سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) شادی بیاہ میں راگ رنگ اور تماشہ آتشبازی اور زیب وزینت جائز ہے یا حرام؟

  • 3663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2144

سوال

(94) شادی بیاہ میں راگ رنگ اور تماشہ آتشبازی اور زیب وزینت جائز ہے یا حرام؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

سوال۔شادی بیاہ میں راگ رنگ اور تماشہ آتشبازی اور زیب وزینت جائز ہے یا حرام؟

2۔ان کا ارتکاب کرنے والے کیسے ہیں؟

3۔ایسی مجلسوں میں مسلمانوں کو شریک ہونا جائز ہے کہ نہیں اگر کوئی نادانستہ چلا جائے تو پھر ا س میں شامل ہے۔یا واپس آجائے۔؟

4۔اگر کوئی مولوی یا پیر ایسی مجلس  میں چلا جائے کہ لوگ اس کی سند لیتے ہوں اور اس سے دلیل طلب کی جائے اور وہ جواب میں کہے کہ اس کی دلیل خود میری زبان ہے۔ایسا آدمی کیسا ہے؟اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے یانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی میں راگ رنگ اور آتشبازی وغیرہ منع ےہ عقبہ بن عامر نے آپﷺ کو فرماتے  سنا۔ اللہ ایک تیر کی وجہ سے کئی آدمیوں کو جنت میں داخل کرتے ہیں۔اس میں یہ  بھی ہے کہ تمام کھیل ناجائز ہیں۔سوائے  تیر اندازی او ر گھوڑے کو کرتب سکھانے اور اپنی بیوی سے کھیلنے کے کہ یہ تینوں کھیل جائز ہیں۔شاہ عبد العزیز نے اپنی تالیفات میں ممنون رسوم کے ضمن میں لکھا ہے کہ آتشبازی کرنا ۔

دولہا کو گھوڑے پر سوار کرا کے شہر کے گرد چکر لگوانا منع ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

''ان لوگوں کی طرح نہ ہونا  جو اپنے گھروں سے فخر اور ریا کی نیت سے نکلے باجے بجاتا دیواروں پر  کپڑے لٹکاتا۔اجنبی عورتوں کا دولہا کے پاس آکر باتیں کرنا اس کے ناک کان مروڑنا۔اور دلہن کے جسم پر شیرینی رکھ کر دولہا کو کہنا کے اسے اپنے منہ سے اٹھائو۔اور خلوت کے وقت دولہا دلہن کو عورتوں اور مردوں کا گھیر لینا سب حرام بدعات ہیں۔''

مولانا محمد اسحاق دہلوی نے اپنے رسالہ اربعین میں لکھتے ہیں۔آتش بازی اسراف ہے۔اور اسراف حرام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔اور شیطان اپنے رب کا نافرمان ہے۔

2۔ان کے مرتکب بدعتی فضول خرچ اور گناہ گار ہیں۔

3۔ایسی مجلسوں میں خواہ وہ ولیمہ ہی کیون نہ ہو۔تمام مسلمانوں کا خواہ وہ مقتدا ہوں۔یا دوسرے عوام میں شامل ہوں۔ جائز نہیں ہے۔اگر نادانستہ چلے جایئں تو واپس آجایئں۔

مسائل اربعین میں ہے۔اگر گرجانے سے پہلے علم ہوجائے تو نہ جائے اور اگر جانے کے بعد وقوع میں آجائیں تو اگر معتقد ہو اور روک سکتا ہو تو رولے اور دعوت ولیمہ میں شامل ہو۔اگرعام آدمی ہو روک نہ سکتا ہو۔تو وہ یک بدعت کے لئے سنت نہ چھوڑے۔ شرح وقایہ مین بھی ایسا ہی لکھا ہے۔اور مثال دی ہے کہ جیسے کوئی جنازہ پڑھنا جس کے ہمراہ کوئی نوحہ کنے الی ہو  نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔لیکن عامی کو بھی ایسی چیزوں کو دل سے برا  سمجھنا چاہیے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔احناف کا یہی مذہب ہے۔

ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسی بے ھودگی ہو جس میں اختلاف ہے۔تو اس میں حاضر ہونا جائز ہے۔اور نہ جانا بہتر اور اگر حرام  ہے مثلا شراب نوشی تواگر اس کو روکنے کی طاقت ہو و ضرور جا کر روکے۔اور اگر روک نہ سکتا ہو۔تو شافعیہ کا مسلک یہ ہے۔کہ جائے اور حسب طاقت انکا ر کرے۔اور اگر نہ جائے تو بہتر ہے عراق کے شافعی اسی کے قابل ہیں۔سرد کے شافعی کہتے ہیں۔ کہ ہرگز نہ جائے اور اگر علم نہ ہو و چلا جانے جانے کے بعد وقوع میں آئے تو اس پر انکار کرے۔ورنہ واپس آجائے۔

آپﷺ نے فاسق کے گھر کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔نسائی کی روایت میں ہےکہ جو آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو۔وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب نوشی ہو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں۔کہ میں نے ایک دفعہ آپﷺ کے لئے کھانا  تیار کیا آپﷺ نے گھر میں تصویرین دیکھیں تو واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے روکنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا نبی تصویر والے گھروں میں داخل نہیں ہوسکتا۔

ابو مسعود  کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ کی دعوت کی اور آپ نے پوچھا اس گھر میں تصویریں ہیں۔ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا تصویریں تور پھوڑ دو گے تو میں آجائوں گا۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ابو ایوب کی دعوت کی انہوں نے گھر کی دیواروں پر پردے دیکھے تو روٹی کھائے بغیر واپس آگئے۔اور کہا آپ سے یہ توقع نہ تھی۔انہوں نے کہا عورتوں نے زبردستی لٹکا دیئے کہنے لگے آپ سے یہ امید بھی ن تھی۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ مروزی شوافع کا عمل درست ہے۔قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔کہ یاد آجانے کے بعد ظالم کے ساتھ نہ بیٹھو ۔واللہ اعلم۔

4۔ایساآدمی فاسق ہے۔اگرکوئی اتفاقی نماز اس کے پیچھے پڑھ لی جائے تو ٹھیک ہے۔ورنہ ایسے آدمی کو امام نہیں بنانا چاہییے۔واللہ اعلم (کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارک پوری ۔سید محمد نزیر حسین۔فتاوی نزیریہ ص14)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 355-359

محدث فتویٰ

تبصرے