السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تشریحات مناسک حج
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از قلم حضرت مولانا حافظ عبداللہ صاحب روپڑی رحمہ اللہ
حج کی فرضیت: حج اسلام کے ارکان خمسہ سے ایک رکن ہے، جو ہر بالغ صاحب استطاعت مسلمان مرد، عورت پر عمر میں ایک دفعہ ادا کرنا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ (اٰل عمران: ۹۷) اور حدیث میں ہے جس شخص کو کسی ضروری حاجت نے، یا ظالم بادشاہ یا سخت مرض نے روکا ہو اور وہ بلا حج کیے مر جائے تو وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔
اس بارے میں بہت سی روایات آئی ہیں، چند ایک ذیل میں لکھی جاتی ہیں (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الحج المبرور لیس له جزاء الا الجنة، خالص حج کا بدلہ صرف جنت ہے، بخاری مسلم آپ سے سوال ہوا کہ حج کا خالص ہونا کیا ہے، فرمایا: اطعام الطعام وطیب الکلام، یعنی کھانا کھلانا اور کلام نرم کرنا۔ (۲) من حج للہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ، جس نے حج کیا اور کسی طرح کی بدکلامی اور بدعملی نہ کی وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوگیا جیسا ماں کے شکم سے پیدا ہونے کے دن تھا۔
حج میں بہت سے کام ہوتے ہیں۔ ہر کام کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، ہم ان سے چند روایات ذکر کرتے ہیں۔
زیارت بیت اللہ کی نیت سے سفر: حدیث میں ہے، جب انسان زیارت بیت اللہ کی نیت سے گھر سے چلتا ہے، تو اس کے اور اس کی سواری کے ہر قدم اٹھانے اور رکھنے کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ مٹایا جاتا ہے۔ (طبرانی کبیر)
دوسری روایت میں ہے، تو یا تیری سواری جو قدم رکھے یا اٹھائے اس کے عوض ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اور ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے۔ (طبرانی اوسط)
بیت اللہ کے گرد سات چکر لگانے کا نام طواف ہے۔ حدیث میں ہے، جو طواف بیت اللہ کر لے اس کے لیے ہر قدم کے اٹھانے اور رکھنے میں اللہ تعالیٰ ایک نیکی لکھتا ہے، ایک گناہ معاف کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے۔ (ابن خزیمہ)
دوسری حدیث میں ہے کہ بیت اللہ کے گرد ستر چکر لگانا غلام آزاد کرنے کے برابر ہے، ایک اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے ستر ہزار نیکی لکھتا ہے، ستر ہزار گناہ معاف کرتا ہے اور سگر ہزار درجے بلند کرتا ہے اور اس کے اہل سے ستر شخصوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کرتا ہے۔ (ابوالقاسم اصبہانی)
بیت اللہ کے چار گوشے میں مشرقی گوشے کا نام رکن حجراسود ہے۔ کیونکہ اس میں حجر اسود ہے، اس کے مقابل یمنی طرف کے گوشے کو رکن یمانی کہتے ہیں کیونکہ وہ شام کی طرف واقع ہے، چوتھے کا نام عراقی ہے کیونکہ وہ عراقی کی طرف ہے، بیت اللہ کا طواف کرنے کے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں اور ہاتھ لگاتے ہیں، رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگاتے ہیں، رکن شامی اور عراقی کو نہ بوسہ دیتے ہیں، نہ چھوتے ہیں۔ حدیث میں حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونا گناہ کی معافی ہے۔ (ابن خزیمہ)
دوسری حدیث میں ہے، جو اچھی طرح وضو کر کے حجر اسود کو ہاتھ لگانے کے لیے آتا ہے، وہ رحمت میں چلتا ہے، جب ہاتھ لگا کر مندرجہ ذیل کلمات پڑھتا ہے تو اس کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُه۔
طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم پر آتے ہیں، جو بیت اللہ کے دروازے کے سامنے ہے، وہاں دو رکعت نفل پڑھتے ہیں، جس کو طواف کی نماز کہتے ہیں، حدیث میں آیا ہے، طواف کے بعد دو رکعت پڑھنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔ (طبرانی کبیر)
دوسری حدیث میں ہے، ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ اولاد اسماعیل علیہ السلام سے چار غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھتا ہے اور وہ ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔ (ابوالقاسم اصبہانی)
صفا ومروہ کا طواف: بیت اللہ کے قریب صفا و مروہ دو پہاڑیاں ہیں، مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھ کر ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائیں، حدیث میں ہے، صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا ستر غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔ (طبرانی کبیر)
عرفات میں قیام: مکہ مکرمہ سے نو کوس کے فاصلہ پر ایک میدان جس کو عرفات کہتے ہیں نویں تاریخ ذی الحجہ کو ظہر سے مغرب تک حاجی لوگ وہاں ٹھہرتے ہیں، ذکر الٰہی اور دعا میں مشغول رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے، اللہ تعالیٰ اس روز آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور فرشتوں پر فخر فرماتا ہے کہ میرے بندے پراگندہ بالوں والے دور دراز سے میری رحمت کی امید سے میرے پاس آئے ہیں۔ (۱)بندو! اگر تمہارے گناہ ریت کے ذروں یا بارش کے قطروں یا سمندر کی جھاگ کے برابر ہوتے ہیں تمہیں ضرور بخش دیتا۔ لوٹ جاؤ تم بھی بخشے ہوئے ہو اور جس کو تم سفارش کرو وہ بھی بخشا ہوا ہے۔ (طبرانی کبیر) دوسری حدیث میں ہے، اللہ فرشتوں کو کہتا ہے، میرے بندوں کو کیا چیز یہاں لائی ہے، فرشتے کہتے ہیں تیری رضا اور جنت کی تلاش میں آئے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنی ذات اور مخلوق کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا، خواہ ان کے گناہ زمانہ کے دنوں کی گنتی اور پُر کرنے والی ریت کے ذروں کے برابر ہوں۔ (طبرانی اوسط)
