السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چچا اپنی غریب عیال دار اور بیوہ بھتیجی کو ہمیشہ زکوٰۃ دیتا تھا، مگر اب وہ ایک شخص صاحب نصاب کے نکاح میں آ گئی ہے، چچا نے بدستور سابق اب پھر بھتیجی کو زکوٰۃ کا روپیہ بھیج دیا، کیا اس حالت میں جبکہ اس کا خاوند صاحب زکوٰۃ ہے، اس کو زکوٰۃ کا روپیہ لینا جائز ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ روپیہ چچا کو واپس کر دے یا اپنے ہی بچوں میں تقسیم کر دے، یا اس خاوند کا سوتیلا بیٹا جو طالب علم ہے، اس کو دے دے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ زکوٰۃ میں ایک اصول یاد رکھئے کہ جس کا نان نفقہ کسی شخص کے ذمہ ہو، وہ اس ذمہ دار کے حکم میں ہے، مثلاًماں باپ غنی ہوں تو اولاد بھی غنی کہلاتی ہے، کیوں کہ والدین کی پرورش میں ہے، والدین اس کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات کے ذمہ دار ہیں، اسی طرح بیوی کے نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا ذمہ دار خاوند ہے، پس خاوند کے غنی ہونے کے ساتھ بیوی بھی غنی کہلائے گئی، اس لیے جیسے والدین اپنی اولاد کو جوان کی پرورش میں ہے زکوٰۃ نہیں دے سکتے، خاوند بھی اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، اور خاوند کا نان نفقہ چونکہ بیوی کے ذمہ نہیں ، اس لیے اگر بیوی غنی ہو تو غریب خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تیرا خاوند اور یتیم بچے جو تیرے پاس ہیں، تیرے صدقہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ (مشکوٰۃ باب فضل الصدقه) پس جب غنی خاوند کی بیوی غنی کے حکم میں ہوئی، تو چچا کا اپنی بھتیجی کو زکوٰۃ کا روپیہ دینا جس کا سوال میں ذکر ہے، جائز نہ ہوا، جو نکاح کے بعد زکوٰۃ دی جاتی ہے، وہ فوراً واپس لے لے، ہاں اگر اس بھتیجی کی اولاد کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات کا ذمہ بھتیجی کے خاوند نے نہیں لیا، اور وہ اپنا گذارہ اپنے سر پر کرتے ہیں، تو ان پر زکوٰۃ تقسیم ہو سکتی ہے، اسی طرح خاوند کا سوتیلا لڑکا اگر اس کا کوئی کفیل نہیں، اور وہ غریب ہے، تو اس پر بھی زکوٰۃ خرچ ہو سکتی ہے۔ (عبد اللہ امر تسری) (ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث لاہور ۵ فروری ۲۶۰ جلد ۱۲ شمارہ نمبر۲۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب