سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) قربانی کی کھالوں کا مصرف

  • 3406
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2494

سوال

(61) قربانی کی کھالوں کا مصرف

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کی کھالوں کا مصرف


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اخبار''الاعتصام''لاہور(مورخہ 26/جمادی الاول 1374 ہجری 20 جنوری سن 1955 عیسوی) میں بعنوان ''قربانی کی کھال کا مصرف ''اہل حدیث کے نقطہ ء نظر سے مولانا محمد علی لکھنوی مدینہ منورہ کا مقالہ شائع ہوا ہے۔لیکن معلوم ہوتا ہے جس فتویٰ پر مولانا نے تنقید فرمائی ہے۔اُس کو انھوں نے غور سےنہیں پڑھا۔بلکہ اپنی خوش فہمی سے اس کو مسلک اہل حدیث کے مخالف اور تقریب غیر تام کا فتویٰ لگا دیا ہے ۔خیال ہے کہ کوئی زی علم۔منصف مزاج ہر دو مضمون پر دیکھے گا۔تو مولانا موصوف کے مضمون کو مسلک اہل حدیث کے خلاف اور تقریب غیر تام پائے گا۔اس لئے ہم مولانا موصوف کےمضمون  پرتنقیدی نظر ضروری سمجھتے ہیں۔

آپ فرماتے ہیں۔مصرف کا ایک ہی حصہ بیان کیا گیا۔یعنی صدقہ کرنا اور مصرف کے دوسرے حصہ سے واللہ اعلم بالکل  خاموشی اختیار کی گئی۔حالا نکہ دوسرا حصہ مصرف کا عہد نبویﷺ میں زیادہ تر صحابہ کرام معمول بہ تھا۔جو بقول خود صحابہ حدیث صحیح میں ہے۔

ان النشس يتخذون الاسقية من ضحابا هم ويحملون فيها الورك (بخاری۔مسلم۔مختصراً)

بے شک صحابہ کرام قربانی کی کھال سے مشکیزے بنا کر استعمال کرتے تھے۔اور ان میں چربی پگھلا کر رکھتے تھے۔

اور دوسری قولی حدیث میں ہے ۔

واستمتعو اجلودها ولا تبيعوها(الحدیث امام احمد)

اس کاجواب چند وجوہ ہے۔اولاً عرض ہے کہ  جواب مطابق سوال کے تھا ۔مصرف تمام صورتیں بیان کرنا مفتی کا مقصود نہ تھا لہذا مصرف بعض صورت کا زکرنہ کرناکوئی اعتراض کی بات نہین ہے ثانیاً جس کو اپنےمصرف کا دوسرا حصہ قرار دیا ہے مصرف عام نہ تھا۔عام مصرف تو مساکین پرصدقہ کرنا تھا کے بیان کردہ مصرف کے عام نہ ہونے پر خود حدیث یا دلالت کرتے ہیں۔کیونکہ لفظ الناس  معرف بالام حدیث میں آیا ہے جو عہد خارجی ہے یعنی اپنی ضرورت سے بعض صحابہ غربت کی بناء پرچرم قربانی کو استعمال کر لیا کرتے تھے اسی  غربت کو مدنظر رکھ  کر شارع  علیہ السلام نے انکواستمتعواجازت دی ہے۔چنانچہ آپ بھی بھی ترجمہ حدیث  کا ضروریات میں فائدہ اُٹھا کر کیا جس سے ظاہر ہے کہ یہی مصرف نہ تھا صرف بوجہ ضرورت کی بنا پر تھا۔ثالثاً آپ نے جو حدیث کے الفاظ زکر کیے ہیں۔وہ ان کی حیثیت میں صحابہ نے آپﷺ سے دریافت کیے تھے۔چنانچہ مسلم شریف کے الفاظ اس طرح سے ہیں۔

قالو ا يا رسول الله ان النشسيتخذون الا سقيةمن ضحايا هم ويحملون فيها الورك فقال رسول الله ما ذاك(مسلم۔جلد2 ص158)

