سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(124) عبادت شاقہ اور نفس کشی ثواب کے لہاظ سے زیادہ بہتر ہیں یا..الخ

  • 3690
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2084

سوال

(124) عبادت شاقہ اور نفس کشی ثواب کے لہاظ سے زیادہ بہتر ہیں یا..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین کے عبادت شاقہ اور نفس کشی ثواب کے لہاظ سے زیادہ بہتر ہیں۔یا رسول اللہﷺ کی اتباع زیادہ بہتر ہے۔امید ہے کہ کتاب وسنت سے اس کا جواب عنایت فرمایئں گے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہﷺ کی اتباع میں ثواب زیادہ ہے۔نہ کے عبادات شاقہ میں جو سنت کے خلاف ہیں۔رسول اللہﷺ کو آسان دین دے کر بھیجا گیا ہے۔آپﷺ فرماتے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کی پیروی کرو۔قرآن میں ہے۔''اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہ رکھی ۔ایک اور جگہ فرمایا!اللہ تعالیٰ تم پرآسانی کرنا چاہتے ہیں نہ کہ تنگی وغیرہ۔بخاری شریف میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا!کہ اللہ کے نزدیک سب سے پیارا دین حنیف ہے جو آسان ہے مطلب یہ ہے کہ دین کے تمام امور ہی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں لیکن سب سے زیادہ پیارا اور آسان مسلک ہے۔آپﷺ نے فرمایا بہترین دین وہ ہے جو آسان ہے۔اللہ تعالیٰ نے بنددوں کو تعلیم فرمایا ہے۔کہ اللہ کے بندے یہ دعا کرتے ہیں۔کہ اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا ہے دین آسان ہے۔اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے۔جو کہتے ہیں کہ دین پرعمل کرنا بڑا مشکل ہے۔حضورﷺ نے فرمایا جو دین میں سختی اختیار کرے گا۔دین اس پر غالب آجائے گا۔یعنی وہ ریاضات شاقہ سے تنگ آکر بالاخر رخصت پر عمل کرنے  پر مجبور ہوجائےگا۔اور اس صورت میں طلب الکل فوت الکل کا مصداق بن جائے گا۔شریعت کا مقصد یہ ہے کہ ایسے نفلی افراط سے بچنا چاہیے۔جو ترک افضل کرائے۔یا واجب فرائض میں خلل ڈالے۔مثلا کوئی ساری رات نفل پڑھے۔اور آخری وقت مین اس پر نیندغالب آجائے۔اور صبح کی نماز ضائع ہو جائے پس تم افراط تفرط سے بچو اور ریاضت شاقہ سے بچتے ہوئے سہولت اخیتار کرو۔کہ تم اس پر مواظبت اخیتار کر سکو گے اورلوگوں کو مداومت پر اجر جزیل کی بشارت سنائو۔اور کچھ سفر پہلے پہل کر لیا کرو۔اور کچھ پچھلے پہر اور کچھ رات کی تاریخی میں۔

آپﷺ نے عامل کو مسافر سے تشبیہ دی اگر کوئی مسافررات دن چلتا رہے گا۔تواخر تھک جائے گا۔اور اگر کوئی مسافر کچھ دیر آرام کر لے۔اور کچھ دیر سفر کر لے تو وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔اور حضورﷺ کی یہ تشبیح بالکل صحیح ہے۔کیونکہ دنیا سے آخرت کو چلنا بھی ایک سفر ہے۔بخاری شریف میں اس حدیث سے پہلے قیام اور صلواۃ وغیرہ کے فضائل کی حدیثیں بیان ہوئی تھیں۔ان کے بعد امام بخاری اس حدیث کو لاتے ہیں۔کہ اعمال بجا لانے میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔بخاری شریف کی دوسری حدیث یہ ہے کہ اللہ کو پیارا دین وہ ہے۔جس پر عامل ہمیشہ  عمل کر سکے۔اس کا مطلب یہ  ہے کہ انسان ہمیشگی اس عمل پر کرسکتاہے۔جو آسان ہو اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعمال کو دین کہا گیا ہے۔کیونکہ تنگی یا آسانی تو اعمال میں ہی ہوسکتی ہے نہ کہ تصدیق میں او ردوام سےمراد حقیقی نہیں ہے۔کہ ہر وقت عمل ہوتا ہے۔بلکہ اس سےمراد دوام عرفی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے۔اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔آپﷺ نے پوچھا یہ کون عورت ہے۔؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا یہ فلاں عورت ہے۔(یعنی حولااسدیہ)جو رات کو کبھی نہیں ہوتی۔یہ مدینہ میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والی عورت ہے۔تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اس بات کو چھوڑ تم پر ضروری ہے جس کی تم طاقت رکھو۔جب تم اکتا جاتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اکتا جاتے ہیں۔اللہ کو سب سے پیارا دین وہ ہے جو  آسان ہے۔اس حدیث کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہت سے علماء نے استنباط کیا ہے۔کہ تمام رات نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔امام نوویؒ نے کہا کہ تھوڑے عمل کا اجر بسا اوقات ہمیشگی کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔اور زیادہ عمل کا اجر بسبب منقطع ہوجانے عمل کے گھٹ جاتا ہے۔اور اس حدیث میں قرآن کو اس آیت کی طرف اشارہ پایا جااتا ہے۔اور رہبانیت کو انھوں نے از خود بنا لیا تھا۔ہم نے ان پر فرض نہیں کیاتھا۔بالاخر وہ اس کو  نباہ نہ سکے۔یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ عمرو بن العاصرضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عمل سے تھک جاتے تو اس تکرار پر بڑے پیشمان ہوجاتے۔جو انھوں نے آپ ﷺ سے تحقیف عبادت کے متعلق کی تھی۔اور کہتے تھے کہ  کاش میں آپﷺ کی رخصت کو قبول کرلیتا اور اپنے مقرر کردہ عمل میں کبھی کوتاہی نہ کرتا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپﷺ جب ان کو کوئی حکم دیتے تو ایسا ہی حکم دیتے جو لوگوں کی طاقت کے مطابق ہوتا۔اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کو پیارا عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے۔لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ ہم آپ جیسے تو نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے گناہ تو معاف کردیئے ہیں۔آپﷺ سخت ناراض ہوئے۔یہاں تک کے آپ ﷺ کے چہرے پر غضب کے آثار نظر آنے لگے۔پھر آپﷺ نے فرماایا میں تم سب میں سے زیادہ پرہیز گار ہوں۔تم سب سے زیادہ اللہ کو جانتا ہوں مطلب یہ کہ خداوند کا قرب حاصل کرنے کے لئے میری ہدایات کو ملحوظ رکھو۔اپنے اوپر آسان اعمال رکھو۔اور اپنے قیاس سے عبادات شاقہ اختیار نہ کرو۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق ایک الگ باب باندھا ہے۔کہ عبادت میں سختی مکروہ ہے۔اور حدیث بیان کی انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ گھر میں داخل ہوئے اور د یکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہے آپﷺ نے فرمایا!یہ رسی کیسی ہے؟لوگوں نے کہا کہ یہ ذینب کی رسی ہے جب وہ قیام کرتے کرتے تھک جاتی ہے۔تو اس سے اپنے آپ کو باندھ لیتی ہے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا! کہ اس کو کھول دو۔اپنی خوشی تک نماز پڑھنی چاہیے۔جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے کہا کہ میرے پاس بنو ادسد کی ایک عورت بیٹھی تھی تو آپﷺ اندر داخل ہوئے ۔آپﷺ نے پوچھا یہ عورت کون ہےھ۔میں نے  کہا یہ فلاں عورت ہے۔یہ رات کو کبھی نہیں سوتی۔پھر اس کی نماز کا زکر کیا۔آپﷺ نے فرمایا!اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات کو چھوڑدے۔اتنا ہی عمل کیا کرو جتنی تمھیں طاقت ہو۔اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی نہیں اکتاتے جب تک کہ تم نہ اکتا جائو۔اس حدیث سے واضح ہوا کہ عبادات شاقہ مکروہ و خلاف طبع آپﷺ ہیں۔کیونکہ ان پر مداومت دشوار ہے۔امام بخاری و مسلم و باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث لائے ہیں۔کہ تین آدمی آپﷺ کی بیویوں کے پاس آئے۔او رنبی ﷺ کی عبادت کے متعلق سوال کیا جب انہوں نے آپ کی عبادت کے متعلق خبر دی۔تو انہوں نے اس عبادت کو  کم محسوس کیا۔کہنے لگے ہماری آپ ﷺ سے برابری کیسے ہوسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے سارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دییئے ہیں۔توایک نے کہا مین تو ساری رات ہمیشہ نماز پڑھوںگا۔دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھا کروں گا۔اور کبھی افطار نہ کروں گا۔اور تیسرے نے کہا میں ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا۔کبھی نکاح نہ کروں گا۔تو نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے۔اور فرمایا کہ تم  ہی وہ لوگ ہو  جنہوں نے اس طرح کہا ہے۔خدا کی قسم میں تم سب میں سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں۔تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں۔لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اورافطار بھی کرتا ہوں۔اوررات ک نماز بھی پرھتا ہوں۔اورسوتا بھی ہوں۔اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں۔جو شخص میری سنت کو حقیر سمجھے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ ابن الہام صاحب فتح القدیر محشی ہدایہ اور ملا ں علی قاری نے کہا ہے ۔فضیلت نبی کریم ﷺ کی اتباع میں ہے۔نہ اپنے خیال کے مطابق عبادات شاقہ میں جو بظاہر افضل معلوم ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل نبیﷺ کے لئے سب سے اشرف اعمال پسند فرمائے ہیں۔پس جو چیز آپﷺ کے مزاج کے خلاف ہے وہ مردو ہے۔تفسیر نیشا پوری اور معالم التنزیل میں مذکور ہے۔کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے لوگوں کو وعظ فرمایا۔قیامت کا حال بیان کیا لوگوں کی طبععیت نرم ہوئی اور رونے لگے۔تو دس صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  حضرت عثمان بن مظعون جمی کے گھر میں جمع ہوئے یہ آپ ﷺکے رضائی بھائی تھے۔اور آپس میں مشورہ کیا  کہ ان باتوں پر اتفاق کریں۔کہ ہم راہب بن جایئں گے۔موٹے کپڑے پہنیں گے۔اپنے آپ کو خصی کردیں گے۔ہمیشہ روزہ رکھا کریں گے۔اور رات کو قیام کیا کریں گے۔ سویئں گے نہیں روغن اور گوشت نہیں کھائیں گے۔ عورتوں کے قریب نہ جایئں گے خوشبو نہ لگاہیں گے۔زمین میں سیاحت کریں گے۔جب اس بات کی اطلاع آپﷺ کو ہوئی تو پﷺ تو آپ عثمان بن مظعون کے گھر تشریف لے گئے۔ وہ و نہ ملےآپﷺ نے اس کی عورت سے پوچھا کیا جو بات تیرے خاوند اور اس کے ساتھیوں  کے متعلق مجھے پہنچی ہے۔وہ صحیح ہے۔اس نے اپنے خاوند کا راز بتانا بھی صحیح نہ سمجھا۔اور آپﷺ سے غلط بیانی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کہنے لگی یا رسول اللہﷺ اگر آپکو  عثمان نے بتایا ہے۔تو پھر صحیح ہوگا۔آپﷺ واپس تشریف لائے۔پھر جب وہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  آپ ﷺ سے ملے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے تم سے اس طرح ی بات پہنچی ہے۔کیا یہ صحیح ہے۔کہنے لگے ہاں اللہ کے رسولﷺہمارا ارادہ تو بھلائی کا تھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے تو ان باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔تمہاری جانوں کا بھی تم پرحق ہے۔ روزے بھی رکھا کرو اور افطار بھی کیا کرو۔سویا بھی کرو اورنماز بھی پڑھا کرو۔میں قیام بھی کرتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں۔اورافطار بھی کرتا ہوں۔گوشت اور روغن بھی کھاتا ہوں عورتوں سے تعلقات بھی رکھتا ہوں۔جو میری سنت کو حقیر سمجھے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔پھر آپ نے لوگوں کو اکھٹا فرمایا اور خطبہ ارشاد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے۔؟جنھوں نے عورت کھانے خوشبو۔نیز اور خواہشات کو اپنے اوپر حرام کردیا ہے۔میں تم اس بات کا حکم نہین دیتا کہ تم راہب بن جائو۔یہ میرا دین نہیں ہے۔پہلے لوگ بھی اپنے اوپرسختی کر کے ہلاک ہوئے تھے۔پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان  پر سختی کی اور آج گرجوں میں یہ انہی کا بقایا ہیں۔تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔اے ایمان والو!اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت ٹھرائو۔اور زیادتی نہ کرو۔اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔اہل بصیرت جانتے ہیں کہ شریعت کے مصائع وحقائق پر نگاہ رکھنا صرف نبی کا کام ہے۔نہ کہ ولی کا خواہ وہ کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو۔کیونکہ جب آپﷺ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پسند نہ آئی تو دوسرا ان سے بہتر اور کون ہوگا۔قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نے  اپنی کتاب ارشاد الطالبین میں فرمایا ہے۔کہ خواجہ بہاوالدین نقشبند اور ان جیسے بزرگون نے فیصلہ کیا ہے۔کہ جو عبادت سنت کے موافق ہے۔وہ عبادت تزکیہ نفس کے لئے مفید تر ہے۔لہذا بدعت حسنہ سے بھی اس طرح گریز کرناچا ہیے جیسے کہ بدعت سئیہ سے کیونکہ آپﷺ نے  فرمایا ہے ہر بدعت گمراہی ہے۔اور یہ تو ظاہرہے کہ کوئی گمراہی ہدایت تو نہیں ہوسکتی۔پھر حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ کوئی قول اس وقت تک قبول نہیں ہوسکتا۔جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔اور پھر قول و عمل دونوں نیت کے بغیر قبول نہیں ہوتے۔اور پھر قول وعمل اور نیت  تینوں اس وقت تک قبول نہین ہوتے۔جب تک کہ سنت کے مطابق نہ ہوں۔اور جب اعمال سنت کے مطابق نہ ہوں گے توان کو ثواب کیا ملے گا۔اور عبادت شاقہ کو تزکیہ نفس میں کوئی دخل ہوتا تو آپﷺ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کو اس سے منع نہ فرماتےحضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں آیا ہے۔ کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی جانوں پر سختی نہ کرو۔ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی تھی۔سو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی پس آج گرجوں میں انہیں لوگوں کا بقایا ہے۔اگر کوئی سوال کرے عبادات شاقہ وریاضات بدنیہ سے ہم  ترقی مھسوس کرتے ہیں۔مکاشفات اورترقی باطن نصیب ہوتی ہے۔اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔تو ہم کہتے ہیں واقعی ریاضات سے یہ چیزیں نصیب ہوتی ہیں۔لہذا حکمائے اشراقین اور ہندو جوگی ان صفات سے متصف ہیں۔یہ کمالات اہل اللہ کی نظرسے ساقط ہیں۔ان کے نزدیک ان کی قیمت ایک جو بھی نہیں ہے۔کیونکہ نور سنت کے بغیر ذاتی نفس اوروساوس شیطانی کوختم کرنا ممکن نہیں ہے۔واللہ اعلم۔(سید نزیر حسین دہلوی)

پیغمبر خدا علیہ السلام کا صاف صریح صحیح حکم ہوتا ہے۔اور عین اس کے الٹ اور مخالف ایک غیر نبی امتی کا اپنا خیال و قیاس ہوتا ہے۔مگرا یک خوش فہم اورخوانخوار کا مجبور اور بے بس مقلد ارشاد نبوت چھوڑ کر ایک فرد امت کے حکم کوواجب التسلیم سمجھتا ہے۔ایک شاہ ولی اللہ کیا کئی بزرگ اور معتمد امام اس قسم کی تقلید کے انشراح قلب سے مخالف ہیں ۔مثلا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 422

محدث فتویٰ

تبصرے