سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) افتتاحیہ (حج)

  • 3694
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1447

سوال

(01) افتتاحیہ (حج)

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

افتتاحیہ (حج)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

افتتاحیہ

از حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ
حج اسلام کا چوتھا رکن ہے، اور ہر استطاعت رکھنے والے مسلمان پر عمر میں ایک دفعہ فرض ہے، یہ دنیائے اسلام کی روحانی شہنشاہی کا وہ دربار عام ہے جس میں ہر سال وہ درباری شریک ہوتے ہیں جن کو توفیق الٰہی زمین کے گوشے سے کھینچ کر عرفات کے میدان میں جمع کر دیتی ہے، اسلام کا یہ دربار عام اخوت اسلامی کا پیغام ہے، تمام اونچے نیچے، گدا وشاہ، امیر وغریب سب ایک جگہ، ایک لباس، ایک حالت، ایک کیف میں سر برہنہ ایک چادر میں لپٹے لَبَّیْك اَللّٰہُمَّ لَبَّیْك، پکارتے ہیں، یعنی آقا کی پکار پر بندوں کی طرف سے حاضری وحضوری کا شور برپا ہوتا ہے۔ یہ اس اجتماع کا مظاہرہ ہے، جو آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے عہد میں کرتے آئے ہیں، اس مقدس سر زمین میں ہر عامل نبوت نے والہانہ قدم رکھا ہے، اور وہیں حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زمانے میں انبیاء کی مثالی صورتیں چلتی پھرتی نظر آرہی ہیں، کس قدر خوش قسمت ہیں، وہ انسان جن کو اپنی عمر میں کم از کم ایک دفعہ ان مقدس مقامات کی حاضری ومشاہدہ انبیاء کی زیارت کی شرف یابی نصیب ہوتی ہے۔ مسلمان جو روئے زمین پر پراگندہ اور دنیا کے براعظموں اور جزیروں میں منتشر ملکوں اور شہروں میں پھیلے اور پہاڑوں اور صحراؤں اور ریگستانوں میں بچھڑے ہوئے ہیں، سال میں ایک دفعہ وہ دن آتا ہے، جب ہر گوشے سے ان کے نمائندے دریاؤں اور صحراؤں کو طے کر کے خشک اور بنجر سر زمین میں جس کو صرف رحمت الٰہی کے چھینٹے سیراب کرتے ہیں، جمع ہوتے ہیں، اور دیکھنے والے کو امت محمدیؐ کی موجودہ حالت اور کیفیت ایک نظر میں معلوم ہوتی ہے: ﴿وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ﴾ (الحج: ۲۷) ’’اور اے ابراہیم! لوگوں میں حج کی پکار دے، لوگ تیرے پاس پیادہ پا آئیں گے اور مشقت سفر سے دبلی پتلی سواریوں پر جوہر دور دراز سے آئیں گی، تاکہ وہ اپنے فائدوں کے مقاموں میں حاضر ہوں اور چند مقررہ ایام میں خدا کا نام لیں۔‘‘
جلوہ طور: عشق کے بازار میں جب یہ صدائے عام دی گئی، اس وقت سے لے کر آج تک سالانہ لَبَّیْکَ کی جوابی آوازیں برابر دنیا کے کانوں میں آتی رہی ہیں، اب یہ دور ہمارے زمانے تک پہنچا ہے، اور اب ہم پر فرض ہے، کہ اس ربانی پکار کی آواز کو سنیں اور لَبَّیْكَ اللّٰہُمَّ کہتے ہوئے ہر دور دراز راستے سے اجتماعی وصل وروحانی منافع کے مقامات میں حاضری دیں، اور چند مقررہ دنوں میں فاران کی چوٹیوں پر چڑھ کر طور کا جلوہ دیکھیں، خاتم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری امت کو جو قیامت کے خزانہ رحمت کی حامل نگہبان بنائی گئی ہے، یہ حکم ملا ہے:﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ (اٰل عمران: ۹۷) ’’اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کا حج فرض کرتا ہے جس کو وہاں تک جانے کی استطاعت ہو، اس حکم نے ملت حنیفی کی اس آخری امت پر جس کا نام مسلمان ہے، حج کو قیامت تک کے لیے فرض کر دیا، ہر اس مسلمان پر جو صحیح و تندرست ہے، اور جس کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ اپنی غیر حاضری میں اہل وعیال کے گذارے کا سامان کر کے سفر حج کے مصارف اٹھا سکتا ہے، عمر میں ایک دفعہ میں فرض کا ادا کرنا ضروری ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ خداوندا جو تیرے راہ میں چل کر اس فرض کو ادا کریں، ان کے گناہ تیرے دربار سے معاف ہوں۔ ﴿وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾ (البقرۃ: ۱۲۸) ’’اور اے خدا ہم کو ہمارے حج کے دستور اور قاعدے دکھا، اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع ہو بے شک تو ہی رحمت کے ساتھ بندوں پر رجوع ہونے والا اور ان پر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی قبول ہوئی۔ محمد رسول اللہ نے فرمایا: عن ابی هریرة قال سمعت النبی صلی اللہ علیه وسلم یقول من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدته امه. (بخاری مسلم) ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جس نے حج کیا اور اس میں گناہ کا مرتکب نہیں ہوا تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر لوٹا جیسا کہ وہ اس دن تھا، جب اس کی ماں نے اس کو جنا۔
دینی اور دنیوی فوائد: جس طرح آگ کی بھٹی دھاتوں کی میل کچیل کو مٹا کر ان کو نکھار دیتی ہے، اسی طرح حج کی بھٹی گناہوں کے میل کچیل کو جلا کر مسلمان کو پاک کر دیتی ہے اور اس کو یہ پے در پے سفر چست و چالاک تجربہ کار بنا کر تجارت اور کام کا شائق کر کے بابرکت بنا دیتا ہے جس سے اس کی محتاجی دور ہو جاتی ہے۔ عن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تابعوا بین الحج والعمرة فانہما ینفیان الفقر و الذنوب کما ینفی الکیر خبث الحدید والذهب والفضة ولیس للحجة المبرورة ثواب الا الجنة. عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کیا کرو، کہ یہ دونوں محتاجی اور گناہوں کو ایسا صاف کرتے ہیں، جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو نیکی سے بھرے ہوئے حج کا ثواب جنت ہی ہے۔
عرفات کے محشر میں جب لاکھوں بندگان خدا کھلے سر، گردوغبار میں آئے، چادریں لپیٹے چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہاتھ پھیلائے، حسرت وندامت کے آنسو بہاتے ہوئے بارگاہ بے نیاز میں توبہ واستغفار کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں وہ جوش وخروش ہوتا ہے کہ گناہوں کا خس وخاشاک اس کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے، قالت عائشة ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال ما من یوم اکثر من ان یعتق اللہ فیه عبدا من النار من یوم عرفة وانه لیدنوا ثم یباهی بہم الملئکة فیقول ما اراد هولاء. (مسلم) عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عرفہ کے دن سے بڑھ کر کوئی دوسرا دن نہیں جس میں اللہ بندے کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے، وہ اس دن نزدیک آتا ہے، پھر فرشتوں کے سامنے اپنے ان بندوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ میری خوشنودی کے سوا یہ اور کیا چاہتے ہیں۔
اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر کھڑی کی گئی ہے، ان میں سے ایک حج بھی ہے، عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بنی الاسلام علی خمس شہادة ان لا اله الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسوله واقام الصلوة وایتاء الزکوة والحج وصوم رمضان. (بخاری) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، اس کی گواہی کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز درست کرنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزہ رکھنا۔
دردناک وعید: بیت اللہ دین محمدی کی سلطنت کا پایہ تخت ہے، یہی وہ جغرافیائی مرکز ہے جو تمام عالم کے مسلمانوں کو ان کے انتشار پراگندگی اور پھیلاؤ کے باوجود سال میں ایک دفعہ اپنے دامن میں سمیٹ کر وحدت عمومی کے لفظ پر جمع کر دیتا ہے، اسی لیے اس بیت اللہ کا حج کفر وایمان کے درمیان حد فاصل ہے، جس کو اس درگاہ سے روگردانی ہو، وہ دین محمدیؐ کے دائرے سے باہر ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (اٰل عمران: ۹۷) ’’اور ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کا حج فرض کرتا ہے جو وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کفر، انکار کرے تو اللہ دنیا جہان سے بے نیاز ہے، استطاعت کے باوجود حج کے ادا کرنے سے روگرداں ہونے کو اللہ تعالیٰ نے کفر فرمایا ہے اور وعید فرمائی ہے کہ اس پتھر اور چونے سے بنے ہوئے گھر میں جا کر حج کے مراسم ادا کرنے سے کچھ اس کی ذات اقدس وبرتر نہیں ہوتی بلکہ جو کچھ ہے وہ تمہارے لیے ہے چنانچہ اس آیت پاک کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ علیہ فرماتے ہیں: عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ وسلم من ملك زاد وراحلة تبلغه الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیه ان یموت یہودیا او نصرانیا. (ترمذی) سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو زاد سفر اور اس سواری کا مالک ہو جو اس کو خانہ کعبہ تک پہنچا دے اور حج نہ کرے، تو اس پر کچھ نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔ یعنی اس ابراہیمی مرکز عبادت کا تعلق ہی ایک ایسی چیز ہے جو مسلمان کو یہودی وعیسائی سے علیحدہ وممتاز کرتا ہے، اب آج ان احکام کو سامنے رکھ کر ان صاحب استطاعت مسلمانوں کو غور کرنا ہے، جو ہنوز اس فرض سے سبکدوش نہیں ہوئے کہ آیا وہ مسلمان رہ کر مرنا چاہتے ہیں یا یہودی وعیسائی ہو کر جو آغاز اسلام کے اس قبلہ کو ویران اور دین محمدی کے اس فرض کو جو آدم سے لے کر ابراہیم اور ابراہیم سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ادا ہوتا رہا ہے، اس کو ادا کریں اور ان مشاہدات کی زیارت اور ادائے مناسک سے دیدہ و دل کو پر نور ومسرور کریں جو انبیاء علیہم السلام کی یادگاریں اور شعار الٰہی کی تعظیمیں ہیں اور قبول واستجابت کے مکان ومحل میں چلیں کہ بیت اللہ، صفا و مروہ، میزاب، مشعر حرام، عرفات و مزدلفہ میں کھڑے ہو ہو کر اپنی مغفرت کی دعا کریں اور قوم وملت کی فلاح کی تدبیریں سوچیں اور ان پہاڑیوں کو دیکھیں، جہاں اللہ کے رسول نے محبت کی قربانی کی، اس گھر میں دوگانہ ادا کریں جس کے معمار و مزدور و مقدس رسول تھے، جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی پائی، انہوں نے ظہور کیا، قرآن نازل ہوا، رسول گویا ہوئے فرشتے اترے، جبرائیل پیغام لائے وغیرہ۔ زندگی کا اعتبار نہیں، مال و دولت کا بھروسہ نہیں جو دم ہے، غنیمت ہے، جو موقع آج ہے اس کے کل کے سوچنے کی مہلت نہیں، اس سے پہلے کہ آخرت کا سفر در پیش ہو، اس فریضے کے سفر سے سبکدوش ہو جائے۔ لَبَّیْكَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ لَبَّیْكَ الْحَمْدُ لَكَ وَالشُّکْرُلَكَ،
(اخبار محمدی دہلی ۱۹۴۱ء فتاوی ثنائیہ ج۱/ ۴۹۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 07-10

محدث فتویٰ

تبصرے