پھر آپ ﷺ نے ان کے متعلق کوئی صریح حکم نہیں فرمایا۔ضمناً اس کا جواز گوسمجھا گیا ہے۔مگر افسوس آپ نے حدیث کے الفاظ اسی طرح نقل فرمائے ہیں۔کہ صحابہ کرام عام طور پر چرم قربانی کے مشکیزے بنا لیا کرتے تھے۔اوروہ چرم قربانی کو صدقہ نہیں کیا کرتے تھے۔رابعاً حدیث میں استمتعوا ولا تبيعوا کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔کہ یہ استمتاع ضرورت کی  بنا پر تھا۔کوئی عام مصرف چرم قربانی کا یہ نہیں تھا۔اس لئے آپ ﷺ نےان کو چرم قربانی کے بیچنے سے ہی منع فرمایا۔

خامساً۔حدیث احمد کے رجال سند کو آپ نے زکر نہیں کیا اور نہ کسی محدث سے اس کی تصحیح تحسین بیان کی جب تک اس روایت کی تحسین وتصحیح کسی محدث سے نہ ہو حدیث قابل حجت نہیں ہو سکتی۔نہ اس سے مصرف عام سمجھا جائے گا۔آگے چل کرفرماتے ہیں۔

دوسری سند بخاری کی جو ایک خاص واقعہ ہے جس کو  قاعدہ کلیہ بنایا گیا ہے۔لہذا نہ تو یہ تقریب تام ہے۔ نہ جواب با صواب۔یہ جملہ بھی کہ''یہ فقراء مقامی پر ظلم ہے''غلط ہوا۔جبکہ بخاری مسلم اورامام احمد کی روایت سے ثابت ہوا کہ صحابہ کھال سے مشکیزے بنا لیتے تھے۔صدقہ نہیں کرتے تھے۔تو صحابہ کرام بھی فقراء پر ظلم کرتے تھے۔

اس کےمتعلق گزارش ہے کہ آپ کا حدیث بخاری کو ایک خاص واقعہ کہنا اور اس کو عام نہ سمجھنا اس پر کیا دلیل ہے۔کیا نبی کریمﷺ کا کسی بات اور حکم کیلئے امر کرنا یہ کلیہ قاعدہ وعام حکم نہیں ہوتا ہے۔؟آپ ﷺ نے حضرت علی کو چرم قربانی مساکین پر صدقہ کردینے کا حکم فرمایا۔

رواه البخاري و ابن خزيمه لكن البخاري روي بغير لفظ علي المساكين و ابن خزيمه روي من هذا الوجه بلفظ علي المساكين

پس اب بھی آپ اس امر نبویﷺ کو خاص واقعہ فرمایئں گے؟اگرآپ کا استدلال  روایات کے متعلق ایسا ہی رہا جس کو آپ نے اختیار فرمایا ہے۔تو ہوسکتا ہے کل آپ احادیث رفع الیدین اورآمین بالجہر کو بھی ایک خاص واقعہ کہہ کر اس سنت نبوی ﷺ کے تارک ہو جایئں۔فرمائیے کیا کسی محدث یا اہلحدیث نے اس امرنبوی ﷺ کو خاص واقعہ کہہ کر اس حدیث کو متروک العمل قرار دیا ہے۔؟پھر آپ نے جو اس جملے کو۔کہ فقراء مقامی پر ظلم ہے۔۔غلط فرمایا ہے۔

اگر آپ اس پر غور کرتے  تو اس کو ضرور نہ ظلم کہتے کیونکہ حدیث بخاری وغیرہ میں آیا ہے۔

