سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) قربانی سے متعلق مزید سوالات

  • 3393
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4627

سوال

(48) قربانی سے متعلق مزید سوالات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 1۔قربانی سب گھرو الوں کی طرف سے ہوجاتی ہے۔یا صرف کرنے والے کی طرف سے ہوتی ہے۔؟

2۔قربانی فرض ہے یا سنت؟

3۔کیا قربانی اپنے ہی ہاتھ سے ہو سکتی ہے ۔دوسرے کے زریعے نہیں؟

4۔بقر عید کو عید الاضحیٰ کیوں کہتے ہیں۔؟ اور اس کا صحیح تلفظ کیا ہے۔؟

5۔حاجی عام طور پر زمزم۔مٹی۔کھجوریں۔اور  غلاف کعبہ کے ٹکڑے بطور  تبرک لاتے ہیں۔شرعاً کیا حکم ہے۔؟

6۔کہتے ہیں حضرت اسمٰعیل ؑ کی جگہ دنبہ یا مینڈھا رکھدیا  گیا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے۔؟

7۔اہل حدیث اور  اہل ہویٰ لوگوں کی قربانی کا کیا حکم ہے۔؟

جوابات مدلل ہوں۔(محمد سعید۔ریاستی ۔کراچی شہر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب گھر والوں کی طرف سے ہو جاتی ہے۔وہ بکرا چھترا ہو یا اونٹ اورگائے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ ہمارا  یہی دستوراور تعامل ہے۔ کہ ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بکری بکرے کی قربانی دیا کرتا تھا۔بعد میں فخرو مباہات کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا۔ تو ایک ایک کی طرف سے دینے لگ  گئے۔

كنا نضحي با لشا ة الواحدة يذبحها الرجل عنهو عن اهل بيته ثم فبا هي الناس بعد ذلك فصارت مبا ها ة(موطامحمد ص216 وغیرہ عن عطاء)

یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مبارک عہد کی بات ہے۔دوسری روایات میں اس کی تصریح آگئی ہے۔

عن عطاء بن يسار قال سالت اا ايوب النصاري كيف كانت الضحايا فيكم علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم قال كانالرجل في عهد النبي صلي الله عليه وسلم يضحي با لشاة عنه و عن اهل بيت الحديث اخرجه ابن ماجه ص224 و الترمذي وصححه

حضرت عبد اللہ ابن ہشام فرماتے ہیں۔کہ  رسول اللہ ﷺ ایک ہی بکری اپنے سب گھر والوں کی طرف سے قربانی  دیا کرتے تھے۔

كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يضحي با لشاة الواحدة عن جميع اهله رواه الحاكم وقال صحهح الاسناد

احناف کے نزدیک ایک بکرا چھترا سب گھر والوں کیلئے کافی نہیں ہوتا۔ (ہدایہ ص 424جلد4)

امام ابن رشد فرماتے ہیں۔کہ یہ بطور کراہت کہتے ہیں۔یہ مطلب نہیں کہ قربانی  سب کی طرف سے ہوتی ہی نہیں۔

خالفه في ذلك ابوحنيفة والثوري علي وجه الكراهة لا علي وجه عدم الاجزاء هداية المجتهد (جلد 2 ص 434)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ کراہت کے ساتھ لیکن کہ ایک گھر کی قربانی سب کی طرف سے حنفیہ کے نزدیک بھی ہو جائے گی۔دلیل میں وہ قیاس پیش فرماتے ہیں۔

والقياس ان لا تجوز الا من واحد لا ن الا ربعة لا ن الواقعة واحدة وهي القوية (ہدایہ ص 222 جلد 4)

لیکن یہ صریح حدیث کے خلاف ہے۔لہذا اماد ان کا قیاس مموع کوئی حیثیت نہیں رکھتا تاہم اس ک علاوہ انہوں نے حسب عادۃ احادیث کی تاویلیں کر ڈالی ہیں جو سرف تاویلیں ہیں دلائل نہیں ہیں۔

امام ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ ۔رسول اللہ ﷺ کا یہی اسوہ حسنہ ایک بکری ایک شخص اور اس کے اہل بیت کے لئے کافی سمجھی جاتی تھی۔

وكان هدية رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الشاة تجزي عن الرجل وعن اهل بينه ولو كثر عددهم (زادلمعاد فصل ہدیہ ان یضحی با لمصلی ج2 ص 341)

امام خطابیؒ  فرماتے ہیں کہ (حدیث )

تقبل من محمد و ال محمد ومن امة محمد رسول الله صلي الله عليه وسلم

اس امر کی دلیل ہے کہ ایک بکری آدمی اور اس کے گھر والوں کیلیے کافی ہو جاتی ہے۔خواہ وہ کثیری ہوں۔

دليل علي ان الشاة الواحد ة تجزي عن الرجل و اهله و ان كثرو ا(وار تحفۃ الاخوری ص 358 ج2)

امام شوکانی فرماتے ہیں۔ حق یہ ہے  کہ  گھرکے افراد سو سے بھی زیادہ ہوں تو بھی ایک بکری ان سب کیلیے کافی ہے۔

والحق انها تجزي عن اهل البيت وان كانواامائة تفس او اكثر(نیل ص 120 ج5)

حضرت شاہ  ولی اللہ ؒ کا مسلک بھی یہی ہے ۔

والا ضحية مسنة من معز عن جزع من ضان في كل اهل بيت

(حجۃ اللہ البالغہ ص 24 ج 2 باب العیدین)

حقیقت یہ  ہے کہ ہمارے برادران احناف اپنے نظریہ کی وجہ سے گھاٹے میں جا ر ہے ہیں کہ گھر سارا اسی شرف اور فضیلت سے قاصر اور محروم رہے۔؟مقام حیرت ہے یہاں تک کہ صدقہ فطر میں تو گنجائش رکھی گئی تھی۔کہ چھوٹے بچے کی طرفسے بھی ''فطرانہ''اداف کیا جائے گا۔

ويخرج عن اولا وه الصغار (ہدایہ باب صدقہ الفطر ص 208 ج1)

لیکن قربانی کے سلسلے میں فتویٰ یہ ہے کہ چھوٹے  بچے کی طرف سے بھی قربانی دینا ضروری نہیں ہے۔

انه لا يجب عن ولده وهو ظاهر الر واية (ہدایہ ص 443 جلد 4)

عليه الفتوي كزافي فتاوي قاضي خان(بین السطور ہدایہ ملخصا جلد 4 ص 344)

حضرت ابو سریحہ فرماتے ہیں۔سنت کے معلوم ہو جانے کے بعد مجھے میرے خاندان نے مجھے کم عقلی پر آمادہ کیا۔حالانکہ ایک گھر والے ایک اور  دو بکریاں قربانی دیا کرتھے تھے۔اب ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوس بناتے ہیں۔

حملني اهله علي الجفاء بعد ما علمت من السنة كان اهل البيت يضحون با لشاة والشا تين والان يبخلنا هيرا ننا

(ابن ماجہ ص 234 باب من ضحی بشاۃ عن اھلہ)

غرض اسی قسم کے اعتراض پہلے بھی کیاکرتے تھے۔پر اصحاب الحدیث نے اس طعن و تشنیع کی کبھی پرواہ ن ہیں کی اورنہ کبھی کریں گے ،ان شاء اللہ تعالیٰ حجۃ الوادع میں حضورﷺ نے ازواج  مطہرات کی  طرف سے  بھی گائے قربانی دی تھی۔امام ابن حزم ؒ فرماتے ہیں۔کہ یہ حضور ﷺ کا آخری عمل ہے۔

هذا في الحجة الوداع وهوا اخر عمله عليه السلام(محلی ج 2 ص 438)

