سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) عاشورہ کے دن کشادگی کرنے کی حدیث

  • 3650
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2251

سوال

(78) عاشورہ کے دن کشادگی کرنے کی حدیث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

ایک حدیث مشکواۃ شریف میں بروایت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کتاب الزکواۃ فی الفضل الصدقۃ میں آئی ہے کہ جو شخص کشادگی کرےگا اپنے کنبے پر خرچ کرنے میں دن عاشورہ کے کشادگی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر باقی سال اس کے میں کیا عاشورہ کے دن حلوہ انڈہ پکانادرست ہے یا نہ اور یہ حدیث قابل احتجاج ہے یا نہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی مروی ہے۔اس کے کئی طرق ہیں۔بعض علماء نے بعض طرق کو صحیح کہا ہے۔امام شوکانی الفوائد المجموعہ بیان الحدیث الموضوء کے صفحہ نمبر 34 میں امالی امام عراقی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔کہ ابن جوزی اور ابن تیمیہ ؒ نے اس طریق سے اس حدیث کو موضوع کہاہے۔اور امام سیوطی نے الدارمی میں اس کے کئی طرق زکر کیے ہیں۔ جو بعض بعض کو  تقویت دیتے ہیں۔

اور امام بہیقی سے بھی نقل کیا ہے کہ اس کے کئ طریق  ہیں جب بعض بعض سے ملائی جاییں تو کچھ تقیویت ہوجاتی ہے۔اور اس کی ایک سند کو شرط مسلم پر کہا گیا ہے اس بنا پر اگر کوئی عمل کرے تو رکاوٹ نہ چایے ہاں اوس کو  بڑی اہمیت بھی نہ دینی چاہیے۔کیونکہ اس کی صحت کی بابت تسلی نہیں دی گئی۔ اگرچہ اس کی ایک سند کو شرط مسلم پر کہا   گیا ہے۔مگر اس میں ابو اند بیدلادی ہے جو جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور وہ مدلس ہے۔اور مدلس عن کے ساتھ روایت کرے تو روایت ضعیف ہے۔

علاوہ اس کے حافظابن حجر  المیزان میں اسی سند کی بابت جس کو شرط مسلم پر کہا گیا ہے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت منکر ہے معلوم نہیں کون راوی اس کا مرتکب ہوا ہے پھر کہا ہے اس میں ایک راوی ابو خلیفہ الفضل بن حیاب ہے۔اس کی کتابیں جل گئیں تھیں۔شاید اس کے شاگرد محمد بن معاویہ بن الاحمر نے اس سے کتب جلنے کے بعد سنا ہو پس بغیر کتاب حدیث سنانے سے حدیث غلط ہوگئی۔ملاحظہ ہو للامام السیوطی جلد2 ص 63۔64 جب صحت حدیث کا یہ حال ہے تو اول تو اس  پر عمل ہی نہیں ہونا چاہیے۔اور اگر کوئی کثرت طریق سے تقویت پہنچنے کی بنا پرعمل کرناچاہیے۔تو اس کو نہایت محتاط رہنا  چاہیے کیونکہ اصلیت تو اس  دن کی اتنی تھی کہ اس دن کا روزہ رکھا جائے جس کی فضیلت  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور عموما روزے کے وقت اچھے کھانے کا خیال ہوتا ہے۔شاید اس بنا کر رسول اللہﷺ نے اہل و عیال پر فراخی کا ارشاد فرمایا ہو مگر اب اتفاقیہ اس دن عاشورہ میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی شہادت  ہونے سے شعیہ وغیرہ بہت سی خرافات اور بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں۔تعزیہ نکالنا اور رونا پیٹنا تو درکنار اصلیت ہی بدل ڈالی ہے روزہ کی بجائے شربت کی سبیلیں جاری کی جاتی  ہیں۔لوگ خوب شربت پیتے پلاتے صدقہ خیرات تو ااس دن میں خصوصیت سے کرتے ہیں حالانکہ اپنی طرف سے کسی دن کو کسی عمل کے ساتھ خاص کرنا بدعت ہے جس پر بجائے ثواب کے عذاب ہوتا ہے مثلا عاشورہ کے دن اور عرفہ کے دن اسی طرح بعض اور دنوں کو روزہ کے لئے خاص کیا ہے۔اس میں روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے۔اب اگر کوئی جمعہ کے دن کو روزہ کے لئے خاص کرے اور یہ کہے کہ یہ دن زیادہ فضیلت والا ہے۔تو بجائے اس کو ثواب کے گناہ ہوگا۔کیونکہ اس کی فضیلت نماز جمعہ کی خاطر ہے نہ کہ روزہ کی خاطر اسی لئے حدیث میں ہے۔

لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من الليالي ولا تختصوا يوم الجمعة بصيام م بين  الايام الا يكون في صوم يصومه احدكم

(رواہ مسلم)(مشکواۃ باب قیام التطوع) یعنی جمعہ کی ر ات کو  راتوں کے درمیان سے قیام کے ساتھ خاص  نہ کرو اور جمعہ کے دن کو اور  دنوں کے درمیان روزے کے ساتھ خاص نہ کرومگر یہ کہ کوئی روزے رکھتا ہو اور یہ درمیان آجائے۔

ٹھیک اسی طرح عاشورہ کے دن کوئی شے اپنی طرف سے خاص نہ کرنی چاہیے بلکہ اصل شے اپنی طرف سے خاص نہ کرنی چاہیے۔بلکہ اصل شے اس دن میں صرف روزہ ے یا زیادہ سے زیادہ مذکور حدیث کی بنا پر ر ات کو گھر میں کوئی اچھی شے پکالے اور  اس میں ہر طرح سے احتیاط رکھے۔حلوے  مانڈے کی  تعین نہ کرے۔بلکہ کبھی کوئی شے پکا لے کبھی کوئی جیسے عام طور پر افطاری کے لئے ہوتا ہے۔کیونکہ پہلے یہ حدیث ہی تسلی بخش نہیں ہے۔پھر اس پر حاشیہ ارائی کرنا خود کو زیادہ خطرے میں ڈالتا ہے۔ بلکہ بہتر  تو یہ ہے مزے سے اچھا کھانا نہ ہی پکائے دیکھے احادیث میں غیر نبی پردرود پڑھنا ثابت ہے مگر علماء نے لکھا ہے چونکہ درود انبیاء کا شعار ہوگیا ہے۔اس لئے پھر نبی پر مستقل طور پر نہ پڑھنا  چاہیے۔اگر پڑھا تو بالتطبع پڑھا جائے۔جیسے

صلي الله علي النبي والهاور یوں نہ کہےصلي الله علي اله يا علي اصحابه يا  علي زيد وغيره ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر وغیرہ زیر آیت قرآن

نیز حدیث میں ہے۔اوتروا يا اهل القران(مشکواۃ باب الوتر)یعنی اے اہل قرآن وتر پڑھو۔اہل قرآن سے مراد اہل اسلام ہیں۔یا خاص حافظ ہیں۔اور خاص حافظ ہونے کی صورت میں وتر سے مراد تہجد ہوگی۔اور حافظوں کو خاص اس لئے کہا کہ ان کو خاص اس چیز کا زیادہ خیال رکھناچاہیے۔کیونکہ سینہ میں قرآن ہے۔اب باوجود اس حدیث میں اہل قرآن آنے  کے کوئی قرآن نام رکھا ئے تو  یہ اچھا نہیں تاکہ منکر حدیث ہونے کا شبہ نہ پڑے کیونکہ یہ حدیث منکر حدیث کا لقب ہوچکا ہے۔اور کسی پر مستقل درود پڑھنا بھی اچھا نہیں  تاکہ مرزایئوں سے تشبیہ نہ ہو۔کیونکہ جب یہ انبیاء کا شعار ہے۔تو خوامخواہ شبہ ہوگیا شاہد یہ بھی نئی نبوت کا قائل ہو۔

ٹھیک اہل بدعت نے چونکہ  عاشورہ کے دن بہت سی خرافات اور بدعات کے ساتھ حد سے بڑھا دیا ہے جس سے سبیلیں جاری کر دی ہیں۔تو اچھےاچھے کھانے پکانے  اور کھانے کھلانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس دن کے سوائے روزے کے کچھ نہ کیا جائے۔تاکہ اہل بدعت سے کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔اگر حدیث پوری طرح تسلی بخش ہو تو بھی نبوت کی طرف سے اطمینان نہیں اب ثبوت کے لہاظ سے بھی کھٹکا لئے اور شبہ کا بھی خطرہ ہے۔اگر کوئی باوجود خطرات کے اس پر عمل کرنا چاہے۔تو کم از کم اتنا تو ضرور کرے۔کہ اس دن صدقہ خیرات کا خاص اہتمام  نہ کرے۔اور نہ ہمیشہ کے لئے ایک کھانے کی مثلا حلوے انڈے کی کرے بلکہ صرف حدیث کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے اپنے اہل کے لئے کوئی اچھی  چیز پکا لے اس سے آگے بڑھ کر زیادہ خطرات کا موجب نہ بنے۔(تنظیم اہل حدیث جلد نمبر 22 ش 1)

