سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) مشینی ذبیحہ

  • 3377
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2221

سوال

(32) مشینی ذبیحہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام  کے نام پر حاصل کئے ہوئے ملک پاکستان کے ادارہ تحقیقات اسلامیہ کا جانور ذبح کرنے کے متعلق


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔جانورذبح کرنےوالے کا مسلمان ہونا اور تکبیر پڑھنا ضروری نہیں۔

2۔اسلام میں جو جانور حلال ہیں۔اگر ان کو ایسی مشینی سے ذبح کیا جائے (یعنی مشین سے جانوروں کا گلا کاٹ دیا جائے۔) جس سے  وہ فوراً مر جائے تو یہ جانورحرام نہیں ہوں گے۔ان کو حلال سمجھا جائے۔(روزنامہ مشرق لاہور مورخہ 29 ستمبر سن 1967)

مارو گھٹنا پھوڑو آنکھ

ادارہ تحقیقات اسلامیہ کے مفتی اعظم ڈاکٹرٖفضل الرحمٰن صاحب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ایک روایت نقل کرتے ہیں۔کہ چند لوگوں نے آپ ﷺ سے  پوچھا کہ ہمارے پاس کچھ لوگ گوشت لے کر آتے ہیں۔جس کے متعلق ہمیں علم نہیں ہوتا کہ اس پر اللہ کانام لیا گیا ہے یا نہیں آپﷺ نے جواب دیا کہ تم گوشت پر اللہ کا نام لو اور کھا جائو۔(روزنامہ مشرق مورخہ 19 اکتوبر سن 1967ء)

مفتی اعظم نے اس   حدیث کو جانور زبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لینے کیلئے حجت قرار دیا ہے۔

لیکن اس حدیث  پر غور کرنےسے  پتہ چلتا ہے۔کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زمانے میں مدینہ منورہ مشرکین سے پاک ہو چکا تھا۔البتہ منافقین مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔معلوم ہوتاہے کہ ان منافقین  کے دیئے ہوئے گوشت کے بارے  میں غریب لوگوں نے سمجھا کہ کہیں منافقین جانور زبح کرنے میں بھی منافقت سے نہ کام لے  رہے ہوں۔ورنہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اطہر میں جب وہی الٰہی کا نزول ہو رہا تھا۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ آپ ﷺ اور مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہا تھا۔ اگر ذبح جیسے اہم مسئلے میں کوئی اختلافی بات ہوتی تو آپﷺ کس طرح لوگوں کو اس طرح گول مول ساجواب دے سکتے تھے۔ جبکہ اسلام کے شیدائی آپﷺ کے اشاروں پر ہی عمل کرنے میں نجات اخروی سمجھتے  تھے۔ان حالات میں کس طرح یقین کیا ہے کہ ذبح کے بارے میں قرآن کریم کے واضع احکام کے ہوتے ہوئے(جن کا زکر آئے گا)نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو کوئی دوسراحکم دیا ہو۔اور پھر حدیث مذکورہ کے الفاظ واضع طور پر ثابت کر رہے ہیں۔کہ یہ حدیث جانور زبح کرنے کے بارے میں نہیں۔بلکہ ایسےگوشت کے استعمال کے متعلق ہے کہ جولوگ قابل استطاعت ہیں۔اور وہ زبح کیا ہوا گوشت ان  لوگوں کو دیتے ہیں۔جو خود جانور زبح کر کے گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے اور  ان لوگوں کومحض شک ہوکہ گوشت دینے والا شخص کہین  منافق نہ ہواوراس نے اللہ جانے گوشت پر تکبیر پڑھی بھی ہے یا  نہیں۔ایسے گوشت کو کھانے کی رسول اللہﷺ نے اجازت فرمائی ہوگی۔

اس حدیث سے ایک لفظ بھی ایسا ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ نےمسلمانوں کو جانور زبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لینے کی ہدایت فرمائی ہو۔پس ثابت ہوا کہ"ادارہ تحقیقات  اسلامیہ"کے مفتی اعظم نے یہ حدیث بے محل پیش کر کے یہ ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ جناب اسلامی  مسائل سے بالکل ہی ناقاقف ہیں اور جس منصب جلیلہ پر آپ کو جلوہ افروز کیاگیا ہے اس کے آپ اہل نہیں ہیں۔لہذا اہل حق اور صاحب بصیرت مسلمان آپ کے ایسے غلط استدلال کوکسی صورت میں بھی  تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے ۔ہاں یہ ان لوگوں کےمسلک ومذہب کے عین مطابق ہوسکتا ہے جو قرآن حکیم کی اس آیت کے مصداق ہیں۔

