سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) کیا حدیث مبارکہ دین اللہ احق ان یقضی کے مطابق اللہ کا قرض..الخ

  • 3782
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1884

سوال

(89) کیا حدیث مبارکہ دین اللہ احق ان یقضی کے مطابق اللہ کا قرض..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا حدیث مبارکہ دین اللہ احق ان یقضی کے مطابق اللہ کا قرض بندے کے قرض پر مقدم ہے یا نہیں (یعنی میت پر قرض واجب الاداء ہے اور فریضہ حج کی ادائیگی بھی باقی ہے، اب پہلے حج کیا جائے یا قرض بذمہ میت ادا کیا جائے)

۲۔ نیز کیا میت کے رشتہ داروں کے علاوہ کوئی آدمی میت کی طرف سے اجرت پر یا بلا اجرت حج کر سکتا ہے یا نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب:… ۱۔ مذکورۃ الصدر حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا حصہ ہے جو صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں بایں الفاظ مروی ہے: ان امراة من جهینة جاءت الی النبی صلی اللہ علیه وسلم فقالت ان امی نذرت ان تحج فلم تحج حتی ماتت افا حج عنہا قال نعم حجی عنہا ارایت لو کان علی امك دین اکنت قاضیة اقضوا فاللہ احق بالوفا، اہـ یہ حدیث ابن عباسؓ سے متعدد طرق سے مروی ہے، بعض طرق میں تو ’’ان امراۃ من جہینہ‘‘ کے الفاظ ہیں جیسا کہ اوپر گزر ا اور بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں: ان امراة من خثعم قالت یا رسول اللہ ان ابی ادرکته فریضة اللہ من الحج شیخا کبیرا لا یستطیع ان یستوی علی ظہرہ بعیرہ قالؐ فحجی عنہ، یہ حدیث صحیحین وغیرہما میں ہے اور خثعمیہ عورت سے اس قصہ کو احمد اور ترمذی نے حضرت علیؓ کی روایت سے ذکر کیا ہے، ترمذی نے اس کی تصحیح بھی کی ہے۔ نیز احمد اور نسائی نے بسند صالح عبداللہ بن زبیر کی روایت سے ذکر کیا ہے، اور عبداللہ بن زبیر کی ایک روایت میں یہ لفظ ہے ’’فقال ان اختی نذرت ان تحج‘‘ اور امام نسائی، شافعی، ابن ماجہ اور دارقطنی رحمہم اللہ نے جو ابن عباسؓ کی حدیث روایت کی ہے، اس کے الفاظ اس طرح ہیں: قال اتی النبی صلی اللہ علیه وسلم رجل فقال ان ابی مات وعلیه حجة الاسلام افاحج عنہ قال ارایت لو کان ابووك ترك دینا علیه اقضیة عند قال نعم قال فاحج عن ابیك۔ یہ احادیث اور اس معنی پر دال دیگر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریبی اپنے قریبی رشتہ دار کی طرف سے اگر چاہے تو حج کر سکتا ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔

۲۔ اجنبی کا اجنبی کی طرف سے حج کرنا۔ اس پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل نظر سے نہیں گزری۔ بلکہ ابن عباسؓ کی روایت صراحۃً اس پر دلالت کرتی ہے کہ قرابت باہمی سے حج کرنے کا فائدہ ہے، روایت کے الفاظ یہ ہیں:

((ان النبیؐ سمع رجلا یقول لبیك عن شبرمة قال من شبرمة قال اخ لی او قریب لی قال حججت عن نفسك قال لا قال حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة اخرجه ابوداود ابن ماجة وابن حبان وصححه والبیہقی وقال اسنادہ صحیح ولفظ ابن ماجة فاجعل هذہ عن نفسك ثم احجج عن شبرمة ولفظ الدارقطنی قال هذہ عنك وحج عن شبرمة))

یعنی ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنی بجائے شبرمہ کی طرف سے تلبیہ پڑھتے سنا تو فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے عرض کی میرا بھائی یا رشتہ دار ہے، آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا پہلے اپنی طرف سے حج کر اور پھر شبرمہ کی طرف سے۔‘‘

