سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے۔..الخ

  • 3556
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1207

سوال

(78) کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے۔..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے۔

﴿ان الحسنات يذهبن السيئات﴾

اس کے معنی قرآن میں یہ لکھے ہیں کہ نیکیاں لے جاتی ہیں۔برایئوں کو۔اگر کوئی اس کے معنی یوں کہے کہ برایئاں لے جاتی ہیں۔نیکیوں کو پس وہ شخص کسی فریق اور کس مذہب کا ہے۔اور کس دلیل سے معنی کی مخالفت کرتا ہے۔اس کا جواب بیان کریں۔اللہ تعالیٰ اجر دے گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بالاتفاق مفسرین اس آیت کے یہی معنی ہیں۔کہ نیکیاں لے جاتی ہیں۔برایئوں کو اور شان نزول سے اور عربیت کے قاعدے سے بھی اس آیت کا یہی معنی متعین ہے ۔اس آیت کے معنی جو شخص یہ کہے کہ برایئاں لے جاتی ہیں۔نیکیوں کو وہ بالکل جائل او۔نالائق ہے کیونکہ جو شخص زرا بھی عربیت سے واقف ہوگا۔او وہ ہرگز اس آیت کے معنی یہ نہیں کہے گا۔اور اس کو صاف غلط سمجھے گا۔ جو شخص اس آیت کے یہ معنی کہتا ہے۔کہ برایئاں لے جاتی ہیں۔نیکیوں کواگر یہی اس کا  عقیدہ ہے۔کہ برائیوں سے  نیکیاں جاتی رہتی ہیں۔تو ایسا عقیدہ ایک شاخ مذہب خوارج کی ہے۔ کیونکہ ان کا یہ مذہب ہے۔کہ معاصی سے مسلمان کافر ہوجاتا ہے۔چنانچہ فتح الباری میں ہے۔

الخوارج1 يكفرون بالمعاصي انتهي والله تعالي اعلم

(سید محمد نزیر حسین)

1۔خوارج گناہوں کے مرتکب کی تکفیر کرتے ہیں۔

ہوالموفق

جواب صحیح ہے۔بے شک آیت مذکورہ کے یہی معنی ہیں۔کہ نیکیاں لے جاتی ہیں برایئوں کو۔یعنی نیکیاں برایئوں کی کفارہ ہوجاتی ہیں۔اور نیکیوں کی وجہ سے گناہ مٹائے جاتے ہیں۔مگر ہاں یہ یادرکھنا چاہیے۔کہ نیکیاں اسی حالت میں گناہوں کا کفارہ ہوں گی۔ جب کہ کبیر ہ گناہوں سے اجتناب کیا جاوے گا۔اور اگر کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کیا جائےگا۔تو نیکیاں برایئوں کی کفارہ نہیں ہوں گی۔

مرجیہ نے اللہ تعالیٰ کے قول ۔

قرآن کے ظاہر الفاظ سے تمسک کرتے ہوئے کہا ہے۔کہ نیکیاں ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ خواہ گناہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ اور جمہور نے اس مطلق آیت کو صحیح حدیث سے مقید کیاہے۔کہ نماز ددسری نماز تک کے گناہوں کا کفارہ ہے۔جب تک کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرے۔ پھرایک گروہ کہتا ہے۔ کہ اگر کبائر سے پرہیز کیا جائے تو نماز صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔اور اگر اجتناب نہ کرے۔تو پھر صغیرہ کا کفارہ بھی نہیں بنتیں۔اور دوسرا گروہ کہتا ہے۔کہ صغیرہ بحر حال معاف ہو جاتے ہیں۔کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 160-163

محدث فتویٰ

تبصرے