سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) قربانی کے ذبح کا وقت نماز عید کے بعد ہے پہلے ہر گز جائز نہیں؟

  • 3371
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 994

سوال

(25) قربانی کے ذبح کا وقت نماز عید کے بعد ہے پہلے ہر گز جائز نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کے ذبح کا وقت نماز عید کے بعد ہے پہلے ہر گز جائز نہیں؟

قربانی کے لئے دنبے اور چھترے کی عمر کتنی ہونی چاہیے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کی تحصیل زیرہ کے قریب چند کوس کےفاصلہ پر ایک گائوں ہے ۔۔بھیلے والا۔۔وہ وہاں ایک بڑے صاحب علم وتحقیق بزرگ حضرت مولنا محمد یوسف صاحب ؒتھے۔ جوشیخ الکل حضرت مولنا سید  محمد نزیر حسین دہلوی  کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔جن کی فقہ مسند اول اورفقہ حدیث پر وسیع اورگہری نظر کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے۔کہ ۔۔۔فتاویٰ نزیریہ۔۔میں بھی آپ کے بعض فتاویٰ موجووہیں۔جو حضرت میاں صاحب کے تصدیق فرمودہ ہیں۔مولانا محمد یوسف کے فتاوی ٰ کا ایک مختصر مجموعہ بھی مولنا علی محمد صاحب سعیدی (خانیوال) کے پاس مخطوطے کی شکل میں موجود ہے جو تفقیح و تحقیق کے بعد قابل اشاعت ہے۔

مولنا سعیدی نے اس مجموعہ میں سے غالباً ذولحجہ کی مناسبت سے دو مسئلوں پر مشتمل ایک مختصر تحریر ۔۔الاعتصام۔۔کے لئے ارسال فرمائی ہے۔جو موصوف کے شکریہ کے ساتھ شریک اشاعت ہے۔(ادارہ)

1۔امابعد پس مخفی نہ رہے کہ صلواۃ عید الاضحیٰ سے پہلے قربانی ذبح کرنا صحیح احادیث کی رو سے منع ہے نماز سے پہلے ذبح کرنےوالے کی قربانی نہیں ہوتی۔صحیحین کی مرفوع حدیث میں آیا ہے۔

یعنی جو نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی ذبح کرلی وہ اور قربانی کرے۔

سبل السلام میں ہے۔

ظاہر حدیث اس پر دال ہے۔ کہ قربانی کا زبح کرنا نماز کے ساتھ معلق ہے۔

جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اس نے اپنی ذات کے لئے زبح کی یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہے۔اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی ٹھیک پورےطور سے پوری ہوگئی اس شخص نے مسلمانوں کا طریقہ اختیار کیا یہ احادیث  صحیحہ دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص نمازج عید سے پہلے قربانی کرے گا اس کی قربانی ناجائز اور نا درست ہے ۔ان احادیث کے برخلاف ایک کیا ہزاروں فتوے ہوں تو وہ اس لائق نہیں کہ ان احادیث کے مقابلہ میں ان کا نام بھی لیا جائے۔

(حررہ العاجز یوسف عفی عنہ)

2۔ضان کہتے ہیں۔خلاف معز کو منتہی الارب میں۔ضان بالفتح میش خلاف معز انتہی۔مختار الصحاح میں ہے۔الضان ضد المعز حیوۃ الحیوان میں ہے۔الضان ذوات الصوف ،من الغنم انتہی صراح میں ہے۔جان میش خلاف صغر یعنی غنم میں سے پش دار کو ضان کہتے ہیں۔الحاصل ازروئے لغت لفظ ضان میش چکی دار اور میش غیر چکی دار ہر دو کو شامل ہے۔ہرمیش پر خواہ چکی رکھتی ہو۔خواہ نہ  رکھتی ہو۔لفظ ضان کااطلاق ہوتا ہے۔ اس لئے شاہ ر فیع الدین صاحب محدث دہلوی۔ترجمہ قرآن مجید میں ضان کے معنی بھیڑ لکھتے ہیں۔حدیث شریف میں ضان کے ہرجزعہ کی قربانی کرنے کی اجازت آئی ہے۔پس ضان کے ہرجزعہ کی قربانی جائز ہوئی پس بعض علماء کا ضان کے جزعہ کی قربانی کے جواب کو دنبہ پر منحصر کرنا بلادلیل ٹھرا جزعہ کی عمر کے تعین میں خواہ وہ دنبہہو خواہ چھتراعلماء دین کا اختلاف ہے۔(نیل الاوطار صفحۃ 113 ج5 میں ہے۔)

یعنی اہل لغت اور جمہور اہل علم کے نزدیک یہی مشہور ہے کہ ضان کا جزعہ وہ ہے جو ایک سال کا ہو۔بعض کہتے ہیں۔چھ ماہ کا ہوبعض کہتے ہیں۔جو سات ماہ کا ہو بعض کا خیال ہے جو دس ماہ کا ہو بعض نے کہا ہے اگر جوان ماں باپ سے پیدا ہوا ہے تو چھ ماہ کا اگر بوڑھے ماں باپ کا بچہ ہے تو آٹھ ماہ کا احتیاط اسی میں ہے۔خواہ دنبہ ہو خواہ چھترا ایک سال کی عمر کا ہونا چاہیے۔ اگر اس سے کم عمر ہو خواہ ششماہی خواہ ہفت ماہی تو عند البعض وہ بھی جائز ہے۔(حررہ العاجز یوسف عفی عنہ)

واضع رہے کہ یہ" بعض" اس میں کچھ شرطیں بھی لگاتے ہیں جیسا کہ کتب حدیث کی بعض شروح میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔اس لئے مناسب یہی ہے ایک سال سے کم عمر نہ ہو۔واللہ اعلم(خاکسار محمد عطاء للہ حنیف) (الاعتصام جلد22 ش26)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 69

محدث فتویٰ

تبصرے