والحدیث معل بعلة الوقف وذالیس بعلة قادحة لان الزیادة بالرفع متعین بالقبول علی ماذهب الیه اهل الاصول وبعض اهل الحدیث قال شیخنا وبرکتنا الشوکانیؒ وهو الحق اذا جاءت الزیادة من طریق ثقة وهی هنا کذالك فان الذی رفع الحدیث عبد بن سلیمان وهو ثقة من رجال الصحیح وقد تابعه علی ذلك محمد بن بسر ومحمد بن عبیداللہ الانصاری وقد اختلف ائمة الحدیث علی ترجیح الرفع علی الوقف او العکس فرحج الاول عبدالحق وابن القطان ورجح الثانی الطحاوی والحق ما عرفت قد قیل ان اسم الملبی نبیشة وقیل هو اسم الملبی عنه)) ۱ھـ

اجنبی کی جانب سے اجنبی کے حج کے صحیح ہونے کے قائلین کا استدلال اسی ابن عباسؓ کی مذکورۃ الصدر حدیث سے ہے، حالانکہ اس میں صراحۃً مزکور ہے کہ وہ اس کا بھائی تھا پس اس حدیث سے اجنبی کی طرف سے حج پر استدلال درست نہیں ہے اور سعید بن منصور وغیرہ ابن عمرؓ سے بسند صحیح روایت کرتے ہیں۔ انہ لا یحج احد عن احد کہ کوئی کسی کی طرف سے حج نہ کرے اور ایسی ہی روایت مالک اور لیث سے بھی ہے، نیز مالک سے یہ بھی مروی ہے انہ ان اوصی بذالک فلیحج عنہ والافلا یعنی اگر میت نے وصیت کی ہو تو حج کرے، ورنہ نہ کرے اور حدیث ندین اللہ احق بالوفاء فی روایۃ احق بالقضاء اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کا ہر وہ حق جس کی قضاء کی مشروعیت ثابت ہو چکی ہے، وہ آدمیوں کے حق پر مقدم ہے چونکہ احق افعل التفصیل کا صیغہ ہے جس کا مدلول یہی ہوتا ہے اور مفصل علیہ یہاں مقدر ہے اصل عبارت اس طرح ہوگی۔ فدین اللہ احق بان یقضی من کل دین چونکہ یہ مسئلہ علم معانی میں ثابت شدہ ہے کہ متعلق کا حذف عموم پر دلالت کرتا ہے، مقامات خطابیہ میں اگر فرض کریں کہ اس کا مخصص حدیث کے پہلے ٹکڑے میں ہے اریت لو کان علی ابیک دین لہٰذا یہ عام نہیں رہا تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں عموم نہیں ہے، بلکہ یہ اس آدمی کے قرض کے ساتھ خاص ہے، پس اس صورت میں مقدر عبارت یہ ہوگی فدین اللہ احق بالوفاء من دین الآدمی اور یہ بھی ہمارے مطلوب پر دلالت کرتا ہے، ہم نے مشروعیت قضاء کے ثبوت کی قید اس لیے لگائی ہے کہ بعض حقوق اللہ بندوں پر ایسے بھی واجب ہیں، جن کی قضاء کی مشروعیت اس صورت میں کہ جس پر وہ حق واجب ہے، عاجز آگیا یا مر گیا ثابت نہیں ہے اور بعض حقوق ایسے ہیں کہ جن کی قضاء ایک خاص صفت کے ساتھ عاجز ہونے اور وفات پانے کے بعد بھی ثابت ہے، جیسے کہ حج ہے کہ اس کی قضاء قریب کی طرف سے ثابت ہے اجنبی کی طرف سے نہیں ثابت، ایسے ہی روزے کے بارے میں آیا ہے، ان من مات وعلیہ صوم صام عنہ ولیہ یعنی جو شخص اپنے ذمہ روزے چھوڑ کر مر گیا، اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو غیر ولی کے روزے رکھنے پر دلالت کرے، سو ان دلائل کے پیش نظر اگر قریبی کسی کی طرف سے حج کرے تو وہ میت کی طرف سے ادا ہوگا اور دیگر قرضوں پر اس کو روایت حاصل ہوگی اور کسی اجنبی کی طرف سے ادائیگی کا جبکہ ثبوت ہی نہیں ہے تو پھر دیگر قرضہ پر اولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے خیال میں تو کسی اجنبی کی طرف سے اجرت پر یا بغیر اجرت میت کے لیے حج کرنا ممنوع اور ناجائز ہے واجب القضاء حقوق کو تو کجا پہنچے گا، اس کو حدیث فدین اللہ احق بالقضاء میں داخل کرنا ٹھیک نہیں، جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ یہ حج میت کی طرف سے جائز بھی ہے، نیز یہ کہ یہ حج بھی اللہ کے واجب الاداء حقوق میں سے ایک حق ہے۔ وہا ببرهان صحیح لا بمجرد القیاسات التی لا تقوم بہا الحجة والمناسبات التی لیست من الادلة فی ورد ولا صدر فمن جاء بالحجة المقبولة فبہا ونعمت ومن لم یات بذالك فلا یتعب نفسه ویتعب عباد اللہ بما لم یشرعہ اللہ ولا اوجبه۔

