سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) کیا رسولﷺ کی اطاعت وقتی ہے۔؟

  • 3652
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2825

سوال

(80) کیا رسولﷺ کی اطاعت وقتی ہے۔؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا رسولﷺ کی اطاعت وقتی ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کا صحیح مختصر اور سادہ جواب یہ ہے کہ اگر اطاعت کے متعلقات  وقتی ہیں تو اطاعت بھی وقتی ہے اور اگر اطاعت کے متعلقات غیر وقتی ہیں تو اطاعت بھی غیر وقتی ہے۔مثلا اگررسول ﷺ کی رسالت بھی وقتی ہے جس کی بنا پر اطاعت مطلوب ہے اگر قرآن کریم اس کے مندرجات اور اس کے اوامر و نواہی وقتی ہیں۔جن کو رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے اور اجن کی وجہ سے وہ رسول کہلائے۔اگر دین اسلام وقتی ہے  جس کی تکمیل رسول اللہﷺ نے قرآن کریم اور اپنے اسوہ حسنہ سے فرمائی اور جس کی تسلیم و  تعمیل کا دوسرا نام اطاعت رسول ﷺ ہے اگر مومن اور مسلم کا وجود وقتی ہے جس کی ذات سے اطاعت رسول کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جو اس کا براہ راست مکلف ہے تو پھر اطاعت رسول بھی وقتی ہے اور اگر یہ چیزیں وقتی نہیں بلکہ دائمی ہیں۔تو اطاعت رسول بھی غیر وقتی اوردائمی ہے۔ یہ بات اتنی صاف اور روشن ہے۔کہ معمولی عقل کا آدمی بھی اس سے انکار نیں کر سکتاآیئے ان امور پر قرآن کریم کی رہنمائی میں غور کریں۔فرمایا۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔

(سورۃ فرقان) ترجمہ۔وہ ذات بابرکت ہے جس نے اپنے بندے رسول  پر فرقان قرآن کریم نازل فرمایا کہ وہ بندہ رسول ﷺ عالمین کو عذاب  الٰہی سے ڈرائے۔ظاہر ہے کہ کسی چیز سے ڈرانے سے مقصود یہی ہوا کرتا ہے کہ اس کے اسباب اس کی صورت و شکل اور اس کے نتائج سے با خبر ہوکر اس سے اجتناب کے طریقوں کی واقفیت کا کوئی دوسرا ذریعہ ہی نہیں اس آیت کریمہ میں رسول کے فعل انزار کو للعلمین سے متعلق فرمایا کہ جو عالم کی جمع ہے اور پھر اس عالمین کو کسی عددد معین یا وقت مخصوص سے متعین نہیں فرمایا بلکہ علی الاطلاق عام رہنے دیا یعنی جب تک عالمین موجود رہیں گے رسول ﷺ کا عمل انزار بھی موجود رہے گا۔معلوم ہوا کہ آج بھی عالمین موجود ہیں۔اور  قیامت تک موجود درہیں گے۔دوسری جگہ فرمایا۔۔۔قرآن۔

(اے رسول ﷺ علی الاعلان ) کہہ دیجئے اے انسانوں میں تم  سب کی طرف اللہ کا رسولﷺ ہو کر آیا ہو۔اس ارشاد میں اللہ تعالیٰ نے ر سول اللہﷺ کی رسالت کو الناس کے لئے بیان فرمایا اور الفاظ جمیعاً سے الناس کے عموم کی تاکید فرمادی۔یعنی کل انسانوں کی طرف لفظ ناس اور انسان مترادف ہیں جو بھی شخص انسان یا ناس کا فرد کہلاتا ہے۔خواہ وہ کسی بھی وقت یا زمانہ میں ہوں رسول کی رسالت کا اس سے تعلق ہوگا اور وہ اس دعوت  کا مخاطب ہوگا۔قرآن کریم نے لفظ الناس اور جمیعاً کو سکی زمانہ یا وقت سے مخصوص نہیں فرمایا اگر آج ناس اور انسان موجود ہیں اور یقیناً موجود ہیں تو رسول کی رسالت کا ان سے بھی ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ان انسانوں سے تھا۔جن کی موجودگی میں یہ آیت نازل ہوئی ان میں تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔

نکتہ

پہلی آیت فعل لیکون کے ضمیر فاعل کامرجع فرقان اور عید دونون ہوسکتے تھے اور فی الحقیقت دونوں نزید ہیں۔اس لئے وحدت ضمیر اوراثنیت مرجع ایصاح مطلب کے لئے صحیح تھا ان پر اکتفا کیا گیا لیکمن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ آخر زمانہ میں مسلمانوں میں اییک جماعت پیدا ہوگی  جو صرف قرآن کریم کی اطاعت کو کافی سمجے گی اوررسول کی اطاعت کی منکر ہوگی اس لئے وہ اس ضمیر فاعل کا صرف فرقان قرار دے کر عبد (رسولﷺ) کی اطاعت سے انحراف کی راہ نکالنے کی کوشش کرے گی۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس دوسری آیت میں اپنے ر سول ﷺ کی رسالت کی بتغیر الفاظ اسی انسانی عموم سے متعلق ہونا زکر فرما کر اس  فساد کا ہمیشہ کے لئے سد باب کردیا۔

ترجمہ۔اللہ کی اطاعت کرو۔اور رسولﷺ کی اطاعت اوران دونوں کی نا فرمانی سے بچتے رہو۔۔۔قرآن۔۔۔۔

