سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(76) اگر ایک مسلم سہواً ذبح کے وقت تکبیر بھول گیا تو..الخ

  • 3421
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1901

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر ایک مسلم سہواً ذبح کے وقت تکبیر بھول گیا تو کیا وہ جانور حلال ہے۔یا حرام۔اور تکبیر کے ساتھ انی وجھت الخ پڑھنا ضروری ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلم بسم اللہ بھول جائے تو معاف ہے۔حدیث میں  آیا ہے۔کہ مسلم کے دل میں بسم اللہ ہے۔عند الذبح انی وجھت پڑھنا مسنون ہے۔(اہل حدیث 24 جون 1932ء)

شرفیہ

قولہ بسم اللہ بھول جائے الخ حرام ہے۔اس لئے کہ یہ نص صریح کتاب اللہ کے خلاف ہے۔

﴿وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ وَإِنَّهُ لَفِسقٌ...﴿١٢١﴾... سورة الأنعام

یہ ایسا ہے جیسے

﴿لَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ

اور جس حدیث کا مولانا نے ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں  ہے۔وہ ابن عباس سے مروی ہے۔

پس  کتاب اللہ اور حدیث سے  بسم اللہ ۔واللہ اکبر۔ذبیحہ کے لئے شرط ہے۔

نص کتاب وسنت کے مقابل قول صحابی حجت نہیں۔اورمرفوع روایت جو خلاف ہے۔اول توصحیح نہیں دوم نص صریح کتاب اللہ کے خلاف ہے۔لہذا قابل عمل نہیں۔اور کتاب وسنت صحیحہ کے ہوتے ہوئے کسی کا قول حجت نہیں۔

(ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی ۔فتاوی ثنائیہ۔جلد اول۔ص870)

توضیح

حافظ ابن کثیر ؒ نے اس بارہ میں علماء کے تین قول نقل کیے ہیں۔اول یہ کہ ایسا ذبیحہ حرام ہے۔خواہ بسم اللہ کوبوقت ذبیحہ کے عمداً ترک کرے یا سہواً یہ مروی ہے۔عبد اللہ بن عمر۔نافع۔عامر شعبی۔ابن سیرین سے او ر وہ مروی ہے۔امام مالک اور امام احمدسے اور صحابہ کی ایک جماعت سے۔متقدمین۔اور متاخرین اور یہی مختارہے۔ابو ثور اور دائود ظاہری کا اور یہی مختار ہے۔

متاخرین شافعیہ کا جیسا کہ محمد بن محمد متاخرین شافعیہ سے اور دلیل ان کی یہ آیت ہے۔وَاذْكُرُوااسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِمذہب ثانی یہ ہے کہ بسم اللہ بوقت زبح شرط نہیں بلکہ مستحب ہے۔اگر عمداً یا نسیاناً رہے جائے تو کوئی مضر نہیں۔یہ مذہب ہے۔امام شافعی اور اس کے تمام اصحاب کا اور ایک روایت میں امام مالک اوراحمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ   کا بھی ہے اہب بن عبدالعزیز نے اسکے اصحاب سے نص فرمائی ہے حضرت ابن عباس ۔ابو ہریرہ۔اور عطاء بن ابی رباح سے یہ مروی ہے وحمل الشافعی والصحابہ الایۃ الکریمہ

وَلَاتَأْكُلُوا مِمَّالَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللَّـهِ  علی ما ذبح لغير الله

تیسرا مذہب۔ترک بسم اللہ عند الذبح نسیاناً کوئی مضر نہیں۔دیدہ دانستہ حلال نہیں۔یہ مشہور ہے امام مالک۔اور امام احمد بن حنبل ؒ سے اور یہی قول ہے امام ابو حنیفہ کا اور اسے اصحاب اور اسحاق بن راہویہ کا۔اور وہ مروی ہے حضرت علی۔ابن عباس۔سعید بن لمسیب۔عطاء۔طاوس۔حسن بصری۔ابی مالک۔عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ۔ جعفر بن محمد۔ربیع بن عبد الرحمٰن۔ وغیرہ سے امام ابو الحسن مرغیانی نے اپنی کتاب میں اس پر اجماع نقل کیاہے۔حدیث میں آیا ہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطاء اور نسیان کومعاف کردیا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے۔اگر روزہ دار بھول کر  کھا پی لے۔تومعاف ہے۔روزے میں نقص نہیں۔اگر کوئی نماز کو بھول جائے تو یاد آنے پر پڑھے۔ اس کا وہ یہی وقت ہے۔کھانے اورپینے میں بسم اللہ بھول جائے۔تو جب یاد آجائے پڑھ لے۔اسی طرح بوقت ذبح بسم اللہ بھول جائے یاد آنے پر پڑھ لے۔مولانا ثناء اللہ امرتسری کا فتویٰ تیسرے مذہب کے مطابق ہے۔اور حضرت ابو سعید محمد شرف الدین مرحوم کا فتویٰ مطابق مذہب اول کے ہے۔شیخ الاسلام کا فتویٰ جواز پر ہے۔اور مفتی ثانی کا فتوی احتیاط پرہے۔دلائل کی رو سے تیسرا مذہب قوی ہے۔(ابو الحسنات علی محمد سعیدی۔جامعہ سعیدیہ خانیوال)

الاستفتاء

(متعلق ذبیحہ)

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کہ ایک قصاب نے بوقت ذبح گھنڈی کو بجانب سینہ کر دیا ہے۔ایک مولوی صاحب کہتے ہیں۔کہ ذبیحہ حلال ہے۔کیونکہ ہدایہ میں ہے۔

وهي اختيار ية كالجرح فيما بين اللبة واللحيين (ج 4 ص 418)

اور دوسری جگہ ہے۔(ج4 ص 421)

اور عینی شرح بخاری جلد 10 ص37 میں ہے۔

وفي المبسوط ما بين اللبة واللحيين واللبة راس الصدر واللحيان الذقن

اور کنز کی شرح میں ہے۔

اور نیز جو عروق فقہائے حنفیہ نے ذبح کے وقت کٹنے کی لکھی ہیں۔وہ  دو2 ودج ایک حلقوم اور مروی ہے۔اور امام کے نزدیک تین پر اکتفا کرنا جائز ہے۔جیسا کہ ہدایہ جلد نمبر 4 ص421 میں ہے۔

اور دوسرے مولوی صاحب فرماتے ہیں۔کہ ذبیحہ حرام ہے۔،کیونکہ گھنڈ کے اوپر حلقوم اور مری نہیں لہذا دو رگیں کٹیں۔پس ذبیحہ موافق مذہب امام ابو حنیفہ حرام ہوا۔کیونکہ کاٹنا اکثر کا شرط ہے۔اور شرح وقایہ میں ہے۔فلم يجز فوق العقدةاگرچہ شرح میں ہے۔

والبعض افتوا بالجواز لقوله عليه السلام الزكواة بين اللبة واللحيين

اور متن شرح پر مقدم ہے۔اور حدیث جو زکر کی ہے وہ ضعیف ہے۔شامی اور ذخیرہ میں اسی  طرح ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کس کا فتویٰ ازروئے شرح شریف مذہب اہل سنت میں صحیح اور درست ہے۔؟اور فوق العقدۃ حلقوم اور مری اوردیگر رگیں ہیں یا نہیں اور فوق العقدۃ ذبح ہوتا ہے یا نہیں۔بینوا توجروا۔

(2233/162۔22 محرم 14 مارچ۔1358 ہجری 1939عیسوی یوم سہ شنبہ)