جمرے مارنا: مکہ مکرمہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے، جہاں عید کے دن حاجی قربانیاں کرتے ہیں، وہاں تین بڑے بڑے پتھر ہیں، جن کو جمرے کہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام جب اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کرنے لگے تو شیطان ان جمروں کے پاس انہیں دکھائی دیا تاکہ انہیں قربانی سے روکے ابراہیم علیہ السلام نے اس کو ہر جمرے کے پاس سات سات کنکر مارے، اس واقعہ کی یاد تازہ رکھنے اور شیطان کو ذلیل کرنے کے لیے حاجی بھی ان جمروں کو عید کے دن سات سات کنکر مارتا ہے، حدیث میں ہے ہر کنکر کے بدلے ایک مہلک کبیرہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ (طبرانی کبیر) دوسری حدیث میں ہے جمرے مارنے کے عوض جو کچھ اللہ نے بندے کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک سے پوشیدہ رکھا ہے، اسے کوئی جانتا ہی نہیں۔ (طبرانی کبیر) ایک حدیث میں ہے کہ یہ ذخیرہ ہے جو اس وقت تیرے کام آئے گا، جب کہ تو بہت محتاج ہوگا۔ (ابوالقاسم اصبہانی)
حدیث میں ہے، تیری قربانی بھی اللہ کے پاس ذخیرہ ہے، جو عین محتاجی کے وقت یعنی قیامت کے دن تیرے کام آئے گی۔ (طبرانی)
حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر حاجی حجامت کراتے ہیں۔ حدیث میں ہے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے اور گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ (طبرانی کبیر) دوسری حدیث میں ہے، تیرا بال قیامت کے دن نور ہوگا۔ (طبرانی کبیر)
حج سے فارغ ہو کر وطن کو آتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں جس کو طواف وداع کہتے ہیں، حدیث میں ہے تمام کاموں سے فارغ ہو کر جب حاجی طواف وداع کرتا ہے تو فرشتہ آتا ہے، جو اس کے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے، تیرے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ اب آئندہ نئے سرے سے عمل کر (طبرانی کبیر) دوسری حدیث میں ہے، جب تو طواف وداع کرتا ہے تو ایسا پاک ہو جاتا ہے، جیسا ماں کے شکم سے پیدا ہونے کے دن تھا۔
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر کرنا دوست رکھتے تھے، مشکوٰۃ جمعرات کے علاوہ اور دن میں بھی سفر کر سکتے ہیں، چنانچہ آپ نے حجۃ الوداع کا سفر ہفتہ کے دن کیا، مگر حدیث مشکوٰۃ کے الفاظ دوست رکھتے تھے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جمعرات بہتر ہے۔ (۲) جماعتی صورت میں سفر کرنا بہتر ہے اور باعث عزت ووقار ہے، خرچ کی کفایت ہے، ایک دوسرے کے ہم وغم میں شریک رہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ جب تین ہوں تو ایک کو امیر بنائیں۔ (مشکوٰۃ) اور جماعت بھی اسی صورت میں بنتی ہے کہ سب ایک کے تحت ہوں، پس اس مبارک سفر کو ہر طرح سے مسنون طریق پر پورا کرنا چاہیے۔
پہلے دو رکعت نفل پڑھے، حدیث میں ہے، انسان نے اپنے اہل کے پاس دو رکعتوں سے بہتر کوئی چیز نہیں چھوڑی (ایضاح للنوی) ایک اور حدیث میں ہے اگر تو اپنے رفیقوں سے صورت حال اور مال میں بہتر ہونا چاہتا ہے، تو قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ سے وَالنَّاس تک تبت کو چھوڑ کر پانچ سورتیں پڑھ۔ ہر سورئہ کو بسم اللہ سے شروع کر اور اپنی قراء ت کو بسم اللہ پر ختم کر یعنی پانچوں کو ختم کر کے پھر بسم اللہ پڑھ۔
گھر سے نکلنے کی دعا: بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ (ابوداود) ’’اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، میں نے اللہ کے نام پر توکل کیا، گناہ سے پھرنا اور نیکی کی توفیق صرف اللہ ہی سے ہے۔‘‘
رخصت کرنے کی دعا: اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکُمْ وَاَمانَتَکُمْ وَخَواتِیْمَ اَعْمَالِکُمْ، (ابوداؤد) ’’تمہارا دین اور امانت اور اعمالوں کا خاتمہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘
سفر کے وقت وصیت: عَلَیْكَ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالتَّکْبِیْر عَلٰی کُلِّ شَرَفٍ، (ترمذی) ’’تقویٰ الٰہی اور ہر بلندی پر چڑھنے کے وقت تکبیر کو لازم پکڑ اور نیچے اترتے وقت سبحان اللہ کہنا چاہیے، جیسے دوسری حدیث میں ہے۔
جنگل کی سواری کی دعا: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا هٰذَا وَمَا کُنَّا لَه مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَo اَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُك فِيْ سَفَرِنَا هَذَا الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضیٰ، اَللّٰہُمَّ هَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا هٰذَا وَاطْوِعَنَّا بُعْدَہٗ اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ ، وَالْخَلِیْفَة فِي الْاَهْلِ اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ وَعْشَاء السَّفَرِ ، وَکَابَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَہْلِ۔ (صحیح مسلم) ’’وہ پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے تابع کر دیا ہے اور ہم اس کو قابو کرنے والے نہ تھے اور ہم اپنے رب کی طرف جانے والے ہیں، یا اللہ ہم تجھ سے اپنے سفر کی نیکی اور پرہیزگاری اور تیری رضا مندی کے کام مانگتے ہیں۔ یا اللہ ہمارے اس سفر کو آسان کر اور اس سفر کی دوری کو لپیٹ دے یا اللہ تو ہی سفر میں ساتھی ہے اور گھر والوں میں خلیفہ ہے، یا اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں، سفر کی تکلیف سے اور دیکھنے کے غم سے اور برے رجوع سے اہل اور مال میں۔‘‘
