السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عقیقہ اور قربانی کی شرعی حیثیت
بسلسلہ
کیا اسلام میں قربانی جائزہے۔
از مولنا محمد عبید اللہ خاں صاحب عیف لاہور
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تشکیل پاکستان کے کچھ عرصہ بعد سے ملک میں اسلام دشمن گورہوں نے آپس میں اس امر کےلئے گٹھ جوڑ کر لیا ہےاور اس کے لئے مسلسل پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ ملک میں اسلامی قانون نافذ نہ ہو۔وہ تین گروہ یہ ہیں۔1۔کیمونسٹ 2۔منکرین حدیث (پرویز پارٹی)3۔مرزائی
یہ تینوں ٹولے اسلامی نظام اور اس کی تعدی پابندیوں اوراخلاقی اصولوں سے لرزاں اوترساں ہیں ان کو قطعا ً گوارا نہیں کہ پاکستان میں کوئی ایسا نظام زندگی قائم ہو۔جو خالص کتاب و سنت پر مبنی ہو۔ان کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود صف اسلامی نظام زندگی او کتاب سنت کے ساتھ بے پنا ہ محبت رکھتے ہیں اس لئے یہ تینوں ٹولے اسلامی عقائد او احکام کابرملا انکار کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔بلکہ اسلامی عقائد و اعمال پر مختلف بہانوں سے حملہ کرتے ہیں۔ اور ان کی اہمیت گھٹانے میں کوشاں اور ان کا مذاق اڑانے میں جتے ہوئے ہین ۔پاکستان کا خواندہ طبقہ مرزائیوں کے علم کلام اور طریقہ واردات سے اب ناواقف نہیں رہا۔لیکن انہین یہ پتہ نہیں کہ کیمونسٹ اور پرویز پارٹی مرزایئوں سے بھی زیا نقصان دہ ہے۔
جن مسائل شرعیہ کو ان دونوں نے اپنی مزعومہ تحقیق اور ریسرچ کی آماجگاہ بنا رکھا ہے ان میں عقیقہ اور قربانی کے مسئلے بھی شامل ہیں۔ان میں نام نہاد محققین کی تحقیق کا ما حصل یہ ہے کہ عقیقہ جاہلی رسم ہے عید قربان کے موقعہ پر قربانی کا اہمتام کنا معاذ اللہ قومی اموال کا بے محا با ضیاع ہے۔اور قومی دولت کا یہ اسراف ان کے مطابق قومی خیانت کا ارتکاب ہے جہاں تک اس تحقیق زدہ لوگوں کے دلائل کی معقولیت کا تعلق ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ مرزائی ٹولے کی طرح ان کے ہاں بھی بس چند مغالطے اور مفروضے ہیں جنھیں نمک مرچ لگا کر پیش کرتے رہتے ہیں۔چنانچہ اسی طرح اک ایک مضمون 13 اکتوبر 1984 ء کے روز نامہ جنگ لاہور میں کیاعقیقہ دور جہالت کی رسم تھی کے عنوان سے جناب ایم اشرف صاحب اعظم کلاتھ مارکیٹ کا شائع ہوا۔جو در اصل جناب پروفیسر رفیع اللہ شہاب کے ایک انگریزی مضمو ن کا اردو ترجمہ ہے۔جو گزشتہ سال پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا تھا چونکہ اس مضمون مین عقیقہ کے عدم جواز کے بارے میں امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ایک غلط فتوی کی آڑ لے کر قربانی جیسے مسلمہ شعار اسلام اور چار ہزار سال سے رائج سنت متواتر کی اہمیت اور مشروعیت کو چیلنج کر کے ملت اسلامیہ پاکستان کے زہنوں میں تشکیک کا زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ہے اس لئے بہت سے احباب نے ہمیں اس مضمون کے تراشے اور فوٹو اسٹیٹ بھیج کر اس کا تحقیقی اور علمی جائزہ لینے کی فرمایشیں کی ہیں۔مزید برآں جنگ کے ادارتی نوٹ میں بھی اس موقف پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے۔چنانچہ پیش نظر مقالہ میں اسی مضمون کاتحقیقی اورعلمی جائزہ پیش کیاجاتا ہےواللہ اعلم
پروفیسر رفیع اللہ صاحب کے مترجم ایم اشرف صاحب لکھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں امام ابو حنیفہ نے یہ فتوی صادر فرمایا کہ لڑکے یا لڑکی کی پیدائش پرکوئی قربانی نہیں ہوگی۔(ہدائع صنائع ج 1275)
جواب۔امام ابو حنیفہ ؒ کی طرف منسوب یہ فتویٰ بوجوہ غلط ہے۔
وجہ اول یہ ہے کہ اگرچہ امام حسن بصری امام لیث بن سعد دائود ظاہر ابن حزم ابو زناد اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک عقیقہ واجب1۔ ہے۔لیکن فقہاء محدثین جمہور علماء امت اور آئمہ اہل بیت کے نزدیک عقیقہ سنت ہے ۔ملاحظہ ہو (فتح الباری ج 9 ص 507 محل ابن حزم ج 7 ص 528 وسبل السلام ج 4 ص 97 ۔اور نیل لاوطار 5 ص 150 )
ہمارے نزدیک جمہور کامذہب ہی صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ ثابتہ سے عقیقہ کا سنت ہونا متبادر ہ احادیث ملاحظہ فرمایئے۔
1۔حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے۔ہر لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ لگا ہوا ہے۔لہذا اس کی طرف سے عقیقہ کرو۔اور اس کے بال بنائو۔(صحیح بخاری باب اماطۃ لازیعن الصبی فی العقیقہ ج 2 ص 822 جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوزی ج 2 ص 362 و ابود دائود مع شرح عون المعبود ج 3 ص 66 محلی ابن حزم جلد 7 ص 524 نیل الاوطار جلد 5 ص 149۔)
2۔سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایایا ہر بچہ اپنے اپنے عقیقہ میں مرہون گروی ہوتا ہے۔اس کی ولادت کے ساتویں روز اس کا عقیقہ کیاجائے۔اور اس کا نام رکھا جائے۔(رواہ احمد والاربعہ و صحیحہ الترمذی سبل لسلام ج 4 ص 98 نیل الوطار ج 5 ص 149 وقال الترمذی ھذا حدیث حسن صحیح تحفہ الحوزی ج2 ص 324)
3۔لڑکا اور لڑکی کے عقیقہ کی تفصیل۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔سے روایت ہے رسو اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کوفرمایا۔کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنی چاہیے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں۔اس باب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ امکرز۔بریدہ۔سمرہ۔ابوہریرہ۔عبد اللہ بن عمر۔انس۔سلمان۔اور ابن عباس سے بھی احادیث منقول ہیں۔اور حضرت عائشہ کی یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔تحفہ الاھوزی شرح ترمذی ج 2 ص 362 سبل السلام شرح بلوغ المرام ج 4 ص 97 اور نیل الاوطار ج5 ص 149
4۔حضرت ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔میں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا لڑ کے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی ہوگی۔خواہ عقیقہ کے مویشی مذ کر ہو ں یا مونث دونوں جائز ہیں۔رواہ احمد والترمذی و صحیح بیل الاوطار ج5 ص 149۔عون المعبود ج 3 ص 66 وتحفۃ الاحوذی ج2 ص 362 و سبل اسلام ج 4 ص 98
اول اور دوم دونوں صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہعقیقہ سنت ثابت ہے اور سوم چہارم دونوں صحیح احادیث سے مزید یہ بھی معلوم ہو ا کہ لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ دو 2۔بکریاں۔اور لڑکی کی ولادت پر ایک بکری ذبح کرنی سنت ہے۔ہاں اعسار(مالی تنگی ترشی) کی وجہ سے لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری بھی کفایت کرسکتی ہے۔
ان احادیث صحیحہ سے وزروشن کی طرح ثابت ہوا کہ عقیقہ سنت ثابتہ ہ اور معلق ہے کہ حدیث صحیح کے مقابلہ میں کسی امام کاقوم اور فتوٰ ی نہ حجت ہے نہ قابل اعتبار کیونکہ حجت فقط کتاب سنت ہیں۔چنانچہ قرآن مجید مین ارشاد ہے ھر اگر تم کسی بات پر جھگڑ پڑو تو اس جھگڑے کو اللہ تعالیٰ اوررسول اللہﷺ ک طرف لے جائو(سورہ نساء 59)
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آئمہ کرام نے صاف لفظوں میں اپنی تقلید کے علی لرغم حدیث پر عمل کرنے کی وصیت فرمادی ہے۔
امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں۔
اذا صح الحديث فهو مذهبي(رد المختار ج 1 ص 68)
جب صحیح حدیث مل جائے و وہ حدیث ہی میرا مذہب ہے۔
2۔امام مالک ؒ فرماتے ہیں۔رسو ل اللہ ﷺ کے بعد امت میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کا قول و فتویٰ رد اور اخذ کی زد سے باہر ہو۔(حجۃ اللہ ج 1 ص 157)
3۔امام شافعیؒ فرماتے ہیں۔جو کچھ حدیث میں ہے بس میرا وہی مذہب ہے ۔ (حجۃ اللہ ج 1 ص 157)
امام احمد بن حنبل ؒ اپنی اوردوسروں کی تقلید سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔کہ احکام و مسائل کتاب و سنت سے اخز کرو۔(ایضاً)
5۔شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں۔اگر ہمیں صحیح حدیث مل جائے جو ہمارے امام کے مذہب کے خلاف ہو اور ہم اس حدیث کو چھوڑ کر اپنے امام کے قیاس و تخمین کی پیروی پر ڈٹے رہیں۔تو اس صورت میں تو کوئ شخص ہم سے زیادہ ظالم ہوگا اور نہ قیامت کے دن رب العالمین کے سامنے ہماری کوئی معذرت قبول ہوگی۔
6۔امام ابن حزم فرماتے ہیں۔
لا حجة في قول احد مع رسول الله صلي الله عليه وسلم(محلی ابن حزم ج 7 ص366 و ص 375)
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلہ میں کسی بھی اُمتی کا قول حجت نہیں۔ان تصریحات کا خلاصہ یہ یے ہ صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے بڑے سے بڑا مجتہد اور امام بھی اتھارٹی نہیں خواہ وہ امام ابو حنیفہؒ ہون یا کوئی اور صاحب خواہ ایک ہو یا سینکڑوں غرض یہ کہ چونکہ امام ابو حنیفہ کا یہ فتویٰ احادیث صحیحہ غیر منسوخہ کے سراسر خلاف ہے لہذا حجت نہیں تعجب ہے کہ پروفیسر صاحب ایک طرف تو نبی ﷺ معصوم کی احادیث صحیحہ محکمہ کا انکار کرتے ہیں۔اور دوسری طرف اپنےغلط نظریہ کی تقویت و ترویج میں غیر معصوم امتی کے ایک مشکوک فتویٰ کاسہارا لینے میں عارمحسوس نہیں کرتے۔
دوم۔اس فتوی کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے ۔امام ابو حنیفہ ؒ کو ان احادیث صحیحہ کاعلم نہ تھا ورنہ وہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر یہ غلط فتویٰ کبھی صادر نہ فرماتے۔
امام ابن حزم ؒ اس فتویٰ کا نوٹس لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ولم يصرف ابو حنيفه العقيقه فكان ماذا ؟ ليت شعري اذلم يعرفها ابو حنيفه ما هذا بنكرة فطال ما لم يعرف النن (محلی ان حزم جلد 7 ص 529)
عقیقہ والی صحیح حدیث امام ابو حنیفہؒ کے علم میں نہ تھیں اور ان کو ان احادیث صحیحہ ثابت کا علم نہ ہونا کوئی ان ہونی بات نہیں آپ کو اور بھی بہت سی سنتوں کا علم نہ تھا۔
امام شوکانی ؒ اس فتویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وهذا ان صح عنده حمل علي انها لم تبلغه الواردة في ذلك(نیل الاوطار ج5 ص 150 )
اگر واقعی امام ابو حنیفہ ؒ نے یہ فتویٰ صادرفرمایا تھا تو ان کا یہ فتویٰ مذکورہ احادیث صحیحہ سے بے خبری پر محمول کرنا چاہیے۔
ابو الحسنات عبد الحئی حنفی لکھنوی لکھتے ہیں۔
عقیقہ کے بارے میں یکثر احادیث منقول ہیں۔جو اس کی مشروعیت پردلالت کرتی ہیں۔بعض تو اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں۔وجوب نہ سہی عقیقہ کاسنت اورمستحب ہونا تو بلاشبہ ثابت ہے۔ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ کے عقیقہ کو جو مباح کہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں یہ احادیث نہیں پہنچی ہوں گی۔اوریہ قرین قیاس بھی ہے ورنہ امام ابو حنیفہ ؒ عقیقہ کا انکار نہ کرتے۔واللہ تعالیٰ اعلم
وجہ سوم عقیقہ اور علماء احناف جہاں امام مالک ؒ امام شافعی ؒ امام احمد ؒ جیسے آئمہ مجتہدین فقہاء محدثین اور جمہور امت نے امام ابو حنیفہ کے اس فتویٰ سے اختلاف کرتے ہوئے عقیقہ کو سنت قرار دیاہے۔وہاں تمام علماء نے بھی امام صاحب کے اس فتویٰ کو مسترد کر کے عقیقہ کوبعض نے سنت اور اکثر احناف نے مستحب کہا ہے۔
امام صاحب کی طرف سے اس فتویٰ کو نسبت کوچیلنج کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔یہ جھوٹ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے عقیقہ کو بدعت کہا ہے انہوں نےتو اس کے مسنون ہونے کا انکار کیا ہے ۔(حاشیہ صحیح بخاری ج 2 ص 821)
عقیقہ کو سنت قرار دیتے ہیں۔سفر سعادت بحوالہ( فتاوی عبد الحئ ص388)
فرماتے ہیں جن کے ہاں بچہ پیدا ہوتو اس کیلئے مستحب یہ ہے کہ ولادت کے ساتویں روز بچے کے بال بنائے جائیں۔اور اس کا عقیقہ ذبح کیا جائے۔جیسا کہ الجامع المحبوب میں لکھا ہے۔(رد المختار ج6 ص 236)
فرماتے ہیں کہ جس روایت کی بنیاد پر عقیقہ کو جاہلی رسم کہا گیا ہے وہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس روایت کے دو راویوں مسیب بن شریک اورعقبہ بن یقان استاد شارد دونوں کو فن اور آئمہ جرح و تعدیل نے ضعیف کہاہے۔لہذا یہ روایت اس قابل ہرگز نہین کہ اس کی وجہ سے عقیقہ کو جاہلی رسم کہا جائے علاوہ ازیں اگر عقیقہ منسوخ ہوچکا ہوتا تو آپ ﷺ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ نہ کرتے۔اور نہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین آپ کے بعد اپنی اولاد کا عقیقہ کرتے۔جیسا کہ نافع نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔اور ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ میرے والد عوہ بن زبیر اپنے لڑکے اور لڑکیوں کی طرف سے عقیقہ کیا کرتے تھے۔خلاصہ کلام یہ کہ عقیقہ کی مشروعیت اور اس کے استحباب پر متعدد احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں۔لہذا یہ ضعیف روایت ہر گز قابل اعتبار نہیں۔(التعلیق الممجد ص 291)
موصوف ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں۔لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے ذبح کرنے چاہیں تاہم استطاعت اور قدرت نہ ہونے کی صورت میں ایک پر اکتفا بھی درست ہے۔(فتاوی عبد الحئی ص398)
لکھتے ہیں بدائع الضائع والی روایت سے نفس عقیقہ کا نسخ مراد نہیں بلکہ عقیقہ کے وجوب کا نسخ مراد ہے۔کیونکہ قربانی سن1ھ میں شروع ہوگئی تھی۔اور حضرت حسن اور حسین کا عقیقہ سن3ھ اور 4 ھ میں ہوا تھا۔اسی طرح حضرت ام کرزسے بھی عقیقہ کی صحیح حدیث مروی ہے۔اور اس بی بی نے یہ حدیث صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے سنی تھیں۔اور صلح حدیبیہ سن6ھ میں ہوئی تھی۔اور رسول اللہ ﷺ کا اپنے آخری جگر گوشہ سیدناابراہیم بن محمد کا عقیقہ کرنا بھی ثابت ہے اور یہ واقع سن9ھ کاہے لہذا اگر عقیقہ منسوخ ہوگیا ہوتا جیسا کہ اس فتویٰ میں دعویٰ کیا گیا تو رسول اللہﷺ کا یہ تین عقیقے کرنا اور ام کرز کو عقیقہ کا مسئلہ بیان کرنا ناقابل فہم بات ہے۔کیونکہ ناسخ کےلئے منسوخ سے متاخر ہونا ضروری شرط ہے۔(کشف المغطا حاشیہ موطا امام مالک ص 494)
صحیح یہ ہے کہ مذہب حنفیہ میں عقیقہ مستحب ہے۔جواب سوال نمبر 1296(عزیز الفتاویٰ المعروف فتاوی دارلعلوم دیو بند ص 716ج1)
متوفی 1176 ھ رسم عقیقہ کی تحقیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔عرب اپنی اولاد کا عقیقہ کرتے تھے۔اور اس کولازم اور سنت موکدہ سمجھتے تھے۔چونکہ اس میں بہت سی مادی مدنی اور روحانی مصلحتیں کار فرما ہیں۔اس لئے آپ ﷺ نے اس کو قائم رکھتے ہوئے خود بھی اس پر عمل کیا اور امت کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی۔(حجۃ اللہ البالغہ ج 2 ص 144)
ان سات شہادتوں سے معلوم ہوا کہ خود علماء احناف کے ہاں امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ فتویٰ صحیح نہیں۔خلاصہ بحث یہ ہے کہ عقیقہ سنت ثابت ہے۔کہ بکثرت احادیث صحیحہ ثابت اس پر شاہد عدل ہیں۔سلف صالحین اور جمہور علماء امت قرنا بعد قرن اس سنت پر عمل کرتے چلے آئے ہیں۔لہذا امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ایک غلط فتوی کی آڑ میں اس کو چایلی رسم قرار دے کر منسوخ ٹھرانا نہ صرف حق وانصاف کا خون ہے۔بلکہ انکا ر حدیث کےلئے راہ ہموار کرنا ہے۔اعازنا اللہ منہ
مغالطہ نمبر 2 پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں۔اس نظریہ امام ابو حنیفہ ؒ کا عقیقہ کو منسوخ کہنے کی وجہ سے عید الاضحیٰ کے موقعہ پر قربانی کے متعلق کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
جواب۔پروفیسر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کو قربانی کی مشروعیت کے بارے میں کوئی غلظ فہمی پیدا ہوگئی ہو تو اور بات ہے۔کہ تحقیق گزیدہ حضرات نے انکار سنت کی راہ ہموار کرے کیلئے اسلام کے ان مسائل و احکام میں بھی تشکیک پیدکردینے کافیصلہ کر لیا ہے جن میں مسلمانوں کےدمیان ابتداء سے لے کر آج تک اتفاق موجود ہے ویاان حضراتکے نزدیک دین کی اصل خدمت اورملت اسلامیہ کی صحیح خیر خواہی بس یہ رہ گئی ہے۔کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طرفیقہ سے اختلافی بنا دیا جائے۔اور دین کا کوئی مسئلہ ایسا نہ چھڑا جائے جسکے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہو کہ سب مسلمانوں کے نذدیک یہ اجماعی مسئلہ ہے ورنہ حقیقت و یہ ہے کہ خوش قسمتی سے قربانی کامسئلہ بھی انہی متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔سن1 ھ کی پہلی عید الاضحیٰ سے آج تک مسلمان اس پر متفق چلے آہے ہیں اسلامی تاریخ کی چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع مسنون اور شعار اسلام میں سے ہونے می پوری امت متفق ہے اس میں آئمہ اربعہ اورفقہا محدثین متفق ہی مجتہدین متفق نطر آتے ہیں۔شعیہ او سنی متفق ملتے ہیں۔حتیٰ کہ آج کے تمام اسلامی فرقے بھی اس کی مشروعیت پراتفاق رکھتے ہیں چند تصریحات ملاحظہ فرمایئے۔
