السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مال عشر یا زکوٰۃ مسکین شخص کو سفر حج کے لیے دنیا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور اہل علم کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ (حررہ عبدالجبار بن عبداللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما) (فتاوی غزنویہ ص ۱۲۳)
قرآن مجید میں عشر، زکوٰۃ کے آٹھ مصرف بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک مسکین اور ایک فی سبیل اللہ ہے اور فی سبیل اللہ عام ہر کار خیر کو شامل ہے، حضرت امام بخاری میں الزکوٰۃ فی الحج یعنی زکوٰۃ کے روپیہ سے حج کرا دینا اور ابوداؤد شریف میں ہے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے اونٹ سے ایک صحابی کرایا تھا۔ اور صحیح بخاری میں ہے: ویذکر عن ابن عباسؓ یعتق من زکوۃ مالہ ویعطی فی الحج، حضرت ابن عباس مال زکوٰۃ سے غلام بھی آزاد کرتے اور مال زکوٰۃ حج میں دیتے وقال الحسن ویعطی فی المجاهدین والذی لم یحج ویذکر عن ابی العاص حملنا النبی صلی اللہ علیه وسلم علی ابل الصدقة للحج انتہی، اور فتح الباری میں ہے: وعن احمد واسحٰق الحج من سبیل اللہ اخرجہ ابو عبید باسناد صحیح انتہی ما فی روضۃ الندیہ، حاصل یہ کہ حدیث ابی العاص اور قول عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، امام حسن بصری، امام احمد اور امام اسحاق کے نزدیک حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے، امام بخاری بھی جواز کی طرف مائل ہیں۔ کیونکہ اس کے معارض کوئی اثر نہیں لائے۔ اور حج پر اطلاق جہاد صحیح ہے، چنانچہ امام بخاری کتاب الحج میں لائے ہیں: وقال عمر شدوا الرحال فی الحج فانه احد الجہادین، وعن عائشة ام المومنین انہا قالت یا رسول اللہ تری الجہاد افضل العمل افلا نجاهد قال لا لکن افضل الجہاد حج مبرور، امام ابو یوسفؒ کا بھی فتویٰ کتب فقہ میں مرقوم ہے کہ مال زکوٰۃ سے حج کرا دیا جائے۔ تو اس صورت مذکورہ میں شخص مذکور کو مال زکوٰۃ سے حج کرا دیا جائے تو اس سے حج ہو سکتا ہے۔ یہی تحقیق شیخ الحدیث مولانا محمد یونس دہلوی کی اہلحدیث گزٹ جلد نمبر ۸ شمارہ نمبر۱۵ میں ہے اور مولانا نیک محمد شیخ الحدیث مدرسہ غزنویہ امرتسری نے بھی اخبار الاعتصام جلد نمبر۳ شمارہ ۶ میں بسط سے لکھا ہے اور نواب صدیق حسن خان والی بھوپال کا میلان بھی روضۃ الندیہ میں یہی معلوم ہوتا ہے۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب، الراقم علی محمد سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال ۱۳۹۶ہجری
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب