سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) قبروں پر قبوں کے متعلق فیصلہ کن صورت

  • 3470
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3057

سوال

(02) قبروں پر قبوں کے متعلق فیصلہ کن صورت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں پر قبوں کے متعلق فیصلہ کن صورت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبروں پر قبوں کے متعلق فیصلہ کن صورت

علماء حنفیہ کے نزدیک بالاتفاق ایک مسلمہ اصول ہے کہ مسئلہ وہی صحیح ہے ۔جو امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا ہو۔دلیل اُس کی معلوم نہ ہو تو بھی واجب العمل ہے۔دلیل معلوم ہو تو نور علی نور اصول فقہ کی مستند اور  مسلم کتاب توضیح میں حنفی مقلد کا طریق کا استدلال یوں  لکھا ہے۔

اما المقلد فالدليل عنده قول المجتهد فالمقلد يقول هذا الحكم ثابت عندي لانه ادي اليه راي ابي حنيفة وكل ما ادي اليه راي ابي حنيفة فهو واقع عندي  (توضیح مطبوعہ ہند ص22 مطبوعہ مصر ص21)

یعنی حنفی مقلد کی  طرز استدلال یوں ہے کہ وہ کہے کہ فلاں مسئلہ میرے نزدیک اس لئے صحیح ہے کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہے جو امام نے فرمایا بس وہی میرے نزدیک صحیح ہے۔

اس اصول کے سامنے رکھ کربراردران حنیفہ  امام ابو حنفیہ کافتویٰ اس بارے میں سنیں!صاحب ردالمختار لکھتے ہیں۔

عن ابي حنيفة نكره ان ببنيعليه (اي القبر) بناء من بيت اوقبة او نحو ذلك لما روي جابر نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن تحبصيص القبور وال بكتب عليها وان يبني عليه سلم (شامی مطبوعہ مصر جلداول ص 267 باب الصلواۃ الجنائز)

یعنی امام ابو حنیفہ مکروہ جانتے تھے قبر پر کسی کا مکان یا قبہ بنانا۔کیونکہ جابر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے  روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے قبروں کو چونہ سے پختہ بنانے اور ان پر کچھ لکھنے اور عمارت بنانے سے۔

اسی روایت کی بناء پرامام شافعی ؒ کا قول ہے۔

رايت الائمة بمكة يا مرون بهدم ما يبني  (نووی شرح مسلم جلد اول ص312)

یعنی اامام شافعیؒ کہتے ہیں۔ میں نے مکہ شریف میں دیکھا ہے۔ کہ قبروں  پر جو کچھ بنایاجاتا  تھا۔آئمہ یعنی حکام اُس ک گرانے کا حکم دیتے تھے۔

حدیث میں جو لفظ آیا ہے جو قبر  بلند ہو اسے گرا دو یہ اس فعل کی تایئدکرتا ہے۔مقلدین خصوصاً حنفیہ کرام میں امام ابو حنیفہ کے قول کی تردید کی نہ سکت ہے۔نہ اس کی تایئد کی حاجت کیونکہ وہ ان  کے نزدیک حجت شرعیہ ہے۔جس سے انحراف کرنے والو ں اور تردید کرنے والوں کے حق میں ایک شعر پڑھا جاتا ہے۔جو عموماًپختہ مقلدین ٖغیر مقلدین  کو سنا کر پڑھا کرتے ہیں۔آج ہم ان کو سناتے ہیں ۔اور وہ یہ ہے۔

فلعنة  ربنا   اعداد   رمل

علي من رد  قول ابي حنيفة

یعنی جو امام ابو حنیفہ کا قول رد کرے اس پر  ریت کے ذروں جتنی لعنتیں ہوں۔

پھر یہ کیسے ممکن ہے۔کہ ایک حنفی مقلد قبروں کے مسئلہ میں امام صاحب کا فتویٰ ہوتے ہوئے۔کسی ایرے غیرے کی طرف تاکے یا انتظار کرے مثل مشہور ہے۔

