سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) نجد کے لئے دعا نہ کرنا

  • 3471
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3412

سوال

(03) نجد کے لئے دعا نہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نجد کے لئے دعا نہ کرنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آجکل اس بات کا بہت چرچا ہے۔کہ آپ ﷺ نے نجد کے لئے دعا نہیں فرمائی تھی۔اس سے ثابت ہوا کہ نجد کا ملک اور نجدی بہت خراب ہیں۔بعض احباب کی رائے ہے کہ اس رسالہ میں اس کی تشریح بھی کر دی جائے۔

اخبا اہل حدیث میں اس سوال کے جواب میں کئی دفع مضمون نکلے ہیں۔سب سے آخری مضمون مولانا محمد شرف الدین صاحب معلم حدیث دہلی کا ہے۔ہمارے خیال میں ہمارے خیال میں وہی کافی ہے۔لہذا اسی کو نقل کر دینے پر کفایت کی جاتی ہے۔اور وہ یہ ہے۔

آجکل ہندوستان میں عموماً سلطان بن عبد العزیز ابن سعود  کا چرچا ہے۔با خبر اہل اسلام تو ان سے بہت خوش ہیں۔اور جو حاجی اس سال آئے ہیں۔وہ بھی ان کی اتباع سنت کے با عث ان کے بہت مداح ہیں۔مگر محبان قبہ جات بہت نالاں ہیں۔کہ قبے توڑ دیئے۔ طرح طرح کے الزام ان پر لگائے  جا رہے ہیں۔کہ الامان الامان بعض لوگ ایک حدیث سےلوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔یا دھوکا کھا رہے ہیں کہ یہ لوگ نجدی ہیں۔اور حدیث میں آیا ہے۔کہ نجد میں شیطانی گروہ ہوگا۔لہذا یہ وہی لوگ ہیں۔

جواب ۔اس کا یہ ہے کہ صحیح بخاری جلد دوم مطبوعہ ہاشمی قدیم ص1050 باب قول النبیﷺ الفتنة من قبل المشرق  میں ہے کہ!رسول اللہ ﷺ نے منبر کے  پاس کھڑے ہو کر مشرق کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا! فتنہ یہیں سے ظاہر ہوگا۔جہاں سے شیطانی گروہ ظاہر ہوگا۔

یہ بھی دوسری حدیث میں اسی باب میں ہے۔کہ آپ ﷺ نے شام اور یمن کےلئے برکت کی دعا فرمائی۔تو لوگوں نے کہا کہ ہمارے نجد کے لئے بھی دعا کیجئے ۔آپ نے پھر شام اور یمن کے لئے برکت کی  دعا فرمائی۔تو لوگوں نے پھر عرض کی کہ ہمارے نجد کے لئے بھی دعا فرمائیے۔تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا! کہ وہاں تو زلزے اور فتنے ہوں گے۔اور قرن الشیطان یعنی شیطانی گروہ ظاہر ہوگا۔

سو اس کا مطلب بالکل صاف ہے۔کہ آپﷺ نے مدینہ منورہ میں منبر کے پاس مشرق کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا!کہ فتنہ وہاں سے ظاہر ہوگا۔اور مدینہ والوں کا نجد مشرق بادیہ عرا ق ہے۔ اور نجد بلندزمین کو کہتے ہیں۔ان فتنوں سے مراد واقعہ جمل اور صفین اور ظہور خوارج ہے۔جو نجد عراق اور اس کے اطراف میں ہوا۔اور ایسے ہی خروج دجال اور یاجوج ماجوج بھی وہیں سے ہوگا۔یہ مطلب مولانا احمد علی صاحب مرحوم حنفی سہارنپوری نےحاشیہ صحیح بخاری کے صفحہ جلد 2 ص1051  پر لکھا ہے۔1اور ایسےہی فتح الباری و دیگر شروح وغیرہ میں ہے۔

1۔حاشیہ صحیح بخاری کی عبارت مع ترجمہ یہ ہے۔

والنجد خو ما ارتفح منالارض والغور ما انخفض منها ومن كان بالمدينة الطيبة

نجد اوونچی زمین کو اور غور پست زمین کو کہتے ہیں۔جو مدینہ طیبہ میں رہتا ہو اُس کا نجد۔

نیز صحیح مسلم جلد دوم صفحہ394 میں ہے۔

کہ سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ۔اے عراق والو!تم چھوٹے چھوٹے گناہوں سے کیسے سوال کرتے ہو۔اور بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہو۔پھر اپنے باپ عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مذکورہ بالا حدیث روایت کی کہ ر سول اللہﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا!فتنہ او ر شیطانی گروہ وہاں سے ظاہر ہوگا۔اورتم ایک دوسرے کی گردنیں مارتے ہو۔اب تو واضح ہو گیا کہ جس نجد کو آپ نے کہا کہ وہاں شیطانی گروہ ہوگا۔وہاں فتنے ہوں وہ نجد عراق  ہے بس۔

نیز کنز العمال فی سنن الاقوال والا فعال مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد نمبر 6 میں مذکورہ بالا حدیث یوں وارد ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ اور مدینہ کے صاع او ر مد کے بارے میں  برکت کی دعا کی او ر پھر شام او ر یمن کے لئے دعا برکت  کی تو ایک شخص نے عرض کیا۔حضور ﷺ ہمارے عرا ق کیلئے بھی دعا فرمایئے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہاں تو شیطانی گروہ اور فتنوں کا ظہور ہوگا۔اور  ظلم مشرق میں ہے۔

حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا أزهر بن سعد،‏‏‏‏ عن ابن عون،‏‏‏‏ عن نافع،‏‏‏‏ عن ابن عمر،‏‏‏‏ قال ذكر النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم بارك لنا في شأمنا،‏‏‏‏ اللهم بارك لنا في يمننا ‏"‏‏.‏ قالوا وفي نجدنا‏.‏ قال ‏"‏ اللهم بارك لنا في شأمنا،‏‏‏‏ اللهم بارك لنا في يمننا ‏"‏‏.‏ قالوا يا رسول الله وفي نجدنا فأظنه قال في الثالثة ‏"‏ هناك الزلازل والفتن،‏‏‏‏ وبها يطلع قرن الشيطان ‏"‏‏ (باب الفتن صحیح بخاری حدیث نمبر7094)

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ نیز

عراق1 کا علاقہ ہے۔اور وہ علاقہ ساکنان مدینہ کا  مشرق ہے اور زلزلوں سے مراد شائد پریشانیاں اور مصیبتیں ہیں۔جو وہاں لوگوں پر آئیں۔اصلی زلزلے بھی مراد ہو سکتے ہیں۔بعض علماء نے کہا ہے کہ اس زمانے میں اہل مشرق کا فر تھے۔

1۔جس علاقے میں بغداد ہے۔

تو آپﷺ نے خبر دی کہ فتنہ اُن کی طرف سے ہوگا۔

جیسا کہ جنگ جمل اور جنگ صفین اور خارجیوں کا ظہور ارض نجد اور عراق اور اُس کے ارد گرد ہوا یہ اطراف مدینہ سے مشرق میں ہیں۔اسی طرح دجال یاجوج ماجوج اُسی نجد عراق سے نکلیں گے۔ (مولف ۔حاشیہ جلد نمبر 2 ص1751)

اور مسند ابن عساکر کی حدیث میں یوں وارد ہے۔کہ کسی نے عرض کیا کہ عراق میں ہمارا غلہ اور حاجت ہے۔اس کے لئے بھی دعا فرمایئے۔آپﷺ نے سکوت کر کے فرمایا کہ وہاں تو شیطانی گروہ اور زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ (کنز العمال جلد 7 صفحہ 164)

نیز حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرا ق جانے کا  قصد فرمایا تو کعب احبار نے کہا کہ آپ وہاں مت جایئں۔اس میں تو نو حصے شر ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کنز العمال جلد7 ص164)

نیز ابن عساکر کی حدیث میں یوں وار دہے۔کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عراق کے سفر کے قصد  پر کعب احبار نے کہا کہ اے امیرالمومنین! اللہ آپ کو عراق سے محفوظ رکھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ  اس میں کیا خرابی ہے۔؟کعب نے کہا  کہ اس میں نو حصے شر ہے۔اور کل سخت عیب اسی میں ہیں۔اور نافرمان جن اور ہاروت اور ماروت اور شیطان نے وہاں انڈے بچے دے رکھے ہیں۔انتہی  (کنز العمال جلد 7 صفحہ 645)

بس اب تو مطلع بالکل صاف ہو گیا۔کہ جائے فتن اور گروہ شیاطین نجد عراق ہے۔

حیات ثنائی

حضرت مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری ؒ اپنے زمانہ کے مجدد الدین بین الاقوامی عالم گزرے ہیں۔بریلوی مکتب فکر کے قائد مولانا احمد رضا خان لاہور شاہی مسجد میں تشریف لائے تو مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی انکی ملاقات کےلئے لاہور تشریف لائے تو دوران گفتگو مولانا احمد رضا خان نے فرمایا۔کہ مولانا آپ صرف جماعت اہل حدیث ہی کے قائد نہیں ہیں۔بلکہ آپ تو عام مسلمانوں کے بین الاقوامی قاعد ہیں۔ (سعیدی)

استفتاء

نحمد ه ونصلي علي رسوله الكريم

سوال۔

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حرف'' ض'' ضاد کا صحیح مخرج اور صفات ذاتیہ کیا ہیں۔؟اگر حرف ضاد کو اپنے صحیح مخرج سے صفات ذاتیہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کی آواز سننے میں حرف ظاء کی آواز کے ساتھ مشابہ ہوگی۔یا حرف دال کی آواز کے ساتھ مشابہ ہوگی۔؟

ہمارے یہاں کے علمائے کرام اس مسئلہ میں دو فریق ہیں۔ایک فریق۔مشابہ بصوت ظاء پڑھتے ہیں۔اور دوسرا فریق مشابہ بصوت دال پڑھتے ہیں۔پس ان دونوں فریق میں سے کن کا تلفظ صحیح اور حق ہے۔اور حضرات آئمہ قراۃ و آئمہ فقہ و محدثین و مفسرین کے قول و تعامل اس مسئلہ میں کیا ہے۔نیز علمائے مکہ و مدینہ سے واقع ہوئے۔

المستفتین

محمد عبد الغنی عفی عنہ  ۔محمد قطب الدین عفی عنہ۔محمد عب الروف عفی عنہ۔محمد عبد الخالق ۔محمد ایوب علی۔محمد عبد الغفور۔محمد عبد الغار۔محمد سکندر علی۔محمد ظہیر علی۔محمد عب النور۔محمد الطاف الرحمٰن۔

الجواب

نحمد ه ونصلي علي رسوله الكريم

آئمہ قراء کا مسلک

النشر في القراء ات العشر الرعاية جهد المقل

جو کہ اس فن قراءت کی نہایت اونچے درجے کی کتب ہیں۔ان سب نے متفقہ طور پر ہی''ض'' کو ظا کے مشابہ لکھا ہے۔جب کہ دال یا کسی اور حرف سے مشابہت بھی غلط ہے۔

نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں چونکہ صحابہ میں کثرت خالص عرب کی  تھی۔اس لئے وہ حرف ضاد کو پوری طرح ادا کرنے میں ماہر تھے بعد کے اوقات میں جوں جوں۔۔۔اختلاط عجم بڑھتا چلا گیا ۔توں توں عربی کا تلفظ اعتدال سے خراب ہوتا چلا گیا۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں مصری قراء کا تلفظ قابل اعتماد نہیں۔

البتہ محققین قراء مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے فتاویٰ جولائی و اگست کی اشاعتوں میں چھپ گئے ہیں۔زیر عنوان علم کی تجوید و قراءت جولائی کی اشاعت صفحہ 23 سے مسئلہ ضاد کی بحث ہے۔  (فقط عبد الرشید عبید الرحمٰن فاروقی)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حرف''ض'' کے متعلق کے اُسے''و'' کی طرح ظاہر کیا جائے یا ''ظ'' کی طرح اس کے متعلق جمعیت  اہل حدیث کراچی کے مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ کے استاز قاری عبد الرشید عبید الرحمٰن صاحب فاروقی نے اوپرکافی واضح جواب لکھدیا ہے۔اس کے علاوہ اس کی مدلل تفصیل جمعیت اہل حدیث کے رسالہ ''الارشاد  جدید''جولائی 64 میں دیکھیں۔علاوہ ازیں دارالعلوم دیو بند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا اسحاق ؒ اینٹھوی نے اسی حرف''ض'' کو ظاہر کرنے کے متعلق ایک کتاب''الاقتصاد فی الضاد''میں بہت وضاحت سے لکھا ہے۔کہ اگر''ض''کو اصلی مخرج سے کوئی نہ نکال سکتا ہو۔تو ''ظ''کے مشابہ آواز میں نکالے''و'' کے مشابہ نکالنا  غلط ہے۔اسی طرح اس کتاب میں شاہ رفیع الدین صاحب مرحوم کا فیصلہ بھی نقل کیا وہ بھی''ظ'' کے مشابہ آواز کہتے ہیں۔مثلاً

﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣﴾ سورة القيامة

ان آیات میں ناظرہ اور ناظرہ کی آواز ایک جیسی ''ظ''ہو تو کوئی حرج نہیں۔قاری صاحب نے بھی اپنے جواب میں کئی کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔اتنی کافی تفصیل کے بعد انصاف پسند شخص جھگڑا یا اختلاف نہیں کرے گا۔ بلکہ خاموشی یا اپنی اصلاح کر ے گا۔نیز اسی حرف کی دو آواز کیوں؟مخرج اور آواز ایک ہی ہوتی ہے۔عام گفتگو میں وضو۔رمضان کا مہینہ بولتے وقت''ظ'' کے مشابہ آواز ہوتی ہے۔جب

﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ سور البقرة

آیت پڑھی جائے۔تو''د''کے مشابہ آواز۔یہ فر ق کیوں؟کو دلیل چاہیے۔

(عبد الوکیل خطیب کراچی الارشاد جدید کراچی نمبمر 12 ش 21 وعد 22)

مطبوعہ فتاویٰ علماء حدیث کی فہرست

1۔کتاب الطہارت

2۔کتاب الصلواۃ

3۔کتاب الصلواۃ

4۔کتاب الصلواۃ

5۔کتاب الجنائز

6۔کتاب الصیام

7۔کتاب الذکواۃ

8۔کتاب الحج

9۔کتاب الایمان

10۔کتاب الایمان

11۔کتاب الاعتصام بالسنہ و اجتناب عن البرعۃ

12۔کتاب العلم

13 ۔کتاب الضحیہ والعقیقہ

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 24-28

محدث فتویٰ

تبصرے