دریا کی سواری کی دعا: بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرِهَا وَمُرْسٰہَا اِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ (ابن سنی) ’’اللہ کے نام سے اس کا جاری ہونا، اور ٹھہرنا ہے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کما حقہ قدر نہیں کیا۔‘‘
کسی بستی میں داخلہ کی دعا: اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا حُبَّہَا وَحَبِّبْنَا اِلٰی اَهْلِہَا وَحَبِّبْ صَالِحِیْ اَهْلِہَا اِلَیْنَا، ’’یا اللہ ہم کو اس کا پھل دے اور ہم کو اس کے رہنے والوں کی محبت دے اور ہم کو اس کے نیک لوگوں کی محبت دے۔‘‘
کسی مقام پر اترنے کی دعا: أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ (مسلم) ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں، اس شئے کی شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘
رات کی دعا: یَا اَرْضُ رَبِّیْ وَرَبُّك اللّٰہُ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّك وَشَرِّمَا فِیْك وَشَرِّمَا خُلِقَ فِیْك وَشَرِّمَا یَدُبُّ عَلَیْك اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ اَسَدٍ وَاَسْوَدَ مِنَ الْحَیَّة وَالْعَقْرَبِ وَ مِنْ شَرِّ سَاکِنِ الْبَلَدِ وَمِنْ وَالِدِ وَمَا وَلَدَ۔ (ابوداود) ’’اے زمین میرا اور تیرا رب اللہ ہے، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور جو تجھ پر چلتی ہے، میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں، زہریلی چیز سانپ بچھو سے اور شہر کے رہنے والوں کی شر سے جننے والے اور جو کچھ اس نے جنا کی شر سے۔‘‘
سحری کے وقت کی دعا: سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللّٰہِ وَحُسْنِ بَـلَا ئِهِ عَلَیْنَا رَبَّنَا صَاحِبْنَا وَأَفْضِلْ عَلَیْنَا عَائِذًا بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ۔ (مسلم) ’’سننے والے نے سن لیا ہے، اللہ کی تعریف انعام اچھے کے ساتھ جو ہم پر کیے ہیں، یا اللہ ہماری رفاقت کر اور ہم پر فضل کر، ہم آگ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ پکڑتے ہیں۔
صبح اور شام کی دعا: أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْك لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْك لَه الْمُلْك وَلَه الْحَمْدُ وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ رَبِّ أَسْأَلُك خَیْرَ مَا فِيْ هٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَخَیْرَ مَا بَعْدَهَا وَأَعُوْذُبِك مِنْ شَرِّ مَا فِيْ ہٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، رَبِّ أَعُوْذُبِك مِنَ الْکَسَلَِ وَسُوءِ الْکِبَرِ ، رَبِّ أَعُوْذُبِك مِنْ عَذَابٍ فِي النَّار وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ۔ (مسلم) ’’اللہ کے لیے ہم نے اور تمام ملک نے شام کی۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہ اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ اس رات کی بھلائی اور جو اس رات میں ہے، اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں، اس کی شر سے اور جو چیز اس میں ہے اس کی شر سے یا اللہ میں پناہ پکڑتا ہوں سستی اور زیادہ بڑھاپے اور برائی بڑھاپے کی سے اور دنیا کی آزمائش اور عذاب قبر سے۔‘‘
صبح کی دعا بھی یہی ہے، صرف اَمْسَیْنَا اور اَمْسَی الْمُلْك کی جگہ اَصْبَحْنَا وَاَصْبَحَ الْمُلْك پڑھنا چاہیے، حج، عمرہ، میقات، حج کو عموماً لوگ جانتے ہیں کہ زیارت بیت اللہ کی خاص صورت ہے، جس میں کئی کام کرنے پڑتے ہیں۔ عمرہ کو اکثر لوگ نہیں جانتے، عمرہ بھی زیارت بیت اللہ کی خاص صورت ہے جس میں کئی کام کرنے پڑتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ حج میں کچھ زیادہ کام کرنے پڑتے ہیں اور عمرہ مختصر ہے، حج کے مہینے مقرر ہیں۔ شوال، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور عمرہ بار بار ماہ درست ہے، حج عمرہ کی ابتدا میقات سے ہوتی ہے، میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جس جگہ سے زیارت بیت اللہ کی نیت سے جانے والے کے لیے بغیر احرام کے آگے گزرنا جائز نہیں۔ اور وہ جگہ ہر ملک کے لیے الگ ہے، اہل یمن کے لیے یلملم، اہل نجد کے لیے قرن المنازل، اہل عراق کے لیے ذاتِ عرق، اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے جحفہ۔ پہلے تین مقام مکہ مکرمہ سے قریباً چالیس پینتالیس کوس ہیں، اور جحفہ قریباً ستر کوس ہے، ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ کوس اور مکہ مکرمہ سے تقریباً تین سو کوس ۱؎ ہے ہے، حدیث میں ہے، یہ میقات ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے لیے مقرر کیے گئے ہیں اور دیگر لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان مقامات سے گزریں۔ (چنانچہ اہل ہند عموماً یمن کی طرف سے جاتے ہیں، وہ یلملم سے احرام باندھتے ہیں) جو لوگ ان مقامات کے اندر مکہ مکرمہ کی طرف ہیں، وہ اپنی رہائش کی جگہ سے احرام باندھیں یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ سے۔
۱؎ یہ غالباً سہو کا تب ہے، دراصل یہ جگہ مکہ مکرمہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کوس کے فاصلہ پر ہے۔ (داؤد راز دہلی)
