سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) فلم خانہ خدا شرعی مصالح کی روشنی میں

  • 3771
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1504

سوال

(78) فلم خانہ خدا شرعی مصالح کی روشنی میں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس بارہ میں کہ آج کل ملک کے مختلف شہروں میں ایک فلم بنام خانہ خدا سینما گھروں کے اندر دکھائی جا رہی ہے جس میں شعائر و ارکان حج طواف وزیارت سعی اور رمی کو دکھایا گیا ہے، حج میں عورتوں کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں، کیا یہ فلم دیکھنا جائز ہے، بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ فلم محص پرچھائیں ہے، لہٰذا فوٹو کی حرمت کا حکم اس پر لاگو نہ ہوگا، کیا یہ صحیح ہے؟ اسی طرح بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اس فلم کا فائدہ یہ ہے کہ حجاج کو ارکان حج ادا کرتے ہوئے دیکھ کر ضروریات و ارکانِ حج کا علم حاصل ہوتا ہے، تو کیا اس فائدہ کی وجہ سے اس فلم کا دیکھنا جائز ہوگا۔ جواز وعدم جواز کے حکم مدلل تحریر فرما کر ممنون فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعونہ سبحانہ و تعالیٰ، فلم کو محض پرچھائیں کہہ کر فوٹوں کی حرمت سے اس کو بچانے کی کوشش مسعود باصرار نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ فلم کی ریل یعنی نیگیٹو ہی اصل فوٹو ہے، پازیٹو تو اس اصل کی پرنٹ شدہ کاپی ہوتی ہے البتہ پردہ پر جو تصویر آتی ہے، وہ ثابت اور مستمر نہ ہونے کی وجہ سے اس کو اصل فوٹو کا عکس کہا جا سکتا ہے مگر اس کا حکم وہی ہوگا جو اصل فوٹو کا ہے، چونکہ یہ عکس نیگیٹو ہی کا ثمرہ اور فرخ ہے لہٰذا فوٹو کا ہی حکم اس پر متفرع ہوگا، جیسے اجنبی عورت کو قصداً بلا وجہ شرعی دیکھنا حرام ہے تو آئینہ کے اندر اس کا عکس دیکھنا بھی حرام ہے۔