مولانا احمد رضا خان کا فتویٰ

مسئلہ

29 ربیع الاخر شریف سن1320 ء  ہجری بعالی خدمت امام اہل سنت کہ آج میں جس وقت آپ سے رخصت ہوا وہ واسطے نماز مغرب کے میرے ایک دوست نے کہا چلو ایک جگہ عرس ہے۔میں چلا گیا وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں ایک جگہ بہت سے لوگ جمع  ہیں۔ اور قوالی اس طریقہ سے ہو رہی ہے ایک ڈھولک اور سارنگی بج رہی ہےاور چند قوال پیران پیر دستگیر کی شان میں اشعار کہہ رہے ہیں۔اوررسول اللہﷺ کی نعت کے اشعار اور اولیاء اللہ کی شان میں گا رہے ہیں اور ڈھول سارنگیاں بج رہیں ہیں۔ یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں۔کیا اس فعل سے  رسو ل اللہﷺ اور اولیاء اللہ خوش ہوتے ہوں گے۔اور یہ حاضرین جلسہ گناہ گار ہوئے۔یا نہیں۔اور ایسی قوالی جائز ہے یا نہیں۔؟اگرجائز ہے توکس طرح کی جواب ایسی قوالی حرام ہے حاضرین گناہ گار ہیں۔اوران سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہیں اورقوالوں کا بھی گناہ اس عرس کرنے والے پر بغیر اس کے عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ میں کچھ کمی آئے۔یا اس کے اورقوالوں کے زمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف ہو نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا او سب حاضرین کے برابر علیحدہ وجہ یہ کہ حاضرین کو عرس کرنے والے بلایا ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا ۔اور قوالوں نے انھیں سنایا اگر وہ سامان نہ کرتاتو یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا پھر قوالوں کے اس گناہ کا  باعث عرس کرنے والا ہوا۔اور وہ نہ کرتا اور نہ بلواتا کے کیوں آتے بجاتے لہذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا۔

كما قالو  في مسائل قوي مرق سوي ان لاخذ والمعطي اثما لانهم لو لم يعطوا لما فعلوا لكان العطاء هو الباعث لهم علي السر مسال في التكدي والسوال وهذا كله ظاهر علي من عرف القوائد الكريمة الشرعية وبا الله توفيق

رسول اللہ ﷺ فر ماتے ہیں۔

من دعا الي هدي كان له من الاجر مثلاجور من تبعه لا ينقص ذلك من اجورهم شيئا و من عاد الي ضلالة كان عليه من الاثم مثل اثام من تبعه لا ينقص ذلك من اثامهم شيئا

جو کسی امر ہدایت کی طرف بالئے اس کا اتباع کریںان سب کے برابر ثواب پائے اور اس سے  ان کے کچھ ثوابوں میں کمی نہ آئے۔جو کسی امر ضلالت کی طرف بلائے جتنے ان کے بلانے پر چلے ان سب کے برابر اس پر گناہ ہوا اوراس سے ان کے گناہوں میں کچھ تخفیف رہ نہ پائے۔باجوں کی حرمت میں احادیث کثیرہ وارد ہیں۔ازاں جملہ اجل و اعلیٰ حدیث صحیح بخاری شریف میں ہے۔کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں۔

لتكون في امتي اقوام يستحلون النحز والحرير والخمر والمعازف

ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں۔جو حلال ٹھرایئں گے عورتوں کی شرمگاہ یعنی زنا ریشمی کپڑوں اور شراب باجوں کو صحیح حدیث جلیل

وقد اخرجه ايضا احمد و ابوداود و ابن ماجة ولا سماعيل وابو نعيمبا سانيد صحيحة لامطمئن فيهاومحصه جماعة اخرون من الائمة كما قاله بعض الحافظقاله الا مام ابن حجر في كف الرعاع

بعض جہال بدمست کہ نیم ملا شہوت پرست یا جھوٹے صوفی باد بدمست کہ احادیث صحاح مرفوعہ مھکمہ کے مقابل بعض  ضعیف حصے یا محتمل واقعے یا متشابہ پیش کرتے ہیں انھیں اتنی عقل نہیں یا قصدا بے  عقل بنتے ہیں۔کہ صحیح کے سامنے ضعیف کے آگے محتمل محکم کے حضورمتشابہ واجب الترک ہے۔پھر کہاں قول کہا ں حکایت فعل پھر کجا مھرم کجا میع ہر طرح یہی واجب  العمل ترجیع مگر ہوس پرستی کا علاج کسی کے پاس ہے کاشن گناہ کرتے اور گناہ جانتے اقرار لاتے۔ یہ ڈھٹائی اور بھی سخت ہے۔کہ ہوس بھی یا پس اور الزام بھی ٹالیں اپنے لئے حرام کو حلال بنالیں پھر اسی پر بس نہیں بلکہ معاذاللہ اس کی تہمت محبوبان خدا کا بر سلسلہ عالیہ چشت قدست اسرارہم کے سرد  ہرتے ہیں۔

نہ خدا سے خوف نہ بندوں سے شرم

کرتے ہیں حالانکہ خود محبوب الٰہی ۔سیدی۔مولائی۔نظام الھق دین والدین سلطان الادین فوائد القوائد شریف میں فرماتے ہیں۔امیر حرم است احکام شریعت 625۔27ء یہ فتویٰ کس شرعیت کا محتاج نہیں ہے اسقدر و ضاحت کے بعد  بھی ہمارے بریلوی دوست نہ سمجھیں توخدا حافظ دعا ہے اللہ اپنے بندوں کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا  فرمائے۔آمین(اخبار تنظیم اہل حدیث لاہور جلد نمبر 22 ش 11)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 245-249

محدث فتویٰ

تبصرے