سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) حج کی وصیت

  • 3774
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1509

سوال

(81) حج کی وصیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

میرا بھائی فوت ہونے لگا، اس نے تین سو روپیہ مجھے دیا کہ میری طرف سے تم نے حج کرنا، وہ روپیہ میں نے اپنے پاس رکھ لیا، کہ وقت پر جا کر حج کراؤں گا، اسی اثنا میں ایک شخص دوہزار روپیہ مجھ سے ٹھگ کر لے گیا، بھائی کا یا ہوا روپیہ بھی اس میں شامل تھا، اب میرے پاس سوائے سات ایکڑ زمین کے اور کوئی جائیداد نہیں ہے، اس میں سرکاری معاملہ واخراجات خانہ داری میرے ذمہ ہے، اب عرض یہ ہے کہ اگر کسی حاجی کو کچھ روپیہ دے دئیے جائیں کہ وہ میرے بھائی کی طرف سے حج کر آئے کہ وہ وہاں جا کر میرے بھائی کا حج کرا دیں تو اس طرح ادا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ باقی روپیہ میرے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا، یا میں خود جا کر اپنے بھائی کا حج کروں، مالی حالت تو آپ کو معلوم ہوگئی بدنی حالت یہ ہے کہ عمر رسیدہ ہوں، چلنے کی طاقت نہیں ہے، بلکہ جہاز کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا؟ (مولوی عبدالحق چک ۲۳ بہاولپور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کی صورت میں اگر بھائی نے حج کے علاوہ بطور قرض روپیہ برتنے کی اجازت دی تھی تو پھر یہ قرض ہوگیا اور قرض دینا پڑتا ہے خواہ اپنے گھر کی اشیاء فروخت کر کے دے کیونکہ وہ ذمہ ہے اگر بھائی کی اجازت کے بغیر برت لیا ہے تو یہ غضب ہے اور غضب کی صورت میں بھی شئے دینی پڑتی ہے، غرض ٹھگ کے ہاتھ روپیہ بھی گیا، جب برتنے کا قصد ہوا، ورنہ ٹھگ کے ہاتھ میں نہ جاتا۔ بس یہ روپیہ ہر صورت میں بھرنا پڑے گا، کیونکہ یہ ایک قسم کی امانت ہے، اور امانت کے ادا کرنے کی تاکید ہے، جیسے آیت کریمہ  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ میں تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے، غرض اس بوجھ سے حتی الوسع بہت جلد سبکدوش ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، رہا حج کا مسئلہ سو وہ معلوم ہے، جب انسان کے ذمہ حج فرض ہو جاتا ہے، تو اس کو حکم ہے کہ خود کرے اگر خود نہیں کر سکتا تو اس کی طرف سے دوسرا کر لے۔ مشکوٰۃ کتاب المناسک ۱؎  میں حدیث ہے کہ ایک عورت نے کہا اے اللہ کے رسول میرے باپ کو فریضہ حج نے بڑھاپے کی حالت میں پایا ہے کیا میں اس کی طرف سے حج کروں، فرمایا: ہاں۔ ایک اور حدیث  ۲؎  میں ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہا میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی، وہ مر گئی فرمایا اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو ادا کرتا، کہا ہاں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کا قرض اس کے زیادہ لائق ہے۔

۱؎  اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ان امراة من خثعم قالت یا رسول اللہ ان فریضة اللہ علی العباد فی الحج ادرکت ابی شیخا لا یثبت علی الراحلة افاحج عنه قال نعم وذالك فی حجة الوداع)) متفق علیہ (مرتب)

۲؎  اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

قال اتی رجل النبی صلی اللہ علیه وسلم فقال ان اختی نذرت ان تحج وانہا ماتت فقال النبیؐ لو کان علیہا دین اکنت قاضیه قال نعم قال فاقض دین اللہ فہوا حق بالقضاء))  (متفق علیه مشکوٰة ص۲۲۱)

مرنے والے بھائی کی طرف سے حج فرض ہوگیا۔ اگر زندہ بھائی ایسا کمزور ہے کہ اگر اسے اپنا حج کرنا پڑتا تو اس کی بھی طاقت نہ رکھتا تو اس صورت میں کسی دوسرے کو روپیہ دے دے تاکہ وہ حج کر آئے مگر وہ شخص ایسا ہونا چاہیے جس نے پہلے اپنا حج کیا ہو۔ کیونکہ دوسرے کی طرف سے وہ ہی حج کر سکتا ہے، جو اپنے فرض سے فارغ ہو چکا ہو۔

آج کل تین سو روپیہ میں حج تو ہو جاتا ہے لیکن ذرا تکلیف ہوتی ہے اگر کوئی باعتبار آدمی جو پہلے حج کر چکا ہو تین سو روپیہ میں حج کو جانا منظور نہ کرے تو پھر یہ روپیہ جہاد میں صرف کیے جائیں، کیونکہ حج کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فرمایا ہے، جیسے مشکوٰۃ کتاب المناسک  ۱؎  میں ہے کہ عورتوں پر جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں حج اور عمرہ۔ اس لیے کوئی شئے جہاد میں وقف کی جائے، تو وہ حج میں صرف ہو سکتی ہے، جیسے ابوداؤد میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا، ایک عورت نے اپنے خاوند کو کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرائے۔ خاوند نے کہا کہ میرے پاس سواری نہیں جس پر تجھے سواری کراؤں، عورت نے کہا اپنے فلاں اونٹ پر حج کرا۔ خاوند نے جواب دیا کہ وہ فی سبیل اللہ وجہاد میں وقف ہے، پھر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے فارغ ہونے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ قصہ سنایا، آپ نے فرمایا اگر تو اس اونٹ پر حج کراتا تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہوتا، سو اب عورت رمضان میں عمرہ کرے یہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

۱؎  اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشة قالت قلت یا رسول اللہ علی النساء جہاد قال نعم علیہن جہاد لا قتال فیه الحج والعمرة رواہ ابن ماجة مشکوة ص ۲۲۲) مرتب

اس سے معلوم ہوا کہ حج اور جہاد کو آپس میں بڑی مناسبت ہے، پس حج کا روپیہ جہاد میں صرف ہو سکتا ہے، اگر جہاد کا بھی موقع نہ ہو تو پھر کسی درس میں دئیے جائیں کیونکہ درس وتدریس کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بمنزلہ جہاد کے فرمایا ہے، جیسے مشکوٰۃ باب المساجد ۱؎  میں حدیث ہے کہ جو میری اس مسجد میں صرف خیر سیکھنے سکھانے کے لیے آئے، وہ بمنزلہ مجاہد فی سبیل اللہ کے ہے۔ درس کے بعد زیادہ عبادت کرنے والے بھی اس روپیہ کا مصرف ہو سکتے ہیں، جو رات کو قیام کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہد کو ان کے مثل بتایا ہے چنانچہ مشکوٰۃ کتاب الجہاد  ۲؎  میں ہے: المجاهد من جاهد نفسه فی طاعة اللہ المہاجر من هجر الخطایا والذنوب مشکوة کتاب الایمان۔ یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو خطا اور گناہ ترک کر دے۔ (عبدالہ امرتسری از روپڑ ضلع انبالہ، ۸ جمادی الاول ۱۳۵۱ہجری، ۱۰ ستمبر ۱۹۳۲ئ، فتاویٰ اہلحدیث جلد ۲ ص ۵۸۸)

۱؎  یہ حدیث مشکوٰۃ ص ۷۱ میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔ (مرتب)

۲؎  یہ حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مشکوٰۃ کتاب الایمان ص ۱۵ میں مروی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 92-94

محدث فتویٰ

تبصرے