السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
متعدد مواضع کے لوگوں نے اپنے اصلاحی امور کے بندوبست کے لیے ایک متدین عالم کو پسند کر کے امیر (پیر) مان کر اس کے ہاتھ پر بطور خاطر بیعت کی، وہ پیر حتی الامکان اپنے مریدوں کی زکوٰۃ فطر وغیرہ کے مال سے کچھ حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے لے سکتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
… زکوٰۃ آٹھ آدمیوں پر تقسیم کرنے کا حکم ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِیْن وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا الایة﴾
یعنی زکوٰۃ فقیروں، مسکینوں اور ان لوگوں کے لیے ہے جو اس پر عامل ہوں، وغیرہ، پیر صاحب ، اگر حاجت مند ہیں، تو ((عَامِلِیْنَ)) کے زمرہ میں داخل ہو کر کچھ حصہ اہل وعیال کے لیے لے سکتے ہیں۔ اللہ اعلم۔ (اہل حدیث ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۳ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۷۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب