سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) سنت کو مضبوطی سے پکڑنا

  • 3579
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5804

سوال

(01) سنت کو مضبوطی سے پکڑنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنت کو مضبوطی سے پکڑنا۔  فتاوی علمائے حدیث جلد11 (مقدمہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عرف میں حدیث کا لفظ قرآن عزیزی اور آثار نبویہ پر بولا گیا ہے ۔آپ ﷺ کے ارشادات اور افعال و اجتہادات او خاموشیاں آثار میں شامل ہیں مسائل کے اسنتنباط و استخراج میں ان آثار کو آساسی حیثیت حاصل تھی اور ہے۔قرآن مجید کے فہم میں آپ ﷺ کا جو مقام تھا۔وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکتا۔اگر کوئی دوسرا شخص یہ مقام حاصل کرسکے تو  آپ ﷺ کا اسطفا اور انتخاب عبث  ہوگا۔نبی اور غیر نبی میں کوئی جوہری امتیاز نہیں رہے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٤٤

ترجمہ۔ہم تم پر قرآن صرف اس لئے ناز ل کیا ہے۔کہ تم لوگوں کے سامنے اسے بیان کرو اور لوگ اسے سوچیں۔لتبین میں تعلیل جو حق آپﷺ کو دیا  گیا ہے۔اگر یہ حتمی مقام کسی  افراد کو یا چند افراد کو مرکز ملت دیا جائے۔تو آیت کے دونوں فقروں میں ربط نہیں رہے گا۔تعلیل کا مقصد یکسر ختم ہو جائے گا۔اس مقام عظیم کا استحقاق نہ کسی قرآنی معاشرے کو دیا جاسکتا ہے اور نہ فقہی اور اجتہادی معاشرہ کو اس مقام کی وضاحت قرآن عزیز نے مختلف وجوہ سے  کی ہے۔وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَمیں دو اطاعتوں  تذکرہ عطف کے زریعے کیا گیا ہے۔جس کا اولیٰ مفہوم اور استقلال ہے۔یعنی آپﷺ کی اطاعت قرآن عزیز کی نظر میں بالا ستقلال فرض ہے۔صیغہ  امر سے بھی اولا یہی مفہوم ہوا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّ‌سُولِ رَ‌أَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا ﴿٦١

جب ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحی اور آپﷺ کی طرف بلایا جائے۔تو تمھیں معلوم ہوگا کہ منافق تمہارے نام سے رکتے اور بدلتے ہیں۔

اس مقصد کی وضاحت سورۃ  نساء میں ایک انداز سے فرمائی ہے۔جس میں اخلاق اور تشریح کی حد سے گزر کر تعزیر او ر تادیب کا انداز اختیار کیا گیا ہے ارشاد ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُ‌ونَ بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يُفَرِّ‌قُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ‌ بِبَعْضٍ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّ‌قُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَ‌هُمْ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿١٥٢

جو لوگ اللہ تعالیٰ او اس کے ر سول ﷺ کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ان کا ارادہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول میں تفریق قائم رہے وہ کہتے ہیں ان میں بعض رپر ایمان لایئں گے اور بعض کا انکار کریں گے۔وہ ایمان او ر کفر کے درمیان راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ یقینا کافر ہیں اور اہل کفر عذاب کی رسوایوں میں مبتلا ہوں گے اور جو لوگ اللہ لے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے لئے اطاعت و انقیاد می فرق نہیں کرتے ان کے اجر ان کو ملیں گے اور اللہ کی  رحمت اور بخشش ان کے شامل حال ہوگی ان آیات میں چند مسائل ثابت ہوئے ہیں۔1۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ایمان اور کفر میں یکساں ہیں۔جو شخص رسول کے ساتھ کفر کر لے۔وہ اللہ  تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہوسکتا اسی طرح خدا کے ساتھ کفر کر کے پیغمبر ﷺ پر ایمان نا ممکن ہے۔

2۔ذات کے لہاظ سے اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ جدا جدا ہیں۔اطاعت و انقیاد میں جدائی نہیں ہے۔اطاعت و انقیاد میں  تفریق کو قرآن عزیز نے قطعی کفر فرمایا ہے۔

أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١

3۔منافق رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے تیسری راہ بنانا چاہتے ہیں۔قرآن عزیز کا ارشاد ہے۔کہ یہاں تیسری راہ کوئی نہیں۔

4۔اسی تفریق سے بچنا اور خدا اور اس کے رسول کی بیک وقت یکساں اطاعت کرنا یہ اصل ایمان ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اور غفران اور آخرت کی کامیابی اسی قسم ک ایمان پر منحصر ہے۔

5۔حدیث اور قرآن میں تو افق ہو تو حدیث سے انکار کا  سوال ہی  پیدا ہوتا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قرآن خاموش ہو یا اس میں اجمال ہو اور سنت اس کی تفصیل کرے یا قرآں حدیث سے متعارض ہو تو تعارض کی صورت میں قرآن پر عمل ہوگا۔آئمہ سنت اس پر متفق ہوں۔کہ خاموش اور اجمال کی صورت میں اہل سنت کے نزدیک سنت پرعمل فرض ہے۔محبت شرعی کا یہی مفہوم ہے رسول کا تذکرہ بلحاظ رسول اور بلحاظ اطاعت اور رسول کا اس اطاعت میں استقلال اس کی مخالفت میں تہدید اور کفر  کا لزوم اعمال کا حبط عذاب الٰہی کی وعید قرآن پا ک میں بار بار آئی ہے۔لمبی صورتوں میں یہ تذکرہ مختلف عنونوں سے متعدد مقامات میں آیا ہے سورت اعراف اور سورۃ انساء سورۃ احزاب میں اطاعت انبیاء کی تاکید کثرت سے آئی ہے۔اس لئے اطاعت کا اس کے سوا کوئی مفہوم نہیں۔کہ جو ان کی زبان سے ثابت ہو۔اور صحیح طور پر ہم تک پہنچ جائے اس کے خلاف کوئی محدث ہو یا کوئی مجتہد مجدد ہو یا فقیہ اس کی  بات متروک ہے۔اسی طرح کوئی مرکز ملت ہو یا کوئی خود ساختہ قرآنی معاشرہ یا قرآنی نظام اس کی کوئی قیمت نہیں ہوگی اسف دینا کا کوئی علم علم نبوی سے متگعارض او متصادم نہیں ہوکستا بلکہ اگر آپ ﷺ کا ارشاد قرآن کے کسی اجمال کی تفصیل ہو یا کسی حکم کی تشریح اور وضاحت ہو تو آپ ﷺ کا ارشاد ہے ۔قرآن کے اجمال میں قاضی ناطق ہوگا۔

پہلا دور

اسی اصل کی بنا پر  زمانہ نبوت ہی میں آپﷺ کے ارشادات کی طرف صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین نے توجہ مبذول کروائی۔کاروباری لوگ نوبت نبوبت ان دروس اسباب میں شامل ہوتے دروس کے حلقوں میں بیٹھتے احادیث لکھتے املا کی مجالس منعقد ہوتیں۔احادیث کا سماع اور ضبط ہوتا۔(مجمع الزوائد للحافظ الہشیمی ص1 ض1)فارغ البال حضرات  پورا وقت آپ ﷺ کی خدمت میں گزار دیتے۔احادیث لکھتے یاد کرتے عبد اللہ بن عمرو بن عاصرضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی کتاب صادقہ اسی دور کی کتاب ہے۔جو پوری کی پوری موطا او الجامع الصحیح للامام محمد بن اسماعیل البخاری میں آگئی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی کتاب 1حیدر آباد

1۔صحیفہ ہمام بن منبہ عن ابی ہریرہ  کی احادیث حرف بحرف و سند احمد بن حنبل میں موجود ہے۔

دکن میں اب چھپی ہے۔اور عجیب یہ ہے کہ اس نسخہ میں اور ان احادیث میں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں ضبط فرمائی ہیں کوئی فرق نہیں۔یعنی زمانہ نبو ت میں جو کچھ لکھا گیا تھا۔تیسری او چوتھی صدی تک اس میں کوئی تبدیلی  نہیں ہوئی وہ بالکل محفوظ تھا۔

مرکز ملت

اگر کوئی تجویز ان حضرات کے ذہن میں ہوتی تو حدیث کی جمع و تدوین کی ضرورت نہ وہوتی بلکہ سارے سیاہ و سفید پر مرکز ملت کا قبضہ ہوا کیونکہ وہ مختار ہے  جب چاہیے اسادی اور بنیادی مسائل کو بدل دے نماز روزہ حج ذکواۃ تمام بنیادی مسائل اور اارکان میں کمی کرے یا اسے بالکل اسے منسوخ قرار دے دے۔پھر سچ تو یہ ہے کہ قرآن کی بھی چنداں جرورت نہیں رہتی۔پرویز صاحب کی تفسیر سنیے۔نبی اکرمﷺ دورخلافت راشدہ میں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت سے مفہوم مرکز ملت کے فیصلوں کی اطاعت تھا اورر بس (مقام حدیث ص65 ج1)زمانہ نبوت اور خلافت راشدہ تک مرکز ملت کے مجہول نظریہ کا کوئی نشان نہ تھا اس لئے احادیث کے جمع و حفظ اور لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

دوسرا دور

قرآن عزیز کی تفسیر اور احادیث کی عملی تشریحات کے لئے صحابہ  رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے فتوے یعنی موقوف روایات اور ترسیل کو بھی جمع کیا گیا موگا امام مالک اور مصنف ابن ابی شیبہ کے انداز کی کتابیں تصنیف ہوئیں۔مگر ان موقوفات کو کبھی حدیث کا ہمسایہ نہیں سمجھا گیا انہیں شخصی آراء کی حیثیت گی گئی۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے نحن رجال وھم رجال فرما کر موقوف روایات کی قیمت کو واضح کر دیا۔امام شافعی ؒ سے بھی منقول ہے۔كيف اتبع رجالا لو عاصرتهم لجادلتهممیں ان لوگوں کی اتباع کیسے کروں۔اگر میں اس وقت موجود ہوتا۔تو ان سے بحث کرتا اس مواد سے صرف اس دور کا انداز فکر معلوم ہوتا ہے۔طریقہ استدالال کا پتہ چلتا ہے۔آج بھی موقوفات اور علماء کے فتووں سے اسی حد تک استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

تیسرا دور

اس دور میں حدیث کی تمام اقسام صحیح حسن ضعیف مرسل کو جمع کر دیا۔اور تحقیق کے لئے طالب علم کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔جسے مستند سمجھے اس سے استدلال کرے جو تحقیق کے خلاف ہو اسے نظر انداز کر دے۔سیوطی۔دیلمی۔ابن عدی۔طبرانی۔وغیرہ نے اور بھی اندھیر کر دیا کہ موضوع او ر مختلف زخائر کو جمع کر دیا۔بعض کتابوں میں ان پر اجمال کلام ککا بھی احساس نہیں فرمایا اس س اتنا فائدہ ہوا کہ وضاع بھی مل گئ اور ان کےکرتوت سے بھی آگاہی ہوگئی چور بھی ملا وری بھی براآمد ہوگئی۔لیکن یہ فائدہ اہل علم اور رجال سے متعارف لوگوں کوہوا  عوام کے لئے یہ قطعا غیر مفید  ثابت ہوا بریلوی اور شیعہ حضرات کا سارا کاروبار اسی عظیم ذخیرہ سے چلتا رہا۔

امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ

سیوطی تو بہت بعد کے ہیں۔امام بخاری سے پہلے جرح تنقید کا رواج آئمہ حدیث میں موجود تھا۔امام بخاری خود آئمۃ جرح تعدیل میں سے ہیں۔اپنے استاداسحاق بن راہویہ کے ارشاد کے مطابق امام بخاری کی توجہ اس طرف ہوئی۔انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ چند شرائط کے مطابق ایک مسنتد ذخیرہ کا ضعاف اور مراسیلسے الگ کر دیا جائے عمل کرنے والوں کو اسی میں سہولت ہوگی امام نے یہ امام نے یہ مجموعہ جامعہ الصحیح سولہ سال میں مرتب فرمایا۔جہاں تک انسانی مساعی کا تعلق ہ انسانی حدود کے اندر یہ کوشش بے حد کامیاب ہے اسی محنت کی بدولت امام کو (جبل الحفظ اور امام الدنیا) کا خظاب دیا گیا۔ایام تصنیف سے صحیح بخاری علمائے فن کی بحث و نظر کا تختہ مشق رہی موفق مخالف دونوں نے صدیوں اس پر طبع آزمائی کی کسی نے تنقید و اادستددراک کی چھاج میں پھٹکا کسی نے حمایت کی اور ان جرحوں کا جواب دیا۔ان تمام مراحل کے بعد اسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کہا گیا۔نقاد حضرات میں عقل پرست بھی  تھے۔اورحفاظ بھی محدث بھی تھے۔اورصوفی بھی اس میں اکاذیب کی احادیث بھی  تھیں۔اور موسٰی ؑ کےتھپڑ کا قصہ بھی  تھا۔بقول امام ابن قتیبہ دینوری بعض اہل علم نے احادیث سے استدالال کیا ور بوقت ضرورت کذب و ترریض کی اجازت کا فتاوی دیا اس وقت کے بدعت نواز سنت کی سنت کی مخالفت کے باوجود اس طرح بد زبانی نہ کر سکے۔جو ادارہ طلوع اسلام او ر منکرین حدیث کا طرہ امیتاز ہورہی ہے۔علم و جہل میں یہی فرق ہے۔(ملاحظہ۔ہرمقام حدیث ص61 ج1)حدیث یہ اعتراضات مختلف ادوار میں ملاحظہ فرمایئں۔ آپ کو تعجب ہوگا۔کہ ایک عقل پرست اسے خلاف عقل کہتا ہے۔دوسرا اسے اقتضار وقت ک مطابق سمجھ کر استدالال کرتا ہے کہ ایک صاحب بعض احادیث کو قرآن کے خلاف سمجھتے ہیں دوسرے ان کو ہم  پلا اور ہم پیشہ صحیح اور عقل کے بالکل مطابق سمجتے رہے۔ان علم وعقل کے یتامیٰ اور مساکین کا ہمیشہ یہی حال رہا اپنی بے علمیوں اور بد عملیوں کو چھپانے کے لئے سنت پر اعتراضات کر ڈالتے ہیں لیکن اتنا نہیں سوچتے کے تمارے علم وعقل کو معیار کی سندکس نے دی ہے۔غرض امام بخاری نے اپنے وقت کے تمام معیاروں کو سامنے رکھ کر صحیح احادیث کا انتخاب فرمایا۔حدیثی۔فقہی۔عقلی۔قرآنی تمام معیاری چیزیں امام کے سامنے ہیں ان معیاری مشروط کو سامنے رکھ کر امام نے قریب چار ہزار حدیث بحذف مکررات انتخاب  فرمائی۔باقی کو مسنتد نہیں فرمایا۔بلک ان کا تذکرہ باقی کتب میں فرمایا۔جس میں یہ کڑی شرائط نہیں ہیں۔چنانچے اس دور کے مجدد حضرات شاہ ولی اللہؒ نے جنہوں نے ہندوستان کے جہلستان میں کتاب وسنت کو رواج دیا۔قرآن کی تعلیمات سےلوگوں کو آشنا فرمایا۔تقلید و جمود کے ظلمستان میں تحقیق کے چراغ جلائے۔اور بدعت کے اندھیروں  کو پارہ کر کے رکھ دیا۔صحیحین کے متعلق فرماتے ہیں۔

اما الصحيحان  فقد اتفقالمحدثونعلي  بان هذا جميع ما فيها من المتصل المرفوع صحيح بالقطع وانهمامتواتران اليمصنفيهما وانهكل من نكبندي امرهمافهومبتداع متبع غيرسبيل المومينين وان شئت الحق الصراح فقسهما بكتاب ابن شيبة وكتاب الطحاوي ومسند الخوارزمي تجد بينها وبينهابعد المشرقين

(حجۃ اللہ البالغہ ص106ج1)صحیح بخاری کے متعلق محدثین متفق ہیں۔ان میں متصل اور مرفوع احادیث قطعا صحیح اور ان کی اسنا د ان کے مصنفین تک متواتر ہیں۔جو ان میں نکتہ چینی کرے۔اور ان کے مقام کو حقیر سمجے۔وہ بدعتی ہے اوراہل ایمان کی راہ سے اس کی راہ جدا ہے اگر آپ کیحق کی مزید وضاحت چاہیں۔تو مصنف ابن ابی شیبہ معانی الاآثار طھاوی اور سند خوازمی سے ان کا مقابلہ کریں۔آپ ان میں زمین آسمان کا فرق پایئں گے۔اور شاہ صاحب کی اس جچی تلی رائے پر لاکھوں منکرین حدیث قربان کئے جاسکتے ہیں۔یہ بے چارے علم و بصیرت دونوں سے محروم ہیں،تک بندی اور ہفوات کے ماہر ہیں۔ان کے ہاں اسی کا نام علم وبصیرت ہے اس کا نام تجدید و اجتہاد اب شیخ الالسلام ابن  تیمیہ کی رائے پر غور فرمایئے۔

ولهذا كان اكثر متون الصحيحين مما يعلم علماء الحديث علما قطعيا ان النبي صلي الله عليه وسلم قالهتارة لتواتره عن هموتارة لتلقي الامة له بالقبول

(فتاویٰ ابن تیمیہ ؒص409ج1)صفات رواۃ کی بنا پر صحیحین کے اکثر متون کے متعلق قطعی علم ہے۔کہ آپ ﷺ کاارشادگرامی ہے۔یہ قطعیت کبھ تواتر  کی وجہ سے ہوتی ہے۔کبھی امت کی قبولیت کی وجہ سے الخ بلکہ اگر خبرواحد کو بھی امت کی طرف سے قبول عام حاصل ہوجائے۔تو آئمہ اربعہ اوراشاعرہ کے نزدیک موجب علم ہوگی۔الخ(ابن تیمیہ حوالہ مذکورو)

مقالہ

پیش نظر مقالہ میں صحیح بخاری کے خصائص پر سیر حاصل بحث فرمائی گئی ہے۔منکرین حدیث کا اصل یہ ہے کہ فرامین نبوی کوشرعا حجت ہی نہیں مانتے۔مولوی اسلم اور جیرا جپوری اور تمنا عمادی وغیرہ عموماً بحث پھیلانے کے لئے فنی مباحث کو لے آتے ہیں۔یہ حضرات اپنی عقلوں کو احادیث کی تنقید کے لئے معیار سمجھتے ہیں۔تفسیرقرآن کے لئے ان کےف ہاں معیار صحہ وہ ہفوات ہیں جو ان حضرات کے قلم سے ٹپک جایئں مولانا علمی اور اصلاحی حیثیت سے اس مقالہ میں کافی حد تک کایاب ہیں چونکہ اہل قرآن بھی صحیح بخاری پرعموما ً اعتراض کرتے ہیں۔مولانا نے ان شبہات کو حسب امکان ذائل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔

ایک معیار

منکریں حدیث کہا کرتے ہیں۔کہ صداقت کاسب سے بڑا معیار واقعات ہیں اگر کوئی چیز واقعات کے مطابق ہے۔تو اس سے بڑی کوئی سند نہیں اگر یہ معیار درست ہے تو حدیث کی صدات لے لئے اس روشنی میں غور کرنا چاہیے۔حدیث میں آپﷺ کی دو پیشگویئاں ہیں۔اہل قرآن کے متعلق منقول ہیں۔جو پوری کی پوری درست ہوئیں ہیں۔ابو رافع مقدام بن معد مکرب عرباض ساریہ کی یہ حدیث مسند احمد ابو دائود ترمذی اور ابن ماجہ بہیقی دارمی وغیرہ کتب و حدیث میں مروی ہے۔

لا الفين احدكم متكيا علي اريكته يا تيه الامر من امري فما امرت به او نهيت عنه فيقول لا ادري ما وجد نا في كتاب الله اتبعنا ه

(مشکواۃ ص29 ج1)تم میں سے کوئی آدمی اپنی چارپائی پر وزاز ہوگا۔جب اسے میرا حکم ملے گا۔جس چیز سے میں نے روکا ہے۔اور اسے اس کا علم ہوگا اور کہے گا۔ہم نہیں جانتے ہم صرف قرآن کی اطاعت کریں گے۔اور ہندستان میں انکارحدیث سب سے پہلے عبد اللہ چکڑ الوی نے کیا۔حدیث میں ان کا حلیہ بتایا گیا ہے۔ان کی ٹانگیں بے کا ر ہوگئیں۔چل پھر نہیں سکتے تھے۔تمام دن چار پائی پر بیٹھے رہتے تھے۔یہ عارضہ ان کو زہر کھانے کی وجہ سے ہواتھا۔اہل قرآن حضرات غور فرمایئں۔حدیث واقعات کے کس  قدر مطابق ہے اور اول المنکرین کا حلیہ کس خوبی سے بیان فرمایا ہے۔اسے تو واقعاتی شہادت کے طور پرضرورقبول کرنا چاہیے۔دوسری حدیث ہمارے  شہر گوجرانوالہ کے متعلق ہے۔ہم شاہد ہیں ہم نے اس حدیث کی صداقت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ابن وضاح حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے قیامت کی علامات کا زکر فرماتے ہوئے دو فرقون کازکر کرتے ہیں۔

حتي تبقي فرقتان من فرق كثيرةتقول احد هماما بال الصلوة الخمسلقد ضل من كان قبلناانما قال الله اقم الصلوة طرفي النهار وزلفا من الليل لا تصلون الا ثلاثا وتقول الا خري انما المومنون بالله بايمان الملئكة ما فيها كافر ولا منافق حق علي الله ان يحشر هما مع الرجال

(الاعتصام للشاطبی ج1 ص90) بہت سے فرقوں میں سے صرف  دو فرقے باقی رہ جایئں گے۔ایک کا خیال ہوگا کہ نمازیں صرف تین ہیں۔پانچ نہیں ۔پہلے والے لوگ گمراہ تھے۔قرآن میں دن ک دونوں طرفف اور رات کے بعضج حصوں میں نماز  پڑھنے کازکر آیا ہے دوسرے گروہ کا خیال ہوگا کہ تمام مومن ایمان میںفرشتوں کی طرح ہیں کوئی کافر یا منافق نہیں اللہ تعالیٰ ان کا حشر رجال کے ساتھ فرمایئں گے۔

مولوی عبد اللہ چکڑالوی پانچ نمازیں پڑھتے ہیں۔ان کے شاگرد رشید مستری محمد رمضان گوجرانوالہ کہتے تھے کہ نمازیں صرف تین ہیں اس سے زیادہ پڑھنے والا گمراہ ہے۔ان کے بیان وعمل کی یہاں کی بہت  جماعت چشم وید شاہد ہے واقعات کی شہادت کی بنا  کم از کم یہ دوحدیثیں تو یقینا درست ہیں۔اور سچی ہیں۔اگر یہ حدیث درست ہے اورواقعات سے توافق واقعی صداقت کا میعار ہے تو اہل قرآن کی تحریک کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔میرے محترم  دوست مولانا عبد الروئوف جھنڈا نگری نے سنت کی نصرگ وجماعت میںقلم اٹھایا ےہ اور بڑی چھان پھٹک کر اس کے لئے معاد فراہم کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر دے عامۃ المسلمین کو توفیق دے کہ اس سے استفادہ فرما سکیں۔مخالفین سنت کو توفیق ملے کہ وہ اپنے انجام پر غور کریں۔اور ان نتائج کو سوچیں جو ان کی تحریک سے اسلام اور مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے ان کی اس تحریک کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس سے سلف آئمہ کا ایمان اور دانشمندی مجروح ہوتی ہے۔کہ انہوں نے سینکڑوں سال ایک ایسے فن پرمحنت کی جو دراصل شرعا کوئی دینی قیمت نہیں رکھتا تھا۔یہ لوگ اسے ایمان اوردین سمجھتے رہے۔نیز اس تحریک کا نحصار محض سلبی اقدار پر ہے۔انکا ر حدیث میں کوئی ایجابی حقیقت موجود نہیں۔(محمد اسماعیل مرحوم گوجرانوالہ)

نوٹ

مولانا سلفی مرحوم کا یہ مضمون نصرۃ الباری فی بیان صحت البخاری سے اخذ کیا گیا ہے۔جو مولانا عبد الروف رحمانی جھنڈا نگری کی تالیف ہے ۔(سعیدی)

انگریزی تعلیم کی بدولت مذہبی آذادی کی یہاں تک نوبت پہنچی ہے۔کہ جو جس کے جی میں آوے کہے۔یا کرے کوئی مواخذہ نہیں۔قرآن مجید پر اعتراض کرے۔حدیث رسول ﷺ کا انکار کرے ۔الغرض اسلام کا مدعی ہوکر خود اسلام ہی کی بیخ کنی کی کوشش کرے لوگ اس کے ساتھ ہو لیتے ہیں حال ہی میں اپریل ‏ 1940ء؁ کے پرچہ رسالہ طلوع اسلام دہلی میں جو درحقیقت غروب اسلام ہے چوہدری ٖغلام احمد صاحب پرویز نے شخصیت پرستی کے پردہ میں بظاہر تو نصف اسلام(حدیث رسولﷺ) کا انکار کیا ہے۔مگر حقیقت میں بالکل اسلام (کتاب و سنت دونوں) ہی کی بیخ کنی کی کوشش کی ہے۔

ان کی ساری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث رسول ﷺ دین اسلام سے خارج ہے۔لہذا کتب حدیث یک لخت قابل عمل و اعتقاد نہیں۔دلیل یہ کہ جیسے قرآن قطعی اور محفوٖغ ہے اسیے ہی حدیث قطعی و محفوظ نہیں۔اس لئے کہ احادیث کو رسول اللہﷺ نے لکھوایا نہیں ضبط نہیں کرایا۔اگر کسی کچھ لکھ بھی لیا تو حضورﷺ نے حکم نہیں دیا۔پھر وہ الفاظ بھی لوگوں کا اپنا خیال یا فہم ہے نیز بہت سے بہت ثبوت ہیں۔وجوب نہیں۔پھر وہ نقل بالمعنٰے ہے۔حضور ﷺ کے الفاظ نہیں۔نقل در نقل بہت سے تغیرات ہوئے۔روایات کل یا اکثر یاداشت پر تھیں لکھی ہوئی نہ تھیں۔سو سال کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا۔کئی سو سال بعد  قوانین روایۃ مرتب ہوئے۔جرح و تعدیل کے دفتر کھلے۔پچھلوں نے صدیوں بعد پہلوں پرجرح ک یا ان کی توثیق لہذا اس کا کیا اعتبار اور اگر توثیق کا قعتطار بھی کا جائے تو یہ کیا ضرور ہے کہ ثقہ نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہو۔بھول چوک وہم و خظا کا احتمال ہے۔پھ سب کے سب فقیہہ وصاحب فہم سلیم بھی نہ تھے جس نے جو سمجھا لکھ لیا اب ان کی روایات کا اعتبار شخصیت پرستی ہے جو باطل ہے اگر احادیث جزودین ہوتیں تو  قرآن کی طرح رسول اللہﷺ ان کو ضبط کراتے ان کی تصدیق کرتے اور پھر یہ سلسلہ نا ایندم  جاری رہتا۔اور ایسا ہے نہیں لہذا کتب احادیث کا کوئی اعتبار نہیں محض ایک تاریخی حیثیت ہے کہ ہماری تنقید کے بعد قرآن کے مطابق ہے تو صحیح ہے ورنہ غلط دین وہی ہے جو قطعی ہو سو قرآن قطعی ہے اور احادیث ظنی  قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔احادیث کا ذمہ نہ اللہ نے لیا نہ رسول اللہ ﷺ نے بلکہ رسول اللہ ﷺ نےاحادیث کے لکھنے سے منع کیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی منع وارد ہے۔وابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی کہا کہ رسول اللہﷺ نے قرآن مجید کے سوا اور (احادیث) کچھ نہیں چھوڑا اور سنیے! رواۃ میں ہزاروں منافق کذاب بھی تھے۔جو بظاہر ثقہ اور باطن غیر ثقہ لہذا احادیث قابل وثوق نہیں۔

یہ ان کی ساری تحریر کا خلاصہ۔ضمنا اور باتیں بھی نقض یا طنز کے طور پرلکھ گئے جو محض ابلہ فریبی اور خلاف واقع ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ احقاق حق کے بعد ابطال باطل میں ان کا زکر بھی آجائے گا۔

احقاق حق

حضرات!حدیث رسول اللہﷺکا انکار کوئی نئی بات نہیں۔حضرت علی

رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مقابل ایک نئی جماعت اٹھی۔اس نے بھی حدیث کا انکار کیا۔او ر

كلمة اريدها الباطلیعنیان الحكم الا للهصحیح ہے۔مگر اس سے ان کی غرض باطل ہے۔یعن انکار حدیث مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سی مقامات میں  رسول اللہﷺ کے قول و فعل کے اتباع کی تاکید کی ہے تو انکار حدیث باطل ہے۔ذیل میں چند آیاتیں لکھی جاتی ہیں۔جن سے ثابت ہے کہ احادیث رسول ﷺ جزو دین ہیں۔ان پرعمل پیرا ہونا فرض ہے۔اس کے سوا ایمان حلب ہو جائے گا۔

1۔قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣١

ترجمہ۔کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو  تم سے اللہ محبت کرے گا۔اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرو(یعنی میرا) حکم مانو پھر اگر وہ پھر جایئں (تو وہ کافر ہیں)(پارہ 3 ع11)سو اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا آپ ﷺ کی پیروی آپ ﷺ کے قولو فعل دونوں میں ہے۔

2۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩

ترجمہ۔اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسول اور مسلم حکام کا کہنامانو پھر اگر  تمہارا آپس میں اگر کسی امر میں اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف پھیردو۔(یعنی ان کے کلام سے  فیصلہ کرو)اگر تم اللہ اور پچھلے دن یعنی قیامت پر ایمان لائے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔(پ5ع5)

3۔وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّ‌سُولِ رَ‌أَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا ﴿٦١

ترجمہ۔اور جب ان کو اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے یعنی قرآن مجید اور اس کے رسول ﷺ (کےحکم) کی طرف بلایا جاتا ہے۔تو دیکھتا ہے کہ منافق تجھ سے بالکل پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔(پ5 ع 6)

4۔وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّ‌حِيمًا

ترجمہ۔اور ہم نےکوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کا کہا مانا جائے۔(پ5ع6)

5۔وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ أَمْرً‌ا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَ‌ةُ مِنْ أَمْرِ‌هِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦

ترجمہ۔سو تیرے رب کی قسم وہ ایماندار نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں تم کو حاکم بنا کر تمہارا کہا نا  مانیں۔پھر یہ تیرے فیصلے سے دل تنگ نہ ہوں۔بلکہ خوشی سے  مان لیں۔(پ5ع6)

6۔مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَ‌ىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ

ترجمہ۔جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر میں فیصلہ کردیں۔تو کسی مومن مرد یا عورت کو جائز نہیں کہ ان کے حکم  کے خلاف ان کو کچھ اختیار ہو اور جو اس کے  برخلاف کرے اور اس کے رسول کی نافرمانی کرےتو وہ کھلا ہوا گمراہ ہوگیا۔(پ22ع1)

7۔وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧

ترجمہ۔اے مسلمانوں!جو (مال یا حکم)تم کو اللہ کا رسول دے اُسے لے لو اور تسلیم کرو اور جس امر سے منع کرے۔اس سے باز رہو۔اور اللہ سےڈرو بے شک اللہ سخت عذاب والا ہے۔(پ28ع3)

8۔هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢

ترجمہ۔وہ اللہ ہے جس نےان پڑھوںعربوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔جو ان پر اس  کی آیتیں پڑھ کر سناتاہے۔یعنی دلائل توحید سے وعظ و نصیحت کرتا ہے۔اور اپنے اثرصحبت سے ان سے عمل کرا کر رزائل  سے ان کو پاک کرتا ہے۔اور قرآن مجید اور حکمت کی انکو تعلیم دیتا ہے۔یعنی قرآن مجید کے الفاظ بھی ان کو یاد کراتا ہے۔اور اس کے معنی و حکم بھی ان کو بتاتا ہے۔

9۔وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ

ترجمہ۔ہم نے آپ پراس لئے قرآن مجید نازل کیا کہ آپ اس کی تفسیر کرکے ان کو اس کا مطلب سمجھائیں۔(پ14 ع 11)

10۔َقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿٢١

ترجمہ۔لوگو! تمہارے لیے رسول اللہ کی پیروی بہت اچھی ہے اس کے لئے جو اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتاہے۔اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔(پ21 ع 18)

تلك عشرة كاملة

آیات مذکورہ بالا سے روز روشن کی طرحف واضح ہوگیا۔کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ میں آپ ﷺ کا قول وفعل دونوں داخل ہیں۔جن کا ماننا اور ان پر عمل پیرا ہونا امت پرفرض عین ہے۔اور ان پر دونوں میں سے ہر ایک کا انکار کفر۔

دیکھئے!آیۃ نمبر 1 میں آپﷺ کی اتباع کے بعد حکم رسول کے ماننے کا حکم ہے اور انکار کفر اور آیۃ نمبر2 میں بھی حکم رسول کے ماننے کا حکم ہے۔ورنہ ایمان سلب ہوجائے گا۔ان کنتم تو منون میں غور کرو۔اورآیۃ نمبر 3 میں الی الرسول سے حکم رسول مرا ہے۔اور اس سے اعراض و انکار کفر ونفاق ۔آیۃ نمبر 4 میں تو رسول کے بھیجنے کی غایت ہی ان کے حکم ماننے کو بتایا ہے۔آیۃ نمبر 5 میں رسول ﷺ کے فیصلہ کو خوشی سے ماننےکولازم فرمایا ہے۔اور جو نہ مانے تو اس کا ایمان بلکل سلب اور پکا کافر۔آیۃ نمبر 6 میں بھی فرمایا کہ رسول ﷺ کے حکم کو اورفیصلہ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی  طرح ماننا فرض ہے۔کسی کواس کے خلاف کا اختیار نہیں۔ورنہ وہ گمراہ ہو کر کافر ہوجائے گا۔آیۃ نمبر 7 میں بھی رسول اللہ ﷺ کے حکم کی اتباع لازم فرمائی۔ورنہ جہنم کا عذاب ہے۔

