سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) وقف جگہوں پر مال زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے یا نہیں۔

  • 3461
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1148

سوال

(128) وقف جگہوں پر مال زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے یا نہیں۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وقف جگہوں پر مال زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مزکی را صرف نمودن مال زکوٰۃ در بناء مساجد و تعمیر سرائے و درستی چاہات و انہار و طرق و تکفین میت ودادا، دیون میت جائز نیست زیر آنکہ در زکوٰۃ تملیک ضروری ست و صور مذکورہ از قبیل اوقات اندو حکم زکوٰۃ علاحدہ است از حکم اوقاف و تعریف زکوٰۃ اہل علم بایں نمودہ۔ ہی تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ہاشمی ولا مولاہ مع قطع المقعۃ عن الملک من کل وجہ للّٰہ تعالیٰ در مصارف مزکورۃ تملیک یافتہ نمے شود پس صرف نمودن آن دریں مواضح نزدیک اہل علم ناجائز ست در شرح مختصر مقنیع کہ ا ز کتب معتبرہ حنابلہ ست نوشتہ۔
’’زکوٰۃ دینے والے کو زکوٰۃ کا مال مسجد بنانے اور سرائوں کی تعمیر اور کنوؤں اور نہروں اور رستوں کی درستی اور میت کو تجہیز و تکفین اور میت کے قرض ادا کرنے میں (خرچ کرنا) جائز نہیں ہے، اس واسطے کہ زکوٰۃ میں (دوسرے کو) مالک بنانا ضروری ہے، اور مصارف مذکورہ وقف کی قسم سے ہیں، اور زکوٰۃ کا حکم وقف کے حکم سے علیحدہ ہے، زکوٰۃ کی تعریف اہل علم نے اس طور پر کی ہے، کہ وہ اپنے مال کی جزء جو شارع نے مقرر کیا، غیر کی ملک میں کرنا ہے، نہ ہاشمی ہو، اور نہ ان کا آزاد کردہ ہو، اور جس کو مالک بنایا ہو، اس سے بالکل قطع منفعت ہو، اور ہر وجہ سے اللہ ہی کے لیے ہو، پس مال زکوٰۃ کو ان جگہوں میں صرف کرنا اہل علم کے نزدیک ناجائز ہے۔‘‘
اور شرح مختصر مقنع میں جو حنبلیوں کی معتبر کتابوں میں سے ہے، لکھا ہے کہ:
لا یجوز صرفہا الیٰ غیر ہم من بناء المساجد والقناطیر وسید الثبوق وتکفین الموتی ووقف المصاحف وغیرہا من جہات الخیر و در کتب حنفیه مانند شرح وقایه وبدایه تنویر الابصار ودر مختار وغیرہ کتب فقیه بصراحت تمام صرف زکوٰة را دریں مواضع منع نوشته لا الی بناء مسجد وکفن میت وقضاء دینه ودر عمدہ حاشیه شرح وقایة نوشته لا یجوز صرف الزکوٰة الی ما لیس فيه تملیک لا جد کبناء المساجد وبناء الرباطات والقناطیر وکری الانہار ونحو ذلک وکذا الیٰ تکفین میت وتجہیزہ وتدفینه لعدم التملیک فان المیت لا یملک وکذا الی قضا دین المیت صاحب رحمة الامة ففی اختلاف الایمة این مسئله را از مسائل متفقه بین الایمة نوشته واتفقوا علی منع الاخراج لنباء المساجد او تکفین میتٍ انتہیٰ واللّٰہ اعلم
’’زکوٰۃ کا مال سوائے ان کے اور جگہ صرف کرنا جائز نہیں، جیسے بنانے مسجدوں اور پلوں میں اور مردوں کے تجہیز و تکفین میں اور مصفحوں کے وقف کرنے میں اور مثل ان کی امور خیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ تعمیرات مساجد اور کفن میت اور میت کے قرض ادا کرنے میں بھی منع لکھا ہے، اور عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ مال زکوٰۃ کو اس میں کہ جس میں کسی کی ملک بنانا نہیں ہے، صرف کرنا، منع ہے، جیسے بنانا مسجدوں کا اور سرائوں کا اور پلوں کا اور کھودنا نہروں کا اور مانند اس کی (جو ہو) اور ایسا ہی میت کی تجہیز و تکفین و تدفین میں بھی خرچ کرنا منع ہے، کیونکہ ان صورتوں میں ملک بنانا نہیں ہے، اور میت ان کا مالک نہیں ہوتا، اور ایسے ہی میت کے قرض ادا کرنے میں صرف کرنا منع ہے۔‘‘
رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمہ والے نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان میں اختلاف نہیں۔
تمام آئمہ اس پر متفق ہیں کہ تعمیر مساجد اور تجہیز و تکفین میں زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا منع ہے، واللہ اعلم۔
(حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفا اللہ عنہما) (فتاویٰ غزنویہ ص ۱۱۲ جلد نمبر ۱)
توضیح:… اس فتویٰ کی بنیاد صرف اقوال الرجال پر ہے، نصوص قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ فقہائے کرام نے آیت ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء﴾ میں لام تملیک کے لیے مراد لیا ہے، وہ بے سند اور بے دلیل ہے، کیونکہ لام بائیس معنی کے لیے آتا ہے، جیسا کہ کتب نحوی میں با امثلہ مذکور ہے، لام استحقاق کے لیے بھی آتا ہے، اختصاص اور بیان کے لیے بھی آتا ہے، لہٰذا یہ لام مشترک المعنی ہوا جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے، اور لفظ مشترک المعنی کو بلا دلیل معین کرنا جائز نہیں، اور لام تملیک کے لیے مراد اس حدیث کے بھی خلاف ہے۔
((انا خالد فانکم تظلمون خالداً قد احتبس ادراعه واعتدہ فی سبیل اللّٰہ))
’’خالد سے زکوٰۃ کا مطالبہ کر کے تم نے ظلم کیا اس نے تو تمام مال اوزار لڑائی کی صورت میں فی سبیل اللہ وقف کر رکھا ہے۔‘‘
لہٰذا آیت ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ﴾ میں لام بیان کے لیے ہے نہ تملیک کے لیے جیسا کہ مولانا احمد اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی فتح الباری شرح صحیح بخاری سے نقل کیا ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
((وفیه مصیر منه الی ان اللام فی قوله للفقراء بیان المصرف لا للتملیک فتح الباری)) (ص۱۴۳)
اس آیت میں آٹھ مصارف کا ذکر ہے، جن میں فی سبیل اللہ بھی ہے، جو عام ہے، اشیاء موقوفہ اور غیر موقوفہ سب کو شامل ہے، هذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب وعندہٗ علم الکتاب  (علی محمد سعیدی خانیوال)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 256۔258

محدث فتویٰ

تبصرے