سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) بھینس کی حلت کی قرآن و حدیث میں کیا دلیل ہے۔؟

  • 3373
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3260

سوال

(28) بھینس کی حلت کی قرآن و حدیث میں کیا دلیل ہے۔؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بھینس کی حلت کی قرآن و حدیث میں کیا دلیل ہے۔اور اس کی قربانی بھی ہو سکتی ہے کہ نہیں؟قربانی جائز ہو تو استدلال کیا ہے۔آپ ﷺ نے خود اجازت فرمائی ہے۔یا عمل صحابہ کرام ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے۔وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں۔

لا اجد فيها اوحي الي محرما علي طاعم يطعه الا ان يكون ميتة اودما مسفوحا

ان چیزوں کے سوا جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے۔بھینس ان میں نہیں  اس کے علاوہ عرب بھینس کو بقرہ (گائے) میں داخل سمجھتے ہیں۔(تشریح) حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا۔پس اس کی قربانی نہ سنت  رسولﷺ سے ثابت ہوتی ہے۔نہ تعامل صحابہ سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سےمانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے۔کماف البدایہ یاعموم بهيمة الانعام پر نظر ڈالی جائے۔تو حکم جواز قربانی کیلئے علت کافی ہے۔میں کہتا ہوں کہ بھینس کو بهيمة الانعام میں شمار کرنا قیاس نہیں قرآنی نصبهيمة الانعام کا لفظ عام ہے۔جس کے لئے کئی افراد ہیں گائے بکر وغیرہ تو بھینس بھی بهيمة الانعام کا ایک فرد ہے۔ بهيمة الانعام  کی قربانی منصوص ہے۔تو بھینس کی قربانی بھی  نص قرآنی سے ثابت ہوگئی باقی رہی یہ بات کہ سنت رسولﷺ سنت صحابہ نہیں ہے۔تو جواز کو مانع نہین ہے۔دیکھئے ریل جہاز سائیکل وغیرہ  کا رواج عہد نبوی ﷺ میں نہ تھا۔نہ ان کی سواری سنت رسول ﷺ ہے نہ سنت صحابہ ہے۔تاہم  یہ سب چیزیں عموم 1کے تحت آجاتی ہیں۔علماء اسلام ریل ۔موٹر سائیکل پر سوار ہوں گے یا اونٹ گھوڑے گدھے پرسوار ہوں گے۔ نیز نماز کی ازان عہد نبوی ﷺ میں بلند مکان پر پڑھی جاتی تھی۔اور عہد سلف میں مینار پر پڑھی جاتی تھی۔او ر اس وقت لائوڈ اسپیکر نہ تھا۔لیکن اب مسجدوں میں لائوڈ سپیکر نصب ہیں۔اور آذان مسجد کے اندر کہی جاتی ہے۔پہلا مسنون طریقہ ہے اوردوسرا مروجہ کو جائز کا جائے گا۔خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکر ی گائے کی قربانی مسنون ہے۔تاہم بھینس  بھینسا کی قربانی بھی جائز او ر مشروع ہے۔اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک درست نہیں۔فقط(اخبار الاعتصام لاہور جلد 26 ش 15)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 74

محدث فتویٰ

تبصرے