سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اعتکاف کے دوران نہانا

  • 358
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 643

سوال

سوال: کیا اعتکاف میں نہانا گناہ ہوتا ہے؟ میرا ایک دوست ہے جو کی تبلیغی ہے وہ اس رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں تھا اور اس نے مجھے بتایا کی ہمارے امام نہانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کی اگر احتلام وغیرہ ہو جائے تبھی نہانے کی اجازت ہے ورنہ ایسے ہی جسم کو صاف ر

جواب: اعتکاف کا اصل مقصود تقرب الی اللہ اور اللہ کی ذات سے لو لگانا ہے۔ پس اعتکاف میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت الہی میں گزارنا چاہیے۔ اعتکاف کے اس مقصد کے پیش نظر معتکف کا ضرورت کے بغیر مسجد سے نکلنا روایات میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ پس اگر تو نہانا کسی ضرورت کے تحت ہو جیسا کہ غسل جنابت یا میل کچیل و پسینہ وغیرہ دور کرنے کے لیے تو اس کی اجازت ہے لیکن روٹین اور عادت پوری کرنے کے لیے صبح و شام کے غسل کے لیے مسجد سے باہر نکلنا اعتکاف کی روح و مقاصد کے خلاف طرز عمل ہے۔ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
سوال ؛ اعتکاف کی شروط کیا ہیں ، اورکیا روزے اعتکاف کی شروط میں شامل ہيں ، اورکیا اعتکاف کرنے والا مریض کی عیادت یا پھر کسی کی دعوت قبول کرسکتا ہے یا اپنے گھرکی ضروریات پورا کرسکتا ہے یا جنازہ کے ساتھ جاسکتا ہے یا کام پر جاسکتا ہے ؟
الحمد للہ
جس مسجد میں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہووہاں اعتکاف کیا جاسکتا ہے ، اوراگر اعتکاف کرنے والا ان میں سے ہو جن پر جمعہ واجب ہے تووہ جمعہ کے لیے دوسری مسجد میں جاسکتا ہے ، اس لیے اگراس مسجدمیں جہاں جمعہ ہوتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تو افضل ہے ۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے روزہ لازم نہیں ۔
اعتکاف کرنے والے کےلیے سنت یہ ہے کہ وہ دوران اعتکاف نہ تو کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اورنہ ہی کسی کی دعوت کھانے مسجد سے باہر جائے ، اور نہ ہی اپنی گھریلوضروریات پوری کرنے کے لیے مسجدسے نکلے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے اوراسی طرح ڈیوٹی پرجانےکےلیے مسجد سے باہر نہ نکلے کیونکہ حدیث میں ہے کہ :
عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے ، اورنہ عورت کو چھو‎‎‎ئے اورنہ ہی اس سے مباشرت کرے ، اور نہ ہی کسی کام کے لیے نکلے ، لیکن جس کام کے بغیر گزارہ نہ ہو وہ کرسکتا ہے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2473 ) ۔ .
دیکھیں : اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 410 ) ۔

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