سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) عامی اور غیر عامی پر جو درجہ اجتہاد کو نہیں پہنچا ہے..الخ

  • 3643
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1473

سوال

(68) عامی اور غیر عامی پر جو درجہ اجتہاد کو نہیں پہنچا ہے..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ما قولكم رحمكم الله  تعاليعامی اور غیر عامی پر جو درجہ اجتہاد کو نہیں  پہنچا ہے۔ایک مذہب کی تقلید کرنا واجب ہے یا نہیں۔؟اور جس پر تقلید واجب ہے اگر وہ ایک مذہب معین کی تقلید نہ کرے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟اور اس کے ساتھ کھانا پینا اور شادی کی رسم جاری رکھنا درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماہران شریعت غرار پر مخفی نہیں کہ جو شخص مومن باللہ والیوم الاخر اور تصدیق ۔ما جاء به النبي صلي الله عليه وسلم  من ضروريات الدين وغيرها من الفروعات الشرعيةخالصا نبی ﷺ نے جو ضروریات دین بتلائی ہیں اور شریعت کے فروعات بتلائے ہیں ان کی تصدیق کرتا ہو۔رکھتا ہو۔اور ہر صورت سے پابند شرع ہو یعنی حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانتا ہو پس بے شک وہ شخص مسلمان متقی اور اس آیت کریمہ کا مصداق ہے۔﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ‎﴿١٧٧﴾‏... ﴿ أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٥﴾‏

وغيرها من الايات القرانية وعن ابن عباس بن عبد المطلب قال قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلم ذاق طعم الايمان من رضي الله بالله ريا و بالاسلام دينا و بمحمد رسولا رواه مسلم

وعن انس قال قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلم من صلي صلوتنا واستقبل قبلتنا واكل ذبيحتيا فذ لك المسلم الذي له ذمة الله وذمة رسوله فلا تخف هو الله في ذمة رواه البخاري كذافي المشكوة

فی الجملہ جو  شخص موصوف  بصفات دین اسلام اور احکام شرع پر  بطریق اہل سنت کار بند ہو۔وہ اگرچہ ایک مذہب معین کا مقلد نہ ہو خواہ عامی ہو یا غیر عامیکہ درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو سو وہ شخص مذکورہ خاصہ مسلمان اورشریعت محمدیہ کا متبع ہے ازروئے شرع شریف اس کی مسلمانی میں کسی طرح کا عیب و نقصان متصور نہیں ہوسکتا۔بہر ھال وہ شخص بمتضائے اس آیت کریمہ ۔ ﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ﴾

کے برادرد ینی ہے گو مذہب معین کا التزام نہ رکھتا ہو پھر جو کوئی اس کو برا کہے۔اور  شادی غمی میں اس سے نفرت و عداوت کرے۔اور نہ ملے وہ فاسق و مخالف کتاب وسنت اورمبتدع متعصب اغلظ ہے۔ایسے متعصب بدعتی اغلظ سے ملنا ترک کرے۔کیونکہ برضا ورغبت مبتدع سے ملنا ہدم اسلام کا موجب ہے جیسا کہ اس مضمون کی حدیث مشکوۃ وغیرہ میں وارد ہے کیونکہ تقلید شخصی اور التزام مذہب معین پرشارع کا حکم اور خطاب صادر نہیں ہوا پس جس عقیدہ پر خدا اور رسولﷺ کا حکم ناطق نہ ہو۔وہ عقیدہ او ر عمل مردود اور قبیح ہوتا ہے۔قال الله ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ﴾ وقال الله تعالي ﴿مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ﴾ وليس لغير الله حكم واجب القبول والامر واجب الالتزام بل الحكم والامر والتكليف ليس الا له انتهي مافي التفسير الكبير والنيسابوري

1۔اگر وہ توبہ کریں اور نماز کی پابندی کریں۔اورزکواۃ ادا کریں۔تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں۔2۔اللہ فرماتے ہیں جو اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے  گا۔تو اسے قطعا قبول نہ کیا جائے گا۔3۔اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل نہیںاتاری حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔

اور سارے اہل اصول حکم کے معنی شرعا اس طرح پر لکھتے ہیں۔

الحكم 2خطاب الله تعالي المتعلق بفعل المكلف اقتصاء اي طلبا وهو اما لطلب الفعم حتما اوغيره او طلب الترك كذالك او تخيرا اي اباخة كذا في مسلم الثلبوت في علم الاصول قالو ا ان ثبت الطلب الجازم القطعي لفعل غير كف فالفرص او القعل كف فالحرام وان ثبت الطالب لفعل غير كف بد ليل ظني فيه شبهة قالواجب اوكف فكراهة التحريم وان لم يكن الطلب جاز ما بل راحجا فاما ان يكون لفعل غير كف كاندب او كف فكراهة التنزيه وان لم يكن الطلب اصلا بل يكون تخيرا بين الفعل وعد ر فا با حة كذا في شرح المسلم وغيرها منن كتب الاصول

اللہ کے سوا کسی کا حکم واجب القبول  اور کسی کا امر واجب الالتزام نہیں ہے۔بلکہ حکم اور امرا ور کسی کو مکلف بنانے کا حق صرف اللہ کا ہے۔تفسیر کبیر اور نیشا پوری کا اقبتاس ختم ہوا۔

2۔حکم کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کا خطاب جو کسی مکلف کے مرتعلق ہو اگر قطعی دلیل سے حتمی طور پر کرنے کا حکم ہو تو وہ واجب ہے اور اگر ظنی دلیل سے حتمی طور پر روکا جائے تو وہ مکروہ تحریمی ہے۔اور اگر کسی کا  کا کرنا ضروری نہ قرار دیا جائے بلکہ بہتر سمجھا جائے تو وہ مندوب ہے۔اور اگرروکا جائے تو وہ کراہت تنزیہی ہے۔اگر کرنے نہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔تو اس کا نام اباحت ہے۔شرح مسلم وغیرہ کتب اصول میں ایسا ہی لکھا ہے۔

3۔اس لئے کہ اباحت یعنی اس کا زکر کرنا یا نہ کرنا برابر ہو ایک شرعی حکم ہے۔کیونکہ احکام سے ہے۔اور حکم شریعت کی ہی ایک شاخ ہے تو معلوم ہوا کہ حکم اباحت شرعی ہے۔اس لئے کہ اباحت شرعی کا خطاب ہے۔اورخطاب حکم شرعی ہے۔یعنی اباحت شریعت کا تخیری حکم  ہے مسلم الثبوت میں ایسا ہی ہے۔

اور جب تقلید شخصی خطاب شرع اور تکلیفات شرعیہ میں داخل نہ ہوئی نہ اقتضاء نہ تخیرا پس بدعت مذمومہ ہے ۔

كما قال رسول اللهصلي الله عليه وسلم من احدث في امرنا هذا ما ليسمنه فهو رد وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم  من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد كما رواهما البخاري في صحيه

اسی نظر سے فاضل جلیل علامہ بنیل محمد اسماعیل  ،والغفران نے تقلید شخصی والتزام مذہب معین کو بْدعات حقیقہ میں شمار کیا ہے۔وملاعلی قاری سم القوارض و شرح عین العلم میں اور عبد العظیم ملا ابن فروخ مکی قول سدید میں لکھتے ہیں۔

اعلم ان الله لم يكلف  احدا من عباده ان يكون خفيا او ما لكيااو شافعيا اوحنبليا بل اوجب عليهم الايمان بما بعث به محمد ا صلي الله عليه وسلم والعمل بشر يعته انتهي ما في القول السديد مختصرا

ف۔اور اس عاجز نے اگرچہ ایک صورت تقلید شخصی کی معیار الحق میں بہ سبیل تنزل  مباح میں درج کی تھی۔لیکن عند التحقیق الحقیق مباح میں بھی داخل نہیں ہوسکتی۔اس لئے کہ مباح خطاب شارع میں داخل ہے۔اور تقلید شخصی خطا   ب شارح سے خارج ہے۔

    كما لا يخفي علي الماهر المتفطن المنصف  وفي تفبسر الكبير المسئلة الثانية الا كثرون من المفسرين قالو اليس المراد من الارباب انهم اعتقدو ا فيهم انهم الهة العالم بل المراد انهم اطاعوهم في اوامرهم ونوا هيهم نقلعن عدي بن حاتم كان نصرانيا فانتي الي رسول الله صلي الله عليه وسلموهو يقرا سورة براة فوصل الي هذه الاية فقلت لسنا نعبدهم فقال اليس يحرمون ما احل الله فتحرمونه و يحلون ما حرم الله فتستحلونه

1۔آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی ہمارے دین میں نیا کام  جاری کرے جو اس کا جزو نہ ہو وہ کام مردود ہے۔اور آپﷺ نے فرمایا۔اگر کوئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا حکم نہیں ہے۔تو وہ مردود ہے۔2۔جان لو اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو یہ حکم نہیں دیا  کہ وہ حنفی ۔شافعی۔مالکی۔حنبلی بنے۔کیونکہ ان کے لئے  آپﷺ کے احکام پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض قرار دیاہے۔3۔تفسیر کبیر میں ہے ۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اہل کتاب کے اپنے مولیوں اورپیروں کو رب بنانے کا یہ مطلب نہیں ہے۔اکثر وہ ان کو عقیدہ خدا سمجھتے تھے۔بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اوامر نواہی میں ان کی اطاعت کرتے تھے۔عدی بن حاتم سے روایت ہے۔یہ پہلے عیسائی تھے۔وہ آپ ﷺ کے پاس جب پہنچے۔توآپﷺ اس وقت سورۃ برائت کی یہ آیت پڑھ رہے تھے۔مین نے عرض کیا کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔آپﷺ نے فرمایا کہ وہ جب کسی چیز کو حلال یا  حرام قرار دیتے تھے۔تو تم اس کو حلال یا ھرام نہیں سمجھتے تھے۔میں نے عرض کیا ہاں تو فرمایا کہ یہی ان کی عبادت تھی۔ربیع کہتے ہیں کہ میں نے ابو العالیہ سے سوال کیا  کہ بنی اسرایئل ان کو خدا کیسے بناتے تھے۔تو  آپ نے کہا کہ وہ کتاب اللہ کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔اور ان کے اقوال قبول کر لیا  کرتے تھے۔شاہ والی اللہ صاحب خاتم المحقیقین والمجتہدین فرماتے  ہیں۔میں نے فقہائے مقلدین کی ایک جماعت اس طرح کی دیکھی ہے۔ کہ مین نے بعض مسائل میں ان کو قرآن پاک کی آیتیں پڑھ کر سنایئں۔جو ان کے مذہب کے خلاف تھیں۔تو انھوں نے ان آیات کو تو قبول نہ کیا اور نہ ہی ان کی طرف توجہ ہی کی اور حیران و پریشان دیکھتے رہے مطلب یہ کہ  ہمارے مجتہدین کے اقوال اگر ان کے برخلاف ہوں۔تو ان ظاہر ی آیات پر عمل کیسے کر سکتے ہیں۔اگر اچھی طرح غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا۔یہ بیماری اکثر اہل دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ شیطان کی پیروی کرنے والے کو تو صرف فاسق کہا جاتا ہے۔اور مولویوں اور پیروں کی اطاعت کرنے والوں  پر اللہ تعالیٰ نے کفر کا فتویٰ کیوںلگادیا۔تو اس جواب یہ ہے کہ فاسق اگر شیطان کی اطاعت کرتا ہے۔لیکن اس  کو دل سے برا جانتا ہے۔اس پر لعنت کرتا ہے۔اور اس کو ذلیل سمجھتا ہے۔اور یہ لوگ مولیوں اور پیروں کی اطاعت کرتے ہیں۔تو یہ ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کو حق پر سمجھتے ہیں۔سو ان دونوں میں یہ  فرق ہے۔نمبر 1۔شاہ عبد العزیز تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں۔ ۔۔قرآن۔۔۔۔ کے تحت لکھتے ہیں۔کہ جب ان کو کہا جاتا  ہے کہ حکم الٰہی کی پیروی کرو۔اور آباو اجداد اور شیطان کی پیروی چھوڑدو۔ تو کہتے ہین کہ ہم خدا کے حکم کی اطاعت نہیں کر سکتے۔کیونکہ ہم میں اتنی قابلیت ہی نہیں ہے کہ ہم خدا کے حکم کو سمجھ سکیں۔اور پھر ہمیں یہ یقین بھی کیونکہ آسکتا ہے۔ کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو یہ خداوندی کا حکم ہے۔تو اسی رسم و رواج کی پیروی کریں گے۔جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ جو  وہ کھاتے تھے ہم کھائیں گے۔جس کو وہ حرام جانتے تھے ہم حرام جانیں گے۔کیونکہ ہمارے باپ دادا ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔اگر اس میں وہ کوئی  خرابی دیکھتے تو ضرور اس کو چھوڑ دیتے۔اور اب اگر ہم ان کو رسم و رواج کی خلاف ورزی کر کے کھائیں  پیئں گے تو تمام آدمی ہم کو طعنہ دیں گے۔اور خصوصا برادری ہم سے ناراض ہوکر ہم کو برادری سے خارج کر دیں گے۔ ہم سے تعلقات منقطع کردیں گے۔بلکل اسی طرح ہندو بھی اپنے رسم و رواج کو نہیں چھوڑے اور بعض جاہل مسلمان رسوم باطلہ کے ترک کرنے میں یا بیوہ کا دوسرا نکاح کرنے میں بالکل یہی عزر پیش کرتے ہیں۔ابن اسحاق اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ ایک دن آپﷺ نے یہودیوں سے کلام شروع کیا۔اور ان کو اسلام کی خوبیاں اس طرح سمجائیں۔ اور اسلام قبول نہ کرنے کے بارے میں ان کو ایسا لاجواب کیا کہ کوئی عزر باقی نہ رہ گیا۔بالاخر رافع بن خارجہ اور مالک بن عوف نے کہا کہ آپ کے دین کی حقانیت تو مسلم ہے۔ لیکن ہم اپنے باپ دادا کی پیروی کریں گے۔کیونکہ وہ ہم میں سے بہتر بھی تھے۔اوور عام بھی زیادہ تھے۔تو اللہ  تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس آیت میں تقلید کے ابطال کی طرف اشارہ ہے۔دو طریق سے پہلی وجہ  یہ ہے کہ مقلد سے پوچھنا چاہیے کہ  جس کی تو تقلید کرتا ہے۔وہ تیرے نزدیک حق پر ہے یا نہیں۔اگر تو اس کے حق پر ہونے کو نہیں جانتا اور اس پر غلطی پر ہونے کے احتمال کو بھی سمجھتا ہے۔تو اس کی تقلیدکیوں کرتا ہے۔اگر اس کا حق پر ہونا جانتا ہے تو کیونکہ جانتا ہے۔اگر کسی اور کے کہنے پر تجھے اعتبار آگیا ہے تو پھر اس کا حق پر ہوناجانتا ہے یا نہیں؟اس طرح تسلسل اوردور لازم آئے گا۔ اور اگر عقل سے اس کا حق پر ہونا سمجھتا ہے۔تو اس عقل کو حق کی معرفت میں  کیوں نہیں کرتا۔کیوں تقلید کی زلت گوارا کرتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ جس کی تو تقلید کرتا ہے۔اس نے بھی اس مسئلے کو تقلید سے معلوم کیاہے۔یا دلیل سےاگر اس نے بھی اس مسئلے کو تقلید  ہی سے معلوم کیا ہے۔تو پھر تواور وہ برابر ہو گئے۔وہ تجھ سے بہتر کیوں کر ہوا۔اور اگر اس نے اسے دلیل سے معلوم کیا ہے۔تو اس کی صحیح تقلید تو یہ ہے۔تو بھی اسے دلیل  سےمعلوم کر ورنہ تو اس کا مخالف ہوگا نہ کہ مقلد اور جب تو نے اسے تقلید سے معلوم کر لیا۔تو تقلید ختم ہوگئی۔

تفسیر کبیر میں ہے کہ دوسرا مسئلہ  آیت کے معنی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ خداوند تعالیٰ کی واضح دلیلوں کی پیروی کرو تو انھوں نے جوابا کہا کہ ہم اس کی پیروی کریں گے۔ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی کریں گے۔گویا انہوں نے دلیل کا مقابلہ تقلید سے کیا۔اوراللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا۔اگر چہ ان ک باپ بے سمجھ اور گمراہ ہی ہوں۔تب بھی انھیں کی پیروی کریں گے۔اور اس میں بہت مسائل ہیں۔دوسرا مسئلہ اس جواب کی  کئی طریق سے تقریر کا ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ مقلد سے پوچھنا چاہیے۔کیا تو یہ اقرار کرتا ہے کہ کسی انسان کی تقلید کرنے کےلئے اس کے حق پر ہونے کا علم بھی ضروری ہے۔یا نہیں۔اگر وہ اقرار کرے کہ ان کے حق پر ہونے کا علم ضروری ہے۔تو اس سے پوچھا جائے کہ تم کو اس کا حق پر ہونا کیسے معلوم ہوا اگر کسی دوسرے کی تقلید سے ہوا ہے۔توتسلسل اور دور لازم آئے گا۔اور اگر تو نے عقل سے معلوم کر لیا ہے۔ تو یہ عقل دلیل تلاش کرنے کے لئے کافی ہے۔ تقلید کی ضرورت نہیں ہے۔اوراگر مقلد کے حق پر ہونے کا علم ضروری نہیں سمجھتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے  کہ تو نے اس کے باطل ہونے ک باوجود اس کی تقلید کرلی۔اس وقت تم کو یہ معلوم ن  ہوگا۔کہ تم حق  پر    ہویا باطل پر دوسری وجہ یہ ہے کہ فرض کر لو جس کی تم تقلید کرتے ہو۔اگر اس کو اس مسئلہ کا علم نہ ہوتا وہ خود ہی دنیا میں پیدا نہ ہوتا تو تم کیا کرتے یقیناً تم کو کسی اور کی طرف نگاہ اُٹھانا پڑتی ۔سو اب بھی ایسا ہی کیوں نہیں کر لیتے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ جس پہلے آدمی کی تم تقلید کر رہے ہو اس نے اس مسئلہ کو کیسے معلوم کیا اگر کسی اور کی تقلید سے معلوم کرلیا ہے۔ تو دور لازم آئے گی۔تو معلوم ہوگیا۔اور اگر اس نے دلیل سے معلوم کیا ہے۔ تو اس کی تقلید تو یہ ہے کہ تم بھی دلیل سے اس کو معلوم کرو۔ورنہ مخالفت لازم آئے گی۔تو معلوم ہوگیا کہ تقلید سے کوئ با ت کہنا تقلید کی نفی کی طرف لےجاتا ہے۔ پس تقلید باطل ٹھری۔تفسیر کبیر کا مضمون ختم ہوا۔

یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی کہ جب ان کو دلائل کے اتباع کی دعوت دی گئی۔تو وہ تقلید آباد کی طرف جھک گئے۔بعض کہتے ہیں  کہ یہ آیت یہود کی ایک جماعت کے حق میں نازل ہوئی۔ان کوحضورﷺ نے اسلام کی دعوت دی۔تو وہ کہنے لگے ہمارے باپ دادا  ہم سے بہتر تھے۔زیادہ عالم تھے۔ہم ان کی پیروی کریں گے۔(ابو السعود)

ان نافہم مقلدوں کے ہمپنیں طریقہ و شعار پر صد افسوس ہے کہ آئمہ مجتہدین کے اقوال پر بھی کا ربند نہیں ہوتے بلکہ  بمتقضائے مضمون آیت کریمہ  في كل واديهيمونیعنی وادی جہالت مین سردگرداں رہتے ہیں۔اور تابعداران متبعان خدا و  رسول کو بزعم فاسد خود سب وشتم و زدوکوب کرتے  ہیں۔اور لامذہب اور بد دین کہتے ہیں۔پس ان کے یہ تمام آثار و شعار بہ سبب ہوائے نفسانی و موجب عدم تدبر قرآن و حدیث و اقوال سلف صالحین و متاخرین محققین کے خلاف ہیں۔اور اقوال بلادلیل پر نازاں و فرحان ہیں۔مسلم الثبوت میں مذکور ہے۔

عن ائمتنا لا يحل لاحدان يفتي بقولنا ما لم يعلم ن اين قلنا انتهي وهكذا في  سم القوارض للملا علي قاري الهروي

