السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماءدین و مفتیان شرح متین ذیل کے مسائل میں:::
1۔وترں میں دعا کے لئے جو رفع الیدین ہاتھوں کو جو اٹھایاجاتا ہے اس کا کیا ثبوت ہے؟
2۔وتروں میں دعائے قنوت بسند صحیح کونسی ثابت ہے؟اس کے الفاظ کیا ہیں۔مع حوالہ بیان فرماییں۔
3۔جب سجدہ تلاوت نماز میں کیا جائے۔تو رفع الیدین تکبیر کہنی چاہیے کہ نہیں یا بغیررفع الیدین وتکبیر سجدہ میں چلا جائے۔
4۔تکبیرات عیدین و نماز جنازہ میں رفع الیدین کرنا نبی ﷺ و صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے یا نہیں؟
5۔سجدہ تلاوت کے لئے جہت قبلہ اور وضو شرط ہے یا نہیں؟اور مس قرآن و تلاوت قرآن با وضو کرنا شرعی حکم ہے یا نہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔رفع الیدین قنوت وتر میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین سے آثار مروی ہیں۔اوراختلا ف بھی ہے۔نیز اس رفع الیدین میں اجمال ہے۔کہ آیا اس رفع الیدین سے للدعا ہے۔جیسا کہ اہل حدیث کا آجکل عمل ہے۔یا حنفیہ کی طرح رفع الیدین مثل تکبیر تحریمہ صرف ہاتھ اٹھانا ہے۔ہر فریق اپنے موافق کرتا ہے۔ابراہم نخعی کی توجیح حنفیہ کے موافق ہے۔ جس کی تفسیر وکیع نے کی ہے۔
رفع يديه قريبا من اذنيه قال ثم يرسل يديه انتهي ما في كتاب الوتر المذكور اور فثر با صبعك کا لفظ بھی اس کا موید ہے۔اور مطلق دعا کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اہل حدیث کے عمل کی موئد ہے۔والا مرسہل واسع لا حجر فیہ واللہ اعلم جز رفع الیدین امام بخاری میں بھی حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ او ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رفع الیدین قنوت ثابت ہے۔
2۔حسن ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ
عقلت عن النبي صلي الله عليه وسلم دعوات كان يدعوبهن وامرني ان ادعو بهن اللهم اهدني الحديث
آگے وہی دعا ہے جو اہل حدیث حضرات پڑھتے ہیں۔مگرصیغے سب مفرد کے ہی ہیں۔اوریہ حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور محمد بن حنفیہ سے بھی مروی ہے۔کذا فی قیام الیل المذکور جمع کے صیغے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیں۔حصن حصین میں بھی کچھ آثار ہیں۔اورسب صحیح اور قابل عمل ہیں۔
3۔نماز میں بوقت سجدہ تلاوت ر فع الیدین کی تصریح مستحضر نہیں۔اور غالباً ہے بھی نہیں۔ایسے ہی تکبیر کی تصریح بھی مستحضر نہیں۔مگر حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
قال رايت النبي صلي الله عليه وسلم ييكبر في كل رفع وخفض وقيام وقعود (رواه احمد والنسائي والترمذي وصححه)سے تکبیر ثابت ہوتی ہے۔ اور کہنی چاہیے۔
4۔مرفوع روایت معلوم نہیں آثار ہیں۔
عن نافع عن ابن عمر انه قال يرفع يديه في كل تكبيرة علي الجناذة وفي رواية اخريان عبد الله بن عمر كان اذا صليعلي الجنا زة رفع يديه انتهي
عید کی بابت زادلمعاد میں ہے۔
كان ابن عمر مع تحريه للاتباع يرفع يديه مع كل تكبيرة انتهي
صفحہ 124 مطبوعہ مصر جز رفع الیدین میں قیس ابن حازم اور نافع ابن جبیر اورعمر ابن عبد العزیز اور مکحول او ر وہب ابن منبہ اور امام زہری وغیرہ سے بھی ثابت ہے ۔ایسے ہی عیدین کی نماز کی تکبیرات میں رفع الیدین کا ابراہیم نخعی ؒ کا بھی ایک اثر ہے رواہ الطحاوی فی معنی الاآثار بس۔وفد نجیب سے بھی ثابت ہے۔کہ وہ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو عرض کیا ہم فریضہ ء صدقات لائے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ان کو واپس لے جا کر وہیں کے فقراء پرتقسیم کردو۔عرض کی ہم تو وہاں کے فقراء کو دے کر لائے ہیں۔ا نسے جو بچا ہے وہ لائے ہیں۔پھر حضرت ﷺ نے سکوت فرمایا۔انہوں نے آپﷺ سے مسائل دریافت کئے۔آپﷺ نے ان کو تعلیم دی۔اور جائز ہ بھی دیا۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین حضور ﷺ سے بہت خوش ہوئے۔
5۔سجدہ تلاوت میں جہت قبلہ اور وضو کی شرط گوثابت نہیں۔لیکن اولویت ہے صحیح بخاری میں ہے۔ان ابن عمر يسجد علي غير وضوء انتهيفتح الباری میں بہقی سے بسند صحیح ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔قال لا يسجد الرجل الاهو طاهر انتهيفتح الباری میں اس کو طہارت کبریٰ پر محمول کیا ہے۔یا صغریٰ حالت اختیار میں اور عدم حالت ضرورت میں مگراولویت پر عمل اولیٰ ہے۔ابو عبد الرحمٰن سلمی سے بھی عدم طہارت اور عدم توجہ الی القبلہ مروی ہے۔مگر جہت قبلہ اولیٰ ہے۔اور نماز میں توجہت لازم ہے۔مس قرآن کے بارے میں مرفوع حدیث ہے۔
لا يمس القران الا طاهر(رواه طبراني)
لہذا بلاوضو مس منع ہے۔ قراۃ بلا وضو کے بارے میں امام بخاریؒ نے امام نخعی سےجواز نقل کیا ہے۔مرفوع حدیث سے بھی جواز ثابت ہے۔جو بخاری وغیرہ میں ہے کہ حضور ﷺ نے خواب سےاٹھ کر پہلے چند آیات قرآنیہ پڑھیں۔پھر وضو کیا لہذا وضو اولیٰ ہوا نہ شرط اور نہ لازم۔(احمداللہ سلمہ پھاٹک حبش خاں دہلی 28 رمضان 1361 ھ اخبارمحمدی جلد نمبر 19 ش 19)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب