتیجہ ساری کائنات اللہ کے نور سے ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے نور سے اور باقی کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے، گویا اس بانٹا ے میں ہر مخلوق شی کے حصہ میں کچھ نہ کچھ اللہ کا نور آیا۔

اگر یہ صورت حال ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا خصوصیت ہوئی اور پر ہمہ اوست‘‘۔ والوں کو ائمہ دین کا برا سمجھنا بھی بے فائدہ ہوا۔ نیز کیا اللہ اپنے نور کے چند اجساء کو نار کے حوالہ کر دے گا۔

۳۔ اس موضوع بات کو چند منٹ کے لئے حدیث صحیح مان لینے سے یہ بات کہاں صحیح ثابت ہوتی ہے کہ رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے تھے؟ یہاں تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ کجا کسی چیز کا پیدا کرنا اور کجا کسی چیز کا خود اس پیدا کرنے والے سے ہونا کیا ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق نہیں؟

۴۔ ﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ‎﴿١٥﴾ المائدة

تحقیق آیا ہے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف ے نور اور بیان کرنے والی کتاب۔ سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ یہاں نور سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مجسم ہونا اللہ کے نور سے ہونا ہے۔

متقدمین و متاخرین اہل سنت مفسرین رحمہم اللہ میں سے اکثر کی یہ رائے ہے کہ۔ نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے اور کتاب مبین کو نور بھی کہا گیاہے۔ ان مفسرین رحمہم اللہ کی تائید میں قرآن مجید میں سے ہی دلائل واضح مل سکتے ہیں۔ جیسے سورہ حجر کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿تلكَ اٰیاتُ الکٍتَابِ وَقُرانٌ مُبین)

یہ آتیں کتاب کی اور قرآن بیان کرنے والی کی۔ یہاں قرآن کو دو نام دیئے گئے ہیں۔ کتاب، اور ’’قرآن‘‘

اس کے علاوہ قرآن مجید میں ہے۔

﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ‎﴿١٧٤﴾ النساء

لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل آچکی (مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں، وہ ذات مبارک ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف اور جگمگاتا نور بھیجا ہے۔

حافظ ابن کثیر ابن جریر نواب وحید الزمان مولانا اشرف علی وغیرہ تمام متقدمین و متاخرین مفسروں کا اتفاق ہے کہ نور سے مراد قرآن کریم ہے ۔ جس کی روشنی قیامت تک باقی رہے گی۔

ایک اور جگہ بالکل صاف الفاظ میں ارشاد ہوتا ہے۔

﴿فامِنُو ابِاللہِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الذی اَنْزَلْنا﴾(تغابن پارہ نمبر۲۸)

یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نور(یعنی قرآن) پر جس کو ہم نے اتارا ایمان لاؤ۔ (ترجمہ از مولانا وحیدالزمان)

﴿مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا...﴾ الشورى

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان کا انتہائی کمال کیا چیز ہے ہم نے اس قرآن کو نور بنایا جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں۔ (ترجمہ از مولانا اشرف علی) یہاں بھی قرآن مجید کو نور کہاگیا ہے کیونکہ اس سے روشنی اسلام پھیلی اور کفر و شرک کے اندھیرے دور ہوئے۔

بعض مفسرین رحمہم اللہ نے اگر (قد جاء کم من اللہ نور و کتاب مبین) میں نور سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس مراد لی ہے تو ان معنوں میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے باعث لوگ کفر و معصیت کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کی روشنی کی طرف آئے۔ اس پر ہمارا ہر شخص کا ایمان ہے۔

۵۔ رہی یہ بات کہ حضرت جبرئیل ؑ ، حضرت ام عیسٰے مریم علیہا السلام کے پاس بشر کی شکل میں آئے تھے۔ نیز چند فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بشر بن کر آئے۔ لہٰذا نور بشر بن کر ظہور کرسکتا ہے۔ یہ دلیل پیش فرمانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ۔ سورہ مریم میں جس جگہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے( بشرا سویا) بن کر حضرت مریمؑ کے پاس آنے کا ذکر ہے وہاں یہ بھی واضح فرمایا گیا ہے کہ جب حضرت مریمؑ نے ایک غیر محرم مرد کو اپنے نزدیک دیکھا تو فوراً فرمانا شروع کیا۔﴿قَالَت اِنِّی اَعُوذُبِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ کُنْتَ تَقِیَّا﴾ کہنے لگی میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتی ہوں۔ اگر تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے (حضرت علامہ وحیدالزمان فرماتے ہیں یعنی)اگر تو ایمان رکھتا ہے یا اگر تو پرہیز گار بھی ہے جب بھی اللہ واسطہ دیتی ہوں کہ میرے سامنے سے ہٹ جا۔

غور فرمایا آپ نے اس جگہ جبرائیلؑ کا جواب بھی سنتے جایئے(قال انما انا رسول ربک) وہ کہنے لگے میں تو تیرے مالک کا بھیجا ہوا ہوں یعنی فرشتہ ہوں، مجھے بشر کی شکل میں دیکھ کر گھبرائیے نہیں یہاں حضرت جبرئیل ؑ نے اپنا فرشتہ ظاہر ہونا فرما دیا۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں ایک بار فرمایا کہ میں حقیقت میں نور ہوں اور بشر کی شکل میں آیا ہوں۔؟ دوسرا ذکر سورہ ہود میں فرشتوں کا بشر بن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حضرت اسحاق کی بشارت دینے کے لیے جانے کا ہے۔ وہاں بھی واقعہ بیان فرمایاگیاہے۔

﴿فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ‎﴿٦٩﴾‏ فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ ‎﴿٧٠﴾یعنی کچھ دیر نہ ہوئی کہ ابراہیم ؑ ان کے کھانے کے لئے ایک بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے۔ جب ابراہیم ؑ نے دیکھا وہ اپنے ہاتھ بچھڑے کی طرف نہیں بڑھاتے تو برا مانایا اجنبی سمجھا اور دل ہی سے ڈرگئے۔ انہوں نے کہا مت ڈرو۔ ہم لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں(یعنی فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھاتے)

ملاخطہ فرمایئے ۔ فرشتے کھاتے نہیں ہیں۔ معلوم ہوا کہ اگر نوری مخلوق بشر کی شکل میں آجائے تو اس کی اصلی خاصیت نہیں بدلتی، صرف شکل بدلا کرتی ہے۔

ادھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو کفار بطور اعتراض ایک حقیقت بیان کیا کرتے تھے۔

﴿مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ﴾

یہ کیسا رسول ہے کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا ہے۔

اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور مجسم یا اللہ کے نور سے ہوتے تو پھر کھانا نہ کھاتے پانی نہ پیتے اور بازاروں میں چلتے۔

۶۔ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سمجھتے اور بشر کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک’’ الٹا چور کتوال کو ڈنٹے‘‘ والا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو خود فرماتا ہے۔ ﴿قُل اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُم یُوحٰی اِلَیَّ) اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں (فرق یہ ہے) کہ مجھ پر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) وحی آتی ہے۔

دوسری جگہ کفار کے چند مطالبات کا ذکر کر کے جو یہ ہیں کہ ہم تو کبھی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تیری بات ماننے والے نہیں جب تک توتمہارے لئے ایک چشمہ پانی کا زمین سے نہ بہائے۔ تیرا ایک باغ ہو کھجور اور انگور کا اور اس کے بیچ میں تو پانی سے بھرپور نہریں بہادے یا ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دے یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے آمنے سامنے لاکھڑا کریا تیرا سونے کا گھر ہو یا تو آسمان پر چڑھ جائے۔

ان سب مطالبات کا ایک ہی جواب سکھایاگیا۔

﴿قُل سُبْحَانَ رَبِّی ھَلْ کُنْتَ اَِّلا بَشَرًا رَّسُولًا)

یعنی اے پیغمبر! ان لوگوں کے جواب میں کہہ دے۔ سبحان اللہ میں صرف ایک بندہ (بشر) ہوں اللہ کا پیغام پہنچانے والا ۔ (پارہ نمبر۱۵ بنی اسرائیل)

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو واضح فرمایاگیاہے کہ بشروں کی طرف بشر کا رسول بن کر آنا ہی درست ہے۔ اگر زمین پر فرشتے آباد ہوتے تو ہم کسی فرشتہ کو آسماں سے رسول بنا کر آتار دیتے۔ نیز سب انبیاء علیہم السلام بشر اور ابنائے آدم علیہ السلام تھے۔ مولنا سید اسمعیل مشہدی گھر بالوی، ص ۹ اول الاعتصام جلد نمبر۹ شمارہ نمبر۵

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 52-57

محدث فتویٰ

تبصرے