جواب نمبر 2

جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے۔واجب نہیں۔حضرت ابو بکر صدیق ۔حضرت عمر۔حضرت بلال۔حضرت ابو مسعود بدری۔ رضوان اللہ  عنہم اجمعین حضرت سعید بن المسیب۔علقمہ۔اسود۔امام ابو حنیفہ کے شیخ عطاء امام مالک۔امام احمد۔امام ابو یوسف۔امام اسحٰق بن راہویہ۔حضرت ابو ثور۔امام مزنی۔امام ابن المنزر ۔امام دائود۔و ظاہری وغیرہ رحہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

(نووی شرح صحیح مسلم۔کتاب الاضاحی و باب وقتیھا جلد2 ص 153)

امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں۔کہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ  حضرت ابو بکر صدیق ۔حضرت عمر رضوان اللہ  عنہم اجمعین کبھی کبھی قربانی نہیں کیا کرتے تھے۔کہ کہیں لوگ اسےفرض نہ تصور کر لیں۔

بل صح عنها انهما كان لا يضحيان مطلقا احيانا خشية ان يظن وجوبها (درایہ ص325 ۔تحفۃ الخودی ۔۔۔بحوالہ بہیقی)

امام ترمذی فرماتے ہیں۔امامان دین کا اسی پرعمل ہے۔کہ یہ سنت ہے واجب نہیں ہے۔اور یہی قول ہے امام ثوری اور امام ابن المبارک کا

والعمل علي هذا عند اهل العلمان الا ضحية ليست بواجبه ولكنها سنة من سنن النبي  الله صلي الله عليه وسلم  يستحب ان يعمل بها وهو قول سفيان الثوري و ابن المبارك (ترمذی ص 182 ج1)

حضرت امام ابو حنیفہؒ حضرت امام اوزاعیؒ امام ربیعہ ابو للیث  اور بعض مالکی فرماتے ہیں۔واجب ہے پر دولت مند پر امام محمد کہتے ہیں۔جو شہروں میں مقیم ہیں۔ان پر واجب ہے۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک دولت مند کی نشانی  اس کا مالک نصاب ہونا ہے۔(نووی شرح مسلم ص 153 ج2)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ!

کیا قربانی واجب ہے۔؟تو جواب دیاکہ!حضور ﷺ اور مسلمانوں نے قربانی دی۔پھر اس نے یہی سوال کیا اور آپ نے پھر وہی جواب دیا ۔کیاعقل ٹھکانے ہے۔؟حضور ﷺ اورمسلمانوں نے قربانی دی تھی۔(ترمذی ص 350 مع تحفۃ الاحوزی)

مقام عظیمت اور عبدیت کا تقاضا یہ ہے۔کہ اس بحث میں پڑے بغیر قربانی دی جایا کرے۔کیونکہ مقصد یہ ہے کہ خدا خوش ہو جائے۔اور وہ'' تولے'' بغیر سجتا ہے۔

ہاں علمی حد تک اگر آپ اس کی وضاحت ضروری چاہتے ہیں۔ تو ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ نظریہ وجوب احوط ہے۔عدم وجوب کے دلائل بیان کر کے حضرت امام شوکانی ؒ  بیان فرماتے ہیں۔مفید مطلب نہیں ہے۔آخر میں فرماتے ہیں۔ہاں ام سلمہ والی  روایت اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔کیونکہ تفویض اور تعلیق عدم وجوب پر دال ہوتی ہے۔(نیل الاوطار ص 95 ج 5)

ہمارے نزدیک ہر تعلیق اور تفویض خیار پر  مبنی نہیں ہوتی بلکہ اپنے پس منظر کے تابع ہوتی ہے۔جیسے

میں ہے۔اگر زمہ واجب ہے تو تعلیق ''عند التعمیل'' سے متعلق ہوگی۔ جیسا کہ یہاں بہر حال جو قربانی  دے سکتا ہے وہ ضرور دے۔جو غیر مستطیع ہے  نہیں دے سکتا نہ دے۔حضور ﷺ سے اس کا ترک ثابت نہیں ہے۔اگر یہ سنت ابرہیمی ہے۔تو وہ واجب تھی کیونکہ آب مامور تھے۔

اے میرے ابا  آپ کو جو حکم ہوتا ہے کر ڈالیے۔(پارہ 23 الصفت ع 3)

ہمیں حکم ہوتا ہے۔کہ حضرت ابراہیم ؑ کے طریقے کی پیروی کرو۔کیونکہ خدا نے اس سنت کو آنے والوں کیلئے بھی باقی رکھا ہے۔

وَتَرَكْنَاعَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ(پارہ نمبر 3 العمران ع 10)

''تو اس ابراہیم ؑ کے طر یقے کی پیروی کرو۔جو سب طرف سے  منہ موڑ کر صرف خدا کا ہو رہا تھا۔''

جو طریقہ رب کی طرف سے شروع ہو اس کو ''ملت'' کہا جاتا ہے۔قربانی حضرت ابراہیم ؑ کے لئے مشروع تھی۔آپ اس کے مامود تھے۔لہذا وہی  طریقہ ہمارے لئے بھی مشروع ہے اور ہم بقدر طاقت اس کی تعمیل کے پابند ہیں ۔ہاں جو نہیں دے سکتے۔اور غیر مستطیع ہیں۔وہ مستثنیٰ ہیں۔لیکن مستطیع اور دے سکنے والے کی نشانی صاحب نصاب ہونا نہیں۔بلکہ دل اور ہمت کی بات ہے۔حنفیہ کی اصطلاح کے مطابق آپ ﷺ تو کبھی مستطیع(صاحب توفیق۔صاحب نصاب)نہیں ہوتے تھے۔لیکن بات دل کی تھی۔حبیب ﷺ کے حضور نذرانہ پیش کرنا ہو پھر ''نصاب'' کے پیمانوں کا ہوش بھی رہے۔یاری نہیں گزارہ ہے۔

جواب نمبر 3

کوئی خاص مجبوری ہو مثلا زبح کرنا نہیں آتا آیا حوصلہ نہیں پڑتا اور اناڑی پن کی وجہ سے بکرے چھترے کو تکلیف  زیادہ ہونے کا اندیشہ ہو۔تو پھر دوسرے سے بھی زبح کراایا جا سکتا ہے۔جہاں تک ممکن ہو اپنے ہاتھ کے ساتھ ذبح کیا جائے۔حضور ﷺ نے زیادہ اپنے ہاتھ سے قربانی دی ہے۔ہاں ازواج مطہرات کی طرف سے بھی ذبح کیا گیا ہے۔(رواہ مسلم زبحھا بیدہ (بخاری)

حضرت خلیل اللہ نے بھی اپنے ہاتھ سے دی تھی۔

قرآن۔  ( سورۃ الصٰفٰت)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی صاحب زادیوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔(بخاری باب من زبح اضحیہ غیرہ)

معلوم ہوا کہ عورتیں بھی زبح کر سکتی ہیں۔بلکہ ہو سکے تو اس ''سنت'' کا احیا ءضرور کیا جائے۔ہاں سلیقہ یا ہمت نہ ہو تو پھر خیر ہے۔

دوسرے کو بھی ساتھ لگا سکتا ہے۔

حبیب ﷺ کے حضور ہدیہ پیش کرنا ہو۔اور پھر اپنے ہاتھ سے اور خود حاضر ہوکر پیش نہ کیا جائے بڑی بے زوقی کی بات ہے۔ہاں واقعی مجبوری امر دیگر ہے۔

جواب۔نمبر4

(نووی ج 2 ص 153)ضحیہ۔اضھاۃ۔ضحیہ۔(التنقیح حاشیہ قدوری ص 228)

اضحٰ اضحاۃ کی جمع ہوئی تو ''عید الاضحیٰ'' کے معنی ہوئے۔

''قربانیوں کی عید''(کہ اس میں جانوروں کی قربانیاں اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہیں۔)تو پھر قربانی کا یہ عمل چاشت(ضحیٰ) کے وقت شروع ہوتا ہے۔(یعنی ایک پہر دن چڑھے۔) شاید یہی وجہ تسمیہ ہے۔

جواب۔نمبر5

ماء زمزم۔(زمزم کا پانی) متبرک ہے۔(طیالسی ابواب فضائل الا مکتتہ ،والا زمنۃ ص 203 ج2)

یہ جبریل ؑ امین کا کھودا ہوا کنوا ں ہے۔اور حضرت اسمٰعیل ؑ کے پلانے کو مہیا کیا گیا تھا۔(دارقطنی)

غذا بھی ہے اور شفا بھی ۔اسے بطور تبرک لے جانا صحیح ہے۔(ترمذی)

امام شوکانیؒ لکھتے ہیں۔ یہ روایت باہر لے جانے کی دلیل ہے۔(نیل الاوطار ص75 ج5)

کھجوریں۔عجوہ مدینہ منورہ کی خاص کھجوریں ہیں۔حضورﷺ نے ان کو شفاء اور تریاق فرمایا ہے۔(ص 181 ج2)

لیکن ایک طبعی خاصیت ہے۔اس حد تک جو ان سے اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ ٹھیک ہے۔باقی رہا تبرک؟ حدیث سے ثابت نہیں۔جزبات  اور خوش فہمی الگ بات ہے۔

مٹی ۔کسی بیمار کے پھوڑا زخم ہوتا تو لعاب مبارک سے انگلی تر کر کے مٹی لگاتے۔پھر مقام مائوف پر انگلی رکھ کر یوں دعا کرتے تھے۔(مسلم باب استحاب۔ص222 ج 2 بخاری باب رقبۃ النبیﷺ)

اللہ کے نام سے  ہماری زمین کی خاک جو ہماری تھوک ہے۔ہمارے بیمار کو شفاء ہوگی۔ہماے رب کےحکم سے۔

آئمہ نے لکھا ہے۔ارض(زمین)سے مرادروئے زمین ہے فرمایا۔سرزمین دبنہ کی خاک بھی  ہو سکتی ہے۔(نووی ملخصا)

برکت ہی سہی۔بہرحال ایک خاص مقصد کی حد تک جو بہر حال مٹی لانے والوں کے سامنے نہیں ہوتا۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔زمزم کے پانی کے سوا مٹی اور کنکر غیر لے آنا وہ مناسب نہیں ہے۔امام ابو الفضل بن عبدان فرماتے ہیں۔غلاف  کعبہ کے ٹکڑے لے جانا بھی جائز نہیں۔اس کا بیچنا اور خریدنا  بھی جائز نہیں۔فرماتے ہیں۔غلاف کعبہ کی جو بھی چیز لے جائے گا۔اس کو واپس کرنا ہوگا۔امام نووی ؒ نے اس کی تایئد کرتے ہوئے اس پر یہ اضافہ بھی کیا ہے۔کہ اسی  طرح غیر حرم کی مٹی اور پتھر حرم میں لے جانا بھی جائز نہیں ہے۔امام ابن الصلاح فرماتے ہیں۔یہ بات خلیفہ وقت کی صوابدید پر ٹھری ہے تاہم اگر کہنہ ہو کر ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہو تو پھر  غلاف کعبہ کو  کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔

اصل عبارت یہ ہے۔(روضۃ الطالبین ص 168 ج3)

اس سے معلوم ہوا کہ  تقسیم کیا بھی جائے تو بطور تبرک نہیں بلکہ اس لئے کہ ضائع نہ ہو کام آجائے۔