آیت نمبر 8 میں کہ رسول اپنی امت کو قرآن مجید کے الفاظ  بھی پڑھاتا ہے۔اور یاد کراتا ہے۔اور اس کے معنی اور حکم بھی جانتا ہے۔سو جیسے کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ کی تحریف کفر ہے۔ایسے ہی رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے معنی و حکم کو رد کرنا بھی صریح کفر ہے۔اور آپﷺ  کے بتائے ہوئے وہ معنی و حکم سوائے حدیث کے ہوہی نہیں سکتے۔اس لئے کہ الفاظ قرآن مجید میں توسارا قرآں آگیاف پھر حکمت و معنی کیا ہوئے۔ظاہر ہے کہ وہ قرآن کے الفاظ کے سوا ہوئے یعنی اس کی تفسیر و شرح قوہل سے ہو یا فعل سے یا تقریر سے اور یہ بدہیی امر ہے کہ قرآن کے ہرہرلفظ کی شرح عمل سے نہیں ہوسکتی۔اس لئے کہ اس میں جیسے احاکم ہیں ۔قصص و اؐثال جو عقائد وغیرہ بھی ہیں جو عمک کرکے نہیں دکھائے جاسکتے ان کی زبانی شرح ہوگیف نیز مقدمات کے فیصلے بلاقول رسول اللہﷺ کیسے ہوسکتے ہیں ۔پس رسول اللہﷺ کے اقواال تفسیر قرآن یا فیصلہ جات و احکام وغیرہ قرآنی الفاظ کے سوا اپنے الفاظ میں ہوئے جن کا ماننا امت پر فرض ہے۔اور آپ ﷺ کے انھیں الفاظ کا نام حدیث ہے۔جن  کا انکار کفر ہے۔اور جیسےقرآن  مجید محفوظ ہے۔ایسے ہی مطلق حدیث نبوی جو قرآن کی تفسیر و شرح ہے وہ بھی محفوظ ہے۔عہد رسالت سے لے کر ابھی تک امت مسلمہ کا اس پرعل تواتر  سے ثابت ہے اگر ایسا نہ ہوہتا تو صحیح طریق سے قرآن  پر عمل کیسے ہوسکتا تھا۔اس لئے کہ ہرشخص اپنی اپنی سمجھ کے موافق معنی کرتا ہے جو باعث اختلاف ہے پھر اس سے قرآن پر عمل کرنا ہی متروک ہو جائے گا۔پھر تو بعد وفات رسولﷺ دین ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔حالانکہ ایسا نہیں پس ثابت ہوا کہ جیسے قرآن مجید محفوظ ہے۔ایسے ہی مطلق حدیث نبوی بھی محفوظ ہے الحمد للہ

آیت نمبر 9 میں رسول اللہ ﷺ کوقرآن مجید کا مفسر ٹھرایا گیا ہے۔اور اوپر ثابت کیا جا چکا ہے۔کہ سارے قرآن کی تفسیر صرف عمل سے ہی نہیں ہوسکتی۔ہاں بعض کی ہوسکتی ہے۔اور بعض کی زبان اپنے الفاظ سے شرح و تفسیر ہوگی اس کا نام حدیث ہے۔

آیت نمبر 10 میں اسوہ حسنہ آپ ﷺ کی پیروی کا زکر پیشتر ہوچکا ہے۔کہ اس قول میں اور فعل میں دونوں داخل ہیں۔پس حدیث کا ماننا اور اس پرعمل کرنا عین قرآن مجید  پرعمل کرنا ہے۔اور اس کا انکار قرآن مجید کا انکار ہے جو صریح کفر ہے۔

ابطال باطل

منکریں حدیث کی تحریر کا جواب یہ ہے  اس نے حدیث کی حیثیت محض تاریخی بتائی ہے۔اور کہا ہے کہ اس کا ماننا لازم نہیں نہ وہ حجت ہے چاہے کوئی مانے یا نتنقید سے رد کردے اور اس کے اعتراضوں کا مدر کا تاریخ پر ہے جس کا ماننا لزم نہیں اور ہی وہ حجت ہے اور اگر کہیں کسی روایت سے اس نے استدلال کیا ہے تو وہ بھی اس کے نزدیک مثل تاریخ ہے۔لہذا کل کا جواب یہ ہے کہ یہ رآن مجید نہیں جوج قطعی ہو یہ محض ظنی بلکہ بے ثبوت ہے۔لہذا باطل ہے اب سنئے۔!

مفصل جواب۔

احقاق حق میں بیان کیا جاچکا ہے۔کہ قرآن مجید  کے حکم سے رسول اللہ ﷺ کی اتباع آپﷺ کا اسوہ حسنہ یعنی آپﷺ کا قول و فعل ہر دوواجب التصدیق اور واجب العمل ہیں۔رہا یہ امر کہ اب وہ آ پﷺ قول وفعل محفوظ ہے یا نہیں۔اور وہ قطعی ہے یا نہ سو واضح ہو کہ جر امر تواتر قولی یا فعلی سےف ثابت ہو وہ قطعی ہوتا ہے۔یعنی ہر زمانہ و طبقہ میں بالاتصال اسے اتنے لوگ بیان کریں یا عمل کریں۔کہ عقلاً اُن کا کذب پر اتفاق محال ہو اور اس کا منتہا حس و مشاہدہ ہویہ جماعتکتنی بڑی ہو کوئی تعین شرط نہیں جس سے عقول سلیمہ کو علم ضروری حاصل ہوجائے۔یعنی مجبوراً ان کو ماننا پڑ جائے۔اسی طرح جماعت سےبالا تصال جو امر ثابت ہومگرہو جماعت تواتر والوں سے کم اور قریب تواتر کے ہو وہ امر مشہور ہے اور جو امرا کے د کے ذریعہ ثابت ہو اور وہ لوگ معتبر صادق ضابطہ ہوں وہ خبر واحد ہے اور یہ پچھلے دونوں قسم اگرچہ کلتہ ضروری نہیں مگر بوجہ قرائن ان سے بھی علم یقینی نظری حاصل ہوتا ہے۔اور وہ ہردو بحکم قرآن مجید صحیح و واجب العمل ہیں۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔

وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَامْرَ‌أَتَانِ

ترجمہ۔لوگوں (معاملات میں) اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لیاکرو۔اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو۔(پ26ع 12)

دو گواہوں کی شہادت سے فیصلہ بحکم قرآن مجید لازم ہے۔حالانکہ ان کے سہو و نسیان خطا غلطی سب کا احتمال ہے دوسری آیۃ سے ثابت ہے۔کہ ایک مخبر یا راوی اگر فاسق ہے تو بعد تحقیق عمل لازم ہے۔اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ عادل و صادق ہے۔تو بلاتردد اس کے قول پر عمل ثابت ہے۔پس حدیث نبوی کے بھی یہی تین درجے ہیں۔متواتر۔مشہور۔خبر واحد۔سو قسم اول تو مثل قرآن مجید کے قطعی ہے جس کا علم ضروری ہے۔اور قسم دوم سوم اگرچہ متواتر کی طرح قطعی ضروری نہیں۔مگر بوجہ قرائن مرحجہ ان سے بھی علم یقینی نظری حاصل ہوتا ہے۔اور  بحکم مذکورہ بالادو آیتوں کے وہ واجب العمل ہیں۔جن کا انکار حکم قرآنی کا انکار ہے۔لہذا حدیث نبوی سے انکار کرنے کےلئے یہ عزر کرنا کہ وہ قرآن کی  طرح محفوظ نہیں بالکل باطل ہے۔متواتر۔مشہور۔و خبر واحد۔صحیح محتف بالقرآن مرحجہ سب مفید علم یقینی ہیں۔فرق صرف اتنا ہے۔کہ متواتر کا علم ضرور ی ہے۔جو ہرکس و ناکس کو حاصل ہوتا ہے۔اور مجبوراً ماننا پڑتا ہے۔اور مشہور اورخبر واحد صحیح مذکور کا علم یقینی نظری ہے جو نظر و استدلال سے حاصل ہوتا ہے۔اور ان کوہوتا ہے۔جو اس کے اہل ہوں۔نا اہلوں کو چونکہ وہ حاصل نہیں ہوتا۔وہ انکار کریں تو ان کا اپنا قصور ہے۔

گرنہ بنید بروز شپرہ چشم      چشمہ آفتاب راچہ گناہ

اور عقل و عرف کے لہاظ سے بھی خبر مشہور و خبر واحد صحیح کااعتبار ہے اور دینی و دنیوی امور قرض و دام نکا ح وطلاق۔بیع و شراء روئت ہلال۔رضاعت۔نسب وغیرہ میں انھیں پر مدار ہے۔کیا کوئی منکر صاحب اپنانسب باپ دادا وغیرہ کا تواتر سے ثابت کر سکتے ہیں۔ہر گز نہیں پھر کیااس سے انکار کرکے مجہول النسب بنیں گے۔اور یہ سلسلہ نسب تو صرف حسن ظن پرمحمول ہو ہے۔ورنہ جوقواعد جرح وتعدیل کے ہیں۔ان کی رو سے اور مشکل ہے۔خلاصہ یہ کہ اگر خبر واحد کا مطلقاً انکار کیا جائے گا۔تو علاوہ دنیوی امور کے بہت بڑا حصہ دینی امور کا بھی ترک کرنا پڑے گا۔اور قرآنی حکم کا انکار لازم ہوگا۔جو سراسر کفر ہے۔اللہ ایسے دن سے محفوظ رکھے۔جو بالکل گمراہی و ضلالت ہے۔

اب رہا احادیث نبویہ کی حفاظت کا معاملہ سو واضح ہو کہ محدثین کرام نے جو قوانین روایۃ قرآن مجید سے استنباط کر کے مقررکیے ہیں۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ راوی جو روایت کرے اس کی پوری سوانح عمری معلوم کرکے کہ وہ کس کا بیٹا تھا۔ کیا نام تھا ۔کیا عمر تھی۔کب اور کس سے علم حاصل کیا۔کہا ں کہاں سفر کیا عدالت صداقت ضبط روایۃ دیانت وغیرہ سب کا جائزہ لے کر روایت کرتے۔پھر یہ کہ اس کو وہم یا اختلاط یا سوء حفظ وٖغیرہ تو نہ تھا۔اور یہ کہ اگر وہم یا اختلاط ہوا تو کس زمانہ میں ہوا۔دائمی تھا یا عارضی پھر روایۃ کس زمانہ میں کی قبل اختلاط یا بعد پھر اگر اس کے مذہب میں کچھ کلام تھا۔تو روایت میں کیسا تھا۔اور اس کی مختلف روایتوں ذریعے تحقیق کرتے اور جانچتے۔پھر یہ کہ روایت اس کے مذہب کے موافق ہے۔یا مخالف وہ داعی الی المذہب ہے یا نہیں۔اس کی روایت اور آئمہ حفاظ کے موافق ہے یا  مخالف پھر یہ کہ اس کی روایت بطور احتجاج کے ہے یا بطور استشہاد و اعتبار و تردید کے۔اور وہ یہ کہ وہ مدلس تو نہ تھا۔وغیرہ۔وغیرہ پھر یہ کے روایت میں ارسال انقطاع اعظال وغیرہ تو نہیں نیز یہ روایت صریح نصوص قرآن و حدیث اور بداہتہ عقل کے مخالف تو نہیں کہ جس کی کوئی بالکل صحیح توجیہہ نہ ہوسکے۔

ان شروط قیود ورفع موانع کے بعد وہ حدیث پرحکم لگاتے ہیں کہ صحیح ہے یا ضعیف و موضوع وغیرہ۔پھر ان کے بھی آگے درجے مقرر کیے ہیں۔صحیح و لغیرہ ایسے ہی حسن  کے پھر ضعیف اور شدید الضعف وغیرہ۔پھر اس کے بعد بھی اور صحیح کے رجات مقرر کئے ہیں خاص خاص سنددں کے لہاظ سے روایۃ میں اتفاق آئمہ کے لہا ظ سے مثلاً امام بخاری و مسلم کا کسی حدیث کی روایۃ پراتفاق وغیرہ وغیرہ پھر بوجہ کثرت اسانید کے جو  مختلف طریقوں سے آئمہ حدیث نے اپنی اپنی تالیفات میں روایت کی ہیں۔ان میں صدہا حدیثیں متواتر ہیں۔جو مثل قرآن کے قطعی ہیں۔اور ہزاروں مشہور اور اس سے بھی زیادہ اخبار احاد جو بلکل صحیح ہیں۔اور بحکم قرآن مجید واجب العمل ہیں۔جن پر علماء اسلام و امت محمدیہ کا ساڑے تیرہ سو برس سے اب تک عمل دراآمد چلا آیا ہے۔اور یہی سبیل المومنین ہے جس کا خلاف سبیل المومنین و اسلام کا خلاف اور گمراہی ہے۔رہا نقل بالمعنی کا مسئلہ تو اول تو نقل بالمعنی قرآن مجید سے ثابت ہے۔

وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ‌ الْأَوَّلِينَ ﴿١٩٦(پ 19 ع14)

إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ﴿١٨﴾صُحُفِ إِبْرَ‌اهِيمَ وَمُوسَىٰ ﴿١٩

(پ30 ع 12) میں بتائے نقل بالمعنی ہے۔یا نہ کتب سابقہ تو سریانی و عبرانی وغیرہ میں تھیں۔اور قرآن عربی میں پھر یہ کہ اس میں فرعون وغیرہ کا کلام بھی منقول ہے۔او ر بعضوں کی زبان بھی اور تھی۔اور نیز قرآنی فصاحت و بلاغت و اعجاز بھی ان کے کلام میں نہ تھا۔نیز خود قرآن میں بعض قصص کو دھرایا گیا ہے۔اور الفاظ میں اختلاف ہے۔کہیں ایجاز ہے کہیں تفصیل ہے۔قصہ آدم میں کہیں اھبطوا ہے۔(سورۃبقرہ پ1 ع3)کہیں اھبطا ہے۔(سورۃ طۃ پ16 ع 15)

حضرت موسیٰ ؑ کے قصہ کو مکرر سورتوں میں ملاحظہ فرمایئے۔الفاظ میں کتنا اختلاف ہے۔مگر اصل مضمون متحد ہے پس یہی صحت کی جان ہے۔اور یہی الفاظ حدیث میں ہے۔اور وہ بھی عالم باللغۃ سے سے  ثابت ہے  نہ غیر سے پھ جب مختلف طریوں سے ایک لفظ یا معنی ثابت ہے تو اس کی صحت میں کیا کلام ہوسکتا ہے ہرگز نہیں۔ورنہ جو جواب نقل قرآنکی کا ہے وہی حدیث کا ہے پھر اگر کہیں کسی روایت میں تفرد بھی ہے تو اول تو خود محدثین نے اس میں کلام کیا اہے اور ادلہ سے اس کی تایئد  لائے  ہیں یا توقف کیا ہے وغیرہ وغیرہ مگر معترض نے اس کی د کی رعایت کی بنا پر تمام دفاتر احادیث کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔جو بالکل انصاف کے خلاف ہے۔پھر یہ ٖغلط ہے کہ سب کی سب احادیث نقل بالمعنی ہیں۔نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں۔بعینہ الفاظ رسول ﷺ بھی ثابت ہیں۔اور متواتر بھی ہیں۔جن کا معترض کو علم نہیں۔مگر حدیث کے جاننے والوں کو علم  ہے۔جس کے لئے کتب احادیث کا مطالعہ درکار ہے۔فتح الباری اور حجۃ البالغہ کو ہی دیکھ لیجئے۔ہاں یہ بھی سخت دلفریب مغالطہ ہے۔کہ ہر شخص نے ہر زمانے میں جو چاہا اپنے الفاظ میں جو سمجھ میں آیا نقل کر دیا یا لکھ لیا۔کلا و حاشا ایسا ہرگز نہیں ہوا۔یہ نقل بالمعنی صرف صدر اول صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین  میں ہوا ہے۔جو رسول اللہ ﷺ کے شاگرد اور آپﷺ کےطرز انداز سے خوب واقف۔لغت کے ماہر و عالم تھے بہت نادر کہیں کہیں تابعین میں بھی پایا گیا۔پھر تو اس کی سخت بندش کئ گئی۔اور الفاظ نبوی کو حتی الامکان ضبط کیا گیا۔کتب احادیث مدون ہوئیں۔ذرا  کہیں بھی شبہ ہوا  تو اس کو بھی بیان کردیا۔پھر اس کو اوروں کی روایت سے مطابق کر کے اس کی صحت کی گئی۔جس سے شبہ دور ہوکر صحت یقینی ہوگئی ۔مگر سچ ہے۔

چشم بد اندیش کہ برکندہ باد   عیب نمائد ہزش درنظر

ہاں تدوین کتب حدیث  کے بارے میں جو معترض نے مغالطہ دیا ہے۔اس میں پہلے غور کرنا چاہیے کہ

الم ﴿١﴾ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢

وغیرہ آیات میں بے شک قرآن مجید کو لفظ کتاب سے زکر کیا گیا ہے۔مگر اس  سے  یہ لازم نہیں کہ اس  آیت یا اور آیتوں کے نزول کے وقت سارا قرآن یکجا لکھا ہوا تھا۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو ترتیب قرآنی ہے۔کیا اس ترتیب سے نزول ہوا اور کیا سارا قرآن ایک دم نازل ہوا ہے۔یا 23 سال میں تدریحاً نازل ہوا ہے۔اور پھر ذالک کا اشارہ کس طرف ہے۔ما قبل کی طرف یا ما بعد کی طرف یا کسی او ر کی طرف پھر جب رسول اللہﷺ کا انتقال ہوا۔تو کس آیت سے ثابت ہے۔ کہ اپنا سارا قرآن لکھوا کر یکجا جمع کر اکے امت کے ہاتھوں میں چھوڑا حدیثوںکو تو معترض پیش ہی نہیں کر سکتا۔کہ وہ اس کے نزدیک ظنی ہیں۔ورنہ ان میں تو ہے کہ وہ مختلف کاغذوں پتوں ٹھیکروں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا۔کسی کے پاس تھوڑا کسی کے پاس زیادہ حصہ ہاں حفاظ قرآن ہزاروں تھے۔ او ر کیا  رسول اللہ ﷺ بھی لکھا دیکھ کر پڑھتے یا زبانی آپ ﷺ کو یاد تھا۔کیا آپﷺ زبانی صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو یاد کراتے تھے۔یا لکھا ہوا دیکھ دیکھ کر

وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَ‌بِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴿٢٧﴾وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْ‌تَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿٤٨﴾بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ‌ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ (پ21 ع1)

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٩٢﴾نَزَلَ بِهِ الرُّ‌وحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِ‌ينَ ﴿١٩٤ (پ 19 ع14)میں غور کرو۔

امر واقعی یہ ہے کہ جیسے جبرئیل ؑ زبانی پڑھاتے آپ ﷺ بھی ایسے ہی زبانی تعلیم دیتے ہاں مختلف اشیاء پر لکھوا دیا کرتے تھے۔مگر یکجا جمع نہ تھا۔صرف حفظ پڑھاتےتھے۔یہ باقاعدہ جمع تدوین آپﷺ کے انتقال کے بعد واقع ہوئی ورنہ معترض کے زمہ ہے کہ قرآن سے یہ امر ثابت کرے اور ہرگز نہیں کر سکتا۔اس ساری سمع خراشی سے میری غرض یہ ہے کہ کسی شی کی حفاظت کے لئے یہ لازم نہیں کہ کتاب سے ضبط  کر کر اس کے ہر ایک جز کی حفاظت کی جائے۔زبانی روایت و یاداشت و ضبط کی  تاکید سے بھی حفاظت ہوسکتی ہے۔جیسے جبرئیل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس نوشتہ نہیں لائے تھے۔صرف زبانی تعلیم کیا کرتے۔ایسے ہی رسول اللہﷺ زبانی تعلیم دیتے ہاں بطور احتیاط لکھوا بھی دیتے مگر مختلف اشیاء پر الگ الگ متفرق سورتین یا پارے اور کتاب کا اطلاق جزو کل دونوں پر ہوتا ہے۔اور جو چیز کتابت کے قابل ہو اس کو بھی  پہلے ہی سے کتاب کیا جاتا ہے جو چیز زمانہ آیندہ میں لکھی جانے والی تھی اس کو کتاب کیا گیا ہے جیسے کہ

من قتل قتيلا له عليه بينة  فله سلبه

میں مجاز بالمشارف کا مسئلہ اہل علم میں مشہور ہے۔ کہ قتل ہونے سے پہلے ہی زندہ کو قتیل کہہ دیا اس لئے کہ وہ عنقریب قتل ہونے والا تھا۔

ایسے ہی کتاب کو سمجھ لیجئے۔کہ الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ کے نزول کے وقت سارا قرآن نہ اترانہ لکھا گیا تھا بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔کہ چونکہ آگے کو لکھا جانے والا تگھا مجازاً اسکو کتاب کہا گیا لہذا صرف لفظ کتاب سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ قرآن اول سے آخر تک یکجا لکھا ہوا  رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا۔یا آپﷺ نے اپنی وفات کے وقت امت میں سارا لکھا ہوا چھوڑا۔حفاظت بلا تحریر کےلئے زرا نماز کی تفصیل کو ہی لیجئے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی حفاظت کی کیا صورت اختیا ر کی۔کیا اس کی رکعات ازکار ہیات ارکان وغیرہ کو ضبط کرایا لکھوایا۔پھر اس کی حفاظت ہوئی یا نہ او ر وہ بھی قطعی ہے یا نہ ایسے ہی حج کے ارکان یا ترتیب و ہیات ایسے ہی ''ذکواۃ'' کی  تفصیل کس کس مال میں ذکواۃ ہے۔اور کیا کیا نصاب ہے۔اور اوقات وجوب و ادا کیا ہیں۔بتایئے یہ امور قطعی ہیں یا نہ پھر ان کی حفاظت آپﷺ نے کرائی یا نہ؟اگر کرائی تو کیا صورت اختیار کی۔اس ساری تحریر کا خلاصہ یہ کہ کسی امر کی حفاظت کے لئے یہ ضروری نہیں کے اس کو لکھوا کر ضبط کرایا جائے حفاظت زبانی روایت کی تاکید و فعل سے بھی ہوسکتی ہے جیسے کہ امور مذکورہ میں ہوئی۔جو معترض منکر کو بھی مسلم ہے۔پس اس کا دلفریب مغالطہ باطل  ہوگیا کہ حدیث کو چونکہ نبی کریم ﷺ نے مثل قرآن کے ضبط نہیں کرایا لہذا محفوظ نہیں۔اور قابل عمل بھی نہیں۔اور اس کا وہ مغالطہ بھی باطل ہوگیا۔کہ آپ نے لکھنے کا حکم نہیں دیا۔الخ اس لئے کہ جب قول و فعل سے حفاظت ہو جاتی ہے۔تو پھر اول تو لکھنے کے حکم کی ضرورت  ہی نہ تھی۔مگر پھر بھی آپ ﷺ نے بہت سی احادیث احکام فرامین و معاہدات وغیرہ حکماً لکھوائے جو اب تک محفوظ ہیں۔ بعض کتب خانوں میں  رسول اللہ ﷺ کے لکھوائے ہوئے اور صحابہ  رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوشتے بعینہ موجود ہیں۔اور نقل بالمعنی کے اعتراض کا جواب ہوچکا ہے۔کہ جائز ہے۔قرآن مجید میں بھی ہے۔اور پیشتر رواۃ کی تحقیق  میں معترض کا وہ مغالظہ بھی باطل ہوگیا کہ جس راوی نے جو چاہا اپنے فہم سے لکھ لیا ہر گز ایسا نہیں ہوا۔ وہاں تو حتی الامکان  الفاظ نبویہ کی کوشش تھی۔ہاںصدر اول میں کچھ نقل بالمعنی ہوا اور نادر کالمدوم تابعین کے زمانہ میں وہ بھی عالم بللغۃ سے۔ایسے ہی اس دلیل سے سو سال کے بعد سلسلہ روایت کا مغالظہ بھی باطل ہوگیا۔ اس لئے کہ نفس روایت کا سلسلہ تو خود رسول اللہ ﷺ نے بلغو عنی الحدیث (صحیح بخاری) کہہ کر جاری کر دیا۔اور حجۃ الوداع میں فرمایا!فليبلغ الشاهد منكم الغائبکتابت حدیث بھی آپ ﷺ کی اجازت سے شروع ہوگئی  تھی۔اكتبوا الابي شاه(صحیح بخاری)ہاں یہ کتنا دلفریب مغالطہ ہے کہ پچھلوں نے صدیوں بعد پہلوں پرجرح کی یا ان کی توثیق

چو بشنوی سخن اہل حق مکو کہ خطا است   سخن شناس نئی دلبرا خطااینجاست

معاف فرمایئے۔مجھے کہنا پڑا کہ معترض نے فن حدیث اور قوانین جرح و تعدیل کو کسی استاد کامل سے پڑھا ہی نہیں یا سمجھا نہیں۔ورنہ ایسی جگ ہنسائی لغزش سے وہ نہ گرتے۔

اے جناب!وہاں تو زرا زرا بات پر جرح ہوتی ہے۔کہ فلاں نے فلاں کو دیکھا نہیں پھر اس سے روایت کیسے کی  اس کی روایت صحیح نہیں جب تک کہ اس سے سن نہ لے۔اور خوب یاد نہ ہو پھر وہ بن دیکھے جرح تعدیل کیسے کر سکتے تھے کلا وحاشا نقاد حدیث نے جو کسی پر جرح کی ہے یا خود مجروح کو دیکھا ہے تجربہ کیا ہے یا اپنے استاذ کامل سے سنا ہے پھر اس نے بھی اس تحقیق سے بیان کیا ہے۔خود مجروح کو دیکھا بھالاہے۔یا اپنے استاد کامل سے سنا ہے۔علی ھذ القیاس آخر تک سلسلہ چلا جاتا ہے۔بتایئے اس میں کیا قباحت ہے۔کچھ بھی نہیں یہ عین انصاف و مقتضاء نقل و عقل ہے ۔جس کا خلاف حیلہ فریبی کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور یہ بھی دل فریب مظالطہ ہے۔کہ ثقہ راوی کی روایت میں وہم و خطا وسہو کا احتمال ہے۔اور فقاہت بھی ہر ایک کی ضروری نہیں لہذا اس کا کیا اعتبار۔

اس کا جواب بھی گذشتہ تحریر سے ہوچکا ہے۔کہ قرآن مجید نے دوگواہوں کی شہادت پر فیصلہ کا مدار رکھا ہے۔حالانکہ دو شخصوں میں بھول چوک سہو نسیان بلکہ کذب سب کا احتمال ہے۔پھر بھی شرح میں ان  کا اعتبار ہے۔اور آیت

َا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُو(پ26 ع12)

سے با اعتبار مفہوم ایک کا بھی اعتبار ہے۔جو عادل ہو فاسق نہ ہو۔ایسے اسی روایت حدیث میں سمجھے۔اور روایت میں اول تو فقاہت یا  مساوات شرط نہیں۔خود رسول اللہﷺ نے حجۃ الوادع میں فرمایا!کہ تم سب میری حدیثیں دوسروں تک پہنچا دینا۔شاید تمہارے شاگر تم سے بھی حفظ اور فقاہت میں زیادہ ہوں۔اور قرآن مجید کی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات سے بھی اکے دکے کی روایت و تبلیغ کا اعتبار ثابت ہے۔دوم روایت میں ضبط ضروری ہے۔جو ہر معتبر راوی میں  پایا گیا۔لہذا آپ کی تشکیک باطل اور قرآن کی طرح احادیث کو ضبط کرانے کا مغالطہ اور اس کی تردید پہلے ہوچکی۔کہ ہر امر قابل حفاظت کےلئے مثل قرآن تحریر ضروری نہیں۔نیز قرآن مجید کو تحریراً ضبط کرانے کا مسئلہ بھی آپ کو قرآن مجید سے ثابت کرنا چاہیے تھا۔کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے قرآن لکھوا کر ضبط کراتے تھے۔محض لفظ کتاب سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔اس لئے کہ دلیل عام ہے۔اور دعویٰ خاص لہذا تقریب نا تمام یعنی دعویٰ تو ہے کہ رسول اللہ ﷺ لکھتے یا لکھواتے تھے۔اور دلیل یہ ہے کہ قرآن کو کتاب کہا گیا۔اور کتاب لکھی ہوئی کو کہتے ہیں۔ اس میں یہ کلام ہے۔کیونکہ قرآن آیندہ لکھا جانے والا تھا۔لہذا اس کو کتاب کہا  گیا۔ ورنہ الم ذالک الکتاب کے نزول کے وقت سارا قرآن کہاں لکھا گیا تھا ہرگز نہیں فافہم و تدبر۔

ہاں احادیث نبویہ کی تاریخی حیثیت بتانا بھی غلط اور بالکل غلظ ہے۔اس لئے کہ آپ نے پہلے ملاحظہ کر لیا ہے۔کہ احادیث کے ماننے اور ان پر عمل کرنے کا حکم قرآن مجید سے ثابت ہے۔اور احادیث صحیحہ درحقیقت قرآن  ہی کی شرح ہیں۔اور نیز یہ کہ رواۃ احادیث کی روایت قوانین جرح و تعدیل کے مطابق بڑی تحقیق سے قرآن مجید کے حکم کے مطابق ہے اور تاریخ میں جرح و تعدیل کا کوئی قانوں نہیں ہے۔اس کا اکثر حصہ بلاتحقیق ہے۔بلکہ مجاہیل۔فساق۔فجار۔ظالم۔بے دین ہر طرح کے لوگوں سے مروی ہے۔پھر تاریخ میں سلسلہ روایت بھی باقاعدہ نہیں ارسال انقطاع اعضال وغیرہ تمام عیوب سے  پر ہے۔اور حدیث ان سب سے پاک پھر حدیث کی تاریخی حیثیت کہاں رہی ہر گز نہیں۔احادیث صحیحہ میں صدق محض مطلق تاریخ میں صدق و کذب ہر دوموجود۔یہ سچ ہے کہ دین قطعی ہے۔مگر اس کی جزیات کی تفصیل میں صحت شرط ہے۔جس سے  علم حاصل ہو قطعیت شرط نہیں آپ پہلے ملاحظہ کرچکے کہ دو گواہوں کی شہادت جو قطعی نہیں اُس پر قرآن مجید نے معاملات وغیرہ میں فیصلہ کا مدار رکھا ہے۔اور إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ

کی آیت سے بطو ر مفہوم مخبر صادق عادل واحد کا بھی اعتبار ثابت ہے جو قطعاً قطعی نہیں۔ بس اسی پیمانہ سے  حدیث کولیجئے ورنہ جو جو آپ قرآن پر سے اعتراض اٹھا نے کودیں گے اسی قسم سے حدیث کا سمجھ لیجئے بس قصہ ختم۔اور ان الظن لا يغني من الحق شئيامیں بھی معترض کو مغالطہ لگا ہے۔ظن کا سنئے۔ازروئے لغت عرب یقین یعنی جانب راحج کا بھی ہے۔اور شک کا بھی اور آیت ذیر بحث میں ظن سے شک ہے۔پس آپ کا اعتراض اُڑ گیا۔اس لیے کہ اوپر کی آیتوں میں جانب راحج کا اعتبار ثابت ہے۔فافہم و تدبر۔ہاں یہ خوب کہی کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو خدا نے لیا ہے۔حدیث کا ذمہ نہ خدا نے لیا  ہے نہ رسول ﷺ نے  اے جناب!آپ نے قرآن مجید میں تدبر نہیں کیا اورحدیث کے تو آپ منکر ہی ہیں۔اس میں کیا خاک غور کریں گے۔ورنہ حدیث کی حفاظت کا ذمہ خدا اور رسول ﷺ دونوں نے لیا ہے۔سنیے اور غور فرمائیے۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَ‌سُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٨

ترجمہ۔کہہ دو۔اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا ک بھیجا گیا ہوں۔اور اخیر آیت تک (پ9 ع10)

وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ

ترجمہ۔(اے رسول کہہ دو) اس قرآن کی مجھ پر وحی ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ تم کو اور جس جس کو (قیامت تک)یہ قرآن پہنچے۔ڈرائوں ۔

إِنْ كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ(پ4 ع 2)

اے مسلمانو!تم سب لوگوں میں بہتر امت پیدا  کئے گئے ہو کہ بھلی باتوں کا حکم کرتے ہو۔اور بری باتوں سے منع کرتے ہو۔(بلکہ کرو گے)

ان آیات میں یہ بیان ہے کہ رسول اللہﷺ قیامت تک تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔اور یہ کہ اس قرآن سے آپ سب کو ڈرایئں گے۔اور آپ کی امت کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ اور کریں گے۔اور ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ نے خود بنفس نفیس سب کو تبلیغ نہیں کی۔بلکہ آپ کی امت نے کی اور کر رہی ہے۔اور ادا کرتی رہے گی۔اور پیشتر ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اللہﷺ جیسے لوگوں کو قرآن کے الفاظ یاد کراتے تھے۔ایسے ہی اس کے معنی بھی بتاتے تھے۔انہیں الفاظ و معنی سے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے۔ اس لئے کہ بلا الفاظ کا مطلب بتایئے۔اور بٖغیر ان کی اصلاح کئے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر ہی نہیں سکتے تھے۔ورنہ قرآن کے الفاظ تو منکر  لوگ سن کر

إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴿٧﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ‌ ﴿٢٥﴾ وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ‌ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ﴿٦

وغیرہ کلام سے پیش آتے تھے۔وہی مطلب و معنی و شرح الفاظ قرآن مجید حدیث رسول و اسوہ رسول ہے۔جس کے زریعے قیامت تک علماء امت لوگوں کو ڈرایئں گے۔تاکہ قرآن مجید کی تصدیق ہو اور یہ تبلیغ ذبانی اور اور تحریری دونوں سے ہویئ اور  ہورہی ہے۔تو اس صورت میں بنا پر تصدیق قرآن مجید قرآن کی طرح حدیث نبوی ﷺ و شریعت محمدیہ کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ کہ امت کو یہ توفیق دی اور الہام کیا کہ وہ اس کے لئے جرح و تعدیل کے قوانین و سلسلہ روایت سے قرآن مجید کے الفاظ و معانی و تفسیر یا حدیث نبوی ﷺ یا شریعت محمدیہ کی حفاظت کریں۔جیسے کہ قرآن کے الفاظ کی حفاظت  حفاظ قرآن سے کرائی۔معانی قرآن کی علماء اسلام اور آئمہ محدثین سے۔

او ر رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری کی دلیل یہ ہے کہ پیشتر گزر چکا ہے۔کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا!بلغوا عني ولو اية(صحیح بخاری)اور حجت الوداع میں آپ نے بیان احکام حج و وعظ و نصیحت فرما کر فرمایا!ليبلغ الشاهد منكم الغائب(صحیح بخاری)یہ کہہ کر گویا  آپ سب کدوش ہوگئے کہ میں اپنا فرض منصب ادا کرچکا اب تمہارے ذمہ ہے تم پہنچانا پھر فرمایا۔اللهم اشهداے اللہ تو گواہ ہوجا میں نے  تیرا حکم پہنچا دیا۔پس آپ امت کو اپنی تبلیغ قرآن مجید او ر اس کی شرح و تفسیر و اسوہ حسنہ یعنی حدیث کی اشاعت کا حکم فرما گئے۔عام اس لئے کہ یہ اشاعت و تبلیغ زبان سے ہو یا تحریر سے جیسا کہ قرآن مجید کا پڑھانا۔اور محفوظ رکھنا عام ہے۔کہ زبانی ہو یا ضبط تحریر سے۔اور معترض کا یہ اعتراض کہ حضور ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پیشتر گز ر چکاہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے حدیث  نبوی ﷺ کی حفاظت کا ذمہ لیاہے۔جو تقریر اور تحریر دونوں کو شامل ہے۔اور واقعات کے لہاظ سے پورا بھی ہو رہا ہے۔لہذا معترض کو قرآن مجید اور واقعات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔دوسرا جواب یہ ہے کہ اوپر بھی ثابت ہوچکا ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کا ذمہ لیا ہے۔اور وہ روایت و کتابت دونوں کو شامل ہے۔اور پورا بھی ہو رہا ہے۔ اور آپ ﷺ نے خود بھی سلسلہ کتابت شروع  کرایا اور حکم بھی دیا۔تیسرا جواب یہ ہے کہ مطلق کتابت حدیث سے منع نہیں کیا تھا۔بلکہ حدیث کو قرآن مجید کے ساتھ مخلوط کر کے لکھنے کو منع کیا تھا۔چنانچہ مسند امام احمد میں ہے۔کہ راوی نے کہا کہ ہم لوگ جو کچھ رسول اللہﷺ سے سنتے لکھ لیتے تو آپ ﷺ نے فرمایا!

اكتبو اكتاب الله امحضواكتاب الله او اخلصوا كتاب الله انتهي

کتاب اللہ کو خالص اور علیحدہ کر کے لکھو اور اس میں کس دوسری چیز کو نہ ملائو۔

پھر لوگوں نے حدیث کی روایت کا زکر کیا تو آپﷺ نے فر مایا! تحدثو ا عني ولا حرجمجھ سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔بس صرف قرآن مجید کے ساتھ حدیث شریف کو مخلوط کر کے لکھنے کو  آپ ﷺ نے منع کیا تھا نہ کہ الگ لکھنے کو۔اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود بنفس نفیس مکتوبات  گرامی مراسلات جو سلاطین و امراء کو لکھوائے۔معاہدات نصاب ذکواۃ عقول ودیات وغیرہ احکام جن کا معترض بھی 30 پر اقرار کر چکا ہے۔لکھوائے۔اور معترض نے مسلم کی حدیث تو کہیں سے نقل کر دی۔مگر اپنے مطلب کے لئے قطع برید کر کے نقل کی۔صحیح مسلم میں حدیث بایں الفاظ ہے۔

لا تكتبو ا عني ومن كتب عني غير القران فليمحه وحدثو ا عني ولا حرج ومن كذب علي متعمدا فليتبو ا مقعده من النار انتهي

مجھ سے سن کر  لکھو نہیں۔اور جس نے مجھ سے سوائے قرآن کے کچھ لکھا ہو مٹا دے۔اور مجھ سے حدیثیں روایت کرو روایت میں کوئی حرج نہیں اور جس نے قصداً جھوٹ میری طرف منسوب کیا اس نے اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لیا۔دیکھیے ! آپ نے جملہ حدثو ا عنی الخ کو حذف کردیا جو حدیث کے اثبات پر  کھلی دلیل تھا۔کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے حدیثیں روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے۔کہ حدیث  کو قرآن کے ساتھ مخلوط نہ کرو علیحدہ رکھو۔چوتھا جواب یہ ہے کہ معترض نے خود بھی طبقات ابن سعد کے حوالے سے ص32 سطر 11 میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے حدیث نقل کی ہے۔خدا کی قسم کتاب اللہ کو کسی اور چیز کے ساتھ مخلوط نہ کروں گا۔بس حدیث کو کتاب اللہ کے ساتھ مخلوط کرنا منع ہے۔تاکہ کتاب اللہ میں تحریف کادروازہ نہ کھلے۔اور الگ الگ لکھنا ثابت ہے۔اس میں تطبیق ہے۔پانچواں جواب یہ ہے کہ معترض نے ص30 میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے وقت صرف حسب ذیل تحریری سرمایہ موجود تھا۔1۔پندرہ سو صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے نام ایک رجسٹر میں 2۔مکتوبات گرامی جو حضور ﷺ نے سلاطین و امراء کے نام لکھے 3 ۔تحریری احکام و فرامین اور معاہدات وغیرہ 4۔کچھ حدیثیں جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یاحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے اپنے طور پر قلم بند کیں۔پس ثابت ہوا کہ مطلقاً کتابت حدیث منع نہیں تھی صرف اختلاط بالقرآن منع تھا۔آگے چل کر معترض نے جو کہا ہے کہ حضورﷺ سے ان کی تصدیق ثابت نہیں یا وہ آج کل موجود نہیں تو اول تو یہ اعتراض ہی لغو ہے۔ اس  لئے کہ تصدیق  تو کتابت قرآن کی بھی حضور ﷺ سے ثابت نہیں کر سکتا۔یعنی یہ کہ لوگوں نے جو قرآن کے نسخے لکھے کہ اس کی حضورﷺ نے تصدیق کی ہو کہ فلاں فلاں کا نوشتہ صحیح ہے۔پھر حدیث کی کیا خصوصیت ہے۔اورجب حضور ﷺ سے اثبات حدیث ہوچکا تو پھر یہ انکار کیسا۔رہا ان کا وجود تو کتب احادیث میں ثابت ہے جس کا انکار صرف مکابرہ ہے۔چھٹا جواب  یہ ہے کہ تواتر سے صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین  اور تابعین سے نقل و ضبط روایات کتب حدیث میں ثابت ہے اور بعض کتب خانوں میں موجود۔دیکھو تو توجہیہ النظر جو تطبیق بالا کی بین دلیل ہے۔ساتواں جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ حدیث منع منسوخ ہے۔اولہ مذکورہ بالا اس پر شاہد ہیں۔اور نیز یہ کہ ر سول اللہﷺ نے مرض الموت میں فرمایا ۔قلم دوات لائو میں تمھیں کچھ لکھ دوں۔(صحیح بخاری) اگرچہ پھر کسی وجہ سے لکھا نہ گیا  مگر آپ ﷺ نے اس کی خواہش تو کی جواز  کی دلیل ہے اور یہ آخری خواہش  نسخ کی دلیل ہے۔آٹھواں جواب اور نسخ کی دلیل یہ بھی ہے کہ منع کی روایت ایک ابو سعید سے مروی ہے۔اور اثبات کتابت کی رسول اللہ ﷺ سے ۔حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عبد اللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور رافع بن خدیج اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیر ہم سے مروی ہے۔لہذا یہ اثبات مقدم ہے۔نواں جواب یہ ہے کہ اگربالفرض آپ نے حدیث کے لکھنے سے منع بھی کیا ہوتو حدیث کی زبانی روایت اور تبلیغ کو آپ نے منع نہیں کیا وہ تو خود  اسی حدیث سے ثابت ہے۔جس کو معترض نے پیش کیا ہے۔اور حدثو ا عنی کے جملے کو اپنا خلاف جان کر حذف کردیا۔اور حق کو چھپا دیا۔ سو مقصود تو نفس روایت حدیث وتبلیغ حدیث ہے۔جو خود معترض کی پیش کردہ حدیث اور ادلہ قطعیہ سے ثابت ہے۔دسواں جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے علاوہ قرآن مجید کے آپ ﷺ کی حدیثوں کو روایت کرنا جائز یا واجب اور اس کا اعتبار ہے یا نہیں اور اگر ہے تو یہی ہمارا مدعا ہے۔اور اگر نہیں تو پھر یہ حدیث بھی قرآن مجید نہیں تو پھر اس کا بھی اعتبار نہیں ہونا چاہیے۔لہذا اس کا وجود اس کے عدم کو مستلزم ہے۔اس سےکچھ ثابت ہی نہیں ہوسکتا۔پس اس سے استدالال باطل اور یہ کہنا کہ یہ قرآن مجید کے منشاء کے مطابق ہے۔بالکل غلط ہے بلکہ یہ قرآن کے منشاء کے مخالف ہے پڑھو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ

ترجمہ۔اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ایک وقت معین تک دین  کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔(پ3 ع 6)

بتائے اگر رسول اللہ ﷺ کو معاملہ دین کا لکھوانا ہوتا تو جائز ہونا یا ناجائز اور وہ حدیث ہونی یا عین قرآن ؟اور پڑھیے۔

وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ

ترجمہ۔تمہارے غلاموں میں سے  جو آذادی کے لئے لکھت طلب کریں ان کو لکھ دو۔(پ18ع 9)

بتایئے رسول اللہ ﷺ کو کتابت مکاتبت جائز ہونی یا ناجائز ہونی او وہ حدیث ہونی یا عین قرآن اور یہ کہنا بھی مفید نہیں کہ اگرچہ معترض اس کا قائل نہیں مگرفریق مخالف کا مسلمہ ہے اس لئے کہ فریق مخالف نے اس کا دندان شکن جواب بھی دے دیاہے۔اور اول تو ایسی روایت کے لفظ حدثو ا عنی سے حدیث کی روایت ثابت ہوتی ہے۔ دوم اور ادلہ قطعیہ سے بھی ثابت کیا جاچکا ہے۔ہاں معترض نے ص31 پر میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے تذکرہ کے حوالہ سے جو ترک حدیث کی روایت نقل کی ہے اس میں بھی دھوکا دیا ہے۔کہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان کرتے ہو۔اور اس میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔الخ۔یہ ترجمہ غلط ہے۔دیکھے ! الفاظ ر وایت کے یہ ہیں۔

انكم تحدثون عن رسو ل الله صلي الله عليه وسلم احاديث تختلفون فيها والناس بعدكم اشد اختلافا فلا تحدثوا الخ

یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا!لوگوں  تم رسول اللہ ﷺ سے مختلف حدیثیں بیان کرتے ہوجو بجائے فائدہ کے نقصان دہ ہیں۔ایسی مختلف حدیثیں مت بیان کرو۔اور جہاں ر وایت آپس میں مختلف ہو وہاں صرف قرآن پیش کرو۔پس انہوں نے متناقص  روایات بیان  کرنے کو منع فرمایا۔نہ مطلق روایت  کو سو اس سے کسی کو انکار ہے اور یہ متنا قص بھی تاریخ سے لا علمی او عدم فہم پر مبنی تھا نہ کہ نفس روایات میں۔

2۔دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کو محدثین کی اصطلاح غالباً معلوم نہیں یا دیدہ دانستہ حق پرستی کی اس روایت کو امام ذہبی نے من مراسیل ابن ابی ملیکہ کر کے بیان کیا ہے بتا گئے ہیں کہ منقطع ہے لہذا صحیح نہیں۔توجیہہ ص18 انظر الی الاصول الاثر میں بھی اس روایت کو کہا ہے کہ منقطع ہے صحیح نہیں۔

3۔تیسرا جواب یہ ہے کہ اس کتاب میں اس سے پہلے ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے  ترکہ جدہ کے بارہ میں لوگوں سے حدیث نبوی سن کر فیصلہ کیا اور اس کے علاوہ بہت سی حدیثیں کتب حدیث میں ان سے مروی ہیں۔جو بالاتصال ثابت ہیں۔اور آپ کی خلافت کے وقت بھی فیصلہ حدیث سے ہی ہوا تھا۔جو بالا اجماع مسلم ہوا۔پس اس کا خلاف سبیل المولمنین او ر قرآن کا خلاف ہے۔

اور معترض نے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مجموعہ احادیث کے جلانے کی روایت نقل کی ہے تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس روایت کے آخر میں لکھا ہے۔فهذا لايصحیعنی یہ صحیح نہیں ہے غلظ ہے۔پھر ٖغلط سے استدلال بھی غلط اور باطل ہے۔معترض نے حق پوشی کر کے دھوکا کیوں دیا۔قرآن مجید سے معترض نے صرفف حق پوشی فاور دھوکہ وہی کاسبق لیا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ امام ابن کثیر نے بھی اس روایت کے ابطال میں کہا ہے غریب جدا یعنی بالکل صحیح نہیں۔اور یہ کہ اس کی سند یں علی بن صاؒھ  اور مفضل بن غسان دونوں مجہول ہیں۔خلاصہ یہ کہ روایت بلکل صحیح نہیں۔دو راوی مجہول ہیں۔اور ادلہ قطعیہ سابقہ کے بھی مخالف ہے  تیسرا جواب یہ ہے کہ خود اسی روایت میں ہے کہ انھوں نے صرف کسی شخص کی غلطی یا سہو و نسیان کے احتمال کے باعث احتیاطا ان روایتوں کو  تلف کیا نہ کہ اصل حدیث سے انکا ر تھا۔ورنہ خود کیوں جدہ کے ترکہ میں حدیث کی روایت سے فیصلہ کرتے اور خلافت کا بھی حدیث ہی سے آپ نے فیصلہ کیا جو تواتر سے ثابت ہے۔معترض نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ موکانا شبلی نے فاس روایت پر کوئی تنقید نہیں کی۔میں کہتا ہوں اب تو آپ کو خود تذکرۃ الحفاظ سے تنقید مل گئی اور امام ابن کثیر کی تنقیدعلاوہ اس کے ہے۔جو کنزل العمال وغیرہ میں ہے۔اور معترض نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جو روایت عدم حدیث کی نقل کی ہے۔اس میں بھی سخت دھوکا دہی اور حق پوشی کی ہے۔جو عبارت اپنے مطلب کے خلاف تھی اس کو حذف کر کے صرف ا پنے مطلب کی نقل کر دی ہے۔جو شرعا ً سخت جرم ہے۔يحرفون الكلم عن مواضعهکی آیت یاد لادی۔سچ ہے۔

چوں غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب ازدل بسوئے دیدہ شد

دیکھئے عبارت ذیل اصل کتاب تذکرہ میں تھی جس کو معترض نے حذف کردیا۔

فلا تصد وهم بالاحديث فتشغلوهم جردواالقران واقلو االرواية عنرسو ل الله صلي الله عليه وسلم وانا شريككم الحديث

یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کثرت حدیث کی روایت سے لوگوں کو قرآن مجید سے غافل نہ کرنا اور قرآن مجید میں حدیث کی آمیزش نہ کرنا قرآن مجید کو علیحدہ رکھنا اور رسول اللہ ﷺ سے روایت کم کرنا اور اس میں بھی  تمہارا شریک ہوں۔الخ

یہ عبارت جو مثبت حدیث نبوی ﷺ کی تھی۔اور معترض کے مخالف اس کوحذف کر کے اپنا مطلب جو باطل تھا وہ بنا لیا۔اور یہ کوئی تعجب نہیں باطل کی حمایت میں حق کو چھپا یا ہی جاتا ہے اس روایت کا مطلب ہے کہ  حضر ت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی غرض یہ تھی کہ کثرت روایات سے لوگ قرآن مجید کی تلاوت سے غافل نہ ہوں اور نیز یہ  کہ قرآن مجید کے ساتھ حدیث کو مخلوط نہ کریں۔الگ الگ رکھیں۔جرد القرآن کا صاف یہی مطلب ہے۔ پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کم بیان کرنا۔اس لئے کہ کثرت روایات میں غلطی کااحتمال ہے۔اور فرمایا اس صورت میں میں بھی تمہارا شریک ہوں۔کہیے یہ قول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا حدیث کا مثبت ہے۔یا منفی۔ہاں احتیاط اور کمی کے ساتھ روایت کرنے کو فرمایا جس میں صحت راحج ہے۔جو بالکل صحیح ہے۔اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہ فرمانا کہ اگر میں آپ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانے میں کثرت سے حدیثیں بیان کرتا تو حضرترضی اللہ تعالیٰ عنہ  مجھے درے سے مارتے۔یہ بھی ان کا اپنا خیال اور قیاس ہے۔او ر بس واقع میں ایسا نہیں ہوا۔اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ کے قید کی روایت میں کلام ہے کہ اول تو اس روایت کو توجیح النظر الی الاصول الاثر میں نقل کر کے کہا ہے یہ مرسل مشکوک ہے صحیح نہیں اس کا کذب ظاہر ہے۔انتہیٰ ص18 میں کہتا ہوں کہ اس کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے تو  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کوکوفہ میں اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو شام میں معلم بنا کر بھیجاتھا۔ اور ان لوگوں کو لکھ بھیجا کہ تم ان دونوں کی حدیث سے تجاوز نہ کرنا۔(ازالۃ الخلفاء)و ہ تو ان کے بڑے مقرب تھے۔پھر قید چہ معنی۔تذکرۃ الحفاظ ص14 میں لکھا ہے۔کہ حارثہ بن مضرب کہتے ہیں ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا خط آیا اس میں لکھا تھا میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو تمہارا امیر اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کووزیر اور معلم بنا کر بھیجا ہے۔یہ دونوں رسو ل اللہ ﷺ کے برگزیدہ اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے ہیں۔ان کی سننا اور پیروی کرنا ایک روایت میں ہے کہ میں نے اپنے نفس پر ترجیح دے کر تمہارے پاس عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بھیجا ہے۔انتہیٰ بھلا ایسے شخص کو وہ قید کرتے ہر گز نہیں۔اور اگر بالفرض اسے تسلیم بھی کیا جائے۔تو لفظ حبس کا معنی اگرچہ لغت میں قید کا بھی آتا ہے۔مگر یہاں یہ معنی مراد نہیں یہاں حبس معنی روک تھام ہے۔جیسے کہ آیت

تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ  (پ 7 ع 3)

