سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) عام مسلمان جو اجتہاد کے (بنیادی) علوم خمسہ تک نہ جانتا ہوں..الخ

  • 3567
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1869

سوال

(89) عام مسلمان جو اجتہاد کے (بنیادی) علوم خمسہ تک نہ جانتا ہوں..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عام مسلمان جو اجتہاد کے (بنیادی) علوم خمسہ تک نہ جانتا ہوں۔بلکہ ان سے بالکل ناواقف ہو۔اگر وہ متون حدیث پڑھ کر ظاہر ی معنی پرعمل کرے۔سند کے رجال کا اس کو پتہ نہ ہوناسخ و منسوخ کو نہ جانتا ہو عام وخاص مطلق و مقید سے بے خبر ہو۔صرف قال اللہ و قال الرسول کہہ سکے۔ایسے شخص کے بارے میں فرمایئے۔آیا اس کا یہ انداز صحت ایمان کے لئے کافی ہے۔یا کسی مجتہد عالم کی تقلید ضروری ہے۔جس کی نظر علم حدیث پر وسیع ہو وہ مجتہد حدیث کا معنی او مدلول جانتا ہوناسخ و منسوخ مطلق ومقید عام وخاص کافرق پہچانتا ہو۔اجتہاد کے بنیادی علوم کا ماہر ہواور  دلائل شرعیہ میں اسباب ترجیح پر نظر  رکھتا  ہو۔آیا صحت ایمان کے لئے ایسے عالم کی تقلید ضروری ہے یا نہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص صحیح حدیث نبوی  پر عمل کرے جو حدیث سنیوں کی کتب صحاح ستہ وغیرہ میں ہو اور ان کتب میں ہو۔جو محض احکام حدیث  پر مشتمل ہیں۔جیسےمنقی الاخبار ہے یا اس کی شرح نیل الاوطار ہے یا جیسے بلوغ المرام لک ادلۃ احکام ہے اور اس کی شرح مسگ   الختام

  و سبل السلام وغیرہ ہے یا وہ حدیث مسند احمد او اس قسم کی کتب احادیث میں تو اس قسم  کی حدیث پر عمل کرنا درست اورصحیح ہے۔کیونکہ آئمہ محققین نے ان کتب میں صحیح حدیث کا حق مکمل ادا کردیاہے۔ہاں مگر وہ حدیثیں جن پرآئمہ نے کلا م کی  اور ان کو ضعیف اور موضو ع بتایا ان پر عمل نہیں کرنا چا ہیے۔اگر مجبوراً اہل علم کی رائے پر عمل کی نوبت آئے تو پھر ضعیف پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔موضوع پرعمل نہیں کیا جائے  گا۔(یعنی رائے کے مقابلے میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا۔)

یہی نظر امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ کا ہے۔تمام آئمہ حدیث کا ان کے اقوال اور فتاویٰ جات ان کی تصانیف میں موجود ہیں۔جن کا یہاں نقل کرنا محض کلام کو طویل کرنا ہوگا۔جیسےاسمائے رجال اور صحاح ستہ وغیرہ بر بحث محض تحصیل حاصل ہے۔اب تو یہ کام(احوال رجال)محدثین نے آسان کردیا ہے۔رجال کے بارے میں مستقل کتابیں لکھیں۔جن میں ان کے مکمل حالات بیان اور سنت پر عمل کرنے والوں کے لئےروایت کا سمجھنا آسان کردیا ہے۔کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف اس فن کی کتاب تہذیب التہذیب اور اس کا خلاصہ تقویب اب بازار سے دستیاب ہیں۔اگرصرف ان کتب کا مطالعہ کیا جائے تو رجا ل کے بارے مفید باتیں با آسانی مل جاتی ہیں۔ ویسے تو صاحب بلوغ المرام کا فیصلہ بھی کافی ہے۔وہ خود  فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔حسن یا ضعیف کیونکہ مولف بلوغ المرام وہ جید عالم ہیں۔

کہ عادل عارف باحوال رجال امام فن اور بہت بڑے محقق ہیں تو ان کا یہ فیصلہ اتباع میں داخل ہے۔تقلید میں شمار نہ ہوگا۔کتاب و سنت اور شریعت حقہ میں نسخ کا باب بہت  ہی کم ہے علماء کی ایک جما عت نے ان کی شمار مکمل طور پر دکردیاہے۔(شاہ ولی اللہ دہلوی نے)فوز الکبیر فی احوال تفسیر میں پانچ آیات کو منسوخ بتایا ہے۔امام ابن جوزی نے دس احادیث کو منسوخ شمار کیا ہے۔ان علماء کی تحقیق نہیں۔ان کے علاوہ کوئی آیت یا  حدیث منسوخ نہیں۔اس قدر قلیل مقدار کو ہر خاص و عام نوک زبان رکھ سکتا ہے۔ اس طرح وہ آیات اور حدیث منسوخہ غیر منسوخہ کو پہچان سکتا ہے۔میں نے اپنی کتاب ازادۃ الشیوخ بمقدار النا سخ والمنسوخ میں ان آیات و احادیث کا زکر کر دیا ہے۔اصل اصول تو عدم نسخ ہی ہے۔لہذا عمل کرتے وقت نص کے بارہ ناسخ منسوخ کی بحث غیر ضروری ہے۔بلکہ اس سے قطع نظر نص پرعمل واجب ہے۔کیونکہ احکام شرع میں اصل ہے۔عدم نسخ ایسے ہی اصل عدم تخصیص ہے اگرچہ  تخصیص بکثرت پائی جاتی ہے۔حتیٰ کہ علماء کا قول ہے کہ ہر عام سے تخصیص ہوتی ہے۔صرف

والله بكل شئ عليم  اور والله علي كل شئ قدير

جیسے عام سے  تخصیص نہیں۔اس قول کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ عام پرعمل کیا جائے۔اور تخصیص کی بحث دیکھے بغیر عمل کیاجائے۔یہی مسلک صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین کاتھا۔بلکہ انبیاءؑ کا بھی یہی مسلک تھا۔(غور فرمایئے)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ

اے نوح ہم تجھ کواورتیرے اہل کونجات دیں گے۔جب طوفان میں پسر نوح غرق ہوا تو نوح علیہ السلام نے عرض کی

إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي

(میرابیٹا میرے اہل سے ہے۔)لفظ اہل کو عموم پر مجہول کیا کیونکہ اہل مضاعف ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! وہ تیرے اہل سے خارج ہے۔اور حضرت نوح ؑ کے حمل برعموم پر کسی طرح کا عتاب نہیں۔بلکہ یہی فرمایا کہ تیرے اہل میں وہی شامل ہوگا۔جو ایماندار ہوگا۔عام و خاص کی طرح مطلق ومفید کا حال ہے اس اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں۔اگرچہ مفہوم آپس میں مختلف ہیں۔پس عمل مطلق پ جائز قرار دیا جائے گا۔جب  تک مفید  نہ آئے۔مندرجہ بالا بحث سے پتہ چلا کہ جو شخص مذکورہ کتب حدیث سے حدیث نبوی یاد  کرتا اور اس پرعمل کرتا ہے۔اس کا یہ عمل صحیح ہے۔اس میں کوئی خطا ء نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے  صحیح راستہ کھول دیا اورراہ مستقیم  پر اس کو چلایا ہے۔اور اس کو اتباع  ر سول کی توفیق دی ہے۔بلا شبہ کہیے کہ شخص عمل کے اعتبار سے قوی دلیل اور راہ کے لہاظ سے صحیح راہ اختیار کیے ہوتا ہے۔بخلاف اس شخص کے جو علماء کی بات سنتا ہے۔اس پرعمل کرتا ہے۔اور اس کی سند اس عالم اور قائل سے اس کو معلوم نہیں۔اور اگر کسی ایک مسئلہ میں اس کو سند معلوم بھی ہے۔اورہزار سے لاکھ کی دلیل بتا بھی دے۔تو باوثوق ذرائع کو وہ نہیں جانتا۔اور نہ ہی یہ جانتا ہے کہ آیا اس قول کا قائل مجتہد ہے کہ اس کی تقلید کیجائے یا مجتہدین کے اس کی تقلید نہ  کی جائے۔اور نہ ہی اجتہاداورعدالت کو  وہ سمجھتا ہے۔جو تقلید کے لئے بطور شرط موجود ہیں۔غلبہ و عامل بالحدیث کہ علماء حدیث نے تو اپنی تمام زندگی اول تاآخر متون حدیث اسناد حدیث طرق حدیث کی پہچان میں صرف کر دی او سنت کےمتعلقہ باتوں کے جاننے میں گزار دی۔اور باسند حدیث  کوبے سند سے جدا کر کے دیکھایئں۔اس مقصد کے حصول کے لئے انھوں نےاپنی پوری زندگی اور زو کثیر صرف کردیں۔لمبے لمبے سفر بڑی مصیبتیں برداشت کیں۔اور ہرصحیح متن کو باسند رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا۔اب یہ عامی مسلمان اس حدیث کو اپنے علماء سے سن کر عمل کرتا ہے۔اور ان پراعتماد کرتا ہے اور کہتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا کلام جو جید با عمل علماء اور متبعین ناصحین او رمحدثین مبلغین نے ہم تک پہنچایا ہے تو میں اس پر عمل کرتاہوں۔جیسا کہ دیگر عوام کسی کے قول پرعمل کرتے ہیں۔جب کہ علماء نے میری معمول حدیث کی سندصحیح آنحضرت  ﷺ تک پہنچائی ہے۔برعکس ان مسائل کے کہ جو شتر بے مہار کی طرح ہیں۔اس بناء پر عقلاً کی عقل پر تعجب آتا ہے۔کہ ایک طرف  قرآن مجید ہے۔جو قیامت تک باقی رہے گا۔اور اس پر مذید آحادیث رسول ﷺ ہیں۔جو اب ہر مسئلے پرمیسر ہیں۔اور آخر  الزمان تک رہیں گی۔جن میں کسی طرح تحریف کا شبہ نہیں۔ اب یہ عقلمند کتاب وسنت کو تو عمل میں مرجوع سمجھیں۔اور اقوال رجال اور آراء رجال کی محض تقلید اباء کے پیش نظر راحج قرار دیں۔تو حیف اس تحصل پر  حالانکہ محدثین کے گروہ عادل گروہ ہیں۔اس کی شہادت آپ ﷺ سے ملتی ہے۔جو ہر طبقہ محدثین کو شامل ہیں۔اوریہ فضیلت صرف اس طبقہ کی شان وشوکت کے لئے ہے۔کسی اور کو اس میں گنجائش نہیں۔(آپ انصاف کریں) کے افضل کے ہوتے ہوئے مفعول کی اتباع کیامعنی اس موضوع پر مفصل بحث طویل کلام کی متقاضی ہے۔اور ایسی تالیف کی متقاضی ہے۔جو پیاس بجھادے۔ہم نے اپنے رسالہ الجنۃ میں اس موضوع پرسیر حاصل بحث کی ہے۔اگرسائل طالب رشد ہو تو یہ کتاب اس کے لئے کافی ہے۔اوراگر اس نے عامل بالحدیث اور عامل با اقوال خیرا الوار ہر محض طعنہ زنی کرتی ہو۔توہیچ۔(قرآن مجید کے ارشاد ک مطابق یہی کہیں گے۔)رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 192

محدث فتویٰ

تبصرے