مستفتی مولوی عبد الرزاق (صاحب مدرس سوم مدرسہ سعیدیہ)موزن مسجد الخالق پگ نگس دہلی مندرجہ بالا استفتاء حضرت شرف الدین صاحب محدث دہلوی نے خود مولوی عبد الرزاق صاحب کے نام سے بھیج کر جواب حاصل کیا تھا۔تاکہ احناف پر حجت قائم رہ سکے (سعیدی)

الجواب۔

زبیحہ فوق العقدۃ کی حلت کے بارے میں پہلے مولوی صاحب کا بیان و تحریر صحیح ہے۔(فتح القدیر الجز الثامن ص57)

دوسرے مولوی صاحب کو حدیث مذکورہ کو ضعیف ٹھیرانا  بغیر بیان کرنے ضعف کے صحیح اور قابل اعتبار نہ  ہوگا۔فقہا ء عظام کا استدلال اس حدیث سے اس حدیث کا معتبر وقابل استدلال ہونے کی دلیل ہے۔ تو ٖضعیف ٹھرانے کادعویٰ بغیر بیان کرنے وجہ ضعف کے صحیح نہ ہوگا۔واللہ اعلم(مفتی محمد کفایت اللہ کان اللہ سرہ دہلی)

سوال۔

میں یہاں ایک ٹھاکر کے ہاں ملازم ہوں۔کھانا بھی ان کے ہاں سے آتا ہے۔گوشت ان کے ہاں پکتا ہے۔جس کے متعلق مجھے تردد ہے۔گوشت یا تو وہ شہر سے منگاتے ہیں۔یا مجھ سے بکرا زبح کراتے ہیں۔میرے خیال میں جب کبھی ان  کے ہاں گوشت پکتا ہے۔میرا ہی زبح کیا ہوا ہی پکتا ہے۔چونکہ وہ گوشت نظروں سے غائب ہو جاتاہے۔اور گھر کے اندر سے پک کر آتا ہے۔اس لئے میں کھاتا ہوں بعض لوگ کہتے ہیں۔ان کا یہ کہنا کہ  اُسی گوشت میں سے ہے دیانت میں داخل نہیں۔اور اس کا کھانا جائز ہے۔پکا ہوا کھانا دیتے وقت وہ کچھ نہیں کہتے دریافت کرنے سے بھی وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کا ہی ذبح کیا ہوا گوشت ہے۔یا قبل اس کے اور کوئی بات بہرحا ل مجھے کیا کرنا چاہیے۔آیا گمان غالب پ کھا ینا چاہیے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ میرے ہی ہاتھ کا ذبیحہ گھرمیں سے پک کر آتا ہے قاضی خاں وغیرہ نے تو ان شبہات کو رفع  کیا ہے۔یعنی اگر وہ  یہ کھایئں کہ یہ گوشت اسی میں کا ہے تو معاملہ ہے۔اور اگر کہیں  کہ یہ تمہارا یا کسی مسلمان کا ذبیحہ ہے تو دیانت ہے لیکن مجھ کو ابھی اطمینان نہیں ہوا ہے ۔لہذا مفصل جواب مرحمت فرمادیں۔

الجواب۔

حدیث

پس کافر کا یہ کہنا کہ یہ اُسی ذبیحہ کا گوشت ہے منجملہ دیانات متعلقہ حل و حرمت ہے لہذا حسب روایات بالا اس کا قول مقبول نہین جیسا ظاہر ہے۔

حدیث

سوال۔

اس حدیث کا کیا مطلب ہے۔؟

من صلي صلا تنا واستقبل قبلتنا والكل ذبيحتنا

(بخاری)

مرزائی ہمارے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر ہمارے جیسی نمازیں پڑھتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ بھی کھاتے ہیں۔کیا اس حدیث کے پیش نظر وہ مسلمان تصور ہوں گے؟اگرنہیں تو حدیث کا کیا منشا ہے۔؟(مسائل۔صدیق الحسن فارقی)

الجواب۔

قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔آپ ﷺ پر سلسلہ نبوت ختم ہے۔مسئلہ ختم نبوت تو اتر سے ثابت ہے اور اس پرپوری امت مسلمہ کا اجماع ہے جو بھی شرعی مسئلہ تواتر سے ثابت ہو اس کا انکار یا اس کے خلاف عقیدہ رکھنا صریح کفر ہے کیونکہ شرعا ً کفر کی  تعریف یہ ہے۔

انكار ما علم بالضرورة مجي الرسول به

شریعت میں جو بھی مسئلہ تواتر سے ثابت ہو ا س کا انکار کفرہے۔مرزائی چونکہ ختم نبوت کے منکرہیں۔جو کہ تواترسے ثابت ہے۔اور مرزا غلام احمد کو نبی تسلیم کرتے ہیں۔اس بدعقیدہ کی بنا ء پر مرزائی مطلقاً کافر ہیں۔

مندرجہ حدیث میں لفظ صلواۃ۔قبلہ۔ذبیحہ کی اضافت لفظ ''نا'' کی طرف ہے۔جس کا مدعا یہ ہے کہ جو شخص بھی نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبیﷺ تسلیم کرتے ہوئے آپ کی بتائی ہوئی نماز پڑھے۔اور آپ کی تصدیق کی رو سے ہی قبلہ خانہ کعبہ کی  طرف ہی متوجہ ہو۔ اور آپ کی اطاعت اور ہدایت کی بنا پر ہی مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے وہ صحیح العقیدہ مسلمان تصور ہوگا۔

لیکن مرزایئوں کا معاملہ سراسر مندرجہ حدیث کے مفاد کے برکس ہے۔مرزائی  دیتا جس حد تک شرائع اسلام کی قائل یا غافل ہے۔اس میں مرزا غلام احمد قادیانی کی اتباع ہے۔

چونکہ متنبی قادیان کے پاس کوئی اصلاحی اور تعمیری پروگرام  تھا۔ اس لئے اسی میں عافیت سمجھی کہ گمراہ عوام کو شرائع اسلام کی تلقین کی جائے اور یہی فارمولا ان کے سامنے رکھا جائے۔چنانچہ مرزائی دنیا نماز روزہ وغیرہ شرائع اسلام کی اس لئے قائل ہے۔کہ ان کے جھوٹے نبی کی یہی ہدایت ہے۔

اگر مرزا دجال اپنے پیروکاروں کو شرائع اسلام سے منع کر دیتا تو یقیناً اس ک متبعین سب احکامات کو خیر آباد کہہ دیتے اس کی زندہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔قرآن مجید کی نصوص قطعیہ سے جہاد کی اہمیت اور قیامت تک اس کا دوام  ثابت ہے۔

ہماری شریعت نے اسلام کی سر بلندی اور امت مسلمہ کی خوشحالی کو جہاد سے ہی وابستہ فرمایا ہے۔اور آپ ﷺ کا  ارشاد ہے۔

الجهاد ما ض الي يوم القيامة لا يبطله عدل عادل ولا جو ر جائر

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔اسے کسی انصاف پسند بادشاہ کا عدل یا ظالم کا ظلم نہیں مٹا سکے گا۔لیکن اس کے باوجود مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت  کا نصب العین ہی یہ بتایا ہے کہ مجھے ابلیس لعین نے محض جہاد کو مسنوخ کرنے کیلئے بھیجا ہے۔چنانچہ اس جھوٹبے حیا نے علی الاعلان کہا کہ جہاد منسوخ ہے۔اوراب کوئی بھی اس کے جواز کا عقیدہ نہ رکھے۔

آج جس حد تک مرزائی دنیا موجود ہے۔مرذا غلام احمد کی اطاعت کی بناء پر ان کا عقیدہ ہے کہ جہاد منسوخ ہے۔گو قرآن و حدیث کی نصوص اس کے منافی ہیں۔