انتہی مترجما من الفارسیة الی الاردیة من ’’دلیل الطالب علی ارجح المطالب‘‘  للعلامة النواب الیسد ابی الطیب صدیق بن حسن القنوجی البخاری البوفا لی  ۱۳۰۷هجری ورحمہ اللہ تعالیٰ

(مترجم فقیر الی اللہ عبدالرشید بن عبدالعزیز سلفی عفی اللہ عنہما مدرس جامعہ سعیدیہ خانیوال)

فتاویٰ علماء حدیث کی اہمیت

مولانا عارف حصاری کی نظر میں

مولانا سعیدی صاحب نے علماء کرام اہل حدیث کے فتوؤں کی اشاعت شروع کر رکھی ہے۔ ماشاء اللہ یہ کام بہت مفید اور بے حد مستحسن ہے اور نافع عام وخاص ہے، اس اہم اور عظیم الشان کام کے سرانجام دینے، جانی ومالی ایثار اور محنت کرنے کی وجہ سے مبارک باد کے مستحق ہیں وہ عظیم المرتبہ کام کر رہے ہیں جو کسی ادارہ اور مرکز نے نہیں کیا، اگر انہوں نے اسی طرح تمام مسائل شرعیہ کے فتوؤں کی اشاعت کا کام مسلسل جاری رکھا تو شاہی فتاویٰ عالمگیری کی سرحد کو پہنچ جائے گا۔ اور اگر حکومت اسلامی قائم ہوگئی اور نظام شریعت نافذ ہوا اور انہوں نے بھی سرعت سے محنت شاقہ سے کام لے کر عبادات کی منازل طے کر کے معاملات کی منزلوں سے گزرتے ہوئے مقدمات اور عدالتوں کے فیصلوں کے مسائل اور فتویٰ کتاب الدعویٰ اور کتاب الشہادت وغیرہ کے نام سے کئی جلدیں تیار کرنی پڑیں گی، اگر وہ اکیلے یہ کام اختتام تک پہنچائیں تو بہت دشوار اور مشکل ہے، انہیں معلوم ہے عالمگیر بادشاہ کے خصوصی انتظام اور پانچ سو علماء حنفیہ نے مل کر یہ کام سر انجام دیا تھا تو ان کے تعاون کے لیے بھی پانچ سو یا دو سو یا ایک سو نہ سہی دس علماء کرام تو متعین ہونے چاہیے اور مخیر حضرات کو بھی خصوصی تعاون کرنا چاہیے، یہ کام آئین سلام کو کتاب وسنت کی رو سے نافذ کرنے میں اہل حدیث علماء کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ دور حاضر میں پیش آمدہ مسائل کے بارہ میں فتوؤں کو جلد ترتیب دیں۔ (مولانا) عبدالقادر عارف حصاری (اخبار الاسلام جلد ۴ شمارہ ۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 108

محدث فتویٰ

تبصرے