السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایام نحر کے تحقیقی مقالہ پرتشریحات
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اب سے چالیس سال پیشتر یعنی دس ربیع الثانی 1310 ہجری میں استاذی مولنا محمد بشیر محدث سہوانی ؒ نے ایک فتویٰ تعین ایام نحر کی بابت تحریر فرمایا تھا۔ جس میں 10۔11۔12 زی الحجہ کی تعین کے خلاف آخر زی الحجہ تک جواز کا ثبوت تھا۔وہ فتویٰ بشکل اشتہا روحید المطابع واقع محلہ دار انگر بارس میں طبع ہوا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ مولنا مرحوم کا قیام ریاست بھوپال میں تھا۔ اشتہار کے اندر وعدہ کیا گیا تھا مسئلہ مسئولہ مع جملہ ما لھا وما علیھا بڑے رسالے کے اندر چھپے گا۔جب مولانا کا قیام دہلی میں ہوا تو اس بڑے رسالہ کو بہت سے لوگوں نے مولنا کے پاس دیکھا چنانچہ میں نے بھی دیکھا۔کہ وہ رسالہ پورا ضخیم بلکہ خاصی کتاب تھی۔مگرافسو س اس کتاب کے چھپنے سے پیشتر مولانا نے جہان فانی کو الوداع کہا ۔اوراہل علم و تحقیق چشم براہ رہ گئے تلامذہ ومعتقدین نے بہت کچھ جستجو کی لیکن رسالہ ہاتھ نہ لگا مرحوم کاکتب خانہ تو حاجی عبد الغفار مرحوم دہلوی علی جان والے نے ان کےبیٹے مولوی محمد مرحوم سے خرید لیاتھا۔لیکن یہ رسالہ اس کتب خانے میں نہ تھا۔اب بعض عزیزان وطن سے مسلسل سن رہا ہوں۔کہ وہ رسالہ مولانا کا علمی میرے ہی وطن سہوان میں میرے ہی ایک عزیز کے پاس موجود ہے۔جس کا انھوں نے خود زکر کیا ہے۔مگر اب وہ کسی مصلحت یا غرض سے نہ ر سالہ کسی کو دکھاتے ہیں اور نہ ہی اپنے پاس موجود ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔بہر کیف اگر یہ رسالہ دستیاب ہوگیا ہوتا تو کبھی کا چھپ چکا ہوتا۔یا اب دستیاب ہوجائے تو چھپ کر اہل علم و تحقیق والوں کے پاس پہنچ جائے۔قبل از طبع اشتہار جب مسئلہ کی شہرت ہوئی اور شیخ حسین یمنی محدث مرحوم مقیم بھوپال نے یہ مسئلہ سنا تو بہت متعجب ہوئے اتفاقاً ایک روز مسجد میں ملاقات ہوئی تو مولوی بشیر مرحوم سے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا جب تک ہمیں مسئلہ نہ سمجھا دوگے ہم مسجد سے باہر نہ جانے دیں گے۔ابتدا تو مولوی محمد بشیر مرحوم نے اپس ادب اور لحاظ استادی سے گریز کیا اوردوسرے وقت پر تگالا مگر جب شیح حسین صاحب نہ ماے تو مولوی محمد بشیربھی مسجد میں بیٹھ گئے اور اکثر و پیشتر نمازی بیٹھ کرلطف مکالمہ اٹھانے لگے دونوں محدثوں یا استاد و شاگرد کی عالمانہ و محدثانہ مگرمہذبانہ و مخلصانہ گفتگو تقریباً دو گھنٹے جاری رہی آخر میں شیخ صاحب نے فرمایا۔
مولوی محمدبشیر!اب ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں۔اب ہم نے مان لیا۔بے شک تم حق پر ہو۔اس واقعے کے بعد فتویٰ چھپا لیکن کوئی فتویٰ یا رسالہ مخالفت میں مولنا مر حوم کے پاس نہ آیا۔نہ اب تک میرے علم میں آیااشتہا ر مہولہ بھی قریب قریب با پید ہوچکا ہے۔ممکن ہے کس کے پاس ہو۔میرے پاس صرف ایک کاپی موجود ہے۔جو بوسیدہ حالت میں ہے۔جگہ جگہ پھٹا ہونے کی وجہ سے پڑھنا بھی مشکل ہے۔ایسی صورت میں دوبارہ طبع کرایا جاتا ہے۔اوراس فتوے کا نام ایام النحر من عاشر زی الحجہ الی آخر الشہر رکھدیا ہے۔(سید اقتدار حسین سہسوانی)
(مقیم محلہ بنی اسرائیلان علی گڑھ مکان مولوی محمد اسماعیل مرحوم6 جون 1929ء)
اہل علم پر مخفی نہیں کہ ایام نحر قربانی کی تعین میں اہل علم کا اختلاف ہے۔اس میں سے مصنف کا رسالہ بھی ہے۔شیخ الشیخ مرحوم نےقرآن و حدیث کے عموم سے ثابت کیا ہے۔ کہ 10 زی الحجہ سے آخر زی الحجہ تک قربانی کا وقت ہے۔لیکن اس پر تعامل امت نہیں پایا گیا۔میرےنزدیک اس کی مثال نمازوں کے اوقات کی ہے۔مثلا نماز ظہر کا وقت دلوک شمس سے ایک مثل تک اور عصر کی نماز کا وقت غروب شمس تک ہے۔لیکن رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام۔وتابعین اور محدثین کا تعامل اول وقت کا ہے۔آخر وقت بنا لین نماز تو ہو جائے گی ۔لیکن منافقانہ نماز ہوگی۔اس لئے کہ قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ﴿١٠﴾ أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ﴾
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے 100 اونٹ قربانی کیا تھا۔لیکن 10 تاریخ کو سب کے سب قربانی کیے۔اگرسارے ماہ میں مساوی ہوتا تو متفر ق ایام میں آپ قربانی فرماتے۔(الراقم علی محمد سعیدی خانیوال)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب