سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) مشینی ذبیحہ- ایڈیٹر الاعتصام کے پریس نوٹ کا مکمل متن

  • 3454
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1409

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشینی ذبیحہ

ایڈیٹر الاعتصام کے پریس نوٹ کا مکمل متن


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کے ترجمان ہفت  روزہ ''الاعتصام'' کے ایڈیٹر نے ایک بیان میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن اور ڈایئرکٹر ادارہ تحقیقات اسلامی کے اس فتویٰ کی تردید کی کہ مشین کے زریعے ذبیحہ حلال ہے۔آپ نے کہا کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے۔ کہ حلت و حرمت کا معیار اسلام میں وہی ہے۔جیسے قرآن و سنت نے مقرر کیا ہے۔دوسری کوئی بات معیار نہیں بن سکتی ۔دین اسلام محمد ﷺ پر مکمل ہوگیا ہے۔اس میں اب کسی قسم کے تبدل و تغیر کی گنجائش نہیں۔اور نہ کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس میں اب کسی قسم کی تبدیلی کرے۔آپ نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے۔کہ ایک ایسے ادارے کا سربراہ جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ایسے فتوے شائع کر رہا ہے۔جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔اور دین  میں ایسی چیزیں داخل کرنا چاہتا ہے۔جو دین کے بالکل منافی ہیں۔

آپ نے کہا کہ قرآن و کریم میں رب العزت کا واضح ارشاد ہے۔''تم اس جانور کا گوشت مت کھائو جسے اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا۔اور ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں کہ اس کا کھانا جائز ہے۔قرآن ایک چیز کو جائز کہے۔اور ڈاکٹر صاحب اس چیز کو اسلام کا نام لے کر جائز بتلا دیں یہ روش قابل مذمت ہے۔

ایڈیٹر ''الاعتصام'' نے فرمایا۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ اپنی مطلب براری کیلئے یہ لوگ حدیث پاک کا نام لینے سے بھی نہیں چوکتے حالانکہ عمومی حالات میں حدیث کے انکار میں یہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں۔ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کا مسلک اس بارے میں بالکل واضح ہے۔ لیکن اب انہوں نے اپنے فتوے کی تایئد میں ایک حدیث کا سہارا لیا ہے۔حالانکہ حدیث کا  جو معنی انہوں نے لیا ہے وہ بھی بالکل  غلط ہے۔اپنے بیان میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک حدیث پیش کی ہے۔لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ بعض اوقات انھیں ایسا گوشت دیا جاتا ہے کہ جس کے متعلق یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہے کہ نہیں۔تو آپﷺ نے فرمایا ! تم اللہ کا نام لے لو اور کھا لو۔آ پ نےفرمایا کہ اس حدیث سے یہ تاثر دینا  کہ اس میں عدم تسمیہ کی دلیل ہے نا درست ہے۔کیونکہ اس حدیث میں ہے۔کہ وہ ذبیحہ مسلمانوں کا ہوتا تھا۔اور ظاہر ہے کہ مسلمان ذبح کرتے وقت بسم اللہ ۔اللہ اکبر۔ضرور پڑھتا ہے۔اس کا ذبیحہ اس پرمحمول ہوگا شک کی ضرورت نہیں۔اس لئے آپﷺ نے فرمایا! کہ تم بسم اللہ پڑھ کر کھا لیا کرو۔تحقیق کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ذبیحہ مسلمان کا ہے۔اور آج بھی یہی حال ہے کہ مسلمان بازار سے گوشت خریدتے وقت اس بات کی کرید نہیں کرتے کہ اس پر''بسم اللہ''پڑھی گئی ہے کہ نہیں۔

مشینی ذبیحہ

کراچی (ج ۔ک) ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے ایک تازہ ترین بیان کا  جواب دیتے ہوئے مولانا مفتی محمد شفیع نے آج یہاں واضح طور پرکہا کہ ذبیحہ کے بارے میں میرے اورمفتی محمود کے فتوے میں کوئی اختلاف نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن اختلاف کا زکر کر کے یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ذبیحہ کے بارے میں علماء میں کچھ اختلاف ہے۔جبکہ ہمارے فتوے ان کے سامنے ہیں۔اور وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ ہماری ایک فنی بحث ہے۔جو اسلامی مسائل میں علماء کی  بے لاگ تحقیق و تنفید کی مشاہد ہے۔مشینی طریقہ ذبح کے ناجائز ہونے اور بغیر بسم اللہ کے ذبح حرام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔مفتی محمد شفیع نے اپنے بیان میں کہا کہ ملک کے علماء میں موجود زمانہ کی ضروریات و مشکلات کا پورا احساس ہے۔ اور  مشینی دور  کے  پیدا کردہ نئے مسائل میں باہمی بحث وتمحیص اور شرعی حدود کے اندر گنجائشوں کے تلاش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔فنی اور فقہی بحثیں درمیان میں آتی رہتی ہیں۔اور منشاء یہ ہوتا ہے کہ سب علماء کی رائے سامنے آجائے اور بعد اتفاق آراء کے کوئی فیصلہ مسلمانوں کے سامنے رکھا جائے اس کام کےلئے کراچی میں اہل فتویٰ علماء کی جماعت کام کر رہی ہے۔مفتی محمد شفیع نے ڈاکٹر فضل الرحمٰن  کے بیان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کا  کہا کہ وہ خود اپنے تازہ بیان میں اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں۔کہ ذبح کرنے والے کےلئے مسلمان یا  پاکستانی ہونا شرط ہے۔جب کہ اس سے پہلے ان کے الفاظ یہ تھے۔ہرشخص کے ہاتھ کاذبح خصوصا ً اہل کتاب کا جائز ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی بعض ضعیف روایات اور با اتفاق امت مرجوح اقوال کا سہارا لے کراس پر بھی اصرار کیا ہے۔بسم اللہ کے بغیرذبح حلال ہو جاتا ہے۔مفتی صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب خود زرا غور کریں۔ کہ کتابی مسلمان کا منشا بھی یہی ہے۔کہ یہ لوگ بغیر بسم اللہ کے ذبح کو حرام سمجھتے ہیں۔ ورنہ چھری  پھیرنے میں مسلمان اور کافر میں کیا فرق انھوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہمیں کسی اندھیرے میں چھوڑ کر تشریف نہیں لے گئے۔ اور اگر وہ زمانے کے  پیدا کردہ نئے مسائل کا شرعی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔تو  وہ اصولی طور پر اس بات کو ذہن میں رکھیں۔ کہ قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل کا حل بنا گئے ہیں۔واضح ہدایت یہ ہے کہاہل فتویٰ اور اہل تقویٰ علماء کے مشورے سے ایسے  مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔جو کتاب وسنت میں مذکورہ تھیں۔انھوں نے کہا کہ شخص اورانفرادی رائے کا مسلمانوں پر مسلط کرنا حرام ہے۔اور تاریخ شاہد ہے کہ شرعی مسائل میں وہی حل امت میں قابل قبول ہوتا ہے۔جو اہل فتویٰ اور اہل تقویٰ علماء کی رائے سے حاصل ہوا ہو۔اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کسی حیلہ جوئی سے امت قبول کر سکتی ہے۔نہ کسی حکومت اور طاقت سے ان پرمسلط کیا جا سکتا ہے۔اکبر کے دین  الٰہی اتاترک کے جاری کردہ قوانین سے عبرت حاصل کریں۔یہود و نصاریٰ کی تحقیقات و روایات سے زیادہ اہل تقویٰ علماء کی تحقیقات بہ اعتبار کریں۔جو پورے ملک کے علماء کا ہاتھ بٹایئں گے۔اور وہی آپ کے ادارہ کی صحیح خدمت اور نیک نامی کا ذریعہ ہوگا۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 215

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