سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) قربانی کا جانور خریدنے کے بعد کوئی عیب پیدا ہو جائے تو کیا حکم ہے۔؟

  • 3384
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2337

سوال

(39) قربانی کا جانور خریدنے کے بعد کوئی عیب پیدا ہو جائے تو کیا حکم ہے۔؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم مولانا حافظ عبد القادرروپڑی۔۔۔السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ

''تنظیم اہل حدیث'' میں یہ مسئلہ شائع ہوا کہ جانور کے سینگ سے ٹوپی اُتر جائے تو وہ قربانی میں جائز نہیں۔اس پر سوال یہ ہے کہ اگر جانور قربانی کیلئے کئی ماہ سے پہلے خریدا ہوا ہو اور خریدنے کے بعد سینگ کی ٹوپی اُتر جائے۔یاکوئی اور عیب پیدا ہو جائے۔تو وہ جائز ہے یا نہیں۔؟قربانی کا وقت قریب آرہاہے۔لہذا جواب سے جلد سرفراز فرمائیں۔

(اللہ بخش جالندھری چک 284)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کے بعد اگر اس میں نماز عید سے پہلے کوئی ایسا عیب پیدا ہوجائے جو قربانی سے مانع ہو تو اس کوبدل لینا چاہیے۔کیونکہ عید سے پہلے کسی عیب کا پیدا ہوجانا ایسا ہی ہے۔جیسے عید سے پہلے زبح ہونا اور حدیث میں ہے۔

ایک شخص نے غلطی سے عید سے پہلے جانور ذبح کردیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا!یہ عام گوشت کی بکری ہے۔اوراس کے عوض دوسرا جانور قربانی کرنے کا حکم فرمایا۔

نیز حدیث میں ہے جو قربانی مکہ بھیجی جائے۔اگر وہ راستے میں رہ جائے تو اسکو اسی جگہ ذبح کر دیا جائے۔علماء کرام کا فتویٰ ہے۔کہ اس کے عوض دوسرا جانور قربانی کرنا  پڑے گا۔

ایک غلط فہمی اور اُس کا ازالہ

ایک  ضعیف حدیث میں ہے کہ ایک دنبہ کی چکی بھیڑیا لے گیا نبی کریم ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ قربانی کیلئے نامزد ہونے کے بعد اگرجانور میں کوئی عیب پیدا ہو جائے۔تو کوئی حرج نہیں لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔

اول۔اس لئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

دوم۔چکی کا ہونا قربانی کی شرائط میں نہیں۔یعنی چکی نہ ہو یاچکی میں کوئی نقص واقع ہو جائے تو بھی قربانی ہو جاتی ہے۔جیسےدانت ٹوٹ جائے تو  قربانی ہوجاتی ہے۔ہاں عید پڑھنے کے بعد اگر کوئی عیب پیدا ہوجائے تو قربانی کومانع نہیں کیونکہ آیت کریمہ

﴿حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ﴾

(فقط عبدلقادر روپڑی) (تنظیم اہل حدیث 2 اپریل سن1965ء)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 101-102

محدث فتویٰ

تبصرے