ترجمہ۔اللہ کی اطاعت کرو۔اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اگر تم نے اطاعت سے منہ پھیر لیا تو (حرج نہیں)ہمارے رسول ﷺ کا فرض تو صرف پہنچانا ہے۔اللہ رتعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی بہت سی حیثیتیں اورفرائض بیان کیے ہیں۔آپ بشیر و نزیر بھی ہیں۔معلم کتاب و حکمت بھی ہیں مزکی اور متمم مکارم اخلاق بھی ہیں حاکم بھی ہیں۔امر مطلق بھی ہیں۔اور صدر شورائیہ۔(جمہوریہ) بھی ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی اطاعت کا مطالبہ  ان حیثیتوں میں مطالبہ صرف آپ کی حیثیت رسالت و نبوت پر  کیا ہے۔قرآن کریم میں جا بجا یہی حکم ملتا ہے۔۔۔قرآن۔۔۔اس رسول کی اطاعت کرو۔۔۔قرآن۔۔۔جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔۔۔قرآن۔۔۔جو لوگ اس رسول نبی امتی کی اتباع کرتے ہیں(ان پر اللہ کی ضرور رحمت ہوگی)آپ جہاں بھی قرآن کریم میں اطاعت کا حکم پایئں گے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے متعلق پایئں گے۔یہاں  تک کہ اولی الامر کی اطاعت کو بھی ان کی اطاعت کے تحت رکھا ہے۔جیسا کہ آئندہ آئے گا۔جب اطاعت رسول کی بنیاد  رسالت اور نبوت کی حیثیت ہے تو ظاہر ہے کہ جب تک  رسول ﷺ کی یہ حیثیت قائم اور بحال رہے گی اطاعت رسولﷺ کا مطالبہ بھی قائم رہے گا۔

تنبیہ

اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ ﷺ کی رسالت وقتی تھی۔اور آج محمد رسول اللہ ﷺ کی حیثیت رسالت بحال اور قائم نہیں اگر نہیں تو آج آپﷺ کی رسالت پر ایمان اور یقین رکھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔اس صورت میں رسول اللہﷺ کی رسالت   کے منکر اور اسے تسلیم کرنے والوں میں کوئی امتیاز اور فرق اسلام کی نظر میں قائم نہیں رہتا جب رسولﷺ کی حیثیت رسالت ہی موجود نہیں تو اسے تسلیم کرنے کا کیا معنی؟

اس حالت میں آج دنیا میں اسلام کے نام پر جو کچھ بھی عمل میں آرہا ہے۔خواہ وہ منکرین حدیث کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔سب بے سود اور بے ہودہ ٹھرتا ہے۔(معاذاللہ) اور اگر آپ کی حیثیت رسالت بحال ہے تو مطالبہ اور اطاعت بھی  بحال ہے۔

نکتے۔

رسول اللہ ﷺ کی تمام دوسری حیثیتوں کو نظر انداز کر کے اطاعت رسولﷺ کے  مطالبے کو صرف رسالت کی حیثیت سے ہی مخصوص کر دینے کی کئی وجوہات ہیں۔اول یہ کہ آپ ﷺ کی جتنی بھی حیثیتیں ہیں۔حیثیت رسالت ان سب پر حاوی اور شامل ہے۔اوررسالت کی اطاعت کا مطالبہ رسول ﷺ کی تمام حیثیتوں اور فرائض میں اطاعت کے مطالبہ کا متن اگر رسول کی اطاعت کسی دوسری حیثیت سے طلب کی تو ممکن تھا کہ بعض منکریں اطاعت  رسولﷺ اس حیثیت کے علاوہ رسول ﷺ کی دوسری حیثیتوں میں اس کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں۔اور اطاعت رسول ﷺ کی اسی حیثیت سے مخصوص قرار دے لیتے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض دوسری حیثیتں بھی وقتی تھیں۔لیکن رسالت حیثیت وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے اس لئے جب  تک رسول ﷺ کی حیثیت رسالت قائم ہے۔رسول کی اطاعت کا مطالبہ بھی قائم ہے۔چونکہ رسولﷺ کی یہ حیثیت ابدی اور قیامت تک ممتد ہے رسولﷺ کی اطاعت کا مطالبہ بھی قیامت تک ممتد ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ رسالت کے علاوہ رسول ﷺ کی دوسری حیثیتیں آپ میں اور آپ ﷺ کے بعد آنے والے مسلمانوں میں مشترک ہیں۔اگر کسی اور حیثیت کی بنا پر اطاعت ر سولﷺ کا مطالبہ کیا جاتا تو بعد میں آنے والے آپ کے جانشین اپنے کو مطاع مطلق قرار دینے کے لئے راہ پیدا کرلیتے۔مثلا ہر معلم۔ہر حاکم۔پر سپہ سالار۔ہرصدر۔ہر آمر ۔رسول اللہ ﷺ کی جانشینی میں اپنے کو مختار مطلق اور مطاع الاطلاق سمجھ لیتا۔جیسا کہ آج کل اطاعت رسول ﷺ کے منکر سربراہ حکومت کو مرکز امر  سمجھ کر مطاع اور مختار مطلق قرار دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو چونکہ ان حوادث کا پہلے سے علم تھا اس لئے اس نے مطالبہ اطاعت کو حیثیت رسالت پر مبنی قرار دیا۔کیونکہ رسالت میں آپ کا کوئی شریک نہیں اسی لئے آپ ﷺ کی طرح کوئی دوسرا فرد مطاع مطلق او مختار علی الاطلاق نہیں بن سکتا اسی وجہ سے بعض لوگوں نے مطاع او مختار مطلق بننے کے لئے ر سالت اور نبوت کے دعوے کے ہیں لیکن معلوم ہے کہ رسالت اور نبوت کے اختتام اور تکمیل اور ان میں شرکت غیر کے ناممکن ہونے کی وجہ سے ان کو ناکام ہونا پڑا اور وہ دجال کہلائے فرمایا۔۔قرآن۔۔

ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے صرف اسی لئے بھیجا ہے۔کہ اس کی اطاعت کی جائے رسول کو بھیجنے سے اطاعت رسول کے سوا ہمارا کوئی اور مقصد نہیں۔معلوم ہوا کہ رسالت سے مقصود حقیقی صرف اطاعت رسول ہی ہے اگر رسول کی اطاعت تسلیم اور اختیار نہہیں کی جاتی۔تو رسول کی رسالت کو تسلیم کرلینے کی کوئی وقعت نہیں منافقین کا دعوئی تھا۔۔۔قرآن۔۔۔۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ضرور ضرور اللہ کے رسولﷺ ہیں۔لیکن قرآن کریم بتلاتا ہے۔۔۔۔قرآن۔۔۔اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے۔کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔اس لئے کہ وہ رسول ﷺ کی اطاعت کو تسلیم نہیں کرتے۔اور نہ اسے ضروری سمجھتے ہیں۔یہاں رسالت رسول ﷺ کے اقرار کے بعد اطاعت رسول ﷺ سے انکار کو نفاق جو کہ بد تر اور کفر ہے قرار دیا۔۔۔قرآن۔۔۔

ترجمہ۔منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔اور تم ان کے لئے کوئی مدد گار نہ پائو گے۔''اس سے ٖظاہر ہے کہ آج سے سو سال یا ہزار سال بعد بھی اگر کوئی شخص محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد ان کی  اطاعت کو تسلیم کرتا تو وہ ویسا ہی منافق ہے جیسے منافق وہ لوگ ہے جن سے متعلق یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔اطاعت رسولﷺ کو وقتی قرار دینے والے کا مقصد ہی یہ ہے۔کہ آج رسول ﷺ کی اطاعت پر ان کو عمل پیرا نہ ہونا پڑا اور یہی اطاعت  رسول کا انکار ہے جو لوگ آج رسول اللہﷺ کی رسالت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہونے کے مدعی ہیں۔ان کو اس انکار اطاعت رسول کی راہ صاف کرنے کے لئے اطاعت رسول ﷺ کو وقتی قرار دینے سے پہلے اس کے نتائج پر غور رکھ لینا چاہیے۔

ثابت ہوا کہ جو بھی رسالت پر ایمان لائے۔اس پر اطاعت رسول فرض ہے۔خواہ کسی وقت اور زمانہ میں ہو۔ اطاعت رسولﷺ کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے نہ کہ وقت سے۔

نکتہ۔

اللہ نے اس آیت کریمہ میں الفاظ باذن اللہ بڑھا کر منکرین حدیث ک ان ہفوات اور شبہات کو رد کر دیا کہ اطاعت رسول شرک ہے۔یا اطاعت غیر اللہ ہے وغیرہ وغیرہ اطاعت غیر اللہ اس وقت حرام اورشرک  ہوسکتی ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے ازن اور حکم کے بغیر ہو۔یا اس حکم کے خلاف ہو جیسے دوسری جگہ فرمایا۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔

جو اطاعت اللہ تعالیٰ کے حکم ازن کے ما تحت ہواسے حرام اور شرک قرار دینا اسی جماعت کے علم و فضل کا کام ہے۔تعجب ہے کہ یہ لوگ اولیٰ حاکم کے حکم کی نافرمانی تو مرکز حکومت کی نافرمانی اور حکم عدولی تسلیم کر لیتے ہیں۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت جو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم او ر ازن سے ہے اس  کی مخالفت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور حکم عدولی تسلیم نہیں کرتے۔یعنی ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حکم اور ازن کی نسبت مرکز حکومت سے زیادہ وقیع اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نسبت سربراہ حکومت کی اطاعت زیادہ قابل اہتمام ہے مرکز حکومت جس کی اطاعت کا حکم دے۔اس کی اطاعت فرض ہے۔اور اللہ تعالیٰ جسکا حکم دے۔جس کی اطاعت حرام اور شرک ہے۔

اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے  رسولﷺ کی اطاعت کرو۔اور اپنے اعمال اور کوشش ضائع نہ کرو۔

معلوم ہوا کہ جو عمل اور کوشش اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں نہ ہو وہ ضائع ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہا  ں مقبول نہیں اس لئے اس پر کسی موعودہ نتیجہ یا ثمرہ کا مرتب ہونا ضروری نہیں ہے۔خواہ وہ عمل دینی ہو یا دنیاوی اللہ تعالیٰ جہاں کہیں بھی اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے۔۔۔۔قرآن۔۔۔کے خطاب سے یعنی ایمان والوں کو دیا ہے۔اور ان ایمان والوں کو کسی وقت یا زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں کیا اور نہ کسی مقام اور محل کے ساتھ اس لئے جب تک اور جہاں بھی ایمان والے پایئں جایئں۔وہ اطاعت رسولﷺ کے مکلف ہیں۔اطاعت رسولﷺ کو وقتی کہنے والے غور فرمایئں کہ وہ قرآن پاک کی بھی وقتی اطاعت کے قائل ہیں یا دوامی کے اگر اس کی اطاعت کو اب بھی فرض سمجھتے ہیں۔تو فرمایئں کہ وہ اپنے آپ کو۔۔۔قرآن۔۔کا مخاطب اور ایمان والوں میں داخل قرار دیتے ہیں۔یا نہیں۔اگر جواب اثبات میں ہے تو قرآن کے حکم وامر ۔۔۔قرآن۔۔۔۔کی  تعمیل ان کافرض ہے۔اور اگرجواب نفی  میں ہے تو ہم ان کو قرآن کریم کے الفاظ میں دعوت دیتے ہیں۔۔۔قرآن۔۔۔ترجمہ اے ایمان  کے مدعیو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس سے رسول کو بھی مانو ۔غرض یہ ہے کہ جب تک مومن اور مسلم موجود ہیں۔

رسول ﷺ کے زمانے میں یا آج کل یا قیمات تک ان پراطاعت رسول ﷺ غرض ہے۔ کیونکہ قرآن کریم ان  کو براہ راست اطاعت رسولﷺ کا حکم دے رہا ہے۔مومن کوئی وقتی چیز نہیں ان کے عدم کے وقت اطاعت رسولﷺ کا حکم بھی معدوم ہو جائے فرمایا!۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔۔

جو کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ پائے گا۔''

اس آیت کریمہ میں لفظ من عام ہے۔جو کوئی بھی ہو اس پر اسلام کی پابندی اوراطاعت لازم ہے اسلام کی نسبت دوسری جگہ فرمایا!۔۔۔قرآن۔۔۔

ترجمہ۔یعنی  تہمارا دین کامل کردیا تم پر اپنی نعمت دین پوری کردی۔اورتمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا۔''

ظاہر ہے اس آیت کریمہ کے مخاطب مسلمان اور مومن ہیں۔اور ان کے لئے دین اسلام اللہ تعالیٰ کا تجویز کردہ اور پسند کردہ دین ہے۔اور یہ دین کامل ہے جس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں۔اب دیکھئے دین اسلام کیا ہے۔اسلام تین چیزوں کا مجموعہ ہے۔1۔قرآن کریم کے الفاظ۔2۔اس کا مفہوم۔3۔اس کے احکام پر عمل کرنے کا طریقہ۔

پہلی دو چیز کو قرآن پاک نے وحی قرار دیا ہے اور اس پر لفظ نطق (قول) اطلق فرمایا ہے۔جو کہ قرآ ن کریم کے الفاظ اورالفاظ کی بتین  تشریح میں نبوی اقوال سب پر حاوی اور شامل ہے۔۔۔قرآن۔۔۔۔

آپ کا نطق با الفاظ قرآن یا اس کی تفسیر میں قرآن کریم کے نزدیک دونوں وحی ہیں تیسری چیز جو امر اصطلاح محدثین میں رسول اللہ ﷺ کا فعل اور تقریر کہلاتی ہے۔قرآن کریم نے اسے اسوہ حسنہ کا نام دیا ہے۔۔۔قرآن۔۔۔۔

ان  تینوں چیزوں کا مجموعہ اسلام کہلاتا ہے۔اب غور فرمایئے کہ قرآن کریم اور اس کا مفہوم وقتی چیزیں ہیں۔یا اس پر عمل کرنے کا طریقہ یعنی اسوہ حسنہ وقتی چیز ہے۔یا ان تینوں کا مجموعہ یعنی دین اسلام وقتی چیز ہے۔اگر یہ سب چیزیں وقتی نہیں تو ان کی تعمیل او ر پابندی کا اختیار کرلینا۔جو کہ عین اطاعت رسولﷺ ہے۔کیسے وقتی ہوسکتا ہے۔اطاعت رسول کے الفاظ ہیں۔لفظ رسول سےمراد رسول کے امور بدنی و جسمانی تو نہیں ہیں۔بلکہ اس سے رسول کا نطق(قول)اور اعمال ہی مراد ہیں۔خواہ وہ اعمال آپ کی ذات سے صادر ہوںیا کسی دوسرے شخص سے صدور کے بعد آپ سے سند جواز و قبول حاصل کرلیں۔جیسا کہ قرآن پاک نے ان کو وحی اور اسوہ حسنہ قرار دیا تو اس حالت میں اطاعت رسول ﷺ کو وقتی کہنے کا صاف صاف مطلب یہی ہے۔کہ یہ وحی اور اسوہ حسنہ ایک وقتی چیزیں تھیں۔اوران کی اطاعت بھی وقتی چیز تھی۔منکرین حدیث کا مقصد بھی یہی ہے بلکہ ان کے وام علی الاعلان اظہار کی جرات نہیں رکھتے لیکن خواص اور جرمی آدمی مختلف الفاظ میں اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ قرآن اور اسلام وقتی چیزں ہیں معاذاللہ

نکتہ

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لکم سے مخاطب فرما کر اسوہ حسنہ کی اطاعت پرترغیب دینے کے بعد الفاظ اور بڑھادیئے فرمایا!۔۔۔قرآن۔۔۔۔ان الفاظ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونا اگرچہ تمام مسلمانوں سے مطلوب ہے تاہم عملا اسے وہی لوگ اختیار کریں گے جن میں یہ تین صفتیں موجود ہوں گی۔

1۔اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کرجوابدہی کا یقین

2۔آخرت میں اپنے اعمال پر جزاوسزا پانے پر ایمان

3۔اللہ تعالیٰ کی ہر وقت کی یاد جس سے ان کا للہ کے ساتھ امیر اور خوف کا تعلق قائم رہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے جولوگ رسول ﷺ کو واجب الاطاعت نہیں سمجھتے یا اس کی اطاعت کو وقتی تسلیم کرتے ہیں۔وہ ان تینوں صفات سے خالی ہیں۔جب آپ اس قسم کے لوگوں کی عام حالت پر غور کریں گے۔ تو آپ اس میں رائی برابر فرق نہ پایئں گے۔رسول کی اطاعت وقتی ہے۔کے الفاظ میں وقتی مجمل ہے۔ہو سکتا ہے وقتی سےمراد رسول ﷺ کی دنیوی زندگی ہو۔جب تک رسول اللہﷺ دنیا میں موجود رہے آپ ﷺ کی اطاعت فرض تھی۔جب آپ ﷺ دنیا سے رحلت فرماگئے آپﷺ کی اطاعت فرض نہ رہی۔منکرین حدیث کے مسلک کے اعتبار سے یہی معنی مرادمعلوم ہوتاہے۔اس لئے کہ وہ رسول کی اطاعت کو بحیثیت مرکزحکومت با الفاظ دیگر سربراہ حکومت تسلیم کرتے ہیں۔ نہ بحیثیت رسالت اور رسول کی اطاعت کو دوسرے ارباب حکومت کی اطاعت پر قیاس کرتے ہیں۔جب دوسرے مراکز حکومت کی اطاعت صرف ان کی زندگی تک محدود ہے۔توا ن کے نزدیک کوئی وجہ ہے کہ رسول کی اطاعت اس کے بعد بھی فرض ہو۔یہ نظریہ جہالت اور ضلالت کا نتیجہ ہے۔اول تو قرآن کریم نے اطاعت ﷺ کا مطالبہ بحیثیت رسالت رسول کیا ہے۔نہ کہ بحیثیت مرکز حکومت ر سالت کے مقام کو مرکز حکومت قرار دینا اور رسالت حکومت کو ایک مرتبہ پرکھنا دین اسلام سے بہت بڑی جہالت لغت میں تصریف بے جا اورعلم لغت سے لاعلمی ہے۔دوسرا دنیا میں کوئی  بھی ایسا رسول نہیں گزرا جس کی اطاعت صرف دنیاوی زندگی تک محدود رہی ہو۔تیسرا ابتدائے اسلام سے آج تک مسلمان اس امر پر متفق چلے آتے ہیں۔کہ قیامت تک ہر انسان کہلانے والے فرد پر محمد رسول اللہﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ ایسے مقفق علیہ مسئکہ سے انحراف و انکار بلا دلیل شرعی سب سے بڑی ضلالت ہے۔یہ بھی ممکن ہے سوال میں لفظ وقتی سے سائل کی مراد کچھ ممتد زمانہ ہویعنی اس وقت تک اطاعت رسول فرض ہے۔ جب کہ دوسرا رسول آئے اور اس کی اطاعت فرض ہو۔جیسا کہ انبیاء بنی اسرائیل کی نسبت مشہور ہے۔لیکن محمد رسول اللہﷺ کی نسبت اس قسم کی وقتی اطاعت  تسلیم کرنے کی بھی گنجائش نہیں اس قسم کی وقتی اطاعت کی بنیاد پہلے رسول کی تعلیم کے فقدان اور دوسرے رسول کی آمد کی بشارت پر مبنی ہے اور یہاں دونوں چیزیں مفقود ہیں محمد رسول اللہﷺ خاتم النبین ہیں۔ان کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں دین اسلام کامل اور محفوظ ہے۔اس کے معنی ومفہوم محفوظ اس پر عمل کی کیفیت محفوظ بلکہ جس ماحول میں قرآن کریم نازل ہوا وہ ماحول اور اس کا ملحق ماضی بھی محفوظ ہے اوران شاء اللہ ۔مستقبل بھی تا قیامت مھفوظ رہے گا۔ان حالات میں اطاعت رسولﷺ کو وقتی قرار دینے کا باعث خواہش پرستی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔اطاعت رسول چونکہ اتباع ھوا سے مانع ہے اس  لئے ھوا پرستوں کے نزدیک اس کاترک ضروری ہے۔

ترک اطاعت رسولﷺ کے اسباب

مثال کے طور پر زرا غور فرمایئے۔کتنا عجیب اور پر ہیچ ہے ایک  شخص مرکز حکومت کے تخت پر اجمال ہے اا سے نہ قرآن کریم کا علم ہے۔نہ حدیث نبویﷺ کی خبر۔نہ نماز روزہ نہ حج سے واسطہ نہ ذکواۃ سے نہ توحید و رسالت پر ایمان ہے نہ آخرت کی جزا و سزا پر یقین شراب کا رسیا ہے۔زنا کا دلدادہ ہے۔جوا پر لٹو عیش وعشرت میں مست رعایا کی جان مال عزت اورتکلیف و آرام کا نہ اسے خیال ہے نہ ان کی پروا خزانہ کو اپنے باپ دادا کی جاگیرسمجھتا ہے۔ہزاروں ماہوار اور لاکھوں سالانہ جیب میں ڈالتا ہے۔غیر مسلم حکمرانوں کی اطاعت اور کفش برداری اس کا فرض منصبی ہے اور ہر عیاشی میں ان کی نقل اُتارنا اس کا منتہاہئے نظر اس پر مستز اد یہ کہ وہ ان تمام گندگیوں کو ملک میں رائج کرنا چاہتا ہے۔اور اس کے  مختلف اسباب وزرائع عمل میں لاتا ہے۔اب خوش قسمتی سمجھیے یا بد قسمتی کے مرکز حکومت خود مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہے اس  کی رغبت مسلمان واقع ہوئی ہے۔جس کا عقیدہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے جن میں مرکز حکومت بھی شامل ہے۔قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی ااطاعت فرض ہے۔یہ رعایا جب سربراہ حکومت کے اعمال و افعال کودیکھتی ہے۔ تو اس کے دل میں مرکز حکومت سے نفرت پیدا ہوتی ہے وہ مرکز حکومت سے ان کے افعال کے  ترک اور احکام اسلام کے مطابق اصلاح نفس کے مطالبہ کرتی ہے۔دوسری طرف سربراہ حکومت محسوس کرتا ہے کہ رعایا خدا پرست اوراطاعت رسولﷺ کی  پابند ہے۔اس لئے ممکن ہے کہ وہ میری موجودہ حالت سے متاثر ہوکر میری اطاعت سے ہی منحرف ہو جائے۔اور تخت حکومت سے اتار پھینکے وہ اپنے جاہ منصب کی حافظ اپنے رعب اوروقار کے بقاء اوراپنی اطاعت کے اسحتکام کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیتا ہے اور چونکہ وہ ابتداء سے ہی یہود و نصاریٰ میں تربیت یافتہ اور علماء یہود و نصاریٰ کا تعلیم دادہ ہے۔وہ اپنے اساتذہ اور آقائوں سے اعانت و مدد طلب کرنا ہے۔یہود و نصاریٰ اور ان کے علماء تو تخریب اسلام کے شائق اوردلدادہ ہیں۔ہی جھٹ اپنے خزنوں اورلشکر سمیت ان کی مدد کوپہنچے۔اور ریسرچ اسلام کے رنگ میں تحریف اسلام کا کھیل شروع کر دیتے ہیں کہیں انکار حدیث کا مشٖغلہ اختیار کیا جاتا ہے اور کہیں رسول ﷺ کی حیثیت پر بھث کی جاتی ہے۔کہیں اس کی اطاعت کو  ٹھرایا جاتا ہے۔اور کہیں اس کی اطاعت ک وقتی بتا کر اسلام کے حلقہ سے گردان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔قرآن سے انکاراول تو ناممکن ہے۔دوسرا اسلام  کے مطالب حسب خواہش بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن رسول کی تفسیر اور تشریح نہ توقرآ ن کریم میں تھریف کی گنجائش باقی رہنے دیتی ہے اور نہ خواہشات نفسیانہ کو چلنے دییتی ہے۔اس لئے اس پورے مسلم اور غیر مسلم گروہ کا نزلہ رسول اور اس کے اسوہ حسنہ پر گرتا ہے۔اور اس تمام گہراہی اور ضلالت کو قرآن کے نام پر پیش کیا جارہا ہے۔اس کے نتیجے میں مرکز حکومت کو اولی الامر بنا کر اس کی اطاعت فرض قرار دی جاتی ہے۔اوررسول کو اس کے مرتبہ رسالت سے گر ا کر ایک چھٹی رساں یا وقتی  حکمران کہہ کر اس کی اطااعت سے انکار کردیا جاتا ہے۔اور اس کی اطاعت کو شرک ٹھرایا جاتا ہے۔یہ ۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔کیسا صحیح نمونہ ہے آپ موجودہ اسلامی حکومتوں کے سربراہوں کے حالات پر غور فرمایئں گے۔تو  ان میں سے اکثر کے حالات اسی طرح پایئں گے۔قرآن۔۔۔۔۔۔

پہلی آیتوں کی طرح اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم ایمان والوں کو ہی دیا ہے۔اوراسی اطاعت کا مطالبہ رسول کی حیثیت رسالت ہی کی بنا پر کیا ہے۔نہ کہ اولیٰ الامر یا مرکزی حکومت یا سربراہ حکومت کے اعتبار سے بلکہ اطاعت رسول ﷺ کے حیکم کے بعد سربراہ حکومت کی اطاعت کا عیحدہ مطلابہ کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ جب تک مومن موجود ہیں۔اور جب تک رسولﷺ کی رسالت بحال ہے اس کی اطاعت مطلوب اورمامور یہا ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ اطاعت  رسول الگ چیز ہے۔اس کے بعد دو چیزیں ایسی زکر فرمائیں۔جو اطاعت رسول اور اطاعت اولی الامر  کے درمیان حد فاصل ہے۔اول یہ کہ رسول ﷺ سے  اختلاف اور نزاع جائز نہیں۔اس  لئے کہ اسے اگلے جملے میں اسے حکم قرار دیا ہے۔حکم کے ساتھ نزاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اولی الامر کے ساتھ نزاع اور اختلاف جائز ہے۔

دوسرا یہ کہ محل نزاع میں حکم کا مقام رسول ﷺ کو حاصل ہے۔یہ کہ اولی الامر کو اس کی تفصیل  یہ ہے کہ آیت کریمہ میں لفظ  تنازعتم باب تفاعل سے آیا ہے۔جومادہ میں فاعل اور مفعول کے اشتراک کا مقضی ہے۔اس آیت میں  تین فریق کا زکر ہے۔ایک اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ دوسرے مومن  کے مخاطب رعیت سے موسوم اور اطاعت بجا لانے مکلف ۔

تیسرا اولی الامر جو اس آیت میں مطاع ٹھرائے گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ  میں جو نزاع مذکور ہے۔اس میں ان تینوں گروہوں میں سے کون کون فریق شریک ہوسکتا ہے۔پہلا فریق یعنی اللہ اوررسول ﷺ تو  فریق نزاع بن نہیں سکتے۔اول تو وہ متکلم ہیں۔مخاطبین میںشامل نہیں۔دوسرا اگلے جملے میں اسے حکم قرار دیا گیا ہے۔اور حکم کا مقام (بالخصوص اس قسم کی نزاع میں)کسی فریق کو بھی حاصل نہیں نہ رعیت کو نہ اولی الامر کو آیت کا مطلب صاف ہے کہ اگر مسلمان رعیت اور ان کے اولی الامر کے مابین کسی چیز میں اختلاف اور نزاع پید ا ہوجائے۔تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ(قرآن کریم) اور اس کے رسول ﷺ(اسوۃ حسنہ)سے لیا جائے۔جو فیصلہ وہ کریں اولی الامر اوررعیت دونوں اس کو تسلیم کریں۔اور خوش دلی سے اس کی اطاعت کریں۔ثابت ہوا نہ کہ اولی الامر کی اطاعت کو رسول ﷺ کی اطاعت کا مرتبہ حاصل ہے۔اولی الامر کورسول ﷺ کا مقام اس حالت میں اطاعت رسول کو بحیثیت مرکز حکومت قرار دینا قرآن کریم کی صریح تحریف ہے۔

نکتہ

فان تنازعتم میں زکر کردہ نزاع کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے۔کہ افراد رعایا میں نزاع ہوجائے۔ظاہرہے کہ اس صورت میں اولی الامر کی طرف رجو ع ہوگا۔جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔۔۔قرآن۔۔۔۔

اس بناء پر چاہیے تھا کہ مضمون کے اتمام کے نظر جیسے پہلی قسم کے نزاع کی نسبت  ۔۔۔قرآن۔۔۔۔فرمادیا ہے۔اس نزاع کے متعلق بھی فرمادیا جاتا۔۔۔قرآن۔۔۔لیکن ایسا نہیں فرمایا بلکہ ایسے موقع پر اسے نظر انداز کر دیا ہے۔بظاہر اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے۔کہ یہاں اللہ اور اس کے  رسول ﷺ کے لئے مقام حکمت کا اثبات مقصود ہے اگر اس کے ساتھ ہی کسی جہت سے بھی حکمیت اولی الامر کا زکر کر دیا جاتا تو اولی الامر کی نسبت یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا۔ کہ ان کی حکمیت کا مقام اور مرتبہ بھی وہی ہے۔کہ اللہ اور رسولﷺ کی حکمیت کا ہے۔حالانکہ ان دونوں حکمتیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔واللہ اعلم

انسان جب استغنا مھسوس کرتا ہے۔تو سرکشی اورشرارت پر اُتر آتا ہے۔اولی الامر اور مطاع ہونے کے بعد کسی کی اطاعت اسے گوارا ہوسکتی ہے۔خواہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے ر سول ﷺ کی اطاعت ہو۔اسے اپنے وقار کا بھوت نہ رعایا کی سننے دیتا ہے۔نہ اللہ و رسول ﷺ کی اسلئے اللہ  تعالیٰ نے جو اولی الامر کی ضمیر سے ان کے اللہ  تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان اور یقین کے ذریعے اور دنیا میں اس طرز عمل کے فوائد کی کیطرف توجہ دلا کر محبت آمیز اور نرم ترین لہجے میں اس اطاعت کےتسلیم کی اپیل کی فرمایا تمہارا ایمان بھی اس کی تعلیم کا متقاضی ہے۔اوردنیا میں بھی یہ طریق بہترین نتائج کا حامل ہے۔فرمایا!۔۔۔قرآن۔۔۔۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امییین پر اپنے فضل کا زکر فرمایا کہ اللہ نے ان کے لئے انھیں میں سے ایک رسول محمد ﷺ مبعوث فرمایا۔جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھتا ہے۔ان کو اخلاقی اور روحانی بیماریوں سے پاک و صاف کرتا ہے۔ان کو کتاب قرآن کریمہ کے مفہوم و معانی کی  تعلیم دیتا ہے۔ اوران کو  اس پر عمل کی کیفیت ۔حکمت سکھاتا ہے۔یہ تمام صفات محمد رسول اللہﷺ کی ہیں اس کے بعد فرمایا یہ رسول ﷺ ۔۔۔۔قرآن۔۔۔ کے لئے بھی ہے۔جو ابھی امیین سے نہیں ملے۔اور بعد میں آیئں گے۔ ان بعد میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی زمانہ یا مدت نہیں فرمائی۔کہ کسی وقت تک آنے والے اس  کے ر سول کے امت میں شمار ہوں گے۔اور اس وقت کے بعد اس رسول کی رسالت اور اس کی امت میں شمول کا وقت جاتا رہے گا اور اس وقت اس رسولﷺ کی اطاعت ان پر فرض نہ رہے گی۔بلکہ آخرین کو عالم مطلق رکھا جو لوگ بھی آیئں اور جب بھی آئیں خلفاء اربعہ کے زمانے میں آنے والے ان میں شامل ہیں۔بنوں امیہ بنو عباسیہ اور ترکوں کے زمانے میں آنے والے ان میں داخل ہیں۔آج کل اور آج کے بعد تا طلوع الشمس اور مغربیا آنے والے تمام افراد انسانی ان میں درج ہیں۔یہ تمام کے تمام ۔

کے مصداق ہیں۔اور ان کا رسول بھی وہی رسول ہے جواجمعین میں مبعوث ہوا۔یعنی محمد ﷺ جب رسول اللہﷺ کی رسالت کوئی صحیح سمجھے لیکن اس کی اطاعت کا منیکر ہو اور پھر مومن اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول بھی ہو۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔اس آیت کریمہ میں بھی رسول ﷺ کی حیثیت رسالت ہی کوزکر فرمایا اور اسی پر تمام احکام مرتب فرما ہوں گے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ما انزل اللہ کی اطاعت ہی رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ما انزل اللہ سے ان کی مرادمجرد قرآن کریم ہے جس میں وہ نطق نبی ﷺ شامل نہیں  جو قرآن کریم کی تیبین و تفسیر میں آپ سے صادر ہوا۔اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ قرآ ن کریم کے معنی اور مفہوم کو اپنے خیالات فاسدہ کے سانچے میں ڈھال لیں۔اورقرآن پر ایمان اور عمل کے دعوے کے ساتھ ہی خواہش نفسانیہ کی تکمیل بھی کرتے ہیں۔رسولﷺ نے جو قرآن کا بیان اورشرع کی ہے اگر اسے تسلیم کر لینا ہوائے نفس کا ایفا ممکن نہیں رہتا  اس کے اشتباہ کے ازالہ کے لئے فرمایا ۔۔۔قرآن۔۔۔

 جب ان منکرین حدیث سے کہا جاتا ہے کہ ما انزل اللہ قرآن کریم اور رسولﷺ کے اسوہ حسنہ دونوں کے طرف آئو۔اوردونوں سے فیصلہ کر لو تو دیکھے گا۔ کہ وہ تیرے رسول ﷺ کی طرف آنے سے روکتے ہیں۔یعنی ما انزل اللہ کی طرف آنے سے نہیں روکتے۔لیکن رسول کی طرف ان کو آنا گوارا اور پسند نہیں۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ما انزال اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت میں کچھ فرق ہے تب ہی تو وہ ایک کو گوارا اوردوسرے کو ناپسند کرتے ہیں۔مثلا اگر ایک شخص کہہ دے کہ صلوۃ  تحریک صلوین سے مشتق ہے جس کے معنی چوتڑ ہلانے کے ہیں۔اور جو شخص صبح بیدار ہونے سے رات کو سونے تک چوتڑ ہلاتا اور کاروبار میں بھاگ ڈور کرتا رہتا ہے۔وہ مصلی ہے۔ اور قرآن کے حکم پر عامل اور اس حکم اقامت الصلوۃ کا مقصد مسلمانوں کو کاروبار میں سعی و کوشش کر کے اپنے اقتصادیات کا مظبوط اور درست کرنا ہے۔ تو بتائئے کہ آپ کیا بگاڑ سکتے ہیں۔علی ہذا القیاس ذکواہ صوم حج اور توحید کا حال سمجھ لئجے۔ لیکن جب قرآن کریم کا صحیح مفہوم متعین ہوجائے گا۔ آج منکرین حدیث تمام  شرعی احکام اور فرائض کی اسی طرح سے حجامت کر رہے ہیں۔اوردین اسلام کو ایک دھوکا کی صورت میں دے رہے ہیں۔انا للہ ۔اس آیت میں صرف ما انز ل اللہ تسلیم کرنے اور رسولﷺ سے اعراض کرنے والوں کو منافقین کا نام دیا گیا ہے۔اعاذ نا االلہ آخر میں ان لوگوں سے جو اطاعت رسول ﷺ سے اعراض کرتے  اور قرآن کریم کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں۔قرآن کے ایک موکد حکم کی طرف توجہ دلا کر اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔فرمایا۔۔۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔۔۔

