السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
﴿اُوْلُوْا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلیٰ بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہ﴾ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رشتہ دار دوسروں سے زیادہ سلوک کرنے کے لائق ہیں، تو کیا رشتہ دار عام ہیں، نمازی بے نمازی مشرک وغیرہ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اُوْلُوْا الاَرْحَامِ کے ساتھ سلوک کرنا ناطہ کی فرع ہے، ایمان اور کفر کو اس میں دخل نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ریشمی چغہ دیا تو حضرت عمر نے وہ چغہ اپنے مشرک بھائی کو مرحمت کر دیا۔ (اہل حدیث ۲۷ مارچ ۱۹۲۱ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۷۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب