سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) حجر اسود کا بوسہ

  • 3725
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1837

سوال

(32) حجر اسود کا بوسہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

حجر اسود کا بوسہ بعض حنفی شرک وناجائز کہتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو پیر کے مزار پر جانے کے لیے منع کیا جاتا ہے۔

حضور نے کس خیال سے بوسہ دیا تھا اور امت کس خیال سے دیتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حجر اسود ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بوسہ دیا، مگر نفع ونقصان کے خیال سے نہیں۔ حضرت عمرؓ نے بوسہ دیتے وقت صاف الفاظ میں کہا تھا اِنَّكَ حَجْرٌ لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ ’’تو ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔‘‘ بزرگوں کے مزار کو بوسہ دینا شریعت میں ثابت نہیں، علاوہ اس کے بوسہ دینے والے نفع ونقصان کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ شرک ہے۔ (فتاویٰ ثنایہ جلد اول ص ۵۱۲)

توضیح:

حجر اسود ایک تاریخی پتھر ہے جس کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مبارک اجسام سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ پتھر کعبہ مقدس کے ایک کونہ میں نصب ہے، اسی جگہ سے طواف شروع کیا جاتا ہے اور یہاں پر ہی آکر ایک چکر پورا ہوتا ہے، اس موقع پر اس کو چوما یا ہاتھ لگایا جاتا ہے تاکہ طوافوں کے گننے میں آسانی ہو اور تاریخی پتھر کی عظمت کا احترام بھی ہو سکے عہد ابراہیمی میں عہد وپیمان عام لینے کے لیے ایک پتھر رکھ دیا جاتا تھا، جس پر لوگ آ آ کر ہاتھ رکھتے۔ اس کے یہ معنے ہوئے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر رکھا گیا ہے، اس کو امتوں نے تسلیم کر لیا۔ اسی دستور کے مطابق حضرت خلیل نے اپنی مقتدی قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا۔ جو کوئی اس گھر میں جس کی بنیاد خدائے واحد کی عبادت کے لیے رکھی گئی ہے، داخل ہو اس پتھر پر ہاتھ رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحید کا عہد مضبوط کر لیا وہ موحد ہو کر رہے گا، اگر جان بھی دینی پڑے اس سے منحرف نہ ہوگا۔ (الی آخرہ از حضرت مولانا عبدالسلام محدث بستوی صدر مدرس ریاض العلوم دہلی)

یہ ایک پتھر ہے اور یادگاری پتھر خود اس میں نہ طاقت ہے اور نہ معجزہ مگر ایک مشتاق زیارت اس تخیل کے ساتھ کہ مکہ کا ہر ذرہ بدل گیا، کعبہ کی ایک ایک اینٹ بدل گئی مگر یہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کے مقدس لب یا مبارک ہاتھ یقینا لگ چکے ہیں اور آج ہمارے ناپاک لب اور ہاتھ بھی اس کو مس کر رہے ہیں، یہ وہ تخیل ہے، جس سے ہر طواف کرنے والے کی روح مضطرب ہو جاتی ہے، سینہ جذبات سے سرشار ہو جاتا ہے، یہ بوسہ تعظیم کا بوسہ نہیں ہے، بلکہ اس محبت کا نتیجہ ہے، جو اس یادگار کے ساتھ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی روحانی اولاد کو ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بوسہ نہ دے یا اشارہ نہ کرے تو حج میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ (از حضرت مولانا نور الدین بہاری، اہلحدیث سوہدرہ ۲۴ ستمبر ۱۹۵۰ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 54

محدث فتویٰ

تبصرے