یہ آیت کریمہ سورہ حدید کی ہے۔جو مدینہ میں نازل ہوئی اس وقت تک اسلامی اصطلاحات معین ہوچکی  تھیں۔مومن انھیں لوگوں  کو کہا جاتا ہے۔ جو توحید الہٰہی اور رسالت محمد ﷺ پر یقین اور اعتقاد رکھتے تھے۔رسالت کے منکر کافر کہلاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے پہلے الفاظ میں ایمان والوں کو مخاطب فرمایا۔پھر اتقوا اللہ کے جملہ سے مامور بہ کی اہمیت اوراس کی تعمیل کی تاکید پر توجہ دلائی اوراس کے بعد امنوا برسولہ کا حکم دیا  اس کے حکم میں نا ایمان باللہ شامل کیا اور نہ ایمان ما انزل اللہ نہ ایمان بالانبیاء اور نہ ایمان بالاخرت بلکہ رسول ﷺ کے مفرد لفظ کو اپنی طرف اضافت کر کے اس پر ایمان لانے کا حکم دیا۔حالانکہ ایمان برسالت محمد ﷺ تو ان میں سے پہلے موجود تھا۔ جب ہی تو وہ  یا ایھالذین امنوا سے مخاطب ہوئے ان کو امنوا برسولہ کا حکم تحصیل حاصل نہیں تو اور کیا ہے۔معلوم ہواکہ امنوا برسولہ کے حکم میں ایمان سے مراد اطاعت رسولﷺ ہے۔نہ کے ایمان قلبی اس کے تو وہ پہلے سے ہی قائل اور معترف ہیں اور اطاعت رسول ﷺ کے مقام پر ایمان بالرسول کا حخم معتبر ہے کہ مجرد ایمان برسالت الرسول کوئی چیز نہیں جب تک کہ اطاعت رسولﷺ نہ اختیار کی جائے۔ایمان بالرسالت اسی وقت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول معتبر ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ اطاعت رسولﷺ بھی موجود ہو اس لئے اطاعت رسول ﷺ درحقیقت ایمان برسالت الرسول ہے کیونکہ اطاعت رسول بغیر ایمان برسالت الرسول ممکن نہیں لیکن ایمان برسالت الرسول کو عملا اطاعت رسولﷺ لازم نہیں۔الفاٖظ ندائییہ۔میں امنوا صیغہ ماضی سے اہل کتاب یہود و نصاریٰ مراد ہیں لینا ٹھیک نہیں اس لئے کہ دوسری آیت میں ۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔

 اس کی تردید کرتے ہیں۔اہل کتاب ہی کو خطاب اور امر پر سابقہ رسول کے حکم کے بعد ان کی نسبت ہی یہ کہنا کہ ان کے نزدیک فضل الہٰی مسلمانوں کے شامل حال نہیں کوئی معنی نہین رکھتا۔اس حکم وامنوا برسولہ کی لم میں  جو بیان فرمایا گیا ہے۔وہ اس سے زیادہ قابل توجہ اور غور طلب ہے۔

دوسری لم میں فرمایا کہ اطاعت  رسول ﷺ ہی تمہارے لئے راہنمائی اور روشنی کا مینار بن سکتی ہے۔جس کے ذریعے تمام دنیا اور عقبیٰ کے سفر زندگی میں بے خوف وخطر چل سکتے ہو۔کیا آج تمام اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان کے حکمران ہر شعبہ زندگی میں مضطرب  اور پریشان ہوکر ٹھیک نہیں رہے۔اور کیا اس کی واحد وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے اطاعت ر سولﷺ سے اعراض اورانحراف اختیار کرلیا۔بلکہ اطاعت یہود و نصاریٰ کو اس پر مقدم کر رکھا ہے۔  پھر ان کو وہ نور جس سے وہ کامیابی کے راستہ پر چل سکیں کسیے حاصل ہو۔چوتھی لم۔علی الاعلان مسلمانوں میں منادی کر رہے ہیں کہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کچھ بھی چاہیے اگر تم (مسلمان۔اطاعت رسول ﷺ اختیار کرلو تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کردے گا۔فضل و کرم کا مالک وہی ہے۔اوراس وقت اہل کتاب کو اس کے نتیجے میں خود بخود معلوم ہوجائے گا۔ان کی کوششیں اور اعمال ضائع ہوئے اور مسلمان ان کے علی الرغم دنیا و عقبی میں کامیابی اور کامران ہوگئے۔ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اطاعت رسولﷺ ہی دنیا اور عقبیٰ میں کامیابی اور فضل الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔اگر کوئی شخص مسلم یا غیر مسلم یہ سمجھتا ہے۔کہ وہ اطاعت  رسولﷺ کے بغیر قرآن کریم پر عمل یا اللہ تعالیٰ کے فضل کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں بھی چونکہ منافقین موجود تھے جو رسالت پر ایمان کا دعویٰ گر رکھتے تھے لیکن اطاعت ر سول ﷺ ضروری نہ سمجھتے تھے۔جیسا کہ آجکل منکرین اطاعت رسول کی حالت ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ان خیالات کی ان آیات میں تردید فرما دی فرمادی۔حجیت حدیث نمبر 1 اخبار الاعتصام حجیت حدیث

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 255-272

محدث فتویٰ

تبصرے