تو خذ من اغنيا ئهم وترد علي فقراء هم

پہلے سے فقراء مقامی صدقہ کے حق دار ہیں۔مگر ہمارا مشاہد ہ یہ ہے کہ رفاہ عام کی خدمت والے ادارے چرم قربانی کو جمع کر کے اداروں اور مہتممین مدارس کو دیتے ہیں۔جو عام طورپر بطور مصرف صحیح خرچ نہیں کرتے بلکہ اس میں سے بطور معاوضہ خدمت اپنے ملازمین پر خرچ کرتے ہیں۔صدقہ کی حیثیت سے خرچ نہیں کرتے۔جو شرعا دوست نہیں او لئے آنحضرت ﷺ نے اجرت قصاب قربانی کے جانور سے دینا منع فرمائی کیونکہ یہ معاوضہ ہے۔پس جو چیز مقامی فقراء کے حق کی ہے۔دوسری جگہ لے جائی جائے گی تو یہ ظلم ہوگا یا نہیں؟اگر کس صحابی نے اپنی ضرورت سے مشکیزہ بنا لیا تو یہ فقراء پر ظلم کیسے ہوا۔؟

پھر مولانا فرماتے ہیں کہ کسی ادارہ کو کھال دینے پر یہ جملہ استعمال کیاہے۔کہ یہ  طریقہ زمانہ نبوت میں نہیں تھا۔یہ جملہ بھی صحیح نہیں بلکہ خود جواب میں حضرت علی کا ثبوت ہے۔کہ ان کو نبی کریم ﷺ نے لوگوں پر تقسیم کرنے کیلئے اپنا وکیل مقرر کیا تھا۔بعینہ اسی  طرح کسی ادارہ خاص کے ناظم اور مہتم کو بھی وکیل بنادیا جاتا ہے۔نہ یہ کہ اس کی ذات کیلئے کھال دی جاتی ہے۔لہذا یہ طریقہ زمانہ نبوت میں ثابت ہوا اور اس کی نفی کرنا صحیح نہ ہوا۔آخر میں دینیات کے مدارس میں مدرسین اور خدام پر خرچ کرنے پر نزلہ گرایا گیا ہے یہ مصرف شرعی نہیں یہ بعینہ زکواۃ میں برادرران احناف کرام کا مسلک ہے اور برادران اہل حدیث کرام اس کے بالکل مخالف ہیں۔ہردو جماعتوں کے درمیان متنازعہ فیہ زکواۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک مصرف فی سبیل اللہ ہے اول زکر  اس کو خاص بحق غازیان اسلام مقید کرتے ہیں۔اور موخر الزکر اس کو عام خیراتی کاموں پرشامل گردانتے ہیں۔الخ

جواباً عرض ہے مولنا نے جو حضرت علی پر مہتم مدرس و ناظم کو قیاس کرکے وکیل بنایا ہے یہ آپکا قیاس مع الفارق ہے۔کیونکہ قربانی کرنے والے کسی ناظم و مہتم مدارس کو اپنا وکیل نہیں بناتے ہیں۔کہ یہ ناظم ہماری کھالوں کو غرباء پرصدقہ کر دیں۔بلکہ وہ لوگ کھالوں کو بطورصدقہ لے کر ان کو فروخت کر کےخود بھی ان سےفائدہ اٹھاتے ہیں۔اور اپنے ملازمین اورمدرسین کو تنخواہوں پربطور معاوضہ کے دیتے ہیں۔ہاں کچھ حصہ طلبہ پر بھی خرچ کر دیتے ہیں۔جس کا کسی کوانکار نہیں ہے۔کیا حضرت علی نے وکیل بن کر قربانی کی کھالیں خود فروخت کرکے کسی معاوضے میں صرف کی تھیں۔یا انھوں نے نبی کریمﷺ کا وکیل بن کرصرف ،مساکین پر چرم قربانی کو صدقہ کیا تھا۔؟کیا صاحب قربانی اور اس کا وکیل قربانی  کی کھالوں کوفروخت کر سکتا ہے۔؟اور کیاحضرت علی نے آپﷺ سے کھالوں کا مطالبہ کیا تھا۔؟اور کیا حضور ﷺ نے حضرت علی کوکھالیں بطورصدقہ کے دی تھیں۔پس مولانا کیا زمانہ نبوت میں آپ ایسی نظیرپیش کرسکتے ہیں۔کہ قربانی کے چرم کو بطور معاوضہ کسی صحابی نے کسی زی ثروت یاغریب شخص کو دی ہو۔دوسرے چرم قربانی کو مساکین پر صدقہ کرنا جائز نہیں سمجھتے۔اور کیا مساکین پرصدقہ ان کا مذہب نہیں ہے۔آپ نے آٹھ مصارف میں مصرف فی سبیل اللہ کے عام کرنے پر بڑی فقاہت کو خرچ کیا ہے مگر افسوس آپ نے مصرف فی سبیل اللہ پر غورنہیں کیا۔اگر فی سبیل اللہ سے مراد عام ہوتا تو پھر باقی مصارف سبعہ کا زکر کرنا ہی بیکار ہوجانا ہے۔آیت میں فی سبیل اللہ سے  مراد خاص ہے اور خاص بغیردلیل کے مراد نہیں ہوسکتا۔اور دلیل اس پر ایک تو اتفاق مفسرین ہے جو فی سبیل اللہ کی تفسیر جہادسے کرتے ہیں۔اور دوسری حدیث صحیح ہے۔چنانچہ حدیث صحیح میں جہاد کو فی سبیل اللہ کیاہے۔