چنانچہ حضرت ابن عباس ۔حضرت عائشہ۔اورام سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں۔کہ یہ کپڑا ( غلاف کعبہ) جس کو مل جائے وہ جنبی ہو یا حائضہ یا کوئی اور سبھی استعمال کر سکتے ہیں۔

قالوا ويليها من صارت اليد من جنب و حائض و غيرها (ايضا)

نیز فرمایا!کعبہ کی خوشبو بھی نہیں لانی چاہیے۔ہاں اپنی خوشبو لے جا کر اس سے ملا کر استعمال کر سکتا ہے۔(روضۃ الطالبین ھٍذوی ص 168 ج3)

گو ان چیزوں کوعظیم شعائر اللہ سے ایک نسبت ہے۔لیکن اس لئے نہیں کہ ان کا استحصال کیا جائے۔جذبات کی بات اور ہے۔لیکن مسئلہ کی الگ ہے۔مسئلہ یہی ہے۔کہ ان کو بطور تبرک گھر میں لا کر اپنے بت خانوں ( فضائے حرم کے مخالف فضائوں) میں لا کر بسانا ۔احترام نہیں۔بے ادبی ہے۔یا سستی بخشش اور ارزاں خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک عامیانہ اسلوب بہت سے لوگ تو ان کو ''دنیا'' بنانے کی تمنا لےکر لاتے ہیں۔گویا کہ وہ شعلہ دین کو دنیا کیلئے استعمال کر تے ہیں۔ خیال فرمایئے کہ یہ حضرات دین و ایمان کا کس قدر اس طرف کرتے ہیں۔؟حرم کی مٹی کو لا کر حرم کو گھر بنانا یوں ہے۔جیسے ابرہہ نے منعاء میں ایک جعلی ''حرم کعبہ'' بنا ڈالا تھا۔جو بہر حال برا ہے پرہیز اچھا ہے۔واللہ اعلم

انسان کو بعض مقامات سے بہت گہرا قلبی تعلق ہوتا ہے۔لیکن بعض لوگ خلو عقیدت میں ان مقامات سے جو کچھ ان میں دیا بطور''عقیدت'' لے آتے ہیں۔تاہم ہوسکتا ہے۔کہ اس قسم کے بعض حضرات کی دنیا ہی کچھ اور ہوتی ہو جو مسئلہ کی بات نہ ہو بلکہ وہ اپنے قلبی سکون کیلئے چارہ سازی کرتے ہوں۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچ جاتے ہوں۔تو حرم میں یقیناً عرصہ رہتے ہیں۔پیشاب پاخانہ کرنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔جو انتہائی دشوار بات ہے۔حضرت زجاج کے متعلق کہا جاتا ہے۔کہ وہ حرم میں پاخانہ نہیں کیا کرتے تھے۔

مگر ان تبرکات کی بھر مار کرنے والوں کے''عشق'' کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہاں جا کر سب کچھ کرتے ہیں۔اور حج ادا کرنے کے بعد وہاں سے بھاگنے کی بھی کرتے ہیں۔ان حالات میں کوئی کیسے کرے کہ یہ ٹھوس عقیدت بلا جذبات پر مبنی بات ہے۔

جواب۔نمبر 6

ابن ابی حاتم وغیرہ نے مسند احمد وغیرہ سے کچھ اس قسم کی روایات نقل کیں۔ان کی روایاتی حیثیت کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔حضرت امام ابن حزمؒ  فرماتے ہیں۔کہ یہ بات حضرت ذبیح کی جگہ مینڈھا قربان ہوا تھا باطل ہے۔

واما الاحتجاج باند فدي الذبيح بكبش فبا طل وما صح ذلك قط

(المحلی ص 430ج 7)

بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں معروف معنی میں ''اضحیہ'' جیسی قربانی والی بات ہی نہیں تھی۔تو اس سے اس کے تلابے ملانے  کی ضرورت ہی  کوئی نہیں۔(محلی ص437 ج7)

کبش ابراہیمی (منڈھے) والے واقعہ کو وہ ''کاذب ''کہتے ہیں۔

لا بالظن الكازب في كبش الذبيح(ايضا)

ترمذی کی ایک روایت میں ان ''ضحایا''(قربانیوں) کو سنت ابراہیمی کہا گیاہے۔

يا رسول الله ما هذه الاضاحي ؟ قال سنة ابيكم ابراهيم(ترمذی عن زید)

لہذا یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں ان کا کوئی مذکور نہیں تھا۔تو کیسے ٹھیک ہو  سکتا ہے۔؟یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے۔اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو ابن حزم کی اسنا د کی کوئی اہمیت نہ رہتی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہ ر وایت بالکل بیکار ہے۔اس کے دو راوی بس سبحان اللہ میں۔1۔ابو معاز حائز المجاشعی ۔امام ابو حاتم اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں۔اورامام بخاریؒ  فرماتے ہیں۔اس کی  حدیث صحیح نہیں امام زہبی فرماتے ہیں۔ کہ اس سے روایت صرف سلام بن مسکینی نے کی ہے۔(میزان) سلام قدری تھے۔(میزان)

دوسرے راوی ابو دائود وتفيحبن الحارث الا عمی صمدانی ہیں۔امام یحیٰ بن معین فرماتے ہیں۔یہ شخص  حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔(خلاصہ تہذیب الکمال) امام عقیلی فرماتے ہیں غالی رافضی تھا۔امام نسائی اورامام دارقطنی کے نزدیک متروک ہے۔امام ابو زرعہ کا ارشاد ہے۔کہ یہ شخص کسی کام کا نہیں۔امام ابن حبان فرماتے ہیں۔اس سے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔یہ  شخص واعظ بھی تھا۔اور بھکاری بھی تھا۔حضرتگ  قتادہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔(میزان ص272 ج4)

یہ حدیث ضعیف المخرج اور اس کی اسناد بعد ہی ہے۔

فالحديث ضعيف المخرج اسناد ورواه كما قال المنذري (الرواۃ ص280 ج1)

اس لئے مینڈھے کی قربانی والی  بات صرف کہانی ہے۔او ر وہ بھی اسرائیلی در اصل یہ ساری خرابی فذبنه بذبح عظيممیں ذبیحۃ  کی تعین کرنے کی زمہ داری لینے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔حالانکہ یہ کچھ  ضروری نہیں ہے۔ کتاب و سنت جب یہ پردہ نہیں اُٹھاتے تو پھر دوسری سب ٹامک ٹویئاں والی بات ہے۔جس طرح حضرت سارہ کو بہن کہنے کے اسباب متعین کرنے کی زمہ داری لینے کی وجہ سے بخاری کی روایت کا حال ہوا ہے۔وہی یہاں ہو رہا ہے۔بہر حال وہ ''ذبح عظیم''صرف مینڈھا نہیں  ہوسکتا۔کیونکہ یہ ایک عام شے ہے۔معلوم ہوتا ہے وہ کچھ اور حقیقت ہے۔جو ذبیح کا عظیم بدل قرار پائی ہے۔او ر وہ کیا ہے۔؟کچھ پتہ نہیں۔کیونکہ قرآن و حدیث اس بارے میں بالکل خاموش ہیں ۔اس لئے آپ بھی خاموش رہیں۔اسرائیلی روایات کی تصدیق اور تکذیب دونوں ممنوع ہیں۔(مشکواۃ)

جس زمہ داری کے بوجھ سے آپ کوآزاد رکھا گیا ہے آپ اس کو لینے کی کوشش نہ کریں۔کیونکہ زمہ داری بہت بڑی آزمائش ہے۔

جواب۔نمبر7

ان کی قربانیوں کا مستقبل نہیں رہا۔کیونکہ

﴿إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّالْعَالَمِينَ لَاشَرِيكَ لَهُۖ ﴾(پارہ نمبر 7 الانعام ع20)