سوائے اس کے نہیں کہ تم پرحرام کیا گیا مردار اور خون اور گوشت سور کا اور وہ چیز کہ اللہ کے سوا کسی اورکےنام پر پکاری گئی ہو۔پس جو بھوک سے لاچار ہو جائے وہ نہ تو سرکشی کرنے والا اور نہ ہی حد سے بڑھنے والا ہو تو ایسے شخص پر کوئی گنا ہ نہیں بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

وہ اس آیت سے استدلال لے کر اور حدود اللہ کو توڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مردار اور خون سور اور غیر اللہ کے نام پر پکاری ہوئی چیز کو کھا لینا جائز سمجھتے ہوں۔اور  مسلمانوں کو محض اپنے جیسا گمراہ بنانے کی خاطر کہتے ہیں۔کہ اسلام نے تو ایسی چیزوں کے کھانے کی اجازت دے رکھی ہے۔

اہل حق جانتے ہیں۔کہ اسلام میں ایسا کوئی ضابطہ اور اصول نہیں کہ وہ کسی فرد واحد یا کسی پارٹی یا وقتی حالات کی خاطر قرآن کریم کسی واضح حکم کو بدل دے یا تبدیل کرسکے باوجود اس کے ادارہ تحقیقات اسلامیہ کے مفتی اعظم قرآن حکیم کے زیل کے واضح احکام کے ہوتے ہوئے بھی فرما رہے ہیں کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری نہیں۔اللہ تعالیٰ کے زیل کے احکام وہ فرائض ہیں جن کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہر اہل ایمان کیلئے ضروری ہے۔

ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا شرط ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ

اے  رسول ﷺ تجھ سے  پوچھتے ہیں کہ ان کیلئے کیا حلال کیا گیا ہے۔فرمایئے تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔او ر وہ جانوروں کا گوشت جو تم شکاری جانوروں کو شکار کی تعلیم دیتے ہوئے سکھائوتم ان کو سکھاتے ہو( علم )سے جو اللہ نے ہمیں سکھایا سو جس کو وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس میں سے کھائو اوراُس پر اللہ کا نام لواوراللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

پھر فرمایا!

﴿فَكُلُوامِمَّاذُكِرَاسْمُاللَّـهِعَلَيْهِإِنكُنتُمبِآيَاتِهِمُؤْمِنِينَ ﴿١١٨﴾(سورة الانعام)

پس تم کھائو اس میں سے جس(جانور) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔اگر تم اس کے احکام پر ایمان لانے والے ہو۔

مذید فرمایا کہ حج کے دنوں میں۔ (سورۃ الحج 38)

جو چوپائے اللہ نے انہیں مسلمانوں کو دئیے ہیں۔ان پرمقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں پھر ان میں خود کھائیں۔اورمحتاج فقیروں کوکھلایئں۔

اس  کے بعد فرمایا!(سورۃ الحج 36)

اور ہم نے تمہارے لئے  قربانی کے اونٹ کو اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا ہے۔تمہارے لئے ان میں فائدے بھی ہیں۔پھر ان پر اللہ کا نام کھڑا کرکے لو پھر جب وہ کسی پہلو پرگریں۔انھیں خود کھائو۔اور سوال نہ کرنے والے اور سوال کرنے والے کو کھلائو۔

جس جانور پر اللہ کانام نہ لیا گیا ہو وہ حرام ہے۔

رب کائنات ارشادفر ماتا ہے۔

﴿وَلَاتَأْكُلُوامِمَّالَمْيُذْكَرِاسْمُاللَّـهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌۗوَإِنَّالشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْۖوَإِنْأَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴿١٢١﴾

اور جس  چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہواس میں سے مت کھائو۔اور (اس کا کھانا) یہ یقیناً (اللہ) کی نافرمانی ہے۔بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں(وسوسے)ڈالتے ہیں۔تاکہ وہ تم سے جھگڑیں۔اور تم ان کی بات مانو گے تو تم بھی مشرک ہو جائو گے۔

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا!

حرام کیا گیا ہے (تم پر ) وہ جانور جس پراللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور  گلا گھٹ کر مرا ہو اور چوٹ لگ کرمرا ہو یا بلندی سے گر کر مرا ہو اور وہ جسے درندوں نے پھاڑ ڈالا ہو۔مگر جسے تم(اللہ کا نام لے کر)ذبح کر ڈالو۔اور وہ جو کسی تھان پر ذبح کیا جائے۔(المائدہ 3)

اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان واضح احکام کے ہوتے ہوئے بھی اگرکوئی اسلام کے اصولوں سے بے بہرہ شخص آیات مذکورہ بالا کے مطابق شیطان کے بہکاوے میں آکر یہ کہے کہ!جانور ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا اور تکبیر پڑھنا بھی ضروری نہیں۔تو ان حالات میں سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔کہ یہ صاحب مسلمانوں کو گمراہ اور اللہ تعالیٰ کا نافرمان بنانے پر تلا ہواہے۔ایسے شخص کے وحیل وفریب سے اپنے ایمان کو بچانا مسلمانوں  مسلمانوں کے لئے از حد ضروری ہے۔اورپاکستان کے سب سے زیادہ ہمدرد اور پاسبان صدر مملکت خداداد پاکستان فیلڈمارشل جناب محمدایوب خان صاحب ایسے شخص کوادارہ تحقیقات اسلامیہ کے اہم عہدے سے برطرف کرنے کے مطالبے کا حق ہر پاکستانی مسلمان کو حاصل ہ۔

ڈاکٹر صاحب کے غیر اسلامی نظریہ یعنی''جانور زبح کرنے والے کا مسلمان ہونا اور تکبیر پڑھنا ضروری نہیں۔'' کا جواب آپ ملاحظہ فرماچکے۔اب ہم جناب کے غیر اسلامی اجتھاد یعنی جانرع کا شین سے گلا کاٹے ہویے جھٹکے پرمختصر سی روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے کہ(البقرۃ۔173)

اے ایمان والو حرام کیا گیا تم پرمرداراور خون اورگوشت سور کا۔

گلا گھٹ کر مرا ہو اور چوٹ لگ کرمرا ہو یا بلندی سے گر کر مرا ہو اور وہ جسے درندوں نے پھاڑ ڈالا ہو۔ہر قسم کا جانور اس لئے حرام ہے۔کہ اس کا خون جسم سے خارج ہونے کی بجائے گوشت میں جزب ہو کرحلال گوشت کو حرام بنا دیتا ہے۔اور یہ گوشت سور کے گوشت کی طرح حرام ہوجاتا ہے۔اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ

تم قربانی کے اونٹ کو کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو(یعنی نحر کرو)اور جب وہ گرپڑے پھر اس کا گوشت کھائو۔(الحج 36)

اس سے بھی یہی مراد ہے۔کہ جانور کے جسم سے خون خارج کر کے استعمال میں لایا جائے۔

ذبح کے متعلق صاحب قرآن کے بتائے ہوئے اصول

بخاری میں ہے کہ حضرت جریج عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ زبح حلق پرہوتا ہے۔اور زبح لوگوں کا کاٹنا ہوتا ہے۔میں نے پوچھا کہ رگیں پیچھے  چھوڑ دی جایئں۔یہاں تک کہ تخاع کٹ جائے کہا میراگمان تو یہ نہیں ہے۔ نافع نے مجھے ابن عمر سے یہ خبر سنائی کہ انھوں نے اس کے کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔اور یہ کہا کہ ہڈی سے ورے ورے کاٹ کر چھوڑ دیا جائے۔یہاں تک کہ جانور تڑپ کرٹھنڈا ہو جائے اور ابن عباس کا بیان ہے کہ حلق کے مقام پر زبح کرنے میں اور نحر سے بھی بدن کا تمام خون نکل جاتا ہے۔رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی۔آپ ﷺ نے فرمایا۔ایسی چیز سے زبح کیا ہوا جانور جو اس کے جسم سے تمام خون کو نکال دے۔اور اس پر بسم للہ بھی پڑھی جائے تو اس کو کھا لینا چاہیے۔لیکن دانت اور ناخن سے زبح نہ کرنا چاہیے۔(صحیح بخاری پارہ 23)

طبرانی میں عبد اللہ ابن عباس روایت بیان کرتے ہیں۔کہ نبی ﷺ نے اس بات سے لوگوں کو منع فرمایا کہ جانور کاٹتے وقت اس کو نخاع تک  نہ کاٹ دیا جائے۔(کیوں کہ اس سے مغز اور جسم کا تعلق ٹو ٹ جاتا ہے۔)اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے دنوں میں منیٰ میں تمام جگہ یہ اعلان کرایا۔جانور کے زبح کی جگہ حلق اور سینہ کے درمیان ہے۔(دارقطنی)

ثابت ہوا کہاگر جانور کو زبح کرتے وقت اس کی تمام گردن پوری پوری کاٹ کر اس کے جسم کا  تعلق حرام مغز سے بالکل ختم کر دیا جائے۔تو اس سے جانور کی زندگی کی وہ کش مکش ختم ہو جاتی ہے۔جو ہر جانور اپنے آخری وقت میں کرتا ہے۔جانور کا آخری وقت میں تڑپنا اور پھر پھڑانا اس کے جسم سے خون خارج کرنے کا موجب بنتا ہے۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 90-93

محدث فتویٰ

تبصرے