اور جیسے کہ آیت

وَلَئِنْ أَخَّرْ‌نَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ 

(پ 12 ع1 ) میں یہاں کثرت روایت سے بندش کے معنی ہیں نہ مطلق روایت کرنے سےمنع کرنے کے۔اور جیل خانہ میں ڈال کر ان کو عذاب کرنے کے کلا و حاشا۔اس لئے کہ ان سے پیشتر تذکرہ کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔کہ کہا لوگو! تم روایت کم بیان کرنا اس میں میں بھی تمہارا شریک ہوں۔دوم خود ان سے بھی صحاح ستہ میں پانچ سو سے زیادہ حدیثیں مروی ہیں۔بعض مشہور بعض متواتر ان کی ساٹھ حدیثیں تو صرف بخاری میں ہیں۔(مقدمہ فتح الباری ص561)اور مولانا شبلی نے الفاروق ص240 میں بحوالہ کتاب الاآثار امام محمد ؒ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ کاباہم مسائل میں استفادہ نقل کیا ہے۔یہ بھی معترض کی روایت کی تردید ہے سوم ابن عبد البر کی روایت میں ہے۔کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا جس نے رسول اللہﷺ سے جو حدیث سنی اور اسی طرح روایت کی تو وہ سلامت رہا۔انتھیٰ۔پس اسے سے یہ واضح ہوگیا کہ اس سے ان کی غرض تحقیق اور تثیت روایت تھا نہ ترک روایۃ وہ حدیث نبوی ﷺ میں کذب کی وعید سے بہت خائف تھے۔اور فرماتے تھے۔اخافان ازيد حرنا اوانقص حرفااس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے کذب پر وعید فرمائی ہے۔(مسند احمد وغیرہ)ورنہ ویسےتو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایاہے۔فبدو االعلم با لکتاب یعنی علم (کتاب وسنت )کو لکھ کرمقید کردو۔(مستدرک حاکم و سنن دارمی)

اور معترض نے جو ص33 میں لکھا ہے۔کہ امام ذہری کو ضبط احادیث بعد کو ناگوار گزرا میں کہتا ہو یہ بلکل غلط ہے اس لئے کہ اول تو خود معترض نے اسی صفحہ سطر 9 میں لکھا ہے کہ ان تصانیف کا مسالہ وہ روایات تھیں۔جو مسلمانوں میں عام طور پرمشہور چلی آرہی تھیں۔دوم یہ کہ امام ذہری نے اخیر وقت تک احادیث لکھیں۔اور روایت کیں۔جو کتب حدیث میں جم غفیر کا ان سے روایت کرنا ثابت ہے پس اس سے معترض کے تمام الہ باطلہ ہباء منثورا ہوگئے۔الحمد للہ

اور یہ بھی بالکل غلط ہے۔کہ ترک روایت قرآن کے مطابق ہے۔کلا و حاشا۔ترک روایت  قرآن کے بالکل مخالف ہے۔چنانچہ پیشتر گزر چکا ہے۔اور یہ بھی بڑا دل فریب مظالطہ ہے۔ کہ خلفاء راشدین نے حدیث کا کوئی مجموعہ نہ بنایا۔اس لئے کہ تواتر سے ثابت ہے۔کہ خلفاء راشدین نے احادیث نبویہ ﷺ سے فیصلے کیے۔عبادات ۔معاملات۔مغاذی وغیرہ میں مکتوبات و فرامین و احادیث نبویہ ﷺ پر عمل کیا اور خود بھی احادیث نبویہ روایت کیں۔رسول اللہﷺ سے قرآن کی تفسیر بھی  روایت کی اور خود ان سے احادیث کے نوشتے بھی بعض کتب خانوں میں موجود ہیں۔(توجیہہ النظر الی الاصول الاثر)

اور اس  کا انکار  ہدایت کا انکار اور مقابرہ ہے۔فرامین مکتوبات وغیرہ کا کچھ تو معترض نے خود بھی اقرار کیا ہے۔جس سے اس کی سب کل کی تقیض خود اسی کی تحریر سے ثابت ہوگئی۔جس سے اس کا  استدلال باطل ہوگیا۔الحمد للہ

اور یہ کیا ضرور ہے  کہ جو امر ضروری ہو وہ نوشتہ ہی ہو کیا زبا نی روایت تواتر یا شہرۃ سے یا تعامل امت کافی نہیں۔ضرور کافی ہے۔اسوہ رسول ﷺ  کو خود معترض بھی مانتا ہے۔پھر کیا اس کے لئے بھی کتابت کا مجموعہ ضروری ہے۔یا نہ؟اور احادیث کی کتابت و ضبط تو خود ر سول اللہ ﷺ سےثابت ہے۔کہ آپ نے فرامین و  احکام و عقول ودیات ونصاب ذکواۃ مکتوبات و معاہدات صلح حدیبیہ وغیرہ بذات خود لکھوائے اور ان پرخلفاء راشدین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ نے عمل کیا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عمل کیا جو تواتر سے ثابت ہے۔ او ر وہ نوشتے اب تک کتب حدیث میں بصحت نام موجود ہیں۔پھر ایسے بدہیی امر کا انکار کج بحثی ہٹ دھرمی انصاف کشی شخصیت پرستی بلکہ نفس پرستی نہیں تو اور کیاہے۔؟منکر معترض کو احادیث نبویہ ﷺ کے جزو دین ہونے سے انکار اور اس پر سخت اصرار ہے اور حدیث نبوی  پرعمل کرنے کو کبھی تو وہ رواۃ کی شخصیت پرستی بتاتا ہے۔اور کبھی کہتا ہے کہ اگر وہ جزو دین ہوتیں تو اللہ او اس کا رسول ﷺ اس کی ذمہ داری لیتے یا  خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وٖغیرہ اس کا مجموعہ چھوڑتے جب کہ ان  میں سے کچھ بھی نہیں تو حدیث جزو دین بھی نہیں۔میں کہتا ہوں اس کے جواب کا کچھ حصہ تو گزر چکا ہے۔ملاحظہ ہو کچھ اب بیان کیا جاتا ہے۔وہ یہ ہے کہ جب شخصیت پرستی ہوتی کہ ان لوگوں کی ایجاد کو حجہ و واجب العمل بنایا جاتا یہ تو انہوں نے حدیث رسول ﷺ کی تبلیغ کی ہے جس پر عمل کرنافرض ہے جیسے کہ انہوں نے قرآن کی تبلیغ کی اگر یہ شخصیت پرستی ہے تو پھر ان کی یا اور کسی کی قرآن کی تبلیغ بھی شخصیت پرستی ہوگی اور یہ باطل ہے۔اس لیے کہ رواۃ کی خبر و شاہد کی شہادت کو قبول کرنے کا تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ 

(پ 3 ع 6)اگر یہ شخصیت پرستی ہوگی تو دین دنیا دونوں کے احکام باطل ہو جائیں گے۔رواۃ کی خبر یا شاہد کی شہادت پر عمل کرنا تو قرآن مجید اور بداہۃ عقل کے مطابق اور سبیل المومنین ہے جس سے کوئی ذی عقلج و فہم سلیم انکار نہیں کرسکتا۔اس  کو شخصیت پرستی کہنا بالکل باطل ہے تعجب ہے کہ معترض تاریخ کی روایتوں بلا تنقید مانتا ہے۔جن میں اکثر اخباراحاد فساق فجار وغیرہ کی روایتیں بھی ہیں۔ایسی  شخصیت پرستی کو وہ صحیح مانتا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ صحیح جزو دین نہیں گویا دین میں شخصیت پرستی کو برا جانتا ہے اور بے دینی کی شخصیت پرستی کا عامل ہے۔

بریں عقل و دانش ببا ید گریست؟

اور یہ گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بھی ایک طرح سے حفاظت حدیث یا شریعت محمدیہ کا ذمہ لیا ہے۔اور وہ واقعات سے پورا ہو بھی رہا ہے۔ ملاظ ہو مضمون سابق اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ نفس حدیث کی روایت بلکہ کتابت الفاظ بھی زمانہ نبوی ﷺ میں شروع ہوگئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بذات خود فرامین مراسلات مکتوبات عقول ودیات احکام وغیرہ لکھوائے پھر اس طرح خلفاء راشدین اس پر عمل پیرا ہوئے۔اور یہ کہ وہ نوشتے اب تک بعض کتب خانوں میں موجود ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے زمانہ میں وہ نوشتے مثل قرآن مجید مت فرق اجزاء میں غیر مرتب تھے بعد میں زمانہ تابعین میں  باقاعدہ جوامع و سنن وغیرہ کی صورت میں مدون و مرتب ہوئے اور درس و رتدریس کا سلسلہ مدارس میں شروع ہوا جس کو معترض اپنی غلط فہمی سے امر جدید خیال کرتا ہوا طرح طرح کی چہ مگویئاں اور شرر انگیز یاں کر رہا ہے۔

یہ ظلم آرایئاں کب تک یہ شرر انگیزیاں کب تک

تعجب ہے کہ معترض ص 33 میں لکھتا ہے۔کہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ  و امام زہری کے بعد جب لوگوں کو قرون اولیٰ کے لکھنے کا خیال پیدا ہوا اس دور میں کتب سیرت کی تصنیف کی ابتداء ہوئی۔ان تصانیف کا مسالہ و ہ روایات تھیں جو مسلمانوں میں عام طور پر مشہور چلی آتی تھیں۔یہ باتیں اس تمام عہد کو محیط تھیں۔بعض حضرات نے اس وسیع موضوع کو سمٹایا اور صرف انہین باتوں کو اکھٹا کیا جو نبی کرم ﷺ کی طرف منسوب  کی جاتی تھیں۔ان باتوں ک مجموعے کا نام کتب احادیث ہے۔اور ص 30 میں لکھتا ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت حسب ذیل تحریری سرمایہ موجود تھا۔مردم شماری کا رجسٹر حضور ﷺ کے مکتوبات گرامی سلاطین و امراء کے نام تحریری احکام و فرامین و معاہدات اور کچھ احادیث جو خود بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے قلمبند کیں۔الخ

تعجب اس پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ضبط احادیث کے سلسلہ کو بھی تسلیم کرتا ہے اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے حدیث لکھنے کو بھی مانتا ہے۔اور پھر یہ بھی کہتا ہے جہ یہ سلسلہ کتب حدیث ان روایتوں کا مجموعہ ہے جو مسلمانوں میں عام طور پر مشہور چلی آتی تھیں۔ ص 33۔34 اور آخر میں اپنا وہم پھیلا کے ان کے جزو دین ہونے سے انکار بھی کرتا ہے۔میں کہتا ہوں کہ جب نوشتوں اور مشہور روایات کو باقاعدہ جرح و تعدیل کے قوانین سے تنقید کر کے مدون کر لیا گیا تو پھر ان کی صحت اور جز و دین ہونے میں کیا کلام ہے۔؟ کچھ بھی نہیں؟صرف معترض کی سمجھ کا پھیر ہے او ر سنیے! معترض نے ایک اور طرح سے وہم پھیلایا ہے۔ص 34 میں لکھا ہے۔ پھر ایک دوسری صورت یہ بھی  تھی کہ جس طرح قرآن محفوظ کیا گیا اگر لوگ نبی اکرم ﷺ کی احادیث کو یاد  کر لیتے اور وہی الفاظ سینہ بسینہ منتقل ہوتے رہتے تاآنکہ وہ کتابی شکل میں لکھ لئے جاتے تو یہ بھی کہا جا سکتا  تھا کہ  کتب احادیث کا مجموعہ ایک یقینی چیز ہے لیکن یہ بات بھی نہیں ہوئی۔الخ

دیکھئے! یہ بدحواسی یا وہم نہیں تو اور کیا ہے۔کہ پہلے تو لکھ چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احکام فرامین و معاہدات وغیرہ ضبط کرائے۔اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے  بھی احادیث قلم بند کیں پھر یہ بھی لکھتا ہے کہ تابعین نے کتب احادیث مدون کیں پھر بھی یہ لکھتا ہے کہ وہ روایات م مشہور تھیں۔ او ریہ تو ظاہرہے کہ وہ کتب حدیث صحیح بخاری وغیرہ اب تک بصحت تام موجود ہیں پھر یہ کہنا کہ لیکن یہ بات بھی نہیں آپ ہی بتایئے۔اسے کیا کہا جائے  کیا یہ بدحواسی اور تناقض نہیں تو او ر کیا ہے یہ باطل کی حمایت کا نتیجہ ہے اور سنئے ص36 میں معترض نے لکھا ہے۔کہ عبد للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرہ میں مذکور ہے کہ جب وہ قال رسول اللہ ﷺ کہتے تھے۔تو کانپ اٹھتے تھے۔او ر کہتے تھے اس طرح یا (یا مثل اس کے قریب (مسند داری) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسی خوف سے حدیث بیان نہیں کیا کرتے تھے۔کہ کہیں مجھ سے حدیث روایت کرنے میں کمی بیشی نہ ہوجائے۔الخ دیکھئے! معترض کا خبط یا چالاکی وقطع و برید کہ اس روایۃ میں ہے۔کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایۃ حدیث کے وقت یہ رسول اللہﷺ کی حدیث سناتے ۔

من كذب علي متعمدا فليتبو ا مقعده من النار انتهي

(مسند امام احمد وغیرہ کتب احادیث ) اس کو معترض نے حذف کر دیا جس میں حدیث کاثبوت تھا۔نیز اس نقل سے تو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے الفاظ نبویہ کے ضبط کرنے کی طرف توجہ تام ثابت ہوتی ہے۔کہ جس میں ان کو ذرا بھی شبہ ہوتا وہاں او کما قال کہہ دیتے او ر جہاں یقین ہوتا وہاں بلا کھٹکا الفاظ نبویہ بیان کرتے۔پھر اسی  طرح آگے تابعین وغیرہ کا سلسلہ چلا۔لہذا یہ اثبات حدیث کی دلیل ہے نہ نفی کی ۔مگر معترض نے اس کو عدم اثبات میں پیش کیا او ر کتب حدیث کے عیوب میں اس کو لایا۔

چشم بد اندیش کہ برکندہ باد   عیب نمائد ہنر ش در نظر

او ر سنیے! معترض نے آئمہ محدثین پر یہ بہتان لگایا ہے کہ انہوں نے اپنے سے سینکڑوں برس پہلے کے انسانوں کی ثقاہت کے متعلق فیصلے کئے۔ص45 ص37 یعنی جرح وتعدیل کی۔میں کہتا ہوں یہ ان پر صریح بہتان ہے اس لئے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ صحیح سند سے اور دسماع وتحقیق سے۔پہلوں کی جرح و تعدیل نقل کی یا اپنے چشم دید مشاہدہ  و معائنہ کی بنا پر حکم لگایا ہے۔نہ کہ اٹکل پچو۔معاذ اللہ۔اور معترض کا یہ بھی مظالطہ ہے کہ رواۃ نے ثقاہت کا سکہ جما کر لاکھوں حدیثیں وضع کیں۔بعض کا پردہ چاک ہوا۔ہزاروں نیک نیتی سےحدیثیں وضع کرتے لہذا ان کا کیا اعتبار پھر کتب سابقہ سے تشبیہ دی ہے۔میں کہتا ہوں آئمہ محدثین نے ایسے لوگوں کی ایک ایک روایۃ کی تنقید کی ہے اور ان کو الگ کر دیا ہے۔اور مختلف اسانید سےان کو پرکھا ہے۔اور معانی کے لہاظ سے  بھی  جا بچا ہے متکلم کی شان اور عادت اور دیگر ادلہ صحیحہ سے تطبیق دی ہے۔الغرض عقل و نقل کی کسوٹی سے ان کو روایت کیا ہے۔جو بالکل قرآن مجید کے حکم کے مطابق ہے ۔مضمون سابق ملاحظہ ہو اور کتب سابقہ یا تو راۃ وغیرہ کی مثال بھی دھوکہ دہی سے خالی نہیں۔اس لئے کہ ان کے بارے میں تو قرآن و حدیث دونوں ناطق ہیں کہ وہ محرف ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم ان کے  ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے اور آئمہ جرح اور تعدیل کی تنقید و روایت یا شہادت پرعمل کرنا تو قرآن مجید اور عقل دونوں کے  مطابق ہے اب یہ کج بحثی کرنا کہ یہ ان کو بشریت کی سطح سے اوپر لے جانا ہے بالکل دھوکا دہی ہے۔ اس لئے کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔کہ روایۃ کے درجات ہیں۔تواتر۔شہرۃ۔خبر واحد۔اور ہر ایک اپنے اپنے محل پر ہے۔اور قابل عمل ہے۔اور پھر جب قرآن مجید سے ایک امر ثابت ہوچکا تو اب اس میں تردد کرنا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔اور کچھ نہیں۔

معترض کا ایک او ر دلفریب مغالطہ سنئے۔لکھتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے جو پانچ لاکھ ستانوے ہزار  روایۃ کو جو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ اور بقایا تین ہزار کے قریب اپنی کتاب میں درج کر لیں۔ان کے پاس کون سی سند تھی۔کہ ان تین ہزار میں سے شک و شبہ کی گنجائش نہیں پھر اس کو شخصیت پرستی بتایا ہے۔میں کہتا ہوں معترض نے اول تو تعداد حدیث ہی میں غلطی کی ہے۔اس لئے کہ صحیح بخاری کی احادیث مسندہ سات ہزار دو سو پچھتر ہیں۔او ر مسندہ و معلقہ و مررہ ملکر نو ہزار دو سو اسی ہیں۔

اب لیجئے جواب سنیے۔!امام بخاری کے پاس صحیح کو لینے اور غیر صحیح کو ترک کرنے کی سند یا  کسوٹی بحکم قرآن مجید

وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ الاية إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا

بحکم عقل و دانش و اجماع امت قواعد جرح و تعدیل تنقید و تحقیق تھی جس سے کسی صاحب عقل کا مل وفہم سلیم کو انکار کی گنجائش نہیں ورنہ بتایئے۔معترض کو کیا حق ہے کہ معتقدین کی صدیا سالہ تحقیق پر صد ہا سال کے بعد اب نکتہ چینی کرے۔یہی نہ کہ عقل ونقل کے قواعد سے حکم لگایا جاتا ہے۔بس جیسے معترض نے تنقید کی گو اس کی تنقید بھی غلط اور بے قاعدہ ہے۔مگر کی تو سہی۔