احرام اور اس کے باندھنے کا طریق: احرام حج اور عمرہ کی نیت باندھنے کو کہتے ہیں اور اس کے باندھنے کا طریق یہ ہے کہ جب میقات پر پہنچے تو پہلے کپڑے اتار دے، پھر نہا دھو کر دو چادریں پہن لے، ایک کو تہبند بنائے ایک کو اوڑھ لے۔ یہ چادریں ان سلی ہوں تو بہتر ہیں، عورت اپنے کپڑے بدستور رکھے، صرف برقعہ اتار دے اور اس کی جگہ بڑی چادر لے لے۔ اور منہ ننگا رکھے، جب کوئی بیگانہ سامنے ہو تو منہ ڈھانپ لے چادریں پہننے کے بعد دو رکعت نقل پڑھ کر حج یا عمرہ دونوں کی نیت کر کے لبیک پکارنا شروع کر دیں، لبیک پکارنے کو تلبیہ کہتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں: لَبَّیْك اَللّٰہُمَّ لَبَّیْك لَا شَرِیْك لَك لَبَّیْك اِِنَّ االْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَك وَالْمُلْك لَا شَرِیْك لَك۔ (بخاری) ’’میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں، میں حاآضر ہوں، نہیں شریک ہے واسطے تیرے، میں حاضر ہوں۔ بے شک سب تعریف، نعمت اور سلطنت تیرے ہی لیے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
تلبیہ کے الفاظ اور بھی ہیں اگر یاد ہوں تو وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ سارے سفر میں بیت اللہ پہنچنے تک تلبیہ جاری رہنا چاہیے اگر اور کوئی ذکر کرنا یا قرآن مجید پڑھنا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔
تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں جب بند کریں تو یہ دعا پڑھیں، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُك رِضَاك وَالْجَنَّة وَاَسْئَلُك الْعَفْوَ بِرَحْمَتِك مِنَ النَّارِ، ’’اے اللہ! میں تیری رضا کا اور جنت کا سوال کرتا ہوں اور تیری رحمت کے طفیل آگے سے عافیت مانگتا ہوں۔‘‘
احرام میں عورت کا بوسہ لینا، شہوت سے چھونا، بنظر شہوت دیکھنا، منگنی کرنا، نکاح کرنا کرانا، خوشبو استعمال کرنا، جوئیں مارنا، کنگی کرنا، جنگلی شکار کرنا، حاجی کی کوئی گری ہوئی شئے اٹھانا، جس کا ایک سال تک اعلان نہ ہو سکے۔ اس قسم کے کام ممنوع ہیں۔ ہاں موذی اشیاء حرم میں قتل کرنا جائز ہیں۔ جن کا ذکر حرم میں آگے آتا ہے۔
حرم مکہ مکرمہ اور اس کی دعا: مکہ کے گرد ونواح کئی میلوں تک کی جگہ کو حرم مکہ کہتے ہیں، بڑے بڑے نشانات قائم کر کے حدود متعین کر دئیے گئے ہیں، جدہ سے چل کر جب مکہ مکرمہ دس میل رہ جاتا ہے، تو آمنے سامنے کئی گز لمبی چوڑی اونچی دو دیواریں آتی ہیں۔ اس طرف سے یہی حد حرم ہیں، حرم کا گھاس یا درخت کاٹنا یا شاخ توڑنا۔ اس میں شکار کھیلنا بلکہ شکاری جانور کو اپنی جگہ سے عمداً ہلانا حرام ہے، ہاں موذی اشیاء سانپ، بچھو، چھپکلی، کوا، شیر، چیتا، بھیڑیا وغیرہ کو مارنا جائز ہے۔ اسی طرح سے گھاس کی قسموں سے اذخر گھاس کاٹ سکتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
حرم کی زمین سے گھاس یا درخت کاٹنا یا شاخ توڑنا اس شخص کو منع ہے، جو مالک نہ ہو مالک اپنی ملک میں ہر طرح تصرف کر سکتا ہے کیونکہ ملک سے مقصود ہی تصرف ہے، حرم میں داخل ہونے کی دعا نہ حدیث میں آئی ہے، نہ ۱؎ صحابہ سے منقول ہے، البتہ ابن جماعت۲؎ نے امام احمد سے قریباً یہ الفاظ نقل کیے ہیں: اللهم ہذا حرمك وامنك فحرمنی علی النار وامنی من عذابك یوم تبعث عبادك واجعلنی من اولیاءك واهل طاعتك، (ایضاح للنووی مع حاشیۃ ابن حجر ہیثمی) ’’اے اللہ! یہ تیرا حرم ہے، اور تیرے امن کی جگہ ہے، پس مجھے آگ پر حرام کر دے اور جس روز تو اپنے بندوں کو قبروں سے اٹھائے مجھے اپنے عذاب سے رہائی دے اور مجھے اپنے دوستوں اور فرمانبرداروں سے کر دے۔‘‘
۱؎ سیدنا ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ وہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: لا اله الا اللہ وحدہ لا شریك له له الملك وله الحمد وهو علی کل شی ء قدیر، (عبدالرشید اظہر) ۲؎ اصل میں اسی طرح ہے۔
اس بات پر اتفاق ہے کہ مکہ مکرمہ کی جس جانب سے داخل ہونا جائز ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ بیر طویٰ کی جانب سے داخل ہو، یہ ایک کنواں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو اس مقام میں غسل فرمایا اور پھر جانب معلّٰی کی طرف سے داخل ہوئے، بیر طویٰ سے جب بیت اللہ کو روانہ ہوتے ہیں تو تھوڑی دور پہنچ کر دو راستے ہو جاتے ہیں ہیں، ان سے بائیں راستہ چل کر باہر باہر جنت معلی سے ہوتے ہوئے سیدھے باب السلام پر پہنچیں۔ باب السلام مسجد حرام کے دروازوں سے ایک دروازہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف سے مسجد حرام میں داخل ہوئے۔
داخلہ مکہ مکرمہ کی دعا: مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی دعا کسی صحیح حدیث میں نہیں آئی، اس لیے وہی دعا پڑھیں جو عموماً ہر بستی میں داخل ہونے کے وقت آئی ہے، چنانچہ اوپر گزر چکی ہے۔
اس کے لیے بھی کوئی خاص دعا نہیں آئی، پس وہی دعا پڑھیں، جو عام طور پر مسجدوں میں داخل ہونے کے وقت پڑھی جاتی ہے، یعنی اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِك۔ ’’یا اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
مسجد حرام میں داخل ہونے کی کیفیت وہی ہے، جو عام مسجدوں کی ہے، یعنی دایاں پاؤں پہلے رکھتے ہیں اور بایاں پیچھے۔ نکلنے کے وقت اس کا الٹ کرتے ہیں اور جوتا پہننے اور اتارنے کے وقت بھی ایسا ہی کرے، یعنی پہلے دایاں پاؤں پہنے پھر بایاں اور اتارنے کے وقت اس کا الٹ کرے اور جوتے پہننے اور اتارنے کی یہ کیفیت مسجد حرام یا عام مساجد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مسجد غیر مسجد سب جگہ اسی طرح کرے احادیث میں عام آیا ہے۔