تصریح فرماتے ہیں۔
واتفقو ا ان الا ضحية مشروعة با صل الشرع الا نصاح علي مذهب الاربعة (ج1 ص 305)
ولا خوف في كونها من شرائع الدين (فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 10 ص2)
آئمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔کہ قربانی شرائع دین میں سے ہے۔
ولا خوف في كونها من شرائع الدين (نیل الاوطار ج5 ص 126)
آئمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔کہ قربانی شرائع دین میں سے ہے۔
ولا خلاف انها ن شعارالدين الالمام شرح عمدة الاحكام (ج 2 ص 170)
آئمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔کہ قربانی شرائع دین میں سے ہے۔
تمام مسلمانوں کاقربانی کی مشروعیت پر اجماع ہے۔(الفقہ علی المذہب الاربعۃ ج1 ص 714)
یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ نے قربانی کی اور تمام مسلمان کرتے رہے ہیں۔اور اس کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہوچکاہے۔ٰ(فقہ سنۃ ج3 ص 274)
ان تصریحات سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ قربانی سن موکد ہ شعار دین اور شعار اسلام میں سے ہے۔اور سن 1 ھ سے لے کر آج تک کسی اہ علم کواس کی مشروعیت کے بارے میں نہ صرف کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کی مشروعیت پر سب کااتفاق ہے۔والحمد للہ علی ذالک
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں۔امام ابن حزم نے اعلام کیا کہ قربانی کے متعلق تمام احادیث ضعیف ہیں۔
جواب۔یہ امام ابن حزم ایسے جلیل القدر امام اور محدث پر صریح بہتان عظیم ہے۔ کہ انہوں نے قربانی کے متعلق تمام احادیث ضعیف کہہ دیاہے۔ جیسا کہ ان کی دو کتاب محلی 1ابن حزن کی کتاب الاضاحی پروفیسر صاحب کے اس ادعاء کی تکزیب و تردید کےلئے شاہد عدل ہے۔۔المحلی۔کی کتاب الاضاحی ج7 ص 255 تا 388 اس وقت ہمارے سامنے ہے آپ نے ان چونتیس صفحات میں اپنے مخصوص علمی اسلوب اور محدثانہ انداز میں قربانی کے سترہ احکام و مسائل پر زور دار بحث فرمائی ہے۔اس علمی بحث میں آپ نے قربانی کے بعض مسائل میں آئمہ اربعہ اور محدثین کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا موقف علیحدہ اختیار کیا ہے۔اور اپنے موقف کے اثبات میں جا بجا احادیث صحیح سے استدلال فرمایا ہے۔پوری بحث قابل قدر اوردیدنی ہے چند مثالیں یہ ہیں۔
1۔مسئلہ۔احناف کے ہاں کھیرے مینڈھے کی طرح کیرے بکرے کی قربنای جائزہے اور جمہور علماء کے نزدیک مینڈھے اور بکرے کادودانتا ہونا ضروری ہے۔تاہم دودانتا نہ ملنے پرجمہور صرف کھیرے1 مینڈھے کی قربانی کے قائل ہیں کھیرے بکرے کی قربانی کے قائل نہیں جبکہ امام ابن حزم کی نزدیک بوقت مکررہ بھی کیرا جانور قربانی کرنا جائز نہیں۔نہ بکرا او نہ مینڈھا وہ دو2 دانت جانور کی شرط عائد کرگئے ہیں۔چنانچہ احناف اور جمہور کے خلاف حجت قائم کرتے ہیں۔صحیحین کی درج زیل احادیث صحیحہ سے استدلال کرتے ہیں۔
2۔براء بن عازب کہتے ہیں کہ میرے خالو ابو بردہ نے نماز عید سے ہلے انی قربانی ذبح کر ڈالی رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ایک قربانی اور ذبح کرو تو میرے خالو نے عرض کیا کہ حضرت اب تو میرے پاس ایک کھیری پٹھیا ہے۔جو دو بکریوں سے بڑھ کر ہے۔آپﷺ نے فرمایا۔چلو وہی ذبح کردو۔لیکن کھیرا مینڈھا2 آپ کے بعد کسی اور کیلئے کفایت نہیں کرے گا۔(محلی ابن حزم ج 7 ص 362 صحیح مسلم ج 2 ص 54 صحیح بخاری ج2 ص833 صحیح مسلم ج2 ص155)
مسئلہ نمبر 2۔امام ابو حنیفہ ؒ قربانی کوواجب کہتے ہیں۔اور رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔کہ جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کرے تو وہ ایک اورقربانی ذبح کرے ۔امام ابن حزم امام ابو حنیفہ کے اس استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے۔نفس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔(محلی جلد 7 ص 357)
مسئلہ نمبر 3۔امام ابو حنیفہ ؒ وغیرہ مسافر اور حاجی کو قربانی کی چھوٹ دیتے ہیں۔جبکہ امام ابن حذم مسافر اور حاجی کئےلئے بھی قربانی کوسنت قرار دیتے ہیں۔چنانچہ وہ امام ابو حنیفہ کے مسلک پر نکیر کرتے ہوئے اپنے موقف کے ثبوت ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث لائے ہیں۔جوصحیح بخاری میں مروی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم حجۃ الوداع سے واپسی پر سرف کے مقام پر فروکش تھیں۔تو میرے پاس گائے کا ڈھیر سارا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا یہ گوشت کیسا ہے۔تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے۔(محلی ابن حزم ج 7 آص 373 و صحیح بخاری ج2 ص 832)
لہذا ثابت ہوا کہ حاجی اور مسافر کیلئے بھی قربانی سنت ہے۔اسی طرح اور مسائل میں بہت سی صحیح احادیث لائے ہیں جنہیں اختصار کے پیش نظر قلمزد کیا جاتا ہے۔غرض یہ کہ ان پانچ احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ پروفیسر صاحب کے اس ادعا میں پشہ کے پر کے برابر بھی صداقت نہیں کہ امام ابن حزم نے قربانی کے متعلق تمام احادیث کو ضعیف کہا ہے۔ہاں آپ نے ان پانچ حدیثوں کوضرور ضعیف کہا ہے۔جن کے قائلیں وجوب نے وجوب قربانی پر استد لال کیاہے۔اور آپ ان احادیث کو ضعیف کہتے ہیں۔متفرد بھی نہیں ہیں۔دوسرے تمام محدثین شارحین حدیث اور آئمہ اربعہ جرح و تعدیل نے بھی ان احادیث کو یا تو ضعیف قرار دیاہے یا پھر وجوب کے استدلال سے اختلاف کیا ہے۔ملاحظہ ہو ۔(فتح الباری ج 10 ص 2۔3 سبل السلام ج 4 ص91 اور نیل الاوطار ج5 ص 126)
ویسے امام شوکانی کا اپنا رجحان قربانی کے وجوب کی طرف ہے۔تفصیل آگے اپنے مقام پر آرہی ہے۔
ان پانچ احادیث کو ضعیف کہنے کا مطلب یہ ہونا صحیح نہیں کہ امام ابن حزم سرے سے ہی قربانی کے قائل نہیں ۔جیسا کہ پروفیسر صاحب نے قارئین کو یہ غلط تاثر دینی کی کوشش فرمائی ہے کیوں کہ امام موصوف نہ صرف قربانی کو سنت مانتے ہیں۔بلکہ یہ ان ک نزدیک سنت حسنہ ہے فرماتےہیں۔
الاضحية سنة حسنة (محلی شروع کتاب الاضاحی ج 7 ص 357)
کہ قربانی سنت حسنہ یعنی سنت موکدہ ہے اور جمہور علماء کا بھی یہی مذہب ہے جیساکہ ندوی ج 2 ص 153 عمدۃ القاری الحنفی ج1 ص 144 اور فتح الباری ج 10 ص 2۔3۔پر مرقوم ہے۔یعنی جمہور اور امام ابن حزم کے مذہب میں صرف لفظی فرق ہے۔جمہور قربانی کو سنت موکدہ کہتے ہیں۔جبکہ امام صاحب اسی مفہوم کو سنت حسنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے امام ابن حذم کے حوالہ سے حضرت اخنفابن سلیم رضی اللہ عنہ کو گمنام شخصیت لکھا ہے۔جو صحیح نہیں کیونکہ حضرت اخنفابن سلیم صحابی ہیں۔لہذا امام ابن حزم ایسا راسخ العلم اور وسیع المطالعہ شخص انہیں کسی طرح گمنام شخصیت لکھ سکتاہے۔اصل واقعہ یہ ہے آپ نے ان کے بیٹے حبیب اخنفبن سلیم کو گمنام شخصیت لکھا ہے۔لہذا پروفیسر صاحب اور ان کے فاضل مترجم ایم اشرف صاحب اپنا ریکارڈ درست کرلیں تاکہ انہیں پھر کبھی سبکی نہ ہو۔
ان فقہا نے اپنے اپنے موقف کی تا ئید میں پیغمبر اسلام ﷺ کے صحابہ کرام کے عملی کرفدار سے بھی مدد لی ہے۔ان کے نزدیک اگر پیغمبر اسلام ﷺ صحابہ کرام کا حکم فرمایا ہوتا تو وہ کبھی اس حکم کی تعمیل میں ہچکچاہٹ نہ کرتے۔
ہمارے فاضل پروفیسر صاحب نے اپنے اس مغالطہ میں دو دعوے کئے ہیں۔1۔کچھ فقہا ایسے بھی ہیں۔جو قربانی کے قائل نہیَ2۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو قربانی کا حکم نہیں دیا تھا۔
جواب۔ان کا یہ دعوٰی کہ بعض فقہا نے قربانی کے قائل نہیں۔نرا مغالطہ اور سراسر خلاف واقعہ ہے کیوں کہ ہمارے علم و مطالعہ کے مطابق تمام فقہا اسلام قربنای کی مشروعیت کے قائل ہین اگر ان کو اپنے اس ادعا پر ناز ہے تو پھر ہمیں بھی بتلایں کہ وہ فقہا کون ہیں کتنے ہیں؟ سنی ہیں یا شیعہ ہیں۔سنی ہیں تو فقہا ء اہل حدیث میں سے ہیں یا فقہا اربعہ میں سے شما ر ہوتے ہیں۔اگر شیعہ ہین تو کون سے ہیں۔ان کا علمی چوکٹا کیساہے۔اور ان کا وہ کون سا فقہی سرمایہ ہ جس میں انہو ں نے قربانی کی مشروعیت سے انکار یا اختلاف کیا ہے۔تاکہ ہم بھی ان کی تحقیق سے روشناس ہوسکیں مگر
ہم جانتے ہیں تم کو اور تمہاری زبان کو
وعدوں ہی میں گزاروگے موسم بہار کو
یہاں اس پر اکتفا کرتے ہیں۔اس کاتفصیلی جاب دوسرے دعوی ٰ کے جوب کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے۔
یہ کہنا کہ حضور ﷺ نے صحابی کرام کو قربانی کا حخم نہیں دیا تھا بوجوہ باطل ہے۔اولاس لئے کہ یہ دعوی قرآن مجید کی نصوص صریحۃ کے خلاف ہے ثانی اس لئے کہ یہ ان احادیث کثیرہ محکمہ کےخلاف ہے۔جو کتب صحاح میں صحیح اور متصل اسانید ے ساتھ بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہیں۔جو یہ تصریح کرتی ہیں۔ کہ آپ ﷺ نے عید الاضحیٰ کی قربانی کا صحابہ کرام کو حکم دیا خود مسلسل دس سال سفر و حضر میں اس پر عمل فرمایا۔اورامت میں اس کو سنت اسلام کی حیثیت سے اجری فرمایا ثالث یہ دعوی ان احادیث مرفوعہ متصلہ کے بھی خلاف ہے جو عہد صحابہ میں قربانی کے عام رواج اور شیوع پر دلالت کرتی ہیں اب ان تینوں کی تفصیل ملاحظہ فرمایئے۔
قرآن مجید میں جس مخصوص انداز میں جہاں دوسرے مسائل زندگی کا بیان موجود ہے وہاں قربانی کی مشروعیت تاریخ اور تفصیل بھی موجود ہے۔چنانچہ سورۃ حج میں ہے۔اور ہم نے ہر ایک امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مویشیوں پر اس کا نام زکر کریں۔الحج 34
امام فخر الدین رازی ؒ 6067ھ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔کہ حجرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے کے کر ما بعد کی تمام امتوں میں قربانی مشروع چلی آرہی ہے۔اور منسک زبر کے ساتھ قربانی کے معنی میں ہے۔(تفسیر کبیر ج6 ص 232)
امام ابن کثیر 7744 اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہا ہے کہ اس کے نام قربانیاں ذبح کرنا اور خون بہانا تمام امتوں میں اک مشروع عمل چلا آرہاہے۔(تفسیر ابن کثیر ج3 ص 221)
امام شوکانی ؒ 12504ھ لکھتے ہیں۔
المنسك ههنا المصدر من نسك ينسك اذا اذبح القربان والمعني وجعلنا لكل اهل دين من الاديان ذبحا يذبحونه ود ما ير يقونه (فتح القدیر ج3 ص52)
کہ منسک یہاں نسک ینسک کامصدر ہے جس کا معنی ہے قربانی زبح کرنا اور آیت مقدسہ کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمام اہل ادیان پرقربانی ٹھرا ئی جو وہ ذبح کرتے تھے۔امام شوکانی نے بالکل تصریح کردی کہ یہاں منسک کے معنی قربانی ہی ہیں۔
شاہ عبد القادر محدث دہلوی رقمطراز ہیں۔جتنے مویشی ہیں ان کا حق یہی ہے کہ کام لے لیجئے پھر کعبے کے پاس لے جا کر نیاز چڑھا دیجئے یہ بات شزوار ہے تگو یہاں بسم اللہ ۔اللہ اکبر۔کہا اور ذبح کیا یہ نشانی ہے کہ اللہ کی نیا ز کعبے کو چڑھایا دو رہو یانزدیک موضح القرآن ص۔
شاہ صاحب نے اس مختصر تفسیر میں قربانی کی پوری حقیقت سمو کر رکھ دی ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دوہلوی م۔قربانی کے اسرار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
الذبح لا يكون قربة الابتنا الحاج (حجة الله ج1 ص 99)
یہ قربانی حاجیوں سے عملی تشابہ کیلئے ہی تو ہے۔دوسرے مقام پر مزید لکھتے
يوم الاضحي فيه تشبه بلحاج وتعرض لنفحات الله تعالي المعدة (حجة اللہ ج1 ص 99)
مکہ مکرمہ سے باہر دوسرے اطراف کے مسلمانوں کو بھی پابند کیاگیا ہے کہ وہ حاجیوں سے مشابہت پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فیضان سے مستفیض ہوں جو ان کے لئے تیار فرمایا گیا ہے۔قربانی کایہ طریقہ جس طرح پہلی امتوں کےلئے اسی طرح ہماری امت شرعیت محمدی کےلئے بھی مقرر کیاگیا ہے۔
اے محمدﷺ کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف رب العالمین کیلئے ہے۔ ا س کا کوئی شریک نہیں۔اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔اور سب سے پہلے میں سر اطاعت جھکانے والا ہوں (سورۃ انعام 162۔163)
امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں۔اللہ نے ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دے رہا ہے کہ مشرکین پ واضح کر دیں کہ تم جو ٖغیر اللہ کی نماز پڑھتے ہو۔اورغیر اللہ کے نام قربانی کرتے ہو۔اسطریق عبادت کے سخت مخالف ہوں کہ میر ی نماز بھی خالصۃ اللہ کےلئے ہے اور میری قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے۔ ( تفسرابن کثیر ج2 ص 198 وفتح القدیر ج2 ص 185)
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَوَانْحَرْ ﴿٢﴾
پس اپنے رب کے لئے نما ز پڑھ اور قربانی کر
تقریباً تمام قدیم و جدید مفسرین کے نزدیک ۔النحر۔۔سے مراد دس زوالحجہ کی قربانی ہے چنانچہ مفسر فخر الدین رازی شافعی ؒ متوفی 606ھ امام ابن کثیر 7744ھ مفسر شوکانی 1250 ھ مفسر محمود الوسی حنفی 1270ھ مفسر قرطبی مالکی 671ھ نواب سید صدیق حسن ار شیخ احمد مراغی 1945ء وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے۔ہمیں اعتراف ہے کہ مفسرین نے اس کے علاوہ اور معنی بھی کئے ہیں۔لیکن وہ صحیح نہیں ہے۔ان دلائل قاطعہ اور نصوص ساطعہ سے نہ صرف ی ثابت ہو اکہ قربانی بلا شبہ مشروع اورشعار اسلام میں سے ہے بلکہ مسئلہ قربانی کے منکرین کے اس مغالطہ کی بھی قلعی کھل گئی۔کہ قرآن میں جس قربانی کا تذکرہ ہے وہ تو صرف مکہ میں منیٰ کے میدان میں حاجی کے ساتھ خاص ہے۔ اب یہاں پر تو کوئی حج وٖغیرہکا زکر نہیں۔رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے ساری امت کو قربانی ذبح کرنے کاحکم دیا گیا ہے لیذا عید الاضحیٰ کی قربانی کا انکار اصل میں قرآن نا فہمی کی بات ہے۔اعازنا اللہ منہ
قرآن مجید کے تین آیات مقدسہ سے قربانی کا ثبوت بہم پہنچانے کے بعد اب ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں۔کہ قربانی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے امت کےلئے کیا کچھ ارشادات فرمائے ہیں۔یوں تو مسئلہ قربانی اور اس کے مفصل احکام تفسیر و حدیث کی کتابوں میں درج زیل انیس صحابہ کرام سےمروی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت بردہ۔حضرت زید بن ارقم۔حضرت عائشہ ۔حضرت ام سلمہ۔حضرت ابن عباس۔حضرت جابر بن عبد اللہ۔حضرت جبیر۔حضرت علی۔حضرت ابو درداء ۔حضرت اخنف۔بن سلیم۔حضرت بریدہ۔حضرت ابو رافع۔حضرت انس۔حضرت عبد اللہ بن عمر۔حضرت ثوبان۔حضرت ابو سعید خدری۔حضرت جندب۔حضرت عویمر بن اشقر وغیرہ رضوان اللہ اجمعین تاہم اختصار کے پیش نظر آپ ﷺ کے صرف دس فرامین مقدسہ حوالہ قرطاس کیے جاتے ہیں۔پڑھیے اور پروفیسر صاحب کو ان کی ہمہ دانی کی داد دیجئے۔
1عن زيد بن ارقم قال فال اصحاب رسول صلي الله عليه وسلم با رسول الله ما هذه الاضاحي قال سنة ابيكم ابراهيم عليه السلام (رواہ احمد و ابن ماجہ تفسیر ابن کثیر ج3 ص221 و مشکواۃ ص129 و نیل الاوطار ج5 ص 123)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا یہ قربانیاں کیا ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار ہیں۔
2۔عن عائشه رضي الله عنها ان رسول صلي الله عليه وسلم قال ما عمل ادمي من عمل يوم النحر احب الي الله من اهراق الدم الخ هذا حديث حسن غريب (تحفة الاحوزی شرح جامع الترمذی ج2 ص 352 و ابن ماجہ ص 233)
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانی کے دن کسی شخص کا کوئی عمل اللہ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ خون بہائے۔
3۔عن ابي هريره رضي الله عنه قال قال رسول صلي الله عليه وسلم من وجد سعة يضح فلا يقر بن مصلا نا (ابن ماجہ۔ص 232 ورواہ احمد ۔نیل الوطار ج5 ص 123)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔جوصاحب حیثیت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہمای عید گاہ میں نہ آئے۔
4۔حضرت برا بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے عید قربان کے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔
ان اول ما نبد ا به في يو منا هذا ان نصلي ثم نرجع فننحرمن تعله فقد اصاب سننا الخ(صحیح بخاری ج2 ص 834 و صحیح مسلم ج2 ص 154 و محلی ابن حزم ج7 ص 373)
آج کے دن ہم پہلے بنماز عید ڑھتے ہیں پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔لہذا جس نے اس طریقہ کے موافق عمل کیا اس نے ہماری سنت پالی۔
5۔حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا !
من ذبح قبل الصلواة فليعد
کہ جس نے نمازعید سے پہلے قربانی زبح کر ڈالی ہووہ دوبارہ قربانی کرے۔
6۔حضرت جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا
فليعد مكمانها اخري
کہ جس نےنماز سے قبل قربانی کر لی ہووہ اس کے بدلے دوسری قربانی کرے۔(بخاری ص 834 جلد 2)
7۔حضرت سلمان بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔کہ ایک سال قحط کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے تین دن سے شیاسہ قربانی کا گوشت کانے سے منع فرمادیا تھا۔اگلے سال جب ہم نے ہوچھا تو فرمایا ۔كلو اولطعموا وا دخرواکھاو اور کھلائو اور زخیرہ1 کرلو۔صحیح بخاری جلد 2 ص 835)اور موطا امام مالک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔(موطا ص 496)
1۔زخیرہ کرلو۔بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ابتداء میں صحابہ کی حالت نازک تھی کئی کئی دن فاقے پڑتے تھے اس لئے حضور ﷺ نے اس کو رواج دیا تھا۔لیکن یہ بات محل نظر ہے زخیرہ کرنے کی اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ اب فاقوں والی بات نہیں رہی اس سے پہلی والی امتوں میں بھی قربانی رائج تھی۔کیا وہ سب بھوکوں کر رہے تھے۔(زبیدی)
8ان اوهمر بن اشقر ذبح اضحية قبل ان يغد ويوم الاضحي وانه ذكر ذالك لرسول الله صلي الله عليه وسلم فامره ان يعود باضحية اخري (موطا امام مالکؒ ص 495)
جناب عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عید قربان کےھ دن نماز عید کو جانے سے قبل قربانی کرلی اور پھر اس بات کا زکر آپ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے دوباہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔
9۔حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا!
الاضحي يوم تضحون (تحفة الاحوزی ج 2 ص 37)
10۔عن عائشه قال رايت عليا رضي الله عنه يضحي بكبشين فقلت له ما هذا فقال ان رسول الله صلي الله عليه وسلم او صافي ان اضحي عنه فاانا اضحي عنه(ابو دائود مع شرح عون المعبود ج3 ص 50 و تحفة الاحوزی ج2 ص 354)
حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی کو وو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا۔میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو وصیت فرمائی کہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی دیتا رہوں۔چنانچہ میں آپﷺ کی طرف سے قربانی دیا کرتا ہوں۔
تلك عشره كامله وهل فيها كفاية لمن له ادني دراية
1 عن انس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم انكفاء الي كبشين اقرنين اقلحين نذبحهما بيده(ٍصحیح بخاری ج 2 ص 833)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ (عید نماز کے بعد)چتکبرے بڑے سینگوں والے دو2مینڈھوں کی طرف سے لپکے او ر ان کو اپنے ہاتھ سے قربان کیا۔
2۔عن ابن عمرقال اقام رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضمحي(تحفۃ الاحوزی ج3 ص 359)
رسول اللہﷺ مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے۔اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔
3۔عن نافع ان ابن عمر اخيره قال كان رسول اللهصلي الله عليه وسلم يذبح وينحر بالمصلي (صحیح بخاری ج2 ص 833 عون المعبود ج 3 ص 56۔58 و ابن ماجہ ص 335)
نافع کہتے ہیں۔کہ عبد اللہ بن عمر نے مجھے بتایا کہ رسول اللہﷺ عید گاہ ہی میں زبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔
عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان اذا اضحي اشتري كبشين سمينين اتر نين اصلين ثم يقول هذا عن محمد و ال محمد فيعطيهما جميها للمساكين و يا كل هووا هله منها (رواہ احمد وابن ماجه تفسیر ابن کثیر ج3 ص222)
4۔حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قربانی دیاکرتے تھے تو دو موٹے تازے سینگوں والے چتکبرے دنبے خریدا کرتے تھے۔جب نماز اور خطبہ سے فارغ ہو چکتے تو ایک دنبہ آپ ﷺکے پاس لایا جاتا جسے چھری سے خود ذبح کرتے۔پھر دوسرا پیش کیا جاتا اُسے بھی آپ ﷺہی زبح فرماتے۔اور فرماتے یہ محمدﷺ اور آل محمدﷺ کی طرف سے ہے تو ان س خود بھی کھاتے گھر والوں کو بھی کھلاتے اور مسکینوں کو بھی کھلاتے ۔
5۔عن عقبه بن عامر الجهني قال قسم النبي صلي الله عليه وسلم بين اصحابه ضحايا (صحیح بخاری ج2 ص 832)
عقبہ بن عمار جہنی سے مروی ہے نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان قربانی کے جانور تقسم فرمائے۔
6۔عن عائشه رضي الله عنها ضحي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن ازواجه بالبقر (صحیح بخاری ج2 ص 823 و محلی ابن حزم ج7 ص 373)
آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے سفر میں گائے کی قربانی کی۔
عن جابر بن عبد الله قال ضحي رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم عبد بكبشين (ابن ماجه)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن دو مینڈھے قربانی کیے۔
8عن ابي بكرة ان النبي صلي الله عليه وسلم خطب ثم نزل فدعا بكبشين فذ بحهما هذا حديث صحيح (تحفۃ الاحوزی ج2 ص 364)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔رسول اللہﷺ نے عید کا خطبہ پڑھا پھر منبر سے اترے اور دو مینڈھے منگوائے او ان کی قربانی کی۔
9 عن بريده قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم
لا يغد و يوم الفطر حتي يطعم ولا يطعم يوم الاضحي حتي يصلي فيا كل من اضحينه (رواہ احمد وترمذی و صحیح ابن حبان و سبل السلام ج2 ص 65)
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عید الفطر کے دن آپ ﷺ کچھ کھائے بغیر نماز عید کےلئے نہیں جاتے تھے۔اور عید الاضحیٰ کے دن آپ ﷺ عید گاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے تھے۔اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔
10عن ثوبان رضي الله عنه قال ذبح رسول الله صلي الله عليه وسلم ضحية ثم قال يا ثوبان اصلح لحم هذه فلم ازل اطعمه منها حتي قدم لامدينة (صحیح مسلم ج 2 ص 159)
حضرت ثوبان فرماتے ہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سفر میں اپنی قربانی ذبح فرمائی۔پھر مجھے فرمایا کہ اس قربانی کا گوشت سنبھال رکھو۔میں برابر اس کا گوشت آپ ﷺ کو کھلاتا رہا۔تاآنکہ آپ ﷺ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
1۔حضرت عقبہ بن عامر جہنی کی حدیث گزر چکی ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقعہ پر قربانی کے لئے صحابہ میں جانور تقسم فرمائے۔(صحیح بخاری ج2 ص 832 )
اور ترمذی کی حدیث میں اتنا زیادہ ہے کہ قربانی کیلئے بکریاں تقسیم فرمایئں۔(تحفۃ الاحوزی ج2 ص 356)
2۔عن البراء قال خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم في يوم نحر فقال لا يذبحن احدكم حتي يصلي (ترمذی مع تحفة الاحوزی ج2 ص 359)
حضرت براء بن عازب سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن ہمین خطبہ دیاتو فرمایا کہ نماز عید ادا کرنے سے پہلے کوئی شخص قربانی نہ دے۔(نیل الاوطارج5 ص115 و تحفۃ الاخراری ج2 ص 356)
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں۔کہ ہم ایک سفر میں رسو ل اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے۔توسفر ہی میں عید قربان آگئی۔تو ہم نے گائے میں سات سات اور اونٹ میں دس دس آدمیوں نے مل کر قربانی دی۔(رواہ ترمذی۔وصححہ و ابن ماجۃ تفسیر ابن کثیر ج3 ص 224 وتحفۃ الاحوزی ج2 ص 357)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا۔تو اسی سے کھاتے اور کھلاتے تھے۔
حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں۔میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کہ قربانی واجب ہے ؟تو انھوں نے فرمایا رسو ل اللہ ﷺ نے قربانی کی اور آپﷺ کے بعد والے مسلمانوں نے قربانی کی اورقربانی کی یاد گار جاری ہے۔(صحیح بخاری ج2 ص 833 و ابن کثیر ج3 ص 219)
کہ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں۔میں نے حضرت ابو امامہ سے سنا آپ ﷺ نے کہا ہم (یعنی صحابہ) مدینہ میں قربانیاں موٹی کرتے تھے۔اورسب مسلمان بھی یہی کرتے تھے۔
3۔عامر شعبی ف 104ھ جیسے کبیر تابعی جنہیں پانچ سو صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہے فرماتے ہیں۔(محلی ابن حزم ج 7 ص 382)
میں نے بہت سے صحابہ کو پایا ہے وہ گائے اور اونٹ میں سات سات آدمی مل کر قربانی دیتے تھے۔
4۔ابراہیم نخعی تابعی ف 96ھ فرماتے ہیں۔(محلی ج7 ص382)
رسول اللہﷺ کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات سات اجنبی حصہ داروں کی شراکت کے قائل تھے۔(صحیح بخاری ج2 ص 834)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی للہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی ذبح کریں۔
6۔حضرت عمر حضرت عثمان۔اور حضرت علی رضوان اللہ اجمعین عید الاضحیٰ کے خطبہ میں عید اور قربانی کے مسائل بیان فرمایا کرتے تھے۔(صحیح بخاری ج2 ص 835 و مسلم ج2 ص 157)(موطا امام مالک ص 495)
حضرت نافع بیان کرتے ہیں۔کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں قربانی کی نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔چنانچہ مجھے حکم دیا کہ میں حضرت کے لئے موٹا تازہ سینگ دارمینڈھا خریدوں پھر اسے عید الاضحیٰ کے روز عید اہ میں ذبح کروں۔میں نے ایسا ہی کیا پھر وہ ذبح کیا ہوا مینڈھا آپﷺ کے پاس پہنچادیاگیا۔اور آپﷺ اس دن صاحب فراش تھے۔حتیٰ مسلمانوں کے ساتھ نماز عید پر بھی شرکت نہ کر سکے تھے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نظر میں قربانی کی کس قدر اہمیت تھی۔کہ بیماری کی وجہ سے نماز عید میں شامل نہ ہوسکے۔لیکن قربانی فوت نہیں ہونے دی۔
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ اور بکثرت دوسری احادیث جو طوالت کے خوف سے چھوڑ دی ہیں۔سب کی سب اپنے مضمون میں متفق ہیں۔اور ان سے درج زیل دس نکات حاصل ہوتے ہیں۔
1۔رسول اللہ ﷺ نے اُمت کو عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم دیا۔
2۔خود وفات تک برابر دس سال اس پر عمل فرمادیا اور اپنی وفات سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میری طرف سے قربانی کرتے رہنا۔اللہ اکبر رسول اللہ ﷺ کو اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم ؑ کی سنت سے کس قدر پیار تھا۔
3۔مسلمانوں میں اس کو سنت الاسلام اور شعار دین کی حیثیت سے رواج دیا۔
4۔عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد قربانی ذبح کرنا سنت المسلمین ہے