بس اسی طرح امام صاحب و دیگر آئمہ نے تنقید کی جو بلکل صحیح اور باقاعدہ کی کہیے  اس میں کیا اعتراض ہے کچھ بھی نہیں صرف معترض کی سمجھ کا پھیر ہے۔کہ قرآن مجید کے مطابق عمل کرنے کو شخصیت پرستی ہے۔قرآ ن مجید کے معنی بھی جو ان کے بتائے  ہوئے ہوں۔ ان کو تسلیم کرنا اور جو سلف و خلف سے متواتر ومشہور ہیں۔ان کو ترک کرنا یہ بھی اول درجہ کی شخصیت پرستی ہے۔

مگر منکروں پر کشادہ ہیں راہیں۔               پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں۔

منکر معترض کا ایک اور بہتان عظیم ملاحظہ فرمایئے۔ص38 میں لکھتا ہے۔امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کو بنا بر اختلاف عقیدہ کمی بیشی ایمان ثقہ نہیں قرار دیا۔او ر چونکہ وہ کوفہ کے تھے لہذا سب کوفہ والوں کو غیر معتبر بتایا اور چونکہ کوفہ عراق میں تھا۔لہذا سارا عراق اسی زمرے میں آگئے۔لہذا ان کی سو حدیثوں میں سے 99 چھوڑ دو اور جو ایک تو وہ بھی مشتبہ۔اللہ اللہ لوگوں کو بہکانے اور بدگمان کرنے کے لئے کتنا بڑا بہتان تراشا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔امام بخاری ؒ نے  ایسا ہرگز نہیں کیا صرف اوروں کا یہ قول نقل کیا ہے۔كان مرجيئا سكتواعن رائه حديثهکہ لوگ بوجہ ان کے ارجاء کے ان کی حدیث سے ساکت رہے۔ثقہ نہ قرار دینا اور امر ہے اور سکوت عن الحدیث اور۔امام نسائی وغیرہ نے وجہ سکوت عن الحدیث کی سوء حفظ بتائی ہے۔سو ہوسکتا ہے کہ توثیق بااعتبار صدق و دیانت کے ہو اور سکوت عن الحدیث با اعتبار سوء حفظ کے پاس امام بخاری کی طرف امام ابو حنیفہ کے غیر ثقہ ہونے کی نسبت بالکل بہتان ہے۔اور آگے کوفہ والوں اور عراق والوں کا تو اس سے بھی بڑھ کر بہتان ہے کہ جس کا سر ہے نہ پائوں۔اور اس سے بہتان کی تردید کےلئے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے۔کہ صحیح بخاری میں سینکڑوں راوی کوفی اور عراقی ہیں۔سفیان ثوری۔سفیان بن عینہ۔ابراہیم نخعی۔ابراہم یتمی۔ وغیرہ رواۃ بخاری سب کوفی ہیں۔معترض کا ایک اور اعتراض سنئے۔ صفحہ 38 میں لکھتا ہے۔کہ فروعی عقیدہ کے اختلاف کی بنا پر امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم نے خود امام بخاری کی ثقاہت پر اعتراض کیا ہے۔اور ان سے رعایت ترک کردی ہے امام  مسلم امام  بخاری کو مفتری الحدیث جھوٹ موٹ بنانے والا قرار دیتے ہیں۔یااللہ ! کہیں آسمان سے پتھر نہ برسیں یہ ان بزرگوں پر کتنا بڑا بہتان ہے۔نہ معلوم معترض نے کتب رجال کو پڑھا نہیں یا سمجھا نہیں یادیدہ دانستہ دھوکہ دینے کو اور خلق خدا کے گمراہ کرنے کو  يحرفون الكم عن مواضعهکا طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔اب سنئے جواب امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم نے امام بخاری کے ثقہ ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا یہ معترض کی اصطلاحات محدثین سے بے خبری کا نتیجہ ہے کہ دن کو رات بناتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ امام بخاری جب نیشا پور گئے۔تو آپ کی بڑی عزت ہوئی اور اساتذہ ک طلبہ سب آپ کے سامنے آنے لگے۔بعض اساتذہ کو یہ امر ناگوار ہوا ایک حاسدنے آکر ایک مسئلہ پوچھا کہ آپ خلق قرآن کے بارے میں آپ کیا کتہے ہیں۔آپ نے کہا کہ غیر مخلوق ہے۔مگر ہماری آوازیں غیر مخلوق نہیں۔اس کم بخت نے مشہور کر دیا کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل ہیں۔اس پرامام زھلی کو اپنے طلبہ کو روکنے کا موقع مل گیا۔انہوں نے طلبہ کو روکا تو امام ابو حاتم اور امام ابوزرعہ بھی قبل اس کے امام صاحب سے خود آکر تحقیق کرتے دور سے سن کربیٹھ رہے بعد کو جب امام صاحب کو خبر ہوئی تو انہوں نے اس کی تردید بھی کر دی۔معاملہ صاف  ہوگیا۔مگر دشمن کو بہکانے کا موقع مل گیا۔اس زمانے میں لوگ مذہب کے پکے تھے وہ مذہب کے خلاف کوئی بات  نہیں سننا چاہتے تھے۔امام ابو زرعہ کا یہ حال تھا۔کہ اگر کوئی گانا بجاتا ہوتا تو کانوں میں انگلیاں ڈال کر بند کر لیتے امام صاحب کے ثقہ ہونے پر انہوں نے اعتراض قطعا نہیں کیا صرف پڑھنے سے رک گئے۔ویسے امام صاحب کے علم و فضل و ثقہ ہونے کےقائل تھے۔اس لئے کہ جب امام ابو زرعہ سے کسی راوی کا حال دریافت کیا گیا۔تو انہوں نے امام بخاری کا حوالہ دیا کہ انہوں نے ایسا لکھا ہے۔(تہذہب التذیب) بس اسی پر کفایت  کی۔اس سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک امام بخاری ثقہ اور جرح و تعدیل کے امام تھے۔ورنہ غیر ثقہ کی جرح و تعدیل کا کیا اعتبارا ور امام ابو حاتم نے تو امام بخاری کودین کا عالم اور حافظ بتایا ہے۔اس سے بڑھ کراورتعدیل  کیا ہوگی۔اور کیا عجب کے معترض کو یا جس سے معترض نے نقل کیا ہے۔کہیں دھوکا ہوگیاہو کیونکہ محمد بن اسماعیل بخاری ایک اور شخص وہ بھی رواۃ میں گزرا ہے۔جو پانچویں صدی میں امام صاحب کے بعد ہوا ہے۔گویا کچھ اوپر تین سوسال امام صاحب کے بعد پیدا ہوا وہ البتہ ثقہ نہیں۔غالباً لوگوں کو اس کا شبہ ہوا ہے۔ورنہ امام بخاری تو امام الدینا  فی الحدیث مسلم الکل تھے۔

قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٣٠

اب امام مسلم  کی بابت سنیے۔!کہ معترض نے جو کچھ ان کے بارے میں لکھابالکل جھوٹ ہے۔ بھلاثابت تو کریں حوالہ تو بتایئں کہ کس کتاب میں ایسا لکھا ہے۔دشمنان سے سنی سنائی زٹلیات نقل کردیں۔کہیں کہیں لکھا ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری کو جھوٹ موٹ حدیث بنانے والا کہا ہے۔کلاو حاشا۔ہر گز نہیں وہ تو ان کے شاگرد رشید ہیں۔اور ان کی اتنی تعریف کی ہے کہ کوئی اور کیا کرےگا۔وہ تو امام صاحب کو استاذ الاستاذین اور سید المحدثین اور طبیب الحدیث فی عللہ کہتے تھے اور کہتے  تھے کہ علم دین میں آپ کی مثل دنیا میں کوئی نہیں۔اگر اجازت ہو تو میں آپکے پائوں چوم لوں۔اور کہتے ہیں کہ وہ حاسد ہے جو آپ سے بضض رکھے۔بتایئے وہ جھوٹ موٹ حدیث بنانے والے تھے۔یا منکر معترض حاسد کہ صریح جھوٹ لکھ مارا۔توبہ توبہ او ر بعض محدثین نے تو امام صاحب میں کلام کرنے والے پر ہزار لعنت کی ہے۔سچ ہے۔

گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنہ پاکاں برد

وہ تو ایک منکر معترض نے جھوٹ موٹ بہتان تراش کو لکھ مارا۔دوسرا مختل الحدیث کا معنی بھی غلط کیا  اس کا معنی ضیعف الحدیث ہے نہ کہ جھوٹ موٹ بنانے والا ان دونوں میں آسمان اور زمین کا فر ق ہے۔مگر اس کو تو اعتراض کرنا تھا۔حق و ناحق جھوٹ سچ سے غرض نہیں۔قرٓآن میں افتراء کرنے والوں کی جو تعریف کی گئی ہے۔شاید وہ معترض کو یادنہیں یا پرواہ نہیں۔

إِنَّمَا يَفْتَرِ‌ي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴿١٠٥﴾(پ 14 ع 19)

ترجمہ۔جھوٹ افتراء وہی کرتے ہیں۔جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔اور وہی لوگ اصل کاذب ہیں۔''

یہاں معترض نے ایک اور دل فریب مغالطہ دیا ہے۔کہ سنی شعیہ ک اپنے اپنے  راوی ہیں۔اور ہر ایک کے نذدیک اپنے اپنے ثقہ ہیں۔اور پھر متناقض بھی لہذا بے اعتبار اور اتنے ہی ہم مسلک کا اعتبار تو پارٹی بازی ہوئی انصاف نہ ہوا۔

نالہ بلبل شیدا تو سنا ہنس ہنس کر         اب جگر تھام ک بیٹھو مری باری آئی

کیوں جناب معترض صاحب! کوئی یوں کہے کہ آپ اور شعیہ دونوں اپنے اپنے خیال کےلوگوں کو ثقہ جانتے ہیں او ر دونوں کا قرآن مجید میں اختلاف ہے۔آپ قرآن مجیدکو کامل مکمل جانتے ہیں۔اور شعیہ اس میں کمی بیشی اور تحریف کے قائل ہیں۔پھر کس کا اعتبار کیا جائے۔دونوں متناقض کیا دونوں فریق غلطی پر ہیں۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔جو جواب آپ کا ہوگا۔ایسے ہی آپ قرآن کے ماننے والے  اور دیگر غیر مسلم اقوام اہل کتاب آریہ وغیرہ کو قیاس فرمائیے۔

اب او ر اس طرح سے سنیے! آپ لوگ  جو حدیث کو نہیں مانتے یا جزو دین قرار نہیں دیتے آپس میں معنی قرآن مجید میں سخت مختلف ہیں۔اور ہر ایک کی دلیل صرف قر آن مجید ہے۔نمازوں کی تعداد اور ازکارو ہیات نماز احکام طہارت نکاح طلاق حج کی تفصیل ذکواۃ کے احکام کی تفصیل نصاب اجناس مال ذکواۃ روزوں کی تعداد و کیفیت و  فیصلہ جات معاملات وغیرہ وغیرہ میں آ پ لوگوں میں اختلاف  ہوا اور سب ثقہ ہیں۔اور پھر ایک دوسرے کے مخالف اوراختلاف ہے  کس میں قرآن مجید میں کس کی صحیح کہیں کسی کو ٖغلط اور اگر آپ اپنے ہی ہم عقیدہ اور خیال کے لوگوں کی تفسیر و معانی کو صحیح بتایئں اور انہیں کی بات کا اعتبار کریں تو پھر یہ دین نہ ہوا یہ تو پارٹی بازی ہوئی  انصاف نہ ہوا۔اب آیا خیال شریف میں جواب اپنی طرف سے آپ  اس کا دیں گے اسی قسم سے ہمارا سمجھ لیجئے۔معترض کا ایک اور مغالطہ ملاظہ ہو کہ جامعین حدیث جن رواۃ کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں پھر انہیں کی روایات اپنے مجموعوں میں درج کر دیتے ہیں۔

ہر آں کار کے بے استاذ باشد  یقین میداں کہ بے بنیاد باشد

منکرین حدیث چونکہ باقاعدہ فن حدیث کو استاذ فن سے نہیں پرھتے غیروں کے تراجم و اعتراضات  کا مطالعہ کر کے شرر انگیزیاں کرتے ہیں اس لئے متکلم کے کلام کو بگاڑ بگاڑ کرلوگوں کو بہکاتے ہیں غلط معنی بیان کر کے بہتان تراشی کر کے محدثین کو بدنام کرنا ان کے بایئں ہاتھ کا کھیل ہے۔سنیئے قواعد جرح و تعدیل کے درجات ہیں ایسے ہی نقاد کے درجات ہیں پھر رواۃ کی رواٰۃ درج کرنے کے بھی درجات اورف اصطلاحات ہیں ہر مقام مٰں ہر راوی کی روایت کا ایک ہی درجہ نہیں بلکہ ہر ایک کی روایت کا اعتبار بھی لازم نہیں۔اس کے اغراض مختلف ہیں۔جن کے بیان کی گنجائش نہیں اول تو جس ناقد نے کسی کو ناقابل اعبتار ٹھرایا وہ اس کی  روایت کو نہیں لایا۔کوئی دوسرا لایا ہوگا۔او اگر کہیں وہ بھی لایا ہے تو اس کی روایت کی حجیت کے اعتبار سے نہیں لایا بلکہ دوسری ٖغرض شواہد و اعتبار و تردید وغیرہ کی غرض سےف لایا ہے نہ کہ حجیت کی غرض سے پس آپ کا  اعتراض باطل ہوگیا۔منکر کا ایک اور مغالطہ ملاحظہ ہو وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے کام بعض  بحیثیت رسالت تھے اوربعض بحیثیت ذات پھر کیسے معلوم ہو کہ حضور  ﷺ کے فلاں فلاں کام ذاتی ہیں۔اور فلاں غیر ذاتی پھ ان کو جزو دین قرار دے دینا کس قدر زیادتی ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ لوگ حدیث کو باقاعدہ استاذ حدیث سے  نہیں پڑھتے اس لئے ٹھوکر کھاتے ہیں۔اے جناب حدیث کے  جاننے والے سب جانتے ہیں کہ فلاں فلاں امر حضورﷺ کا بحیثیت ذات ہے اور فلاں فلاں بحیثیت رسالت اگرآپ نے کوئی مثال پیش کی ہوتی تو میں جواب دیتا اب  کیا دوں جاننے والے جانتے ہیں۔اگر آپ نہ جانیں تو قصور کس کا؟ایک اور مغالطہ معترض  کا ملا خط ہو۔دفع دخل کے طور پر حدیث اور تاریخ میں فرق بتاتا ہے۔کہ تاریخ کو میرا دل چاہے مانوں چاہے نہ مانوں مگر حدیث چونکہ جزو دین  ہے اس میں انکار سے ایمان زا ئل ہو جاتا ہے۔لہذا دونوں میں فرق ہے۔

میں کہتا ہوں اس کا جواب پہلے بھی ہو چکا ہے۔اب پھر اتنا کہتا ہوں کہ مثلاً شاہان وہی بابر بادشاہ ۔اکبر بادشاہ۔جہانگیر بادشاہ۔شاہ جہاں۔وغیرہ گزرے ہیں اور ان کی یادگار یں اور کارنامے بھی ہیں۔کیا معترض اخبار میں شائع کر سکتاہے۔کہ یہ سب جھوٹ ہیں کوئی بھی نہیں گزرا محض ناول اور افسانے ہیں۔معترض ہرگز یہ نہیں کرسکتا۔معلوم ہوا کہ بعض امور کے انکار کی گنجائش ہی نہیں آدمی انکار کر ہی نہیں سکتا ورنہ زمانہ اس کا  منہ توڑ دے گا۔ایسے ہی بعض امور کے اثبات کے درجات ہیں۔کہ بعد ثبوت قطعی انکار کی گنجائش نہیں۔

ایک او ر مغالطہ مکر معترض کا ملاحظہ ہو۔صحیح بخاری کی حدیثوں کو غیر معتبر بناے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کے بارہ میں حدیث پیش کی ہے کہ آپ ے تین جھوٹ بولے منکر باغض نے صحیح بخاری کی حدیث کی زکر کر کے تو اعتراض کیا مگر قرآن مجید کی آیتوں کا زکر نہیں کیا۔جہاں حضرت ابراہیم ؑ کے کفار کے بتو ں کو توڑے کی  بیان ہے کہ جب وہ لوگ اپنے  میلہ کو جانے لگے اور حضرت ابراہیمؑ کو بھی جانے کو کہا تو انہوں نے ستاروں میں نظر کر کے کہا کہ میں بیمار ہوں یا ابھی بیمار ہونےوالا ہوں تو وہ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے پیچھے ان کے بت توڑ ڈالے۔

فَنَظَرَ‌ نَظْرَ‌ةً فِي النُّجُومِ ﴿٨٨﴾ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ﴿٨٩﴾ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِ‌ينَ ﴿٩٠﴾ فَرَ‌اغَ إِلَىٰ آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ﴿٩١﴾ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ ﴿٩٢﴾ فَرَ‌اغَ عَلَيْهِمْ ضَرْ‌بًا بِالْيَمِينِ ﴿٩٣﴾ (پ23 رکوع 6 )

پھر جب انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ سے دریافت کیا کے ہمارے بت کس نے توڑے آپ نے فرمایا بڑے بت نے''

لیجئے دو جھوٹوں کو زکر قرآن مجید  میں ہی آگیا با وجود یہ کہ بیمار نہ تھے۔مگر تاروں میں نظر کر کے کفار پر بیماری ظاہر کی اگر فی الواقع بیمار ہوتے تو تاواں میں دیکھ کر کہنے کی کیا ضرورت تھی۔اور آپ نے بت توڑ کر بڑے بت کا نام لے لیا۔پھر جو توجیح یا تاویل وہ قرآن مجید کی کرے گا۔اسی قسم سے حدیث کی سمجھ لیجئے گا۔اور سنیے۔!