رؤیت بیت اللہ اور اس کی دعا: باب السلام سے داخل ہو کر جب بیت اللہ پر نظر پڑے، تو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھیں، چنانچہ ابن جریرؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے: اَللّٰہُمَّ زِدْ هٰذَا الْبَیْتِ تَشْرِیْفًا وَتَعْظِیْمًا وَتَکْرِیْمًا وَمَہَابَة وَبِرًّا وَزِدْ مَنْ شَرَّفَه وَکَرَّمَه مِمَّنْ حَجَّه اَوِ اعتمرہ تَشْرِیْفًا وَتَعْظِیْمًا۔ (مناسک ابن تیمیہؒ) ’’اے اللہ! اس گھر کو شرافت، بزرگی، عزت، ہیبت اور نیکی میں زیادہ کر اور حج یا عمرہ کرنے والوں سے جس نے اس گھر کی شرافت اور تعظیم کی اس کو بھی شرافت اور بزرگی میں زیادہ کر۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد صرف مطاف، طواف کی جگہ تھی۔ جس کا فرش اب سنگ مر مر کا ہے، اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور پھر سیدنا عثمانؓ کے زمانہ میں کچھ اضافہ کیا گیا، ان کے بعد دیگر بادشاہوں نے اس کو بہت وسیع کر دیا، بیر زم زم کے قریب مقام ابراہیم کے سامنے اصل دیواروں کے بغیر کمانی دار دروازہ بنا ہوا ہے، اصل مسجد حرام کا دروازہ یہی ہے، اس کو باب بنو شیبہ کہتے ہیں، باب السلام سے سیدھے اس دروازہ کو آئیں اس سے داخل ہو کر حجر اسود کا رخ کریں اگر چاہیں تو اس دروازے میں داخل ہوتے وقت وہی دعا پڑھیں، جو مسجد میں داخل ہوتے وقت پڑھی جاتی ہے، کیونکہ اصل مسجد حرام یہی ہے، اس کی دیواریں ہٹا دی گئی ہیں، دروازہ قائم ہے۔
حجر اسود بیت اللہ کے مشرقی کونہ چاندی کے خول کے اندر ہے، باب بنو شیبہ سے داخل ہو کر حجر اسود کی طرف آئیں، اس کو چھوئیں اور بوسہ دیں اور وہ دعا پڑھیں جو پہلے گزر چکی ہے اگر چھونا یا بوسہ دینا ہجوم کی وجہ سے مشکل ہو تو ہاتھ کا اشارہ کر کے ہاتھ کو چوم لینا کافی ہے۔
طواف بیت اللہ اور اس کی دعا: حجر اسود کو چھونے اور بوسہ دینے کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کی جانب بیت اللہ کے گرد چکر لگانا شروع کر دیں، سات چکر پورے کریں، اسی کو طواف بیت اللہ کہتے ہیں، ہر چکر میں حجر اسود کے سامنے آئیں، تو بدستور اس کو چھوئیں اور بوسہ دیں اور دعا مذکور پڑھیں اور جب رکن یمانی کے برابر آئیں تو یہ دعا پڑھیں: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَة وَّ فِی الْاٰخِرَة حَسَنَة وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ چکر کے باقی حصہ میں یہ کلمات کہیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰه إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّة اِلَّا بِاللّٰہِ۔
حجر اسود اور رکن یمانی کے برابر آنے کے وقت اور چکر کے باقی حصہ میں ان دعاؤں کے علاوہ اور دعائیں بھی آئی ہیں اگر یاد ہوں تو پڑھ سکتے ہیں، امام شافعیؒ نے قرآن مجید پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے۔
طواف کرتے وقت پہلے تین چکر میں رمل کریں، یعنی کندھے ہلاتے ہوئے تیز چلیں، جیسے پہلوان چلتا ہے اور باقی چار چکر میں آہستہ چلیں، حدیث میں ایسا ہی آیا ہے، نیز احرام کی اوپر کی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے کر کے اس کی دونوں طرف بائیں کندھے پر ڈال لیں، طواف کے وقت ایسا کرنا مسنون، اس کو اضطباع کہتے ہیں۔
مقام ابراہیم اور اس پر طواف کی دو رکعت اور دعا: طواف بیت اللہ سے فارغ ہو کر وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی پڑھتے ہوئے مقام ابراہیم کی طرف آئیں۔ مقام ابراہیم ایک پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر کرتے تھے، جو بیت اللہ کے دروازے کے سامنے ایک کوٹھڑی میں مقفل ہے، اس کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر کے دو رکعت نماز پڑھیں، اسی کو طواف کی نماز کہتے ہیں، پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ هُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھیں۔ پھر یہ دعا مانگیں۔
مقام ابراہیم کی دعا: اَللّٰہُمَّ اِنَّك تَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَّتِیْ فَاقْبَلْ مَعْذِرَتِیْ وَاِنَّك تَعْلَمُ حَاجَتِیْ فَاَعْطِنِیْ سُوَالِیْ وَتَعْلَمُ مَا عِنْدِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُك اِیْمَانًا یُبَاشِرُ قَلْبِیْ وَیَقِیْنًا صَادِقًا حَتَّی اَعْلَمْ اَنَّه لَنْ یُصِیْبَنِیْ اِلاَّ مَا کَتَبْتَ لِیْ وَاَرْضِنِیْ بِمَا قَضَیْتَه عَلَیَّ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، (حاشیہ ایضاح للہیثمی بحوالہ ابن الجوزی واذرتی) ’’یا اللہ! تو میرا ظاہر اور باطن جانتا ہے، پس میرے عذر کو قبول کر اور میری حاجت کو تو جانتا ہے، پس میری مانگی چیز مجھ کو دے، میرے دل میں جو ہے، اس کو تو جانتا ہے، پس میرے گناہ بخش دے، یا اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں، جو دل میں رچ جائے اور سچا یقین یہاں تک کہ سمجھ لوں کہ مجھ کو وہی پہنچے گا، جو تو نے میری قسمت میں لکھا ہے، اس پر راضی رہنے کے ساتھ سوال کرتا ہوں۔‘‘
مقام ابراہیم سے فارغ ہو کر حجر اسود کو بوسہ دیں اور مسجد حرام کے باب الصفاء سے باہر نکلیں۔ صفا پہاڑی پر پہنچیں وہ باب الصفا سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ صفا پہاڑی کے قریب پہنچ کر یہ پڑھیں اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ، اَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِه، ’’بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانات سے ہیں، میں بھی اس شئے کے ساتھ شروع کرتا ہوں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، پھر صفا مروہ پر چڑھ کر یہ کلمات کہیں۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْكَ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ، (مشکوٰۃ) ’’اللہ کے سوا کوئی نہیں، اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہی اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ واحد کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور سب جماعتوں، کافروں کو شکست دی۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھیں، جو مؤطا میں ہے:
((اللهم انك قلت وقولك الحق ادعونی استجب لکم وانك لا تخلف المیعاد، وانی اسئلك کما هدیتنی للاسلام ان لا تنزعه منی وان تتوفنی مسلما)) (ایضاح مع حاشیہ ہیثمی)
’’اے اللہ! تو نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، تیری بات سچی ہے اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح تو نے مجھے اسلام کے لیے ہدایت کی ہے اس کو مجھ سے نہ چھین یہاں تک کہ تو مجھے اسلام کی حالت پر فوت کرے۔‘‘
اس کے بعد پہاڑی مروہ کی طرف چلیں، صفا مروہ کے درمیان مروہ کو جاتے ہوئے بائیں جانب دو سبز نشان ہیں جن کو میلین احصرین کہتے ہیں۔ جب ان سے پہلے کے قریب پہنچیں، چھا سات ہاتھ کا فاصلہ رہ جائے تو دوڑنا شروع کریں، جب دوسرے نشان کے قریب پہنچیں، تو دوڑنا ترک کر دیں، پھر بدستور چلیں، یہاں تک کہ مروہ پہاڑی پر پہنچیں اور مروہ پر بھی وہی کلمات اور دعا پڑھیں جو صفا پر پڑھی تھی اور صفا مروہ کے درمیان دوڑنے کے وقت یہ دعا پڑھیں:
((رب اغفر وارحم فانت الاعز الاکرم)) (ایضاح مع حاشیہ ہیثمی بحوالہ طبرانی بیہقی، ابن ابی شیبہ)
’’اے رب میرے! بخش اور رحم کر پس تو ہی بہت عزت والا، اور بزرگ ہے۔‘‘
اور آہستہ آہستہ چلنے کے وقت بھی یہ دعا پڑھ سکتے ہیں، پھر مروہ سے لوٹ کر صفا پر آویں دوڑنے کے جگہ دوڑیں اور چلنے کی جگہ چلیں اور بدستور دعا پڑھیں، صفا پر پہنچ کر دو پھیرے ہوئے، اس طرح سے سات پھیرے پورے کریں، جن کی ابتدا صفا سے ہے اور انتہا مروہ پر ہے اگر آپ نے صرف عمرے کا احرام باندھا ہے، تو احرام کھول دیں۔ یعنی حجامت کرالیں، خوشبو لگائیں کپڑے وغیرہ بدل لیں اور اگر حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہے، تو بدستور احرام کی حالت میں رہیں۔ اپنا کوئی نیک شغل جاری رکھیں، ذکر کریں۔ نماز پڑھیں، طواف کریں۔ ہر طرح مختار ہیں۔ اگر احرام کھول چکے ہیں، تو بھی یہ کام کر سکتے ہیں، آٹھویں تاریخ تک۔
جب ذی الحجہ کو آٹھویں تاریخ آئے تو اگر آپ احرام کھول چکے ہیں تو حج کے لیے نیا احرام باندھ کر اور اگر پہلا احرام قائم ہے، تو اسی کے ساتھ صبح ہی منیٰ کو (جو مکہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے) جانے کی تیاری کریں، بعض لوگ ساتویں ذی الحجہ کو منیٰ جانے کی تیاری کرتے ہیں، یہ خلاف سنت ہے، منیٰ میں پانچ نماز میں پڑھیں، ظہر، عصر، مغرب عشا اور نویں ذی الحجہ کی فجر۔
میدان عرفات میں جانے کی تیاری: نویں ذی الحجہ کو منیٰ میں فجر کی نماز پڑھ کر عرفات جانے کی تیاری کریں، جو مکہ سے نو کوس کے فاصلہ پر ہے، ظہر کی نماز مسجد نمرہ میں پڑھیں، جو عرفات کے میدان کے کنارے پر واقع ہے، عرفات کو جاتے ہوئے راستہ میں مزدلفہ آتا ہے، وہاں پہنچ کر عرفات کی طرف دو راستہ ہو جاتے ہیں، ایک کا نام جو دائیں جانب ہے طریق ضب ہے۔ دوسرے کا نام ما زمین ہے، لوگ عموماً مازمین کے راستے جاتے ہیں، آپ کوشش کریں کہ ضب کے رستے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی راستے گئے تھے۔ مسجد نمرہ میں امام کے ساتھ ظہر، عصر، دونوں نمازیں ظہر کے وقت پڑھنی چاہئیں۔ یہ متفقہ مسئلہ ہے مکہ کے لوگ دوگانہ پڑھیں، یا پوری پڑھیں مگر ترجیح دوگانہ ہی کو ہے۔ خواہ مکہ کے حاجی ہو یا دوسرے کے۔
وقوف کے معنی ٹھہرنے کے ہیں، ظہر و عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میدان عرفات میں داخل ہو کر اللہ کی یاد میں مشغول ہوں، قرآن پڑھیں ذکر واذکار کریں، دعا کریں۔ اگر ہو سکے تو جبل الرحمت پر پہنچیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ وقوف فرمایا تھا، سورج غروب ہونے تک یہی مشغلہ رہے۔ عرفات میں وقوف بہت بڑا رکن ہے، یہ وقت بڑی عاجزی اور انکساری میں گذارنا چاہیے۔
عرفات کی دعا: میدان عرفات میں ہر قسم کی دعا کر سکتے ہیں، خواہ قرآن میں ہو یا حدیث میں ہو مندرجہ ذیل دعا خصوصیت سے آئی ہے:
((لا اله الا اللہ وحدہ لا شریك له له الملك وله الحمد وهو علی کل شیء قدیر، اللهم لك الحمد کالذی تقول، اللهم لك صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی والیک مابی ولك ربی ترامی، اللهم انی اعوذ بك من عذاب القبر ووسواس الصدور وشتات الامر، اللهم انی اسئلك من خیر ما تجییء به الربیح واعوذبك من شرما تجیئ، به الریح لا اله الا اللہ وحدہ لا شریك له له الملك وله الحمد یحیی ویمیت وهو علی کل شیء قدیر، اللهم اجعل فی سمعی نورا وسمعی نورا وفی بصری نورا وفی قلبی نورا اللهم اشرح لی صدری و یسرلی امری واعوذبك من وساوس الصدور وشتات الامر وفتنة القبور اللهم انی اعوذبك من شر ما یلج فی اللیل وشرما یلج فی النہار وشرما تهب به الریح وشر بوائق الدھر لبیك انما الخیر خیر الاخرة اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر وللہ الحمد لا اله الا اللہ وحدہ لا شریك له الملك وله الحمد اللهم اجعله حجا مبرورا وذنبا مغفورا))
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے یا اللہ تعریف تیرے لیے ہے، جس طرح تو فرماتا ہے۔ اور اس سے بہتر جو ہم کہتے ہیں، یا اللہ میری نماز میری قربانی، میری زندگی اور میری موت تیرے ہی لیے ہے۔ میرا رجوع تیری طرف ہے، تو ہی میرا وارث ہے، یا اللہ قبر کے عذاب سینے کے وسوسوں اور کام کی پریشانی سے پناہ مانگتا ہوں، یا اللہ جس چیز کو ہوا لاتی ہے، اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور جس کو ہوا لاتی ہے، اس کی شر سے پناہ مانگتا ہوں، اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے، وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ میرے کان میں اور آنکھ میں اور دل میں نور بھر دے، یا اللہ میرے سینے کو فراخ کر دے، اور میرے کام کو آسان کر دے، سینے کے وسوسوں اور کام کی پریشانی اور عذاب قبر سے پناہ چاہتا ہوں، یا اللہ جو چیز رات اور دن میں داخل ہوتی ہے، اس کی شر اور جس کو ہوا اڑاتی ہے، اور زمانہ کے حوادث کی شر سے پناہ مانگتا ہوں، حاضر ہوں، یا اللہ حاضر ہوں، آخرت کی بھلائی تمام بھلائیوں سے بہتر ہے، اللہ بڑا ہے، اور اللہ کے لیے حمد ہے۔ اللہ بڑا ہے، اور اللہ کے لیے حمد ہے۔ اللہ بڑا ہے، اور اللہ کے لیے حمد ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، بادشاہی اور حمد اللہ کے لیے ہے یا اللہ اس حج کو حج خالص کر اور گناہوں کو بخشے ہوئے کر۔‘‘
افاضہ از عرفات: افاضہ کے معنی لوٹنے کے ہیں، عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ کی طرف لوٹیں مزدلفہ عرفات کے درمیان قریباً ۴ کوس کا فاصلہ ہے، مگر مغرب کی نماز عرفات میں نہ پڑھیں۔ بلکہ واپس مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع کر کے امام کی اقتدار میں ادا کریں اگر جماعت نہ ملے تو اکیلے پڑھیں۔ بلکہ واپس مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع کر کے امام کی اقتدا میں ادا کریں، اگر جماعت نہ ملے تو اکیلے پڑھیں۔ پھر رات کو یہیں آرام کریں دسویں تاریخ ذی الحجہ کو صبح کی نماز اول اوقت اٹھ کر امام کی اقتدا میں اندھیرے میں پڑھیں۔ اور نماز پڑھتے ہی دعا میں مشغول ہو جائیں۔ دعا کوئی معین نہیں جو چاہئیں مانگیں بہتر یہ کہ وہاں کی مسجد سے جنوب کی جانب مشعر الحرام ایک چھوٹا سا ٹیلہ ہے، اس پر جا کر دعا کریں، وہاں ایک چھوٹا سا چبوترہ بنا ہوا ہے، وہ مشعر الحرام کا حصہ ہے۔
مزدلفہ سے منیٰ کو واپسی: فجر کی نماز اور دعا کے بعد جب اجھی طرح روشنی ہو جائے لیکن ابھی سورج نہ نکلا ہو تو وہاں سے منیٰ کی طرف لوٹیں۔ منیٰ وہاں سے قریباً دو کوس ہے، جب وادی محسر میں پہنچیں، جو مزدلفہ کی طرف منیٰ کا کنارہ ہے، اس میں ذرا تیز چلیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تیز گزرے تھے، کیونکہ وہاں اصحاب فیل ہلاک ہوئے تھے، اسی وادی سے جمروں کے مارنے کے لیے ۷۰ یا ۴۹ کنکر اٹھائے۔ بعض لوگ یہ کنکر مزدلفہ سے اٹھا لیتے ہیں، مگر یہ خلاف سنت ہے، رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے وادی محسر سے اٹھائے تھے، اس راستہ سے ہوتے ہوئے جمرۃ العقبہ پر پہنچیں یہ گڑا ہوا ایک پتھر ہے، اس کے سامنے ذرا ہٹ کے نیچی جگہ میں اس طرح کھڑے ہوں کہ بایاں ہاتھ قبلہ کی جانب ہو۔ اس کو ایک ایک کر کے سات کنکریاں ماریں، اور ہر ایک کنکر کے ساتھ اللہ اکبر کہیں پھر قربانی کریں، مگر یہ قربانی منیٰ کی حدود کے اندر ہو۔ خواہ کسی جگہ ہو، اس کے بعد احرام کھول دیں، حجامت وغیرہ کرالیں، سر منڈانا کترانے سے بہتر ہے، جو اشیاء احرام میں ممنوع تھیں، احرام کھولنے کے بعد جائز ہیں، مگر بیوی کے پاس جانا جائز نہیں۔
طواف بیت اللہ کی تین قسمیں ہیں، جو عرفات جانے سے پہلے مکہ میں آتے ہی کرتے ہیں، وہ طواف قدوم ہے، جو عرفات سے واپس آکر کرتے ہیں، اس کو طواف افاضہ اور طواف زیارت کہتے ہیں اور جو اپنے وطن کو واپس آنے کے وقت کرتے ہیں، اس کو طواف وداع کہتے ہیں۔ طواف افاضہ وقوف عرفات کی طرح حج کا رکن ہے، باقی ووطواف رکن نہیں اور وقت کی تنگی کی وجہ سے کوئی شخص مکہ نہ پہنچ سکے اور سیدھا عرفات کو آجائے تو اس کا حج ہو جائے گا۔ منیٰ میں کپڑے بدلنے کے بعد مکہ مکرمہ جلدی پہنچ کر بدستور سابق طواف افاضہ کریں، مگر اس میں اضطباع تو ہوتا نہیں۔ اور رمل کی بھی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر طواف قدوم میں رمل نہ کیا ہو، تو طواف افاضہ میں رمل کریں، اس کے بعد مقام ابراہیم میں بدستور سابق دو رکعت پڑھیں۔ پھر زمزم کا پانی پئیں، پانی پینے کے وقت جس قسم کی آپ نیت کریں، اللہ پوری کرے گا، کسی بیماری سے شفا کی یا علم وغیرہ کی اس کے بعد صفا مروہ کے درمیان بدستور سابق طواف مگر اس طواف کی ضرورت دو صورتوں میں ہے۔ ایک یہ کہ میقات پر پہنچ کر صرف حج کا احرام باندھا ہو۔ اور مکہ میں آکر طواف بیت اللہ اور طواف صفا مروہ کر کے حلال ہوگئے ہوں اور آٹھویں ذی الحجہ کو حج کے لیے نئے سرے سے احرام باندھا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ طواف قدوم کے بعد صفا مروہ کا طواف نہ کیا ہو۔
طواف افاضہ سے فارغ ہو کر اسی روز منیٰ کو لوٹ جائیں اور وہاں تین دن گذاریں تینوں روز آفتاب ڈھلے، تینوں جمروں کو سات کنکر ماریں اور ہر کنکر کے ساتھ اللہ اکبر کہیں، پہلے جمرہ اولیٰ کو جو مسجد خیف کے قریب ہے، اس کی جانب جنوب مشرق میں کھڑے ہو کر ماریں، پھر جانب شمال سے ہو کر قبلہ کی طرف جمرے سے ذرا سا آگے بڑھیں، اور قبلہ رخ ہو کر دعا کریں۔ دعا کوئی معین نہیں جو چاہیں کریں، پھر جمرہ وسطیٰ کو ماریں، جو جمرہ اولیٰ کے قریب ہے، مارتے وقت اس کے جانب جنوب مغرب میں کھڑے ہوں، پھر قبلہ کی طرف آگے بڑھ کر قبلہ رخ ہو کر دعا نہ کریں، پھر جمرہ عقبہ کو ماریں جیسے عید کے دن مارا تھا، اور اس کے پاس دعا نہ کریں، تین روز گیارہویں، بارہویں، تیرہویں اسی طرح ماریں، اگر بارہویں کو مار کر واپس آنا چاہئیں تو بھی اجازت ہے اگر ہو سکے تو مکہ کو واپس آتے وقت مقام محصب میں رات گزاریں منیٰ سے مکہ کو جاتے ہوئے، مکہ کے قریب پہنچ کر دائیں طرف پڑتا ہے، اس کے گرد چھوٹی چھوٹی دیوار ہے اور برلب سڑک ایک عالیشان عمارت ہے اور وہاں دو کنوئیں ہیں ایک دیوار کے اندر جو بے آباد ہے دوسرا باہر جو آباد ہے، اس کے ساتھ آخوز(کھرلی) کی شکل کا چھوٹا سا حوض اور اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے بنا ہوا ہے، اس پر ان دنوں میں پانی نکالنے کی خاطر بادشاہ کی طرف سے مشین لگ جاتی ہے، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو رخصت ہونے کے وقت ٹھہرے تھے۔ بس اب حج پورا ہوگیا۔ اب صرف وطن جانے کے وقت طواف وداع کرنا باقی ہے، تمتع، قران، افراد، میقات پر پہنچ کر اگر صرف عمرہ کا احرام باندھیں اور مکہ میں پہنچ کر بیت اللہ اور صفا مروہ کے طواف کے بعد احرام کھول دیں اور آٹھویں تاریخ کو نئے سرے سے حج کا احرام باندھیں تو اس کو حج تمتع کہتے ہیں اور اگر میقات پر پہنچ کر صرف حج کا احرام باندھیں اور عید کے دن احرام کھولیں تو اس کو افراد کہتے ہیں۔ اور اگر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھیں اور عید کے دن احرام کھولیں تو اس کو حج قران کہتے ہیں۔ حج قران میں اور تمتع میں قربانی ضروری ہے، افراد میں ضروری نہیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ ان تینوں سے کونسا بہتر ہے، شافعیہ کے نزدیک افراد بہتر ہے بشرطیکہ حج سے فارغ ہو کر ذی الحجہ میں عمرہ کرے۔ حنفیہ کے نزدیک قران افضل ہے۔ بعض اہلحدیث تمتع کو افضل کہتے ہیں، ہماری تحقیق اس میں یہ ہے، قران اور تمتع افراد سے افضل ہیں اور اگر قربانی احرام باندھ کر ساتھ لائے تو قران تمتع سے افضل ہے اور اگر قربانی ساتھ نہ لائے تو پھر قران اور تمتع میں (کچھ) ایسا فرق نہیں ہے، ہاں کسی قدر ہمارا میلان قران کی طرف ہے۔
عمرہ صرف دو کاموں کا نام ہے، یعنی طواف بیت اللہ اور طواف صفا مروہ، طواف بیت اللہ کے ساتھ مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز بھی ہے، تمتع والے کا عمرہ تو الگ ادا ہوگیا، اور قران والے کا حج کے ساتھ ادا ہوگا۔ افراد والا اگر عمرہ کرنا چاہے تو حج سے فارغ ہو کر سکتا ہے، اگر حج کے مہینوں سے پہلے اس سال میں یا گزشتہ سالوں میں حج کے ساتھ یا حج سے الگ اس نے عمرہ نہیں کیا تو اس سال حج سے فارغ ہو کر عمرہ ضرور کرے، کیونکہ یہ بھی ایک ضروری شئے ہے، اگرچہ حج سے اس کا درجہ کم ہے لیکن بہت سے علماء اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں اس لیے اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
مدینہ منورہ کو زیارت مسجد نبویؐ کی نیت سے جانا چاہیے، مسجد نبویؐ میں ایک نماز ۵۰ ہزار نماز کا ثواب رکھتی ہے۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو مسجد نبویؐ میں ۴۰ نمازیں پڑھے، وہ آگ عذاب نفاق سے بری ہو جاتا ہے۔ پہلے مسجد نبوی میں داخل ہو کر تحیۃ المسجد دو رکعت پڑھیں، پھر روضہ مبارک کے پاس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صاحبین پر درود وسلام پڑھیں اور قبرستان مدینہ جس کا نام بقیع ہے اور شہداء احد وغیرہ کی زیارت کریں، ان کے حق میں وہی دعا کریں جو قبروں کی زیارت کے لیے آئی ہے اور مدینہ میں کئی ایک اور مسجدیں مشہور ہیں مگر ان میں نماز کا ذکر نہیں آیا، مسجد قبا کی بابت حدیث میں آیا کہ اس میں دو رکعت پڑھنا عمرہ کا ثواب رکھتا ہے، جو مدینہ سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر ہے، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جایا کرتے تھے۔
قبولیت دعا کے خاص مقامات: مکہ مکرمہ میں مندرجہ ذیل مقامات میں خصوصیت سے دعا قبول ہوتی ہے (۱)طواف بیت اللہ میں(۲)ملتزم کے پاس۔ ملتزم کعبہ کی دیوار کا وہ حصہ ہے، جو رکن حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ہے۔ (۳)بیت اللہ کے پرنالے کے نیچے۔ (۴)بیت اللہ کے اندر (۵)زم زم کے پاس پانی پینے کے وقت۔ (۶)صفا پر جب سعی کرنے لگیں۔ (۷)مروہ پر جب سعی کرنے لگیں۔ (۸)طواف صفا مروہ ہیں۔ (۹)مقام ابوراہیم پر طواف بیت اللہ کی دو رکعت پڑھنے کے وقت۔ (۱۰) عرفات میں۔ (۱۱)مزدلفہ میں۔ (۱۲)منیٰ میں۔ (۱۳)جمروں کے پاس بجز جمرہ عقبہ۔ (ایضاح للنوی بحوالہ رسالہ حسن بصری)
اپنے شہر یا گاؤں میں واپس آنے کے وقت یہ دعا پڑھیں:
(( لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْك لَه لَهُ الْمُلْك وَلَهُ الْحَمْدُ ، وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، آئِـبُوْنَ، تَائِـبُوْنَ، عَابِدُوْنَ، لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ، صَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ))
’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے حمد ہے وہ ہر شئے پر قادر ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے توبہ کرنے والے ہیں۔ اسی کے لیے عبادت اور سجدہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو سچا کر دیا اور اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست دی۔‘‘
مسئلہ :اپنے شہر یا گاؤں میں پہنچ کر مکان میں جانے سے پہلے قریب کی مسجد میں دو رکعت نفل پڑھیں۔
نوٹ: حاجی چونکہ اللہ کی طرف سے مغفور ہوتا ہے، اس لیے اس کی دعا مقبول ہوتی ہے، لوگوں کو چاہیے کہ اس سے ملاقات کریں اور دعا کرائیں، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو توفیق بخشے کہ وہ زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہو کر اپنے گناہوں اور خطاؤں کو بخشوائیں۔ واللہ الموفق للصواب والیه المرجع والماب
حج کے تمام مناسک واحکام عرض کر دئیے گئے ہیں۔ حجاج کرام کو چاہیے کہ ان کے مطابق فریضہ حج ادا کریں، کیونکہ یہ مبارک سفر بار بار میسر نہیں آتا، اس لیے موافق سنت ادا کرنا چاہیے۔ نیز حاجی کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ میں مکہ مکرمہ میں توبہ کر چکا ہوں، اس کو کبھی نہ توڑوں گا، صبح وشام استقامت واطاعت وخاتمہ بالایمان کی دعا مانگتے رہیں، صغائر و کبائر تمام گناہوں سے کُلّی پرہیز کریں۔ بدعات اور بری خصلت کو چھوڑ دیں۔ (والتوفیق بیدد اللہ عبداللہ امرتسری ۱۹۳۷ء (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۹۳ طبع دہلی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب