سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) قربانی کی کھال کا صحیح مصرف اہل حدیث کے نقطہ نظر سے

  • 3405
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1059

سوال

(60) قربانی کی کھال کا صحیح مصرف اہل حدیث کے نقطہ نظر سے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین  اس مسئلہ کے بارے میں کہ چرم قربانی کا مصرف کون لوگ ہیں۔اور زمانہ نبوت میں چرم قربانی کن کو دیا جاتا تھے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اخبار ''الاعتصام''لاہور مورخہ 10 صفر سن 1374عیسوی میں قربانی کی کھال کے مصرف پر ایک سوال کا جواب نظر سے گزرا جو مسلک اہل حدیث کے مخالف ہونے کے علاوہ ناقص اور تقریب میں غیر تام بھی ہے۔کیونکہ مصرف کا ایک ہی حصہ بیان کیا گیا ہے۔یعنی صدقہ کرنا اورمصرف کے دوسرے حصے سے واللہ اعلم۔کیوں بالکل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔حالانکہ دوسرا حصہ مصرف کا عہد نبوی ﷺ میں زیادہ تر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا معمول بہ  تھا۔جو بقول خود صحابہ حدیث صحیح میں ہے۔

ان الناس يتخذون الا سقية من ضحايا هم و يحملون فيها الورك (بخاری ۔مسلم۔مختصر)

یعنی صحابہ کرام قربانی کی کھال سے مشکیزے بنا کر استعمال کرلیتے تھے۔اور اُن میں چربی پگھال کر رکھتے تھے۔اوردوسری قولی حدیث میں ہے۔

واستمتعو ا بجلودها ولا تبيعوها (امام احمد)

یعنی قربانی کی کھال سے (اپنی ضروریات میں)فائدہ اُٹھا کر لیاکرو۔بیچو مت۔

پھر اس ناقص جواب کی ایک سند کا منتقیٰ وغیرہ کا بلا پتہ حوالہ دیا ہے۔جو کہ اس میں نہیں مل سکتا او دوسری سند بخاری کی جو کہ ایک خاص واقعہ ہے۔جس کو قائدہ کلیہ بنا دیا گیا ہے۔لہذا نہ تو یہ تقریب تام ہے۔نہ جواب باصواب۔یہ جملہ بھی(کہ''یہ فقراء مقامی پر ظلم ہے۔'')غلط ہوا۔جبکہ بخاری ۔مسلم۔اور امام احمد کی روایات سے ثابت ہوا کہ کھال سے مشکیزے بنا لیتے تھے۔صدقہ نہیں کرتے تھے۔تو کیا صحابہ کرام بھی فقراء پر ظلم کرتے تھے۔

پھر کسی ادارے کو کھال دے دینے پر یہ جملہ استعمال کیا ہے۔کہ''یہ طریقہ زمانہ نبوت میں نہیں تھا۔''یہ جملہ بھی صحیح نہیں جبکہ خود جواب میں حضرت علی کا ثبوت ہے۔کہ ان کو نبی کریمﷺ نے لوگوں  پر تقسیم کرنے کیلئے اپنا وکیل مقرر کر دیا تھا۔بعینہ اسی طرح کسی ادارہ خاص کے ناظم اور مہتمم کو بھی وکیل بنا دیا جاتا ہے۔نہ یہ کہ اس کی کھال کیلئے کھال دی جاتی ہے۔لہذا یہ طریقہ زمانہ نبوت میں ثابت ہوا اور ا س کی نفی کرنا صحیح نہ ہوا۔

آخر میں دینیات کے مدارس میں مدرسین اور خدام پر خرچ کرنے پر نزلہ گرایا گیا ہے۔کہ یہ مصرف شرعی نہیں۔''بعینہ زکواۃ میں برادران احناف کرام کا مسلک ہے اور برادران اہل حدیث کرام  اس کے بالکل مخالف ہیں۔ہردوجماعتوں کے درمیان متنازعہ فیہ زکواۃ کےآٹھ مصارف میں سے مصرف فی سبیل اللہ ہے۔اول الزکر اس کو خاص بحق غازیان اسلام مقید کرتے ہیں۔اور موخر الزکر اس کو عام تمام خیراتی کاموں پر شامل گردانتے ہیں۔احناف کرام واقعہ کو قاعدہ کلیہ کا حکم دیتے ہیں۔جیسے جواب میں حکم دیا گیا ہے۔مگر اہل حدیث کرام نے اس کو عام کہا ہے۔جیسا کہ کتاب و سنت سے ظاہر ہوتا ہے۔کتاب اللہ میں ساٹھ سے ذائد آیتوں میں فی سبیل اللہ کا استعمال اپنے عام معنوں میں اس طرح مستعمل ہے۔کہ وہاں غاذیوں کے لئے ہونا محال ہے۔اگرچہ بعض جگہ ٖغاذی کے لئے بھی ہے۔الحاصل یہ کہ گویا قرآن کی اصطلاح میں یہ  لفظ عام ہی ہے۔کتاب اللہ کے بعد سنت کو دیکھیں تو بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔کہ ''فی سبیل اللہ '' کا لفظ عام مطلق ہے۔چنانچہ زکواۃ کے بارے میں سوال  کے  جواب میں روایت ہے۔

قال  رسول الله صلي الله عليه وسلم  فان الحج من سبيل الله(ابو دائود  مختصراً)

الحجة والعمرة في سبيل الله(امام احمد مختصراً)

یعنی حج اور عمرہ فی سبیل اللہ کے عموم  میں داخل ہیں۔اس لئے حج کو جانے والے پر زکواۃ خرچ کرنا جائز ہے۔(تفسیر ان  کثیر۔تفسیر جامع البیان وٖغیرہ)

یعنی لفظ فی سبیل اللہ عام ہے۔کسی خاص قسم ( مثلا فقراء) کے لئے خاص نہیں۔ بلکہ تمام خیر کے کام اس میں داخل ہیں۔ مثلا مردوں کےلئے کفن دینا۔پلیں اور قلعے۔اور مساجد کی تعمیر کرنا(حاشیہ جامع البیان)اگرچہ مجی نے اس کو صیغہ تصنیف سے بیان کیا ہے۔مگر مذکورہ بالا احادیث بحوالہ ابو دائود اور  امام احمد اور اصطلاح کتاب اللہ سے یہ تصنیف خود بذاۃ   ضعیف ہے۔ملا حظہ ہو تفسیر فتح البیان تصنیف امام اہل حدیث نواب سید صدیق حسن خان ؒ کہ لفظ فی سبیل اللہ عام  ہے۔اور جمیع وجوہ الخیر پرشامل اور حادی ہے۔

الحاصل جبکہ فرضی صدقات (زکواۃ) میں علماء محققین مخلصین سلفی اہل حدیث کا یہ مسلک عام ہے۔تو نفلی قربانی کی کھال وغیرہ میں بطریق اولی و اخریٰ مسلک عام ہے۔ ایک ہی نوع کی تخصیص کی کوئی دلیل نہ فرضی صدقات میں نہ نفلی میں ہر گز موجود نہیں۔فرضی یا نفلی صدقات میں تخصیص کرنا مقلدین کا مسلک ہو تو ہو محققین اہل حدیث کا یہ مسلک ہر گز نہیں۔

(حررہ محمد علی محی الدین لکھوی علوی مدرس بالمسجد النبوی علیٰ صاحبی الف الف الصلواۃ و التسلیمات)

(مورخہ 30 ربیع الثانی سن1374 ہجری ۔اخبار الاعتصام جلد6 ش 25)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 156-159

محدث فتویٰ

تبصرے