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَ‌أَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَ‌بِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ﴿٧٦﴾ فَلَمَّا رَ‌أَى الْقَمَرَ‌ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَ‌بِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَ‌بِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾ فَلَمَّا رَ‌أَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَ‌بِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ‌

ترجمہ۔پھر جب ابراہیم ؑ پر رات چھا  گئی تو ایک تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے۔پھر جب ہو غائب ہوگیا۔ تو کہا کہ میں غائب ہونے والوں کودوست نہیں رکھتا۔پھر جب چاند کو روشن دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے۔پھر جب وہ ٖغائب ہوگیا۔تو کہا کہ اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ کرے گا تو میں البتہ گمراہوں میں سے ہو جائوں گا۔پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے۔(پ7 ع 14)

دیکھئے! حضرت ابراہیم ؑ نے تارے۔سورج۔چاند۔ کو خدا کہا یہاں پر بتایئے۔تارے سورج چاند کو خدا کہنا سچ ہے یا جھوٹ معترض بری طرح پھنسا اگر اس کو جھوٹ کہتا ہے تو جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔اور اگر اس کو سچ کہتا ہے تو جھوٹ بھی ہے اور مشرک بھی بنتا ہے۔پھر یہ لطف کہ جھوٹ بھی حقیقی ہے۔یہ امر دیگر ہے کہ پیچھے انہوں نے اس کی تردید کی گفتگو تو اس میں ہے کہ ان کی زبان سے ایسا کلمہ نکلا جو سچ نہ تھا۔مگر تاہم ان   پر  اس کا کوئی مواخذہ نہیں۔لیجئے معترض حدیث کے ماننے والوں کو تین جھوٹوں  کا الزام دے  رہاہے۔خود اس پر پانچ ثابت ہوگئے۔الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔پھر جو تاویل یا توجیح پانچ کی کرے اسی قسم سے ہماری توجیہہ سمجھ لیجئے گا۔بلکہ حدیث میں جن جھوٹوں کا زکر ہے۔وہ حقیقی نہیں مجازی ہیں۔یعنی زومعنی کلا م ہے۔توریہ ہے اور قرآن مجید والے حقیقی ہیں۔اور ہم تو اس سے زاید بھی بتا دیتے ہیں۔کہ حدیث کی  توجیہہ یہ ہے کہ ان مقامات میں صرت کذب کی ہے کذب حقیقی نہیں۔ظاہ او متباد رمفہوم ان کا کذب ہے کہ فوری مخاطب جس کو سمجھتا ہے وہ کذب ہے او در حقیقت وہ کذ ب نہیں حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ ؑ کو بہن کہا  تو مخاطب نے حقیقی بہن سمجھا مگر ان کی غرض دینی بہن تھی۔انما المومنون اخوةبلکہ کتب سابقہ سے وہ ان کی چچیری بہن بھی معلوم ہوتی ہیں۔مگر ظاہری صورت کلام کی کذب کی ہے۔او رگو اس  پر مواخذہ نہ ہو ۔مگر تاہم بڑے لوگوں کو ایسے امور سے  شرم آتی ہے۔کہیے اس پر کیا اعتراض ہے۔جو کچھ بھی نہیں صرف معترض کی سمجھ کا پھیر ہے اقی سقیم اور بل فعلہ کبیر ہم چونکہ قرآن مجید میں ہیں اس لئے میں نے ان کی توجیہہ نہیں کی تاکہ معترض ہی خود بیان کرے۔

معترض نے ایک اور اعتراض کیا ہے۔کہ حضرت موسیٰ ؑ نے موت کے  فرشتے کو تھپڑ مار دیا کہ ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔میں کہتا ہوں ہاں ایسا ہی ہوا۔کہیے اس میں کیا اعتراض ہے۔اس پر کوئی عقلی استحالہ پیش کیا ہوتا یا قرآن مجید کی کوئی آیت لکھی ہوتی۔جو اس کے مخالف ہوتی مگر معترض سے کچھ بھی نہ ہوسکا کیا معترض نے قرآن مجید میں کچھ نہیں پڑھا۔کہ حضرت ابراہیم ؑ بچھڑے کا گوشت بھی ان کے کھانے کو لائے ان کے نہ کھانے سے خوف  ذدہ بھی ہوئے اور حضرت لوط ؑ بھی ان کو دیکھ کر قوم کی شرارت سے گھبرائے(سورہ ہود)حضرت مریم ؑ کے پاس فرشتہ آدمی کی شکل میں آیا تو  انہوں نے

قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّ‌حْمَـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿١٨

کہا (سورہ مریم)ایسے ہی حضرت موسیٰ ؑ کے پاس فرشتے آدمی کی شکل بن کے گھر میں آگیا وہ پہچانے نہیں۔جیسے حضرت ابراہیمؑ اورحضرت لوط علیہ السلام  پہلے پہل بہ پہچانے پھر اگر  بے خبری کی حالت میں اجنبی جان کر تھپڑ ماردیا تو کیا تعجب ہے۔بہر حال یہ ایک اعتراض نہیں بلکہ ایک وہم ہے۔معترض نے ص42 میں لکھا ہے۔کہ آج اگر کسی ایک حدیث کے متعلق بھی یقینی طور پرثابت کیا جاسکے کہ وہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے۔پھر جو اسے دین نہ مانے اسے دین سے کیا علاقہ کہ وہ معصیت  رسول ﷺ ہے۔جس کی سزا جہنم ہے۔ لیکن جب کسی ایک حدیث کے متعلق بھی یہ شکل نہ ہو تو فرمائیے۔ایسے ظنی مجموعہ کو دین کیسے ٹھرایا جائے۔بس اب مطلع صاف  ہوگیا کہ قرآن مجید کے علاوہ حدیث رسولﷺیعنی آپ ﷺ کا قول و فعل اور تقریر بعد ثبوت امر دین او ر واجب العمل ہے جو نہ مانے وہ بے دین ہے جہنمی ہے بالکل صحیح ہے کہ ہر شک آرد کافر گردو۔

اب  رہا معترض کا ثبوت حدیث سے انکار یعنی یہ کہ وہ نوشتے اب محفوظ نہیں تو جواب یہ ہے کہ پیشتر ثابت ہوچکا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے بذات خود بہت سی احادیث لکھوایئں۔اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے از خود بھی لکھیں اور یہ کہ وہ نوشتے بوقت رسول اللہﷺ موجود بھی تھے۔معترض خود بھی 30 میں اس امر کا اقرار کر چکا ہے۔اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ خلفاء راشدین وغیرہ سلف صالحین و علمائے اسلام کا برابر اس پر عمل در آمد رہا ہ زبانی روایت سے ضبط کتاب سے عمل سے تا ابن دم ثابت ہے۔پھر معترض کا انکار محض ہٹ دھرمی اور روز روشن میں سورج کا انکار ہے جسکو کوئی عقل مند باور نہیں کرسکتا۔ااس کے آگے چل کرمعترض نے دفع دخل کے طور پر بڑی ہوشیاری کی ہے۔کہ اسوہ حسنہ اور عمل متواتر کو تسلیم کیا ہے۔اور جزو دین مانا ہے۔

کفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے

اس کی غرض تو اس سے یہ ہے کہ قولی حدیثیں حجت نہیں مگر اس کو ماننا پڑے گا۔کہ بلا  قول رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ و عمل متواتر پر عمل مشکل ہے۔بلکہ ہو ہی نہیں سکتا۔اس لئے کہ مثلاً نماز ہی کو لیجئے۔کہ اس کی ظاہر ہیت تو دیکھنے سے معلوم ہو سکتی ہے ۔مگر اس کے ازکار اس میں کیا کیا پڑھا  جائے کس قدر پڑھا جائے اور اگر فلاں فلاں زکر ترک ہوجائے تو کیا کیا جائے کون کون  زکر واجب فرض ہے۔کون کون سنت مستحب وغیرہ ہے اس کے ارکان کیا کیا ہیں۔اگر نماز کو وقت سے بے وقت پڑھا جائے۔تو کیا قباحت ہے۔اور ترک کرنے میں کیا حرج ہے۔اگر نماز میں کسی کا گوز نکل گیا یا ریح خارج ہوگئی یا قطرہ پیشاب کا آگیا وغیرہ تو کیا کرنا چاہیے۔نماز میں باتیں کرنی اور دنیاوی کام جائز ہیں  یا منع ہیں۔ایسے ہی پاکی پلیدی طہارت اسنتجاء غسل وغیرہ۔کی تفصیل کہ کس کس چیزسے پانی یا کپڑا بدن وغیرہ ناپاک ہوتے ہیں۔کس کس سے کس طرح پاک ہوتے ہیں۔پاکی پلیدی کی حدود کیا ہیں۔ناقض طہارت کی کیا ہیں۔یہ سب امور بلا قول ناممکن الحصول ہیں۔ایسے ہی نصاب اور احکام ذکواۃ و حج و عقول ودیات و حلال و حرام وغیرہ وغیرہ یہ امور بلا  رسول اللہ ﷺ کے  بتلائے معلوم نہیں ہوسکتے۔اور یہ امور قرآن مجید میں مفصل و مصرح بھی نہیں لہذا ان کا علم بلا قول رسول ﷺ نا ممکن ہے پس ثابت ہوا کہ اسوہ حسنہ و عمل متواتر کا اکثر حصہ بھی رسول اللہﷺ کے قول پر موقوف ہیں۔اور یہ دونوں باقرار معترض دین ہیں۔پس قول رسول ﷺبھی دین ہے۔اگر وہ محفوظ نہیں تو دین بھی محفوظ نہیں۔پس ماننا پڑے گا کہ حدیث رسول ﷺ محفوظ ہے اور یہ کہ وہ دین ہے اور اس کا انکار بے دینی ہے۔س تحریر سے معترض کے ص24 کے تجزیہ کا نمبر 3 بھی باطل ہوگیا۔جس کا خلاصہ عدم حفاظت حدیث تھا اس لئے کہ اگر حدیث محفوظ نہ  ہوتی تو پھر دین بھی محفوظ نہیں رہ سکتا تھا اور نہ ہی قرآن مجید پر عمل ہوسکتاہے۔اس لئے کہ نمبر 2 کے اعتبار سے اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ محفوظ ہیں مگر تفسیر پرشخص اپنے اپنے مذہب کے موافق کرتا ہے پھر بلا تشریح رسول ﷺ قرآن مجید پر صحیح طور پر کیسے عمل کیا جا سکتاہے۔ہر گز نہیں۔ورنہ معترض کو  کیا حق ہے۔کے دوسرے پر اعتراض کرے اس لئے کہ وہ بھی اپنی سمجھ کے موافق قرآن مجید پر عمل کرتا ہے۔پھر یہ ترجیح بلا مر حج کیسی یہ تو پارٹی بازی ہوئی۔انصاف نہ ہوا۔

یہاں معترض نے پھر پچھلی باتیں دھرایئں ہیں کہ کتب حدیث دوڈھائی سو برس بعد وفات رسول اللہﷺ مدون ہوئیں۔اور یہ کہ وہ نقل بالمعنی ہیں اور یہ کہ پچھلوں نے سینکڑوں برس پہلوں پر تنقید کی ان سب کا جواب دندان شکن پہلے ہوچکا ہے۔ملاظہ ہو۔یہاں یہ ایک امر زائد ی بیان کیا ہے کہ ان کتب حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اور انبیاء کرام ؑ کی شان میں طعن پایاجاتا ہے پھر صحیح بخاری کا نام لیا ہے۔

جواب یہ ہے کہ معترض نے یہاں نہ کوئی عبارت نقل کی نہ کسی طعن کا تفصیل کی ۔صرف طعن کا لفظ لکھ دیا کیا ا چھا ہوتا کہ کوئی مثال دیتا یا عبارت یا ترجمہ نقل کرتا تو اس کی قلعی اتار دی جاتی ہے۔سو پہلے حضرت ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ کا زکر ہوچکاہے۔اگر وہی اس کی مراد ہے۔تو اس کا جواب دندان شکن ہو چکا ہے ملاحظہ ہو۔اور اگر کچھ اور ہے تو بیان کرے ان شاء اللہ جواب با لصواب دیا جائے گا۔پھر ان شاء اللہ اس کو لینے کے دینے پڑ جایئں گے۔جیسے پہلے اعتراض میں  پڑے ہیں۔صحح حدیث میں کوئی اعتراض کی بات نہیں۔منکرین کی اپنی سمجھ کا پھیر ہے۔

گرنہ بنید بروز شپرہ چشم      چشمہ ء آفتاب راچہ گناہ

یوں اعتراض تو لوگوں نے صدہا قرآن مجید پر بھی کئے ہیں  کہ جیسے ان کی سمجھ کا قصور ہے۔ایسے ہی انکار حدیث ان کی سمجھ کا قصور ہے۔ حدیث کے قاضی ہونے کا مطلب  یہ ہے کہ حدیث رسول ﷺ قرآن کی تشریح و تفسیر ہے ددوسرں کی تفسیر پر تفسیر رسول مقدم ہے وہ مطلب نہیں جو معترض سمجھتا ہے۔معترض نے ص46 میں لکھا ہے۔کہ جیسے امام بخاری ؒ نے چھ لاکھ حدیث میں سے تین ہزار انتخاب کر کے مسترد کردیں اسی طرح ان کے مجموعے سے بھی ایسی حدیثیں الگ کی جاسکتی ہیں۔جو دین کے معیار پر صحیح نہ اتر سکیں۔الخ

میں کہتا ہوں اس سے ثابت ہوا کہ جو معیار دین پرصحیح اتریں و ہ قابل قبول ہیں۔اس سے اس کا انکار کلی (یعنی یہ کہنا کہ تمام کتب احادیث کا مجموعہ محض ظنی ہے۔جو قابل  قبول نہیں لہذا باطل ہوگیا۔اب ہم دیکھتے ہیں تو اللہ کے فضل سے  صحیح بخاری وغیرہ دیگر کتب کی ہزار ہا احادیث معیار دین  پر صحیح اترتی ہیں۔لہذا وہ قابل قبول و واجب العمل ہیں۔اور ان کا انکار شریعت اسلام کا انکار ہے۔معترض 43 میں اختلاف  دورکرنے کا   حل صرف ایک ہی بتایا ہے۔وہ یہ کہ بعد قیام  حکومت اسلامیہ کے مرکز ملت مجلس شوری کی مشاورت سے قرآن کریم کی بنیادوں پر تاریخ کی روشنی میں کسی فیصلہ پر پہونچیں تو وہ فیصلہ امت میں نافذ العمل ہوجائے۔

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

معترض نے اپنے سارے ساختہ پر داختہ کو خاک میں ملا دیا اور بری طرح شکنجہ میں آ پھنسا کیوں جناب؟مجلس شوریٰ کا تاریخ کی روشنی میں فیصلہ دین ہوگا یا بے دینی اگر بے دینی ہے تو آپ کو مبارک ہو اور اگر دین ہوگا تو کیا وہ تاریخ مثل قرآن قطعی ہے۔اور مشورہ اور غٖور و فکر لوگوں کا قطعی ہے یا غیر قطعی کیا کوئی اس کو قطعی کہہ سکتاہے۔ہر گز نہیں پھر دین ظنی ہوا یا قطعی اور کیا اب وہ محفوظ ہے۔اور ضبط ہے۔اور کیا وہ مثل قرآن اب تک محفوظ چلاآتا ہے۔یا کچھ بھی نہیں اب آپ کی وہ تعلی وہ ڈینگ کہاں گئی کہ حدیث ظنی ہے۔لہذا جزو دین نہیں ہوسکتی۔دین یقینی ہونا چاہیے پھربتایئے آپ تو حدیث کو قاضی کہنے سے گھبرا رہے تھے اب آپ نے مجلس شوریٰ کو قاضی بنایا اور قرآن مجید کو قاضی نہ سمجھا قرآن مجید کو مجلس شوریٰ کا محتاج بنا دیا   کیا یہ شخصیت پرستی نہیں ہے ضرور ہے۔

وہ الزام ہم کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

معترض نے ضمناً بہت سی باتیں قابل مواخذہ لکھی ہیں میں نے بسبب طوالت ان کونظر انداز کر دیاہے ورنہ ورنہ میں اس کے ایک ایک فقرے کو  باتوفیق اللہ توڑ پھوڑ باطل کر دیتا۔آخر میں معترض نے یہ بھی لکھا ہے کہ لوگ مجھ کو چکڑالوی  اہل قرآن یا منکر حدیث اور نہ معلوم کیا کیا کہیں گے۔مگر وہ یہ بتایئں کہ اس میں (یعنی میرے بیان میں)کہیں غلط بیانی سے کام تو نہیں لیا گیا۔میں کہتا ہوں بتایئے۔پھر آپ کو کیا کہیں۔کیا قائل حدیث یا منکر چکڑالوی اہل قرآن تو منکر حدیث ہیں بتایئے۔آپ کس گروہ میں ہیں۔آپ اپنا مذہب بھی نہیں بتاتے حدیث کے انکار سے بھی شرم ہے اور قائل بھی نہیں ہیں تو بیچ میں واسطہ کونسا ہے۔اور ہاں میں کہتا ہوں کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بالکل غلط بیانی سےکام لیاہے۔بیان سابقہ ملاحظہ ہو۔اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت کرے۔

سُبْحَانَ رَ‌بِّكَ رَ‌بِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٨٠﴾ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٨١﴾ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٨٢

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

جلد 11 ص 15-62

محدث فتویٰ

تبصرے