اسی طرح قادیان کا متنبی اگر یہ کہہ دیتا کہ آپ ﷺ اللہ کے  رسول ﷺ نہیں ۔(نعوز با اللہ) اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں۔(نعوز با اللہ) اور خانہ کعبہ ہماراقبلہ نہیں(نعوز با اللہ) نہ ہی نماز ہے اور نہ ہی  روزہ وغیرہ احکامات تو مرزایئوں نے جھوٹے مدعی نبوت کی اطاعت میں سر تسلیم خم کرتے ہوئے سب کچھ قبول کر لینا تھا۔اس سے بالکل عیاں ہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں آپ ﷺ کی اطاعت اتباع کا زکر ہے۔اور مرزائی غلام احمد کے اطاعت گزار ہیں۔لہذا مذکورہ حدیث کی بنا ء پر ان کو مسلمان تصور کرنا انتہائی جہالت ہے۔اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور ضروری ہے۔کہ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کے زمانہ میں منافقین کا گروہ موجود تھا۔وہ ہمارے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر ہمارے جیسی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔اور مسلمانوں کا ذبیحہ بھی کھا لیتے تھے۔جنگوں میں شریک ہوتے اس کے باجود قرآن مجید نے ان کو بدترین قسم کے کافر قرار دیا ہے۔اور مندرجہ بالا حدیث کےپیش نظر ان کے مسلما  ن ہونے کے بارے میں کسی کو وہم و گمان تک پیدا نہیں  ہوا۔مرزائی ختم نبوت کے منکر ہیں۔اس کے باوجود بعض علم و فضل کے مدعی مرزایئوں کو مندرجہ بالا حدیث کی روسے مسلمان ثابت کرنے کا ادھار کھائے بیٹے ہیں۔اور بعض اقتدار کے حریص اور عوام کے ووٹوں کے بھوکے اپنا نظریہ بنائے ہوئے ہیں کہ جو مرزائی ہین(مسلمانوں) کو کافر کہیں گے تو ہم بھی ان کو کافرکہیں گے وگرنہ نہین بات صاف ہے کہ جن وجوہات سے منافقین کافر ہیں انہیں کی بناء پر مرزائی بھیکافر ہیں۔

مذکورہ حدیث میں یہود و نصاریٰ وغیرہ کے مقابلہ میں مسلمانوں کی بظاہر امتیازی علامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔لیکن اس کے باوجود اگر ان کے کسی ایسے اعتقاد کا انکشاف ہو  جائے جو ہ صریحاً کفر ہے۔تو بلا شبہ وہ کافر ہوں گے۔(ہفت ر وزہ الاسلام لاہور)

سوال۔

کوئی شخص بکرا یا  مرغ کسی شہید یا ولی کے نام زبح کرے۔اس مسئلہ میں کیا حکم ہے۔

جواب۔

زبح کرنا جانور کو  بنام غیر خدا حرام ہے۔وہ غیر خداخواہ پیغمبر ہو خواہ ولی ہو خواہ شہید ہو خواہ غیر انسان ہو۔اور اگر نے قصد کے تقرب کے ان لوگوں کے نام پرجانور ذبح کیا جاوے۔تو وہ جانور حرام و مردار ہو جاتا ہے اور ذبح کرنے والا مرتد ہوجاتا ہے۔اس فعل سے پرہیز لازم ہے چنانچہ تفسیر کبیر اور تفسیر نیشا پوری اور دوسری تفسیروں میں مذکور ہے۔

یعنی علماء نے کہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کوئی جانور ذبح کرے اور اسکے ذبح سے تقرب غیر اللہ کا مقصود ہو تو وہ مسلمان مرتد ہو جائے گا۔اور اس کا ذبیحہ مانند ذبیحہ مرتد کے ہو جائے گا۔یہ مضمون کتب تفاسیر کی عبارت مذکور ہے۔

(عبد العزیز محدث دہلوی فتاوی عزیزیہ جلد8 ص97)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 181-190

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