فلم خانہ خدا کے سینما گھروں کے اندر دکھانے میں جتنا غور کیا جائے اتنی ہی خرابیاں واضح ہوتی ہیں‘ اس کے ناجائز ہونے کے مختلف پہلو ہیں، بیت اللہ کی عمارت کے نطارہ سے جو کیفیت اور احساس عظمت وتقدیس نمایاں ہوتا ہے اوراس میں جو جذب وکشش ہے، وہ اسی مخصوص جگہ کا خاصہ ہے نہ کہ عمارت کی اینٹ و پتھر کی ذات کا وہاں کے اینٹ و پتھر باعظمت ہیں، تو یہ بھی اسی مقدس مقام کی تقدیس کا ثمرہ ہے، لہٰذا اس نظارہ کو اگر اس جگہ سے منفک کیا جائے تو اس کے اندر وہ حقیقت کہاں ہوگی، جب کہ اس حقیقت وکیفیت کا یہ خاصہ ہے کہ جس قدر اس کی زیارت کا شرف حاصل ہو، اسی قدر شوق دیدار میں اضافہ ہوتا ہے اور جہاں وہ حققت نہ ہو، وہاں یہ خاصہ بھی نہیں ہوتا۔ پھر ایک مومنانہ قلب ونظر اس بات کو کیسے گوارہ کرے، جن فریموں اور چوکھٹوں پر کل تک عریاں اور شرمناک تصویریں لگ چکی ہیں اور کل کو پھر لگیں گی۔ وہاں آج مقدس بیت الہ کا فوٹو برائے نظارہ چسپاں ہے دور بین نگاہیں تو اس بات کا بھی پتہ دے رہی ہیں کہ جن لوگوں نے اب تک سینما کی طرف رخ بھی نہیں کیا تھا، وہ فلم خانہ خدا کو دیکھنے کے لیے عظمت و تدین کے احساس کے ساتھ سینما گھر جا رہے ہیں اور شیطان کھڑا ہنس رہا ہے اور اپنی کارکردگی پر خوش ہو کر اطمینان کا سانس لے رہا ہے کیونکہ پھر کل کو اسلامی تاریخ سے متعلق کوئی فم چلے گی تو اس کو دیکھنے کے لیے جانا ہوگا اور پرسوں سے ہر قسم کی فم دیکھنے کے لیے راستہ ہموار ہوگا، یہی مقصد ہے، شیطان کا جو انسان کا ازلی دشمن ہے ان الشیطان للانسان عدومبین۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سینما گھروں میں اس فلم کا دیکھنا نہ عبادت ہے اور نہ شرعاً مطلوب اور نہ طبعی ضرورت کا تقاضا۔ تو پھر لہو ولعب ہی ہوا اور دین شعائر دین کو لہو ولعب بنانے والوں کا معتوب ومغضوب ہونا قرآن کریم میں مصرح ہے، پھر دینی شرائع وعبادت خداوندی کے ساتھ لہوولعب کا معاملہ کرنا اس کا استہزاء جس کی ممانعت بھی کتاب اللہ میں مصرح ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا﴾ اور  ﴿وَلَا تَتَّخِذُوْا اٰیَاِتْی هُزُوًا الْقُرْاٰن﴾ اور اگر بالفرض اس نوعیت کو لہو ولعب نہ قرار دئیے ہوئے اس کا کوئی فائدہ بھی تلاش کر لیا جائے، جیسے تعلیم تب بھی ان مفاسد کی بنا پر ناجائز ہے کہ عبادت کے لیے اس چیز کو ذریعہ بنایا گیا جو کہ آلہ لہو ولعب اور محرمات کی تشہیر کا معروف ومروج ذریعہ ہے۔ یعنی فلم اس لیے اس نسبت سے بھی یہ طریقہ قطعاً مذموم ہے کیونکہ فقہاء کرام باجے اور بانسری پر قران کریم کی تلاوت یا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعت پڑھنے کو کفر فرما رہے ہیں کیونکہ تلاوت قرآن اور نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرام چیز بانسری اور باجے کے ساتھ وابستہ ومتعلق کر دیا ہے جس میں یقینا قرآن حکیم اور نعت رسول کی بے حرمتی ہے۔ شرح فقہ اکبر ص ۲۰۵ میں ہے: وفی الخلاصة من قرا القران علی ضرب الدف والقضیب یکفر قلت ویقرب منه ضرب الدف القضیب مع ذکر اللہ تعالی ونعت المصطفی صلی اللہ علیه وسلم وکذا علی الذکر، پھر ظاہر ہے کہ بذریعہ فلم معمولات حج کا دکھانا اصل حج تو نہیں ہے، لہٰزا نقل کیا جا سکے گا اور اس کا حکم اس جزئیہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وقوف عرفات کی نقل اتارنے کو فقہاء مکروہ لکھ رہے ہیں: والتعریف وهو التشبیه بالوفقین بعرفات لیس بشئی معتبر فلا یستحب بل یکرہ فی الصحیح مراقی الفلاح علی ہامش الطحطاوی ص ۲۹۴، جب عرفات کی محض نقل مکروہ ہے اور فلم خانہ خدا کو نقل کہا جائے، تب بھی مذکورہ مفاسد کی وجہ سے مکروہ ہی نہیں بلکہ ناجائز ہوگی۔ (تنظیم اہلحدیث جلد۲۱ ش ۱۷ بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند مئی ۱۹۶۸ء)

توضیح:

ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو ڈھایا تھا کہ اللہ کا گھر بت خانہ نہ بنے مگر یار لوگوں کی سستم ظریفی دیکھئے کہ اب انہوں نے پورے خانہ خدا کو بت خانہ، سینما گھر میں لا بسایا ہے، دراصل یہ لوگ خدا کا نام لے کر خانہ خدا کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، ہمیں یقین ہے اگر چندے یہی حال رہا تو ہو سکتا ہے کہ یہ مسخرے کل قوم سے یہ بھی مطالبہ کر ڈالیں کہ مسجد میں اگر فلم دکھائی جائے تو آخر کیا حرج ہے، جب خانہ خدا سینما گھروں میں آسکتا ہے تو سینما گھر خانہ خدا میں کیوں نہیں جا سکتا۔ بہرحال یہ بہت بری ریت چل پڑی ہے، ابھی سے اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو پھر بڑی مشکل بن جائے گی۔ (سعیدی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 91

محدث فتویٰ

تبصرے