سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) وظیفہ یا مشاہر یا تنخواہ لے کر کسی مسجد کا امام بننا یا تنخواہ مشاہر وغیرہ دیکر امام مقرر کرنا..الخ

  • 3589
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1829

سوال

(11) وظیفہ یا مشاہر یا تنخواہ لے کر کسی مسجد کا امام بننا یا تنخواہ مشاہر وغیرہ دیکر امام مقرر کرنا..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان اس مسئلہ میں کہ وظیفہ یا مشاہر یا تنخواہ لے کر کسی مسجد کا امام بننا یا تنخواہ مشاہر وغیرہ دیکر امام مقرر کرنا جائز ہے یا نہیں۔؟اور اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں۔اور اگر جائز ہے تو اس  کی کیا دلیل ہے۔اوراگرجائز نہیں تو اس کی کیا دلیل ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عہد نبوی میں رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس نماز پڑھایا کرتے تھے۔پھر خلفاء راشدین بھی  حکومت اسلامی میں سلاطین اسلام اس وجہ سے (سوائے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اور اسماعیلی کی روایت کے مطابق حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بھی فتح الباری)کبھی اس امر میں وظیفہ و تنخواہ کی نہ ضرورت پیش آئی او ر نہ ہی زکر ہوا۔صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے۔تو فرمایا کہ میں اور میرے اہل و عیال میری محنت سے گزراواقات کرتے تھے۔اب چونکہ میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوں۔ لہذا میں اور میرے اہل و عیال بیت المال سے کھائیں گے۔(صحیح بخاری)اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے مشورے سے آپ کا وظیفہ مقرر کردیا۔(فتح الباری)اس اجماع سے ثاتب ہو کہ انتظام خلافت و امامت میں اگر منتظم کو تنخواہ کی ضرورت و حاجت ہو کہ بنا س کے کام نہیں چل سکتا۔ناقص رہتا ہے۔تو اس کی  تنخواہ مقرر کرنی بھی جائز ہے۔اور اگرچہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمہ دونوں کام تھے مگر چونکہ دونوں میں افادہ و اصلاح اہل اسلام ہے۔اوردونوں امردینی ہیں۔لہذا دونوں کی علت جامعہ ایک ہے اورحکم بھی ایک کہ اگر کہیں نماز با جماعت کےی انتظام میں منتظم کو وظیفہ و تنخواہ کی ضرورت ہوکہ بلا اس کے خوردو نوش کا کام نہین چل سکتا یا ناقص رہتا ہے۔تو اس  کا وظیفہ مقرر کرنا بھی جائز ہے اور اگر وہ کامل سرمایہ وارہے کہبلاتنخواہ اس کے اور اس کے اہل ووعیال کے خوردونوش وٖغیرہ ضروریات سب چل سکتے ہیں۔تو پھر اس کو تنخواہ لیناجائز نہیں۔رہا اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم تو قسم اول میں تو کلام نہین کہ جائز ہے۔دوسری قسم کے امام کے پیچھے نماز ایک  روایت کے مطابق ہوجائے گی۔مگر اس کو امام نہ بنایاجائے۔بحکم حدیث نبوی ﷺ

اجعلوا ائمتكم خياركم (بيهقي) و في رواية ان سركم ان تقبل صلوتكم فليو مكم خياركم

(اخرجہ الحاکم)اور یہ بھی واضح رہے کہ جو امام بلاتنخواہ نماز پڑھائے گا وہ کسی کے دبائو میں نہ رہے گا۔بحکم حدیث نبویﷺ!الامام ضامن (ترمذي وغيره)

شرع کے مطابق تعین اوقات نماز و حاضری وغیرہ ہر امر میں وہ مختار ہوگا اور اگر متولیان مسجد کسی کو امام نماز مقرر کر کے اپنے نوکر کی طرح اس کو اپنے دبائو میں رکھیں کہ تبدیل اوقات ایجاز و عدم ایجاز صلوۃ وغیرہ کسی امر مٰں اس کا دخل نہ ہو ہروقت یا علاوہ وقت  نماز کے بھی اس کی حاضری ضروری ہویا خدمت مسجد یا حفاظت و درس تدریس وغیرہ بھی اس کے زمہ لازم ہو تو وہ صرف امام ہی نہیں بلکہ مزدور ہے۔اور بحکم حدیث نبوی ﷺ اعطوا الاجيراجره(سنن ابن ماجہ مسندابو یعلیٰ) اس کی  تنخواہ واجب ہے۔واللہ اعلم ابو سعید محمد شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ عربیہ دہلی 22 رمضان 61 ء اخبار محمدی دہلی جلد 19 نمبر 2 )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 95-97

محدث فتویٰ

تبصرے