سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) کیا اونٹ گائے میں قربانی کا ایک حصہ ایک بکر ی کا حکم رکھتا ہے۔؟

  • 3387
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1591

سوال

(42) کیا اونٹ گائے میں قربانی کا ایک حصہ ایک بکر ی کا حکم رکھتا ہے۔؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اونٹ گائے میں قربانی کا ایک حصہ ایک بکر ی کا حکم رکھتا ہے۔؟

کیا ایک حصہ قربانی سب اہل خانہ کی طرف کافی ہے۔اورثواب میں مستقل جانور کے برابر ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب۔ 1

عن ابن عياس ان النبي  صلي الله عليه وسلم اقاه رجل فقال ان علي بدنة وانا موسر ولا اجدها فا شتر يها فا مره صلي الله عليه وسلم ان يبتاع سبع شياه فيذ بهن رواه ابن ما جه و احمد منتقي باب ان البدنة من الابل والبقر عن سبع شياه وبالعكس

(ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا میرے زمہ ایک بدنہ(اُونٹ یا گائے کی قربانی) ہے اور میں صاحب وسعت ہوں۔لیکن بدنہ (اُونٹ یا گائے کی قربانی)  ملتی نہی جو خریدلوں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا!سات بکریاں خرید کر زبح کردے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک گائے یا اونٹ سات بکریوں کے قائم مقام ہے اور اس حدیث میں اگرچہ ضعف ہے۔کیونکہ اس میں عطا خراسانی راوی ہے۔جو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتا ہے۔لیکن ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فتویٰ اس حدیث کے موافق ہے۔اس لئے یہ حدیث قوی ہوگئی ہے۔

مسند احمد میں شعبہ سےر وایت ہے۔

قال سمعت ابا جمرة الضيعي قال تمتعت فتها في ناس عن ذلك فاتيت ابن عباس فسالته عن ذلك فاموني بها قال ثم انطلقت الي البيت فتمت فاتاني ات في منامي فقال عمرة متقبلة  وحج مبرور قال فا تيت ابن عباس فاخبرته با لذي رايت فقال الله اكبر الله اكبر سنة ابي القاسم صلي الله عليه وسلم  وقال في الهدي جزدر او بقرة اوشاة اوشرك في دم (مسند احمد جلد اول ص241)

یعنی شبہ کہتے ہیں۔ میں نے اب جمرہ سے سنا  اس نے کہا میں نے حج تمتع  کیا یعنی عمرہ کر کے حلال ہو کر پھر حج کا احرام باندھا لوگوں نے مجھے اس سے منع کیامیں ابن عباس کے پا آیا اورپوچھا و اُنھوں نے مجھے اس کا امرفرمایا میں بیت اللہ میں پہنچا وہاں مجھے نیند آگئی خواب میں دیکھتا ہوں ایک شخص مجھے کہتا ہے عمرہ مقبول ہے۔ اورحج اخلاص والا ہے۔ میں ابن عباس کے پاس آیااور ان کو یہ خواب سنایا توانھوں نے خوشی میں یا تعجب کے طور پر دو دفعہ اللہ اکبر کہا۔پھر کہا یہ رسو اللہﷺ کی سنت ہے۔اور قربانی کے بارے مین فرمایا ایک اونٹ ہے یا گائے یابکری ہے یا اونٹ گائے میں حصہ ہے۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فتوے میں ایک حصہ کو بکری کے قائم مقام زکر کیا ہے۔اس کے علاوہ ی جمہور کا مذہب ہے۔کہ اونٹ گائے سات بکری کے قائم مقام ہے۔صرف اختلاف اس بات میں ہے کہ اونٹ دس کی  طرف سے بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟امام اسحاق بن  راھویہ وغیرہ فرماتے ہیں۔ہوسکتا ہے۔دوسرے کہتے ہیں نہیں  ہوسکتا ۔

نیل الاوطار میں ہے۔

استدل به من قال عدل البدنة سبع شياه وهو قول الجمهور و ادعي الطحاوي و ابن رشد انه اجماع و يجاب عنها بان الخلاف في  ذلك مشهور حكاه الترمذي في سننه عن اسحاق بن راهوية و كذا في الفتح و قال هواحدي الروايتين عن سعيد بن المسيب واليه ذهب ابن خزيمة

(نیل الاوطار جلد 4 ص 33ٍ1)

جواونٹ گائے کو سات بکریوں کے برابر کہتے ہیں۔وہ ابن عباس کی حدیث مذکور سے استدلال کر تے ہیں۔او ر جمہور کا قول یہی ہے۔اور طحاوی اور ابن رشد نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ اونٹ میں اختلاف مشہور ہے۔ ترمذی نے سنن میں اسحاق بن  راہویہ سے اس کو نقل کیا ہے۔(کہ اونٹ دس کی طرف سے کافی ہے۔)فتح الباری میں بھی اس طرح ہے۔نیز فتح الباری میں ہے۔کہ سعید بن مسیب سے بھی ایک روایت دس کی ہے۔اور ابن خذیمہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔

خلاصہ

یہ کہ اس میں شبہ نہیں کہ اونٹ اور گائے کا  ایک حصہ ایک بکر ی کے قائم مقام ہے۔اب بکری کا حکم سنیے۔

عن عطا بن يسار قال سالت ابا ايوب الانصاري كيف كانت الضحايا فيكم علي عهد رسو ل الله صلي الله عليه وسلم قال كان الرجل في عهدالنبي صلي الله عليه وسلم يضحي بالشاة عيه وعن اهل بيته فيا كلون ويطعمون حتي تبا هي الناسفصار كما تري رواه ابنماجه والترمذي وصححه وعن الشعبي عن ابي ابي سرحية تحملني اهلي علي الجفاء بعد ما علمت من السنة كان اهل  البيت يضحون بالشاة والشاقين ولا ن بجنلنا جير اننا رواه ابن ماجه

(منتقی باب الاجتزاء بالشاۃ لا  اہل البیت الواحد)

عطا ءابن یسار کہتے ہیں۔میں نےابو ایوب انصاری سے دریافت کیا۔کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں تم میں قربانیاں کس طرح ہوئی تھیں۔فرمایا!آپﷺ کے زمانہ میں ایک بکر ی ایک شخص سے  اور اس ک اہل بیت سے کافی ہوتی تھی۔کھاتے اور کھلاتے یہاں تک کہ لوگ فخر کرنے لگے۔مگراب یہ حالت ہے کہ جو تو دیکھتاہے۔او شعبی ابن سریحہ سے روایت کرتے ہیں۔کہ سنت مان لینے کے بعد میرےاہل نے مجھے بے وقوفی پر آمادہ کیا۔ ایک گھر والے ایک (کبھی)دو بکریاں قربانی کرتے اب ہمارے ہمسائے ہمیں بخیل بتا تے ہیں۔

ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ ایک بکری ایک گھر کی طرف سے کافی ہے۔اور ایک حصہ بھی ایک بکری کے قائم مقام ہے۔پس وہ بھی ایک گھر کی طر ف سے کافی ہوگا۔ اس کے علاوہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے۔

علي كل اهل البيت في كل عام اضحية

 (ہر گھر والوں پر سال میں ایک قربانی ہے۔)

اور یہ بات ظاہر ہے کہ اونٹ گائے کا ایک حصہ قربانی ہے۔ پس وہ ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگا۔

نیز مشکواۃ وغیرہ میں ابن عباس سے روایت ہے کہ ہم سفرمیں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے عید لاضحیٰ آگئی۔ہم سات گائے میں اور دس اونٹ میں شریک ہوئےاور یہ بات ظاہرہے کہ سفر میں ایک گھر کے سات سات آدمی بعید ہیں۔اور یہ کسی روایت میں نہیں کہ انہوں نے گھر والوں کی  طرف سے الگ قربانی کی بلکہ اگر الگ کر سکتے تو شرکت کی ضرورت نہ تھی اس سےبھی ثابت ہوا کہ اونٹ گائے کا ایک حصہ ایک بکری کا حکم رکھتا ہے اور بکری کی طرح ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔

نیز مشکوۃ وغیرہ میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت  ہے کہ رسول اللہﷺ نے  فرمایا۔گائے بھی سات کی طرف سے ہے۔اور اونٹ بھی سات کی طرف سے ہے۔یہ ارشاد آپ ﷺ کا عام ہے۔اس میں ایک گھر کے سات آدمی کی شرط نہیں پس جیسے یہ عام ہے ویسے عام ہی رہنا چاہیے۔

نیز مشکواۃ وغیرہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حج میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں امر فرمایا کہ اونٹ گائے میں سات سات شریک ہوں نیز جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عمر حدیبیہ میں ہم نے ستر قربانیاں کیں ہر ایک میں سات سات شریک تھے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مختلف گھروں کے سات سات شریک  ہوئے۔کیونکہ ستر گھر اور ہر گھر کے جچے تلے سات سات آدمی حضر میں بھی بعید ہیں سفر میں کس طرح  تسلیم کئے جاسکتے ہیں۔؟

پس ثابت ہوا کہ اونٹ گائے کا یک حصہ ایک بکر ی کے قائم مقام ہے۔

جواب۔ 2

قربانی خون بہانے کا نام ہے۔گوشت کے کھانے کا نام قربانی نہیں۔اونٹ کا دس اور گائے کا سات کے قائم مقام ہونا یہ محض اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔او ر یہ بات ظاہر ہے کہ مستقل خون بہانا یعنی سالم جانور قربانی کرنا شرکت کی صورت میں خون بہانے سے بہتر اور افضل ہے۔

(عبد اللہ امرتسری روپڑی) (تنظیم اہل حدیث لاہور جلد17 ش 38۔39)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 102-108

محدث فتویٰ

تبصرے