وجاء في حديث ابي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا تحل الصدقة لغني الا لحسة لغاز في سبيل الله اوالعامل عليها

(محلی ابن حزم جلد5 ص 153)

ووفي سبيل الله يعني في النفقة في  سبيل الله واراد الخروج الي العزوالحج

(تفسیر خازن جلد2 ص24)

مطبوعہ مصر اسی لئے تفسیر خازن میں قول عموم فی سبیل اللہ کرمرجوع قرار دیاہے۔ اور قول غزوہ کو فی سبیل اللہ سے مراد لینا راحج بتا یاہے۔

كما قال والقول الاول هوا الصحيح الاجماع الجمهور عليه

 مولانا کی اس تصنیف کو  کرنا بے دلیل ہے کسی مفسر متقدمین نے اس آیت میں فی سبیل اللہ کو عام نہیں بیان کیا اس لئے علامہ ابن حزم محلی1 میں لکھتے ہیں۔ (ج5 ص 151)

اس سے ظاہر ہوا کہ آیت میں فی سبیل اللہ سے عام قسم صدقات مراد نہیں ہیں۔بلکہ اس فی سبیل اللہ سے مراد وہ خاص مصرف ہے۔جو نص سے ثابت ہے پس چرم قربانی کا مساکین کے علاوہ کسی مسجد یا مدرسہ میں  مصرف کرنا بطور معاوضہ کسی نص1 قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔اورمولانا کا فی سبیل اللہ کے عام  مطلق ہونے پر استدلال حدیث ابی دائود و امام احمد سے کرنا جن میں حج و عمرہ کو فی سبیل اللہ کہا ہے۔قابل غور ہے،اولاً تو یہ روایتیں ضعیف اور مضطرب ہیں۔

1۔اس کی توضیح آگے آرہی ہے۔

حدیث بخاری کی بنا پر حضرت علی کا آپ ﷺ کی قربانی کی کھالوں کو مساکین پر صدقہ کرنا بامر نبویﷺ بین دلیل ہے۔کہ چرم قربانی کے مستحقین مساکین ہیں۔لہذا کسی ادارے کا جومسکین نہ ہو۔اس کو اپنے مصرف یا ملازمین اور مدرسین مدرسہ پر جو مساکین نہیں ہیں۔ا ن کو معاوضے کے طور پر چرم قربانی کا مصرف ٹھرانا کسی حدیث میں نہیں آیا۔(اخبار الاعتصام جلد6 ش40)

توضیح

قران مجید میں ہے،۔

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ‎﴿٥٩﴾ سورة النساء

ترجمہ ۔پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں تنازع ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسولﷺ کی  طرف پھیر دو۔اگر تم اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔(پارہ نمبر 5)

پارہ نمبر 3 میں ہے۔

﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ‎﴿٢٧٣﴾‏ سورة البقرة

ان محتاجوں کودو جو اللہ کی راہ میں بند ہو رہے ہیں۔زمین میں سفر نہیں کر سکتے۔(علم دینی پڑھنے کی وجہ سے)ناواقف لوگ ان کو نا مانگنے سے مالدار جانتے ہیں۔مگر تو ا ن کو ان کے چہرے سےپہچان  لیتا ہے۔وہ لوگو  ں سے لپٹ کرنہیں مانگتے۔ترجمہ ثنائی تفسیر مدارک میں ہے۔

﴿أُحْصِرُوافِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾یعنی دین کے کسی کام میں گھر گئے ہیں۔اور اب آزادی سے کسب معاش نہیں کر سکتے۔اصل مراد یہاں مجاہدین ہیں۔احصار میں بڑی گنجائش ہے۔یہ گھر جانا خواہ وقت کے لہاظ سے ہو یا جسم کے  لہاظ سے سب اس کےتحت میں آجاتاہے۔دین کا کوئی سا کام ہو۔سب کے سب اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔گو اصل مراد جہاد ہے۔مفسر تھانوی نے کہا ہے کہ اس آیۃ کے مصداق ہمارے ملک میں سب سے زیادہ وہ افراد ہیں۔جو علوم دین میں جس مشغولی و انہماک کی ضرورت ہے۔اسکےساتھ اگر فکر معاش کی ضرورت کو جمع کر لیا جائےتو علم دین کی خدمت قائم رہ جائے گی۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ  اس آیت کے تحت فرماتے ہیں۔

أُحْصِرُوافِيسَبِيلِ اللَّـهِ الي حبسوالنفسهم في سبيل لتعلم الدين اوالجهاد اوتبليغ الاحكام او غنر ذالك من امور الدين

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿٢٠٨﴾ سورة البقرة

﴿لَايَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًافِي الْأَرْضِ﴾

ان تمام عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ عشر۔زکواۃ۔وچرم ہائے قربانی کے مستحق مجاہدین اوردینی سرحد کے محافظ علماء اور طلباء ہیں جو دین سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔اوراسلامی سرحد کےمحافظ ہیں۔اگرچہ اپنے اپنے گھر میں وہ دولت مند بھی ہوں۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسند خلافت پر بیٹھے تو فرمایا کہ پہلے میں زریعہ تجارت بال بچوں کی پرورش کرتا تھا اب میں مسلمانوں کے امور میں مشغول ہو گیا ہوں۔اب میں اور میرا بال بچہ بیت المال میں کھائیں گے۔ظاہر ہے کہ بیت المال میں عشر۔زکواۃ۔وغیرہ تمام قسم کے مال تھے۔فتاویٰ غزنویہ میں امام عبد الجبار غزنوی ؒ سے کسی نے دریافت کیا کہ صدقہ فطر اپنے گائوں کے فقراء مساکین پرخرچ کرنا افضل ہے۔اور اگر غیر گائوں کے مساکین اپنے گائوں سے زیادہ نیک ہیں۔تو غیر گائوں کے فقراء زیادہ مستحق ہیں۔ظاہر ہے۔علماء اور طلباء جو قرآن و حدیث کے درس اور تدریس میں مشغول رہتے ہیں۔یہ دیگر غرباء اور مساکین سے زیادہ نیک ہیں۔اگرچہ موجودہ زمانے کے طلباء میں بہت سی لغزشیں  رائج ہو چکی ہیں۔لہذا ثابت ہوا کہ عربی مدارس میں ۔عشر ۔زکواۃ۔اور چرم ہا قربانی کو جمع کرنا جائز بلکہ   افضل ہے۔کیونکہ عربی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر غرباء مساکین اور فقراء ہی ہوتے ہیں۔جن کے لئے مندرجہ زیل اشیاء کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔خوردو نوش ۔کمرہ جات۔کتابیں۔چار پایئاں۔ بسترے۔روشنی۔ اور اساتذہ وغیرہ کی کی ضروریات تعلیم اگر تمام اشیاء تیار ہوں۔لیکن معلم اور استاد نہ ہو تو فقراء اور مساکین تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔

(ابو الحسنات  علی محمد سعیدی۔جامعہ سعیدیہ خانیوال)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 159-166

محدث فتویٰ

تبصرے