سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) کیا عقیقہ کے جانور میں قربانی کی شرائط ہیں۔؟

  • 3452
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1701

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عقیقہ کے جانور میں قربانی کی شرائط ہیں۔؟

حضرت العلام حافظ صاحب! السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ!

آپ تحریر فرما دیں کہ عقیقہ کا جانور کس عمر کا ہو۔کسی حدیث سے معلوم نہیں ہوتا۔بلکہ صاحب سبل السلام  نے کہا ہے کہ شرائط اس کے صحیح حدیث ثابت نہیں۔با لقیاس ہیں۔(از محمد یوسف خریدار تنظیم اہل حدیث )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مولانا حکیم محمد یوسف صاحب۔وعلیکم السلام  ورحمۃ اللہ وبرکاۃ! (مجمع البھار ج3 ص 216)

ترجمہ۔دونوں بکریاں سن میں برابر ہوں۔جس سے مقصد یہ ہے کہ عقیقہ کا  جانور مسنہ ہونا چا ہیے۔اور اقل درجہ یہ ہے کہ دنبہ جزع جیسے قربانی جزع کفایت کرتا ہے۔دنبہ

چھ 1 سات ماہ کا  بھی کافی ہے۔اور کہا گیا ہے کہ آپس میں برابر ہوں۔دونوں میں عمر کے لہاظ سے بڑا فرق نہ یا یہ معنی  ہے کہ زکواۃ

1۔جزع کا راجع معنی ایک سال کا ہے۔جیسا کہ جمہور علماء محدثین اور اصل لغت اور علامہ سندھی حنفی نے حاشیہ ابن ماجہ میں ایک سال کوترجیح دی ہے۔اور چھ سال کو مرجوع قرار دیا  ہے۔(سعیدی)

اور قربانی کے جانور کے برابر ہوں۔اور فا کی فتح کے ساتھ یہ معنی ہو سکتے یکے بعد دیگرے جلدی ذبح کی جائیں۔ایک کے ذبح کے بعد دوسری کے ذبح کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔عرب کہتے ہیں۔کافا لرجل بین بعیرین پے در پے دو اونٹ ذبح کیے یہ اس وقت کہتے ہیں۔جب ایک بعد متصل دوسرا اونٹ ذبح کیا جائے۔

اور شرح جامع الاصول میں ہے۔کہ!مسنہ ہونے میں مساوات مراد ہے۔یعنی بکریاں ایسی ہوں۔جو قربانی میں کفایت کرسکیں یعنی ایک مسنہ اور دوسری غیر مسنہ  نہ ہو۔

1۔اس سے معلوم ہوا کہ مکافتان کے معنی میں اختلاف ہے۔

2۔کوئی کہتاہے۔کہ قربانی کے جانور کے برابر

3۔کوئی کہتاہے ایک دوسرے کے برابر

4۔کوئی کہتاہے قربانی اور زکواۃ کے جانور کے برابر

5۔کوئی کہتا ہے کہ ذبح ہونے میں برابر۔یعنی ایک دوسرے کے متصل ذبح کی جایئں۔

جب اس لفظ کا ایک معنی اور قربانی کے جانور کے برابر ہونا بھی ہے تو ایسے موقع پراحتیاچ اسی میں ہے۔کہ مسنہ اور دانت ذبح کرے۔تاکہ۔اختلاف سے نکل جائے۔بلکہ احتیاط مناسب ہے کہ باقی شرائط کا بھی لہاظ رکھا جائے۔

میرا اپنا عمل اسی پر ہے۔اور ایک سال سے کم کاجانور تو دنبہ کے سوا کسی صورت جائز ہی نہیں کیونکہ حدیث مں شاۃ کا حکم۔بکریوں کی جنس میں چھوٹی عمر کے لئے ''عاق۔عتود'' کا لفظ بولتے ہیں۔

جیسے انسان میں چھوٹی عمر کے لئے''جارب'ولدہ'صبیہ'' وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جب بلوغ کا زمانہ آجاتا ہے۔تو صراۃ کا لفظ بولا جاتا ہے۔اور ہمارے محاورے میں عورت کہتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح عربی محاورہ میں شاۃ کا لفظ ہے۔اور بکری عموماً سال کے اندر بچہ جننے کے قابل نہیں ہوتی۔پس اس حدیث سےثابت ہوا کہ سال سے کم تو کسی صورت جائز ہی نہیں۔اورقربانی کے جانور کے برابر ہو۔یعنی مسنہ ہو۔اور باقی شرائط قربانی کے جانور کے بھی پائے جایئں۔تو یہ اسلم طریق ہے۔اس میں کسی قسم کا شبہ اور تردد نہیں رہتا۔

حدیث میں  ہے۔

دع ما يريبك الي ما لا يريبك

یعنی شک والے کام کو چھوڑ کر وہ کام کرو۔جس میں شک نہ ہو۔ (تنظیم اہل حدیث لاہور جلد 13 ش 19)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