واسامی کتب اہل اصول مذہب حنفی وغیرہ کے عدم وجوب تقلید شخصی میں یہ ہیں۔باب ثامن عشر قضا فتاویٰ عالم گیری وفتح القدیر و تحریر الاصول الابن الہام و تقریر شرح تحریر صاحب عنایہ و تجیر شرح تحریر امیر الحاج وشرح تحریر سید بادشاہ شرح منہاج علامہ قاسم و مسلم الثبوت محب اللہ البہاری و مختصر الاصول ابن حاجب و عضدی شرح مختصر الاصول وشرھ تحریر و مسلم مولانا نظام الدین و بحر العلوم مولوی عبد العلی و عقد الفرید شر نبلالی و طحاوی و رد المختار و طوالع الانوار حواشی در مختار مغتکم و عقد الجید و حجۃ اللہ  البالغہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی و سوالات عشرہ شاہ عبد العزیز و قاضی ثناء اللہ پانی پتی کا رسالہ عمل بالحدیث و کتاب فارسی جو گویا ترجمہ الثبوت ہے۔تنویر العینین و ایضاح الحق مولانا محمد اسماعیل شہید د ہلوی جیسا کہ واقفان و مزا ولان کتب مذکورہ پر مخفی نہیں ہے۔اس صورت میں مقلدین ہوا پرستان  پر واجب ہے۔کہ بنظر انصاف و تدبر تمام کتب مذکورہ کو ملاحظہ فرما کر افراط ۔تفریط سے باز آویں۔تا رضائے مولا پا دین۔

اند  کے باتو بگفتم و بدل  تر سیدم کہ دل آرزو وہ شوی ورنہ سخن بسیاراست

واضح ہو کہ جاہل ناواقف پر بمقتضائے ۔۔۔قرآن۔۔۔۔

مسائل کا پوچھنا اور سیکھنا شرعا فرض واجب ہے۔یعنی ہر جاہل لا علمی کے وقت کسی عالم اہل الزکر سے خواہ وہ عالم افضل ہو۔خواہوہ فاضل خواہ مفضول ہو۔کیونکہ اہل الزکر عند التحقیق عام ہے۔مسئلہ دریافت کر لیا کرے۔خواہ اہل عالم اہل زکر سے پوچھ لے۔یا دو سے۔فی الجملہ جس سے  تسلی اور دل جمعی ہو پھر جب ایک سے یا دو سے مثلا دریافت کر لیا عہدہ تکلیف سے باہر ہوگیا۔اس پر شرعا مواخذہ نہ رہا اور اسی پر قطعا اجماع ہوچکا۔جان لینا چاہیے کہ ہر اس آدمی کے لئے جو درجہ نظر و استدلال تک نہیں پہنچا ہے سارے مجتہد اور علمائے کاملین اہل زکر ہیں۔جن سے مسئلہ پوچھنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے۔جب کوئی مقلد کسی عالم کے قول پر عمل کرے گا تو اس نے اپنی تحقیق کرلی القول السدید وغیرہ سے ایسا ہی معلوم ہوا ہے۔

مسئلہ۔افضل اوراعلم کے ہوتے ہوئے بھی مفضول کی تقلید اکثر اہل علم کے نزدیک جائز ہے۔ہاں اامام احمد اور کچھ دوسرے علماء اس کے قائل نہیں ہیں ان کے نزدیک زیادہ صحیح کی تلاش ضروری ہے۔فی الواقع یہ رسالہ مسمی بر ثبوت الحق الحقیق واسطے حق کے کافی ہے۔اور واسطے ہدایت کے وافی ہے۔

1۔ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اولااللہ تعالیٰ نے اہل زکر میں عموم رکھا ہے۔اور صحابہ  کے زمانے میں یہ فیصلہ ہوگیا کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول صحابہ بھی فتویٰ دیا کرتے تھے۔توگویا اس طرح اجماع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے نے فرمایا کہ اگر صحابہ کا اجماع ہوتا تو ہمارے مخالفین کی بات راحج ہوتی مسلم الثبوت کا مضمون ختم ہوا۔سو جو عموم اہل زکر کا انکار کرے۔اس پر افسوس اللہ ہمیں حق دکھا۔آمین

الراقم ۔سید محمد نزیر حسین۔سید شریف حسین۔سید احمد حسن۔الہٰہی بخش شہاب الدین۔حررہ محمد عبد الروئوف مہدانوی عظیم آبادی۔محمد عبد العزیز عظیم آبادی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 213-225

محدث فتویٰ

تبصرے