الصباح يغني عن المصباح

صبح کی روشنی میں چراغ کا کیا کام

حنفی اصول کے مطابق تو یہی خیال ہوسکتاہے۔کہ امام ابو حنیفہ کے فتوے کا کوئی حنفی رد نہیں کر سکتا لیکن امرت سر میں ایک حنفی عالم ایسے بھی ہیں ۔جنہوں نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔اس عالم نے ایک رسالہ شائع کیا ہے جس کا نام ہے۔ازالۃ الرین والمین۔اس میں سوال و جواب کی صورت میں مضمون لکھا ہے۔جن میں سے  یک سوال مع جواب درج زیل ہے۔

سوال۔

امام ابو حنفیہ نے فرمایا ہے۔کہ قبر پرچونہ نہ لگایا جائے اور مٹی سے  لیپائی بھی نہ کی جائے۔اوراس  پر کوئی بنیاد بھی کھڑی  نہ کی جائے۔

اس سوال کا جواب فاضل مصنف نے جو دیا ہے وہ قابل توجہ اہل انصاف ہے۔ فرماتے ہیں۔

جواب۔

آپ (امام صاحب) کا کہنا بالکل حدیث کے مطابق ہے۔اور اصل حکم یہی ہے۔اور آپ چونکہ نہایت متقی اور پرہیز گار تھے۔اس لئے آپ کی روایات اصلی ا حکام پرمشتمل ہیں۔کہ جن کو اسلام میں عظیمت کہتے ہیں۔ مگر دوسری سم کے مسائل بھی ہیں کہ جن میں ضرورت زمانہ اور تبدیل حالات کے مد نظر رکھ کر حکم دیا جاتا ہے اس قسم کے احکام رخصت کہلاتے ہیں دیکھئے۔وضو میں پائوں د ھونا فرض ہے اور عزیمت موزہ پہننا اوراُس پردھونے کی بجائے مسح کرنا رخصت ہے ۔مسلم کو غیر مسلم سلطنت کے ماتحت رہنا رخصت ہے اور وہاں سے ہجرت کرنا عظیمت ہے۔امامت یا تعلیم دینیات کی ملازمت پرتنخواہ حاصل کرنا رخصت ہے۔اور بغیر تنخواہ یہ کام کرنا عظیمت ہے۔غرض یہ کہ قبر کو بالکل سادگی میں رکھنا عظیمت ہے۔اور اس پر گنبد وغیرہ بنانا رخصت ہے۔خود ابو حنیفہ کا مقبرہ بغداد میں موجود ہے۔اور دوسری صدی ہجری میں آپ کے مقبرہ پر گنبد بنوایا گیا۔اس وقت  آپ کے سینکڑوں شاگر موجو دہیں تھے ۔کسی نے آواز نہیں اُٹھائی کہ آپ اس کو ناجائز کہتے تھے۔کیوں بنایا جاتا ہے اصل بات یہ تھی کہ آپ کی قبر پر لوگ کثرت سے زیارت کےلئے حاضر ہوتے تھے۔اس لئے لوگوں کے آرام کےلئےاور قبر کی حفاظت کےلئے یہ سب کچھ سلف صالحین1 کے فتوے کے مطابق روا رکھا گیا تھا۔  (اذالۃ الرین والمین ص37۔38)

جواب الجواب۔

قابل مصنف نے اس جواب میں ایک اصولی مسئلے کی طرف اشارہ کیا  ہے جو علم و اصول میں مذکور ہے۔آپ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ  امام ابو حنفیہ صاحب سے جو روایت پختہ قبر اور قبے بنانے کی آئی ہے۔وہ بجائے خود صحیح ہے مگر عظیمت ہے۔اور  قبہ بنانا رخصت ہے۔

اس لئے عزیمت اور رخصت کی اصطلاح اورحکم ہم کتب اصول فقہ سے دکھا کر فاضل مصنف کی غلطی پر اطلاع دیتے ہیں۔

علماء اصول نے احکام کی دو قسمیں کی ہیں۔ایک عزیمت دوسری  رخصت عزیمت جس کا دوسرا نام ضروری ہے۔ وہ حکم ہے جس جس

1۔کون سلف صالحین صحابہ یا تابعین؟

کا سبب موجود ہو اور حکم بحال ہو۔جیسے اقرار توحید اور ماہ صیام میں روزے کا رکھنا وغٖیرہ اس کے خلاف رخصت ہے۔یعنی وہ حکم جس کا سبب موجود ہو۔اور بوجہ کسی عارضے کے وجوب ملتوی ہو جیسے مجبوری کی حالت میں کلمہ کفر زبان پر جای کر کے بچ جانا اوسفر میں روزہ نہ رکھنا ان دونوں قسموں کی بابت علماء اصول کا فیصلہ ہے۔

حكمه ان الا خذ بالعذيمة اولي  (نور الانوار ص170)

یعنی جس جگہ کسی عزیمت کے مقابلہ میں رخصت آئی ہو۔اُس جگہ بھی عزیمت (جانب وجوب) پر عمل کرنا بہتر ہے۔یہ تو ہے علماء اصول کا فیصلہ عزیمت اوررخصت کی بابت جس کا نتیجہ صاف یہ ہے کہ قبہ بنانا اگر رخصت بھی ہو تاہم نہ بنانا بہتر ہے۔پھر خفگی کیا۔

اصل جواب۔

مگر اصل بات یہ ہے کہ جس طرح عظیمت کا ثبوت  شرع سے ہوتا ہے۔رخصت کا ثبوت بھی شرع سے ہے۔یعنی شریعت ہی بتائے کہ کہ یہ ضروری کام فلاں وقت میں تمہارے حق میں ملتوی ہے۔ورنہ اس طرح تو ضروری ہے۔ضروری حکم پر بھی یہ حجت ہو سکتی ہے کہ اس کےلئے رخصت بھی ہے۔مثلا نماز ۔ذکواۃ ۔وغیرہ افعال ضروریہ کی بابت بھی رخصت کی پچ نکالی جا سکتی ہے۔جو الحاد کا دروازہ کھولتی ہے۔

چونکہ رخصت کے مدعی کے ذمہ رخصت کا ثبوت دینا ضروری ہے۔مصنف موصوف نے بھی اس فرض کو خود محسوس کیا ہے۔اس لئے اس فرض سے سبکدوش ہونے کی راہ آپ نے وہ اختیار کی جو حقیقتاً اس فرض کی ادائیگی کی راہ نہیں ہے۔کیونکہ آپ کا فرض تھا کہ شرع شریف میں قبر پختہ اور قبہ بنانے کی رخصت دکھاتے کسی آیت یا حدیث سے نہیں۔تو امام ابو حنیفہ کے قول سے ہی دکھاتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ہاں جو دیکھایا وہ ناظرین نے دیکھا کہ خود امام ابو حنیفہ کا مقبرہ جو بنا ہے تو ثابت ہوا کہ اس کی رخصت ہے۔انہی معنی میں کسی مشہور ریاضی دان کا قول کہ چاول سفید ہیں۔لہذازمین گول ہے۔

اے جناب!

کیا امام ابو حنفیہ سے سالہا سال بعد کا فعل ادلہ شرعیہ میں کوئی دلیل ہے۔یہ کہنا کہ امام صاحب کے شاگر د موجود تھے۔انہوں نے منع نہیں کیا۔ خود ثبوت طلب ہے بتایا جائے کہ کون کون شاگر تھا۔اور اُس نے خوشی سے خاموشی کی۔

ایک سوال۔

ایسے رخصتی اصحاب سے  ہم ایک سوال کرتے ہیں۔کیا آپ لوگ جو مقلد ہیں۔آپ صرف امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں۔یا اس تقلید میں کسی اور کی بھی شرکت ہے۔حالانکہ مقلد کا یہ اصول ہے۔

شرکت غم بھی نہیں  چاہتی غیرت میری

غیر  کی  ہو رہے   یا شب   فرقت  میری

ناظرین!

مصنف کا جواب تو آپ لوگوں نے سن لیا اب سنئے علماء  مخول اور مقبول حنفیہ کرام کیا فرماتے ہیں۔

فتاویٰ علماء حنفیہ کرام بابت حرمت قبہ جات

سید الطائفہ حضرت مولانا رشیداحمد صاحب گنگوہی سے سوال ہواجو مع جواب درج زیل ہے۔

منقول از فتاویٰ رشیدیہ جلد اول صفحہ نمبر 94معہ تصدق علماء ۔دیوبند۔سہارن پور۔میرٹھ دہلی وغیرہ

سوال۔

قبور کا پختہ بنانا اوراُن پرعمارات و قبہ و روشنی و فرش و فروش وغیرہ جو کچھ کہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔قابل بیان  نہیں۔حالانکہ امور مذکورہ کے منع شدید میں احادیث صحیحہ وارد ہیں۔اور فا علیین پر رسول اللہﷺ نے اللہ کی لعنت فرمائی ہے۔مگر پھر لوگ تکذیب احادیث کر کے اپنے فعل کی حجت پر قبور انبیاء ؑ بالخصوص رسول اللہﷺ و اولیاء کرام صحابہ و آئمہ مجتہدین کو پیش کرتے ہیں۔اور متبع احادیث وسنت کو منکر انبیاء و اولیاء کہتے ہیں۔اور درپے ایزا رسانی ہوتےہیں۔اور کہتے ہی کہ حرمین اور عرب میں جاکر خلاف شرع ان کو نہیں کہتے کیا قرآن و حدیث وہاں پر نہیں ہے۔ لہذا عرض ہے کہ عرب وحرمین میں اگر علماء امور مذکورہ کا  نع ہونا بیان نہ کریں تو یہ کیا حجت کا جواز ہوسکتا ہے۔

جواب۔

ہر گاہ کہ احادیث میں  ممانعت ان امور کی وارد  ہیں ۔پھر کسی کے فعل سے وہ جائز نہیں ہوسکتے۔اوراعتبار قرآن و حدیث و قول مجتہدین کا ہے۔نہ افعال خلاف شرع کا اگر عرب میں اورحرمین میں امور غیر مشروعہ خلاف کتاب و سنت رائج ہو گئے۔توجواز اُن کا نہیں ہوسکتا۔ اور جو وہاں ان بدعات کو کوئی منع نہ کر سکے تو یہ حجت جواز کی نہیں ہوسکتی۔اس پر سکوت کی کوئی وجہ نہیں کتاب و سنت سےرد کرنا چاہیے۔ (فقط بندہ رشید احمد گنگوہی)

تصدیق بر فتویٰ ہذا از علماء دبو بند اور  سہارنپور مدرسہ مظاہر علوم الجواب صحیح

عزیز الرحمٰن مفتی دارالعلوم دیو بند۔

عتیق الرحمٰن عثمانی معین الافتاء بدارالعلوم دیو بند۔سراج احمد مدرس دارالعلوم دیوبند۔مسعود احمد دارالعلوم دیوبند اعزاز علی مدرس دارالعلوم دیبوبند ۔۔۔۔الجواب صحیح۔عبد اللطیف مدرس مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور ۔عنایت الٰہی متمم مدرسہ  مظاہر علوم۔الجواب صحیح ۔خلیل احمد۔(مدرس اعلیٰ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور)الجواب صحیح ۔ضیاء احمد مدرسہ مظاہر علوم الجواب صحیح بندہ عبد الرحمٰن مدرس مدرسہ مظاہر علوم۔الجواب صحیح منظور احمد عفاعنہ۔

تصدیق علماء حنفیہ شہر میرٹھ

الجواب صواب و ضدہ خطاء کفایت اللہ گنگوہی مدرسہ اسلامیہ عرب میرٹھ۔

الجواب ٍصحيح و خلافه غلط فا حش لا يصفي اليه لانه خلاف كتاب الله وسنت رسوله وانكاز رائجا شا ئعا الكثرة الجهل

ابو نصر حبیب اللہ مدرس مدرسہ دارالعلوم جامع مسجد شہر میرٹھ ۔حشمت علی  مدرس مدرسہ دارالعلوم جامع مسجد شہر میرٹھ

هذا هوالحق والحق احق ان يتبع

محمد مبارک حسین مدرس اول مدرسہ دارالعلوم شہر میرٹھ جامع مسجد الجواب صحیح السید احمد مدرس مدرسہ دارالعلوم جامع مسجد میرٹھ اظہر الدین مدرس دارالعلوم میرٹھ جامع مسجد

از مولانا اشرف علی تھانوی

تصیح مسئلہ ہذا

عن جابر نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم ان يحبصص القبر وان يبني عليه وان يكتب عليه عن ابي حنيفة يكره ان يبني عليه بناء من بيت او قبة او تحو ذلك لما روي جابر

ان روایات حدیثہ و فقیہ اور خود صاحب مذہب سے ا س بناء کی کراہت و مخالفت ثابت ہوتی ہے۔محمد اشرف علی تھانوی بھون ضلع مظفر نگر۔

(از فتاوی امدادیہ جلددوم ص156۔(حافظ عبد الرحمٰن مدرس مدرسہ عربیہ امروہہ)

علماء حنفیہ دہلی کی تصدیق۔

قبریں پختہ بنانا اور قبروں پر قبے بنانا سب منکرات شرعیہ میں داخل ہیں۔محمد کفایت اللہ ۔مدرس مدرسہ امینیہ دہلی۔وحید حیدر حسین ایضا۔ابو عامر عبد الحکیم صدیقی دہلی دفتر جمعیۃ العلماء نور الحسن مدرس مدرسہ حسین (دہلی)صحیح الجواب محمد اسحا ق۔ولایت احمد مدرس مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی۔

(ماخوز از اخبار الجمیۃ دہلی مورخہ 2 ستمبر 25عیسوی ص6)

مختصر بات!

یہ ہے کہ قبروں کا پختہ بنانا اور اُن پر قبے تعمیر کرنا خلاف قرآن و حدیث اور خلاف مذہب حنفی اور مخالف فتاوائے علماء کرام ہے۔اور یہ ظاہر ہے کہ جو کام ناجائز ہے۔اس کا جاری رکھنا بھی نا جائز ہے۔جیسے نماز بے وضو پڑھنا۔ناجائز ہے۔اسی طرح شروع کر کے اسے جاری رکھنا بھی ناجائز ہے۔

نتیجہ صاف ہے۔

کہ قبروں پر اگر قبے بنائے گئے ہیں۔تو بااختیار شخص ان کو گرادے تو حرج نہیں۔کیونکہ حدیث شریف میں ہے۔

من راي منكم منكرا فليغيره بيده وان لم يستطع فبلسا نه وان كم يستطع فبقلبه وليس وراء ذلك من الايمان

یعنی جو کوئی ناجائز کام دیکھے اگر اُس کو اختیار اور طا قت ہے۔تو اسے ہاتھ سے بدلے (یہ درجہ زی اختیار اشخاص کا ہے جن کے ایسا نہ کرنے پر فتنہ فساد نہ ہو)اور اگر ہاتھ کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے۔( یہ درجہ عالم علماء واعظین کا ہے۔)اور اگر کسی کے جبر و ظلم کے دبائو میں زبان سے بھی نہیں  روک سکتا۔تو دل ہی دل  میں اس کو برا جانے(یہ سب آخری درجہ ہے۔)اس کے بعد ایمان کی حیثیت سے کئی درجے ہیں۔

افواج نجدیہ نے:

جو مکہ مکرمہ  میں قبروں اور مزارات پر سے قبے گرائے تو اسی حدیث کے ماتحت گرائے ہوں گے۔

اُن کو کہا گیا کہ تمہارے ایسا کرنے پر ہندوستان مسلمان خفا ہوں گے۔تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کام  میں خدا کی رضا منظور ہے۔ سچ ہے۔

ہو گیا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہو جائے گا۔

جب کہ وہ با مہر ہم پر مہرباں ہو جائے گا۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 17-24

محدث فتویٰ

تبصرے