سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) کسی رئیس یا والی ملک کے ساتھ جا کر رئیس کے روپیہ سے حج ادا کرے تو..الخ

  • 3711
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1213

سوال

(18) کسی رئیس یا والی ملک کے ساتھ جا کر رئیس کے روپیہ سے حج ادا کرے تو..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص جس پر حج فرض ہے کسی رئیس یا والی ملک کے ساتھ جا کر رئیس کے روپیہ سے حج ادا کرے تو اس کا حج ادا ہو جائے گا یعنی فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وجوب حج سے فارغ الذمہ ہو جائے گا یعنی فرضیت حج کی اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی اس کے اوپر یہ آیت دلالت کرتی ہے:۱؎

۱؎  اللہ کا حق ہے لوگوں کے ذمہ کہ جو لوگ راہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ بیت اللہ کا حج کریں۔

﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾

اس کی تفسیر میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:  ۱؎

۱؎  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہ کی طاقت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس کا مطلب ہے سواری خرچ۔

((عن انسؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم سئل عن قول اللہ عزوجل من استطاع الیہ سبیلا قال الزاد والراحلة رواہ الحاکم ثم قال صحیح علی شرط البخاری ومسلم ولم یخرجاہ ورواہ ابن جریر عن یونس عن الحسن قال قرأ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیه سبیلا فقالوا یا رسول اللہ ما السبیل قال الزاد والراحلة ورواہ وکیع فی تفسیرہ عن یونس)) (تفسیر ابن کثیر)

پس آیت وحدیث سے ثابت ہوا کہ مطلقاً استاعت شرط ہے, پس جس وقت بیت اللہ تک پہنچ کر ارکان حج کو ادا کیا فرض ساقط ہوگیا اور جو شخص لے گیا تبرعاً اور اتفاق کیا اس کے اجر کا مستحق ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ احمد علی الجواب صحیح ابو تراب محمد عبدالوہاب الجواب صحیح محمد بشیر عفی عنہ

(سید محمد نذیر حسین)         (فتاویٰ نذیریہ جلد۲ ص ۱۱۸ طبع لاہور)

منتقی میں ہے:

((عن ابن عباسؓ ان امرأۃ من خثعم قالت یا رسول اللہ ان ابی ادرکته فریضة اللہ فی الحج شیخا کبیر الا یستطیع ان یستوی علی ظہر بعیرہ قال فحجی عنه رواہ الجماعة وعن علی علیه السلام ان النبی صلی اللہ علیه وسلم جاءته امرأة شابة من خثعم فقالت ان ابی کبیر وقد ادرکته فریضة اللہ فی الحج ولا یستطیع ادائہا فیجزی عنه ان اودیہا عنه فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعم رواہ احمد والترمذی وصححه, وعن عبداللہ بن الزبیر قال جاء رجل من خثعم الی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال ان ابی ادرکه الاسلام وهو شیخ کبیر لا یستطیع رکوب الرحل والحج مکتوب علیه افاحج عنه قال انت اکبر ولدہ قال نعم قال ارایت لو کان علی ابیك دین فقضیته عنه اکان یجزی ذلك عنه قال نعم قال فاحج عنه (رواہ احمد والنسائی بمعناہ, قال الشوکانی فی نیل الاوطار ج۴ ص۱۶۶) واحادیث۲ الباب تدل علی انه یجوز الحج من الولد عن والدہ اذا کان غیر قادر علی الحج وقداوعی بعضہم ان هذہ القصة مختصة بالخثعمیة کما اختص سالم مولی ابی حذیفة بجواز ارضاع الکبیر حکاہ ابن عبدالبر و تعقب بان الاصل عدم الخصوص واما مارواہ عبدالملك بن حبیب صاحب الواضحة باسنادین مرسلین من هذا الحدیث فزاد فحجی عنه ولیس لاحد بعدہ فلاحجة فی ذلك لضعف اسنادهما مع ارسال والظاهر عدم اختصاص جواز ذلك بالابن وقد ادعی جماعة من اهل العلم انه خاص به قال فی الفتح ولا یخفی انه جمود انتہی حررہ احمد علی عفی عنه (فتاوی نذیریه ج۲ص ۱۲۱) (سید محمد نذیر حسین)

’’قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا اے اللہ کے رسول میرے باپ پر اللہ کا فریضہ حج بڑھاپے میں آکر فرض ہوا ہے اور وہ اتنا بوڑھا ہے کہ اونٹ پر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا اس کی طرف سے حج کر حضرت علیؓ کی حدیث میں ہے کہ اس عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کی اجازت مانگی, آپ نے فرمایا اجازت ہے عبداللہ بن زید کی حدیث میں بالکل ایسا ہی واقعہ ایک مرد کی طرف سے بیان کیا گیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اپنے باپ کا بڑا بیٹا ہے اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا اور تو اس کو ادا کرتا تو کیا وہ ادا ہو جاتا ہے یا نہیں، اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا پھر تو اس کی طرف سے حج کر۔‘‘

۲۔ احادیث باب سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی طرف سے حج کر سکتا ہے، اگر باپ کمزور ہو، بعض نے کہا کہ یہ اس عورت کے لیے خاص اجازت دے دی گئی تھی، لیکن اس کی تردید کر دی گئی ہے، عبدالملک بن حبیب نے جو روایت بیان کی ہے، اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا تو حج کرے لیکن تیرے بعد اور کسی کو اجازت نہیں ہے، وہ حدیث مرسل بھی ہے اور ضعیف بھی ہے لہٰذا اس سے محبت نہیں کی جا سکتی۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 43-45

محدث فتویٰ

تبصرے