سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) ذی الحج کا چاند چڑھنے کے بعد قربانی کے جانور کی اُون یا دودھ دوہنا؟

  • 3380
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1279

سوال

(35) ذی الحج کا چاند چڑھنے کے بعد قربانی کے جانور کی اُون یا دودھ دوہنا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ذی الحج کا چاند چڑھنے کے بعد قربانی کے جانور کی اُون اُتارنا یا دودھ دوہنا جائز ہے۔؟

قربانی کا جانور خرید کر اُس میں ایک اپنا حصہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

عید الاضحیٰ قریب آرہی ہے۔دو مسائل ارسال ہیں ا  ن کے  تسلی بخش جوابات ارسال فرماییں۔

1۔قربانی کی نیت سے جانور خریدا جائے۔اور زی الحج کے چاندمیں اسکی اون اتاری جائے کیا یہ جائز ہے۔اس سے قربانی میں کوئی نقص تو پیدا نہیں ہوگا۔؟

2۔کوئی شخص یک صد روپے میں قربانی کے جانور خردی لیا۔اس میں ایک حصۃ اپنا رکھ لیا ور باقی چھ باقیمت ایک سو بیس روپے چھ حصہ داراان کے پاس فروخت کر  دیئے۔گویا اپنی قربانی بھی کر لی اور دنیاوی فائدہ بھی اُٹھا لیا۔ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ترغیب ترہیب میں ہے۔ (ترغیب ترہیب ص 189)

حضرت عائشہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا! کہ بقر عید کے دن آدم کے بیٹے نے کوئی عمل نہیں کیا کہ قربانی سے زیادہ اللہ کو پیارا ہو۔اورقربانی قیامت کے دن سینگوں بالوں کھروں سمیت آئے گی۔اور خون زمین پر پڑنے سے پہلے خدا کے پاس قبولیت کے مقام میں پہنچتا ہے۔پس قربانیوں کے ساتھ دل سے خوش رہو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے بال نہیں کٹانے چاہیے۔جیسے سینگ وغیرہ کیونکہ قیامت کے دن قربانی ان چیزوں کے ساتھ آئے  گی۔ہاں اگر قربانی کا جانور بہت مدت پہلے کا خریدا ہوا ہو۔اُون اتنی بڑھ گئ ہو تو پھر بقر عید کے دن سے اتنی پہلے کاٹے کے بقر عید کے دن تک کافی بڑھ جائے تاکہ اس ھدیث کے مطابق ہو جائے اس صورت میں کاٹنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوگی اور قربانی کا جانور تکلیف سے بھی محفوظ رہے گا۔اور جواُون کاٹے وہ صدقہ کر دینی چاہیے۔ کیونکہ قربانی کے زبح ہونے سے پہلے قربانی کی کوئی شے استعال کرنا شبہ سے خالی نہیں۔

جو قربانی مکہ شریف میں بھیجی جاتی ہے۔اس کی بابت حدیث میں آیا ہے۔کہ اگر راستہ میں رہ جائے تو اس کو زبح کردو اور  لوگوں کیلئے چھوڑ دو تم اور تمہارے ساتھیوں سے کوئی نہ کھائے۔ملاحظہ ہو۔(مشکواۃ۔باب الہدائے فصل اول ص263)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شے اللہ کے  راہ والی ہو جائے وہ وقت سے پہلے استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ہاں لاچاری کی حالت میں سواری کی اجازت آئی ہے۔چنانچہ مشکواۃ کے اسی باب میں ہے۔

اركبها بالمعروف اذا الجئت اليها حتي تجد ظهرا

یعنی قربانی کے جانور پر سواری کےلئے مجبور ہوجائے تو سواری کرے یہاں تک  کے اور سواری مل جائے۔اسی بنا ء پر امام مالکؒ وغیرہ قربانی کے دودھ کی بھی اجازت نہیں دیتے۔

نیل الاوطار میں ہے۔ (نیل الاوطار جلد 4 ص 334)

یعنی قربانی کے دودھ میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔اہل بیت شافعیہ حنفیہ کہتے ہیں جب کچھ دودھ دوہے تو صدقہ کردے۔ اگر کہیں پی گیا تو اس کی قیمت صدقہ کرے ۔اورامام مالک کہتے ہیں کہ پینے کی اجازت نہیں لیکن اگر کوئی شخص پی لے تو اس پر تاوان کچھ نہیں۔

خلاصہ

یہ کہ زبح سے پہلے قربانی کی کوئی شے اپنے استعمال میں نہ لائے۔زبح کے بعد استعمال میں لا سکتا ہے۔گوشت کھا سکتا ہے۔چمڑا برت سکتا ہے۔اور اون وغیرہ چمڑے سے علیحدہ کر کے کوئی شے بنانی چاہے تو بنا سکتا ہے۔لیکن ان میں سے کسی شے کو فروخت کر کے پیسے کھانے کی اجازت نہیں۔چنانچہ حدیث میں چمڑوں وغیرہ کے فروخت کرنے سے صراحۃ منع فرمایا گیا ہے۔

2۔قربانی

نام ہے اللہ کے لئے خون بہانے اور جان دینے کا اور یہ شے واحد ہے۔اس کے حصے نہیں ہو سکتے۔اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایکشخص کی نیت گو شت کی ہو اور چھ شخصوں کی نیت قربانی کی ہو تو کسی  کی قربانی نہیں ہوگی۔کیوں کہ خون بہانے اور جان دینے کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔محض اللہ  تعالیٰ نے اپنے فضل سے خلاف قیاس ایک شے کو سات کے قائم مقام کردیاہے اور جو بات خلاف قیاس ہوتی ہے۔وہ اپنے محل پر بند رہتی ہے۔اب جو شخص قربانی کا جانور خریدتا ہے۔ اگر خریدتے وقت اس کی نیت  اس میں حصہ نہ رکھنے کی تھی۔بلکہ خیال تھا کہ یہ سارا منافع پرفروخت کر دوں گا۔پھر اس کی قیمت پڑ گئی۔مثلاً بیس روپے کا خریدا تھا۔تیس روپے قیمت پڑی یا چھ سات حصے پورے ہو گئے۔ابھی مجلس سے جدا نہیں ہوئے کہ اس کا خیال ہوا کہ ایک حصہ میں رکھ لوں تو یہ ایسا ہی ہے۔جیسے سات شخص ایک جانور خرید کر قربانی کریں۔یا ایک شخص کے گھر کا جانور تھا۔ اس میں ایک حصہ اپنا رکھ لیا۔اور اگر خریدنے کے وقت یا خریدنے کے بعد سودا ہونے سے پہلے اس کی نیت اس جانور میں حصہ رکھنے کی  ہوگئی۔تو اس کےحصے پر منافع نہ ہوا۔ اور چھ حصوں پرمنافع ہوا تو یہ تقسیم کی صورت پیدا ہو گئی۔اس لئے یہ درست نہ ہوگی۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ خالص عمل کو قبول کرتا ہے۔اس شخص کی نیت میں خلوص نہیں کیونکہ پہلے سے اس کو یہ خیال ہوتا ہے۔کہ میرے حصے کے ٹکے مجھ پ نہ پڑیں۔دوسروں سے وصول کروں۔گویا ظاہر باقی حصوں پر  منافع لگاتا ہے۔اور درحقیقت اپنا حصہ فروخت کرتا ہے۔پس ایسے شخص کے عمل میں خلل آگیا۔ اس لئے نا جائز ہے۔(تنظیم اہل حدیث لاہور جلد17 ش36)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 95-98

محدث فتویٰ

تبصرے