ترجمہ۔بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا منا سب اللہ کےلئے ہے۔جو رب ہے سارے جہان کا اس کا کوئی شریک نہیں۔''

قربانی کی بنیادی اساس ہے۔جس سے زندگی مالا مال ہونی چاہیے۔خاص یہ کہ ذبح کے وقت مندرجہ زیل اعلان اور دعا کا بھی یہی تقاضا ہے۔کہ قربانی دینے والا اس وقت بالکل یکسو ہو ۔صرف خدا کی  طرف اس کا رخ ہو۔جہاں شرک و بدعت کا کوئی شائبہ نہ ہو دعا یہ ہے۔

اني وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض حنيفا و ما انا من المشركين(ابن ماجہ وغیرہ)

سلف اہل تفسیر تقریباً ''ذبح عظیم'' کی اس تفسیر پر نظر آتے ہیں۔کہ وہ مینڈھا تھا جس روایت جامع ترمذی کی فاضل مفتی نے تصنیف فرمائی ہے۔وہ اس  قسم کی دوسری روایات کے مفاہیم کی تایئد سے اس ''اجماع کی''سنہ'' کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔رہے ہمارے امام حافظ ابن حزم ؒ تو انھوں نے جس بناء پر محمولہ مرفوع روایت کو ''باطل''ٹھرایا ہے۔وہ اپنی جگہ شاید درست ہو۔وہ ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں۔جو مینڈھے کو اونٹ اور گائے کی قربانی سے اس طرح کی روایات سے استدلال کرتے ہوئے افضل قرار دیتے ہیں۔حافظ ابن حزم کا وقف یہ ہے کہ اونٹ  اور گائے کی قربانی افضل ہے۔

لہذا نفس اتنی بات بہر حال صحیح ہے۔ کہ ''زبح عظیم'' سے مراد مینڈھا ہے۔اورحضرت ابراہیم علیٰ نبینا علیہ الصلواۃ والسلام  کو ''فدیہ اسماعیل''کے طور پر مینڈھا ہی عطا فرمایا گیا تھا۔باقی تفصیلات کے باے میں جو چاہیں رائے رکھ لیجئے۔(ع ۔ح)

میں نے اپنا رخ اس ذات کی  طرف کر لیا جس نے آسمانوں کو پیدا کیا اورصرف اس کا ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔فقہاء فرماتے ہیں۔کہ سات حصہ داروں میں سے اگر چھ نصرانی ہوں یا صرف ایک شخص گوشت کی نیت رکھتاہو تو کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی۔

وان كان شريك السنة نصرانيا ورجلا يريد ا للحم لم يجذ عن واحد منهم

(ہدایہ ص 249 ج 4 کتاب الضحایا)

نصرانیت شریک کی واضح مثال ہے۔اور ''گوشت خور'' اور جو لوگ سراپا بدعتی یامشرک اور نرے دنیا دار ہوں ۔ان کی قربانی کے سلسلے میں کیسے اطمینان ہو سکتا ہے۔

خود حضور ﷺ نے بھی اپنی امت کی طرف سے جو قربانی دی تھی۔اس میں بھی یہ شرط رکھی۔

من شهد لك با لتوحيد(مسند احمد)

کہ جو موحد ہو۔معلوم ہوا جو موحد او ر بندہ حیف نہیں بلکہ ہرجائی ہے اس کی طرف سے قربانی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس کی طرف سے قربانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہاں دل بہلانا یا خوش فہمی کی اور  بات ہے۔بہر حال انھیں سب سے پہلے بدعات اور شرکیہ رسومات سے توبہ کرنا چاہیے۔ورنہ قربانی کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے۔واللہ اعلم۔(اخبار الاعتصام سن 1974ء)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 112-125

محدث فتویٰ

تبصرے