سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) ایک غلط فہمی کا ازالہ

  • 3361
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1785

سوال

(16) ایک غلط فہمی کا ازالہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الاعتصام عید قربان نمبر کے مقالہ قربانی کا دینی موقف اور منکرین حدیث میں لکھا گیا ہے۔کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کی طرف سے قربانی دیتے تھے۔سوال یہ ہے کہ شیخ عبد القادر کی طر ف سے نیاز دینی کیوں منع ہے ۔(سراج الدین گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔اور آنحضرت ﷺ نے آپ کو وصیت فرمائی تھی۔کہ میری طرف سے قربانی کیا کرنا۔

سنن ابی دائود کتاب الاضاحی میں ہے۔ (عون المبعود ص 50 ج 3)

خلاصہ یہ ہے کہ اس قربانی کے متعلق سوال ہونے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوابا فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد  فرمایا تھا۔ کہ میری طرف سے ہمیشہ قربانی ذبح کیا کرنا بنا بدین میں ہمیشہ آپﷺ کی  طرف سے قربانی ذبح کرتا ہوں۔کیونکہ یہ قربانی جناب رسالت مآب ﷺ کے ارشاد اور وصیت کے موجب تھی اس لیے اس پر سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ یا کسی دوسرے بزرگ کی طرف سے نیاز دینے کا قیاس نہیں ہوسکتا۔

خود آنحضرت ﷺ کی طرف سے اب قربانی دینے کو علماء کرام نے بدعت قرار دیا ہے۔(فتاوی شیخ الاسلام کے حصہ اختیارات ص54 جلد نمبر 4 میں ہے۔)

یعنی قطعی حق یہ ہے  کہ آنحضرت ﷺ کیلئے قربانی بدعت ہے۔(مولنا عطاء اللہ حنیف لاہور اخبار الاعتصام جلد 7 ش 7 لاہور)

مولانا عبد الرئوف صاحب رحمانی جھنڈا نگری ۔عید الاضحیٰ میں جانوروں کا زبح کرنا بے رحمی نہیں آپ ﷺ جو رحمۃ اللعالمین تھے۔جانور کے ساتھ بھی رحم و کرم اور لطف و محبت کا حکم دیا کرتے تھے۔ احادیث میں

يا عمير ما فعل النغير

 کا قصہ مشہور ہے۔جہاں اس سے بچے کے ساتھ لطف اور خوش مزاجی کا ثبوت ملتا ہے۔وہاں نغٖیر چڑیا کی حالت بھی دریافت کرنے کا ثبوت ملا۔اس طرح ایک اونٹ کاواقعہ کتب احادیث میں مذکور ہے۔

1۔وہ جو کام خیرالقرون میں ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہاں اس میں خصوصیت کا احتمال ہے۔(سعیدی)

کہ ایک جگہ زخمی اونٹ بلبلانے لگا۔آپ ﷺ نے اونٹ کے مالک کا پتہ لگا کر اونٹ کے ساتھ ہمدردی کرنے اور دانہ چارہ دینے کیلئے ہدایت فرمائی ۔اس طرح ایک اورواقعہ بھی کتب احادیث میں موجود ہے۔کہ ایک صحابی کے صاحب زادے چڑیا کے بچے پکڑ لائے۔ اور سیدھے بنی کریمﷺ تک آئے حضور ﷺ نے دیکھا  کہ بچوں کی ماں سر پر منڈلا رہی ہے۔حضور ﷺ نے فورا بچوں کو چھوڑ دینے کا حکم دیا۔چنانچہ وہ بچے چھوڑ دیئے گئے۔ایک تقریری حدیث سے بلی کے ساتھ محبت و نرمی کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسو ل اللہﷺ نے بلی کا باپ کہا۔کیونکہ وہ بلی سے زیادہ محبت کرتے تھے۔حضرت  عائشہ رضی للہ تعالیٰ عنہا اکثر اپنے حصہ کا سالیدہ بلی کوکھلا دیتی تھیں۔بخاری شریف میں ہے کہ ایک بلی کے ستانے پر ہی ایک عورت کو نبی کریم ﷺ نے جہنم کی سزا خبر دی۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بڑے اجر و ثواب کا مژدہ آپ نے سنایا (بخاری) اس پر صحابہ کرام نے سوال کیا ۔تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ

ہر جاندار پررحم کرنے میں اجر ہے۔آپ ﷺ نے ہر قسم کے جاندار کو آگ میں جلانے سے منع فرمایا۔پس مچھلی وغیرہ کو آگ میں زہرہ ڈال کر بچے تماشہ دیکھتے ہیں۔ایسا نہ کرنا چاہیے۔ان سب واقعات سے نبی کریم ﷺ کی رحم دلی اور اچھے سلوک کی تعلیم کا ثبوت ملتا ہے۔اس موقع پر قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔کہ بقرہ عید کے موقع پر آپﷺ نے جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم کیوں دیا۔اس سے تو بے  رحمی اور سنگ دلی کا واضع ثبوت ملتا ہے۔جیسا کہ آریہ اور منکریں حدیث کہا کرتے ہیں۔ دراصل یہ اعتراض ان لوگوں کے دلوں میں اس لئے پیدا ہوتا ہے۔وہ خالق و مخلوق یا عبد و معبود کے درمیان جو رابطہ ہے۔اور تعلق ہے۔اس کی صحیح حقیقت سے یہ لوگ واقف ہی نہیں ہیں۔ وہ عبودیت اور بندگی کے اس زوق کو کیا سمجھیں کہ جان  آفرین کے حکم کی تعمیل کی خاطر چہیتے بیتے کی گردن پر بھی چھری چلائی جاسکتی ہے۔اور خوداپنے آپ کو بھی توپ کے دھانے کے سامنے لے جاکر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔گزارش یہ ہے کہ جس طرح ایک مریض پر ڈاکٹر عمل جراحی کرتا ہے۔تو اس کو پہلے کلو رد فارم جیسی بے ہوش کن چیز سنگھا کر بے ہوش کر دیتا ہے۔تب آپریشن کرتا ہے۔اورعضو  عضو کو کاٹ ڈالتا ہے۔اسی طرح جب مسلمان جانور کو قبلہ رخ لٹاتا ہے۔اورگلے پر چھری چلانا چاہتا ہے۔تو پہلے دو لفظی لا ہوتی نغمہ بسم اللہ ۔اللہ اکبر پڑھ کر جانور کو مست و مدہوش کردیتا ہے ۔اور  زبان حال سے یہ کہتا ہے۔کہ جس خدا نے تیرے اندر روح پھونکی آج اس نام پر اسی کے حکم سے اسی کا ایک ناچیز اور تیر ی طرح فانی بندہ روح نکالنے کا موجب بن رہا ہے۔جس طرح میں خدا کے حکم کی تعمیل کیلئے مستعد ہوں تو بھی اسی  طرح فرماں بردار ہوجا۔اس لا ہوتی نغمہ کے اثر سے تکلیف و ازیت کا احساس جاتا رہتا ہے۔خدا کے نام میں یہ تاثیر ہونا کوئی تعجب خیز امر نہیں حضرت اکبر الہٰ آبادی نے ایک عاشق کے متعلق لکھا ہے۔کہ مجموعہ سے اس کی نظر بوقت قتل لڑ گئی۔تو اس لذت و مسرت  میں اس کو قتل کئے جانے کا ائمہ ہی محسوس نہ ہوسکا چنانچہ عاشق زار کہتا ہے۔

احسا س ہی ایزا کا نہ ہوا       ۔۔۔فریاد وفغاں میں کیا کرتا

آنکھ اپنی لڑتی قاتل سے۔۔۔جس وقت تہ خنجر تھا گلا

تو اسی طرح جانور کا تعلق خدا جوڑنے اور خدا کی یاد آوری اس کی لذت و مسرت میں محو و گم ہوجانے کیلئے ی لا ہوتی نغمہ تجویز کیا گیاہے۔چونکہ اسلا م نے ہر طرح رحم دلی کا لہاظ رکھا ہے۔اس لئے پوری شدت کے ساتھ بسم اللہ ۔اللہ اکبر۔کے نغمہ سے روح کو مدہوش کرنے کے بعد ہی ذبح کرنے کی اجازت دی ہے۔فرمایا!

فَكُلُوامِمَّاذُكِرَاسْمُاللَّـهِ عَلَيْهِ

یعنی جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیاجائے اسے کھائو۔

معلوم ہوا کہ صرف جانور کی رگوں سے خون نکالنا مقصود ہی نہیں ہے۔بلکہ بسم اللہ ۔اللہ اکبر۔کہنا بھی با لفاظ دیگر اس کلو روفارم کا سنگھانا بھی ضروری ہے۔یا یوں کہا جائے کہ فوج کو میدان کارزار میں اتارنے سے پہلے فوجی بینڈ اور وطنی ترانہ کے زریعہ مست کرنا بھی ضروری ہے۔چنانچہ ان جانوروں کا گوشت کھانا منع ہے۔جو بسم اللہ۔اللہ اکبر۔پڑھے بغیر ذبح کر دیئے جاتے ہیں۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَلَاتَأْكُلُوامِمَّالَمْيُذْكَرِاسْمُاللَّـهِ عَلَيْهِ

یعنی جس جانور پر ذبح کے وقت  اللہ کانام نہ لیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو۔

آخر اس وصولی عمل کی تاکید اس قدر کیوں ہے۔ اس سے صاف سمجھ میں آسکتا ہے۔کہ اللہ نے بسم اللہ۔اللہ اکبر۔کے کلمہ میں کوئی ایسی تاثیر بھی رکھ دی ہے۔جس سے جانور کو بوقت ذبح ازیت وتکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جب اس لا ہوتی نغمہ کو سنائے بغیر ذبح کیا جاتا ہے۔تو جانور کا گوشت حرام ہو جاتا ہے۔ایک حدیث کے زریعے گوشت بے رحمی کی وجہ سے حرام کر دیا گیا ہے۔فرمایا!

ما قطع من البهيمة وهي حية فهو مية (بیہقی جلد نہم)

یعنی جانور کا جو عضو اس کے زندہ رہنے کی حالت میں اس کے جسم سے جدا کر لیا جائے تو اس ٹکڑے کا کھانا حرام ہے۔شریعت نے یہاں بھی جانوروں کے گوشت کی حرمت کی وجہ  بے رحمی اورسنگ دلی کوقرار دیاہے۔حلانکہ عرب میں اونٹ کی کوہان اوردنبہ کی چکی کاٹ کاٹ کرکھاتے رہنے کا عام دستور تھا۔بہر حال اسلام کے متعلق یہ کہنا کہ وہ بے رحمی کی تعلم دیتا  ہے بالکل بے بنیاد ہے۔اسلام نے اگرچہ زبح کی اجازت دی۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہے کہ

اذا ذبحنم فاحسو االذبيحة ويحد احد كم شغرته وليمترح ذ بيحه (بہقی جلد نہم ص250)

فرمایا کہ  کند چھری سے زبح نہ کرو بلکہ چھری کوتیز کر کے جلد زبح کر کے ان کو راحت پہنچائو۔

2۔ایسی جگہ زبح کرو جہاں دوسرے جانور کی نظر نہ پہنچ رہی ہو۔

امر رسول الله صلي الله عليه وسلم بحد اشغرة وان توادي عن ابهام(بہقی جلد نمبر 9 ص 280)

3۔جانور جب بالکل ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت کھال اُتارو۔

4۔اذا ذبح احدكم فليجتهذ

کہ جب تم جانوروں کو زبح کرنا چاہو تو اس سے پہلے سب سامان زبح درست کرلو۔

ایک واقعہ

حضورﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ زمین پرجانور کولٹا کرچھری تیز کر رہا تھا۔اورجانور کی نگاہ چھری پر جا رہی تھی۔تو حضور ﷺ نے فرمایا!

افلا قبل هذا

تم نے یہ تیاری پہلے سے کیوں نہ کرلی۔

دوسرا واقعہ

حضرت عمر نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ بکر زبح کر نے کیلئے لایا اور اس کے سامنے چھری تیز کرنے لگا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کودرہ لگایا اورفرمایا!

تویہ منظر دیکھا کر اس کی ر وح کو موت سے پہلے ہی  تکلیف دے رہا ہے یہ کام تو نے جانور لانے سے پہلے کیوں نہ کر لیا۔

ایک اور واقعہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے۔کہ ایک آدمی کو دیکھا کہ بکری زبح کرنے کے لئےلے جا رہا ہے۔بکر ی پچھڑ رہی ہے۔اور اس کو رسی میں باندھ کر زبردستی کھینچ کھینچ کر لے جا رہا ہے۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  پربھی درہ چلایا اردرہ چلانے کے بعد فرمایا!

سقها لا املك الي اطوت شوقا جميلا(بہقی جلد نمبر 9 ص281)

ایسے بے شعور آدمی جانور کو زبح خانہ میں آرام سے لے جا اور راحت سے لےجا۔ان تمام حقائق سے مذکورہ بالا الزام کی صاف تردید ہوجاتی ہے۔ثابت ہوتا ہے کہ جانور کے ساتھ اس کے زبح تک کے آداب میں آرام و راحت شریعت کو ملحوظ ہے۔پس جو لوگ اس قسم کا اعتراض کرتے ہیں۔وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں۔کہ رات دن ان سے بھی لاکھوں جرثوں کو جیوہتیاں ہوتی رہتی ہیں۔موجودہ سائنس ہے کہ ایک مربع انچ فضا میں  پائو پانی میں کروڑوں کے قریب چھوٹے چھوٹے کیڑے ہوتے ہیں۔جس کو پائوں سے روندا جاتا ہے۔کروٹوں سے مسلا جاتا ہے۔جب آپ پانی پیتے ہیں ہنڈیا پکاتے ہیں۔ گرم پانی سے غسل کرتے ہیں۔تو یہ سب تلف ہوتے رہتے ہیں۔تالابوں وغیرہ کا پانی نکال کر کھیتوں وغیرہ میں پہنچایا جاتا ہے۔مچھلیاں اور پانی کے بے شمار کیڑے تالاب کے خشک ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ہم کھٹملوں اور پسوئوں اور مچھروں کو اپنے فائدے کیلے مسل دیتے ہیں۔بیل کے زخموں سے کیڑوں کواور کروڑوں ٹڈیوں کو زہر دے کر فنا کیا جاتا ہے۔یہ رحم کے علمدار ایسے موقعوں پر بالکل خاموش نظر آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کو  تو تقویٰ درکار ہے۔گوشت پوست تو اُس کو نہیں پہنچتا ۔اسلئے قربانی کرنا بے سود ہے۔لیکن ان کا یہ خیال غلط اور شریعت کے منشاء کے خلاف ہے عید قربانی کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل اہراق دم ہے ایک ایک بال کے بدلے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔اس دن صدقات مالیہ کی کئی اہمیت نہیں ہے جوہر منیرہ  جلد 2 ص251 میں ہے۔

شراء الا ضحية بعشر در اهم خير من التصدق بالف دراهم كذا (فتاویٰ عالم گیری جلد 4 ص15)

یعنی قربانی کے جانور دس درہم خرچ کرنا ہزار درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔معلوم ہوا کہ یعنی قربانی کے دنوں میں صدقات مالیہ مطلوب نہیں بلکہ اہراق دم ہی مقصود ہے۔جو سائنسدان نباتات میں حیات کے قائل ہیں۔ان کے لہاظ سے تو ہمارے معترضین کے جیو ھتیاں میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے آپ اپنے فائدوں اور ضرورتوں کیلئے ان درختوں کو  بلا تامل کاٹتے ۔پھاڑتے اور چیرتے ہیں۔نیز دنیاوی سازوسامان تیار کر لیتے ہیں۔پس جب ایسی احساس شعور رکھنے والی چیزوں کی ایزارسانی پرکوئی جواب آپ رکھتے ہیں۔تو پیش کیجئے اوراسی کو ہماری طرف سے جواب سمجھیں۔ع

ایں گناہیت کہ ور شہر شمار نیز کنند

آخر میں عرض ہے کہ قربانی کے ایام میں صرف قربانی مقصود ہے۔صدقات مالیہ کے خرچ کو ان کا قائم مقام ٹھرانا سخت غلطی ہے۔ جیسا کہ منکرین حدیث کہا کرتے ہیں۔مقصود قربانی ہے۔اتفاق دراہم نہیں۔بعض لوگ قربانی پریہ اعتراض کرتے ہیں۔کہ جانور کوزبح کرنے سے کیا فائدہ اس کی قیمت  ادا کر دی جائے۔اوررقم کو قوم کے کسی تعمیر فنڈ میں لگا دیا جائے۔ایک شخص پانچ پانچ سو اور  ہزار ہزار روپے کے جانور خرید کر ہر سال قربانی کرتا ہے۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 51-55

محدث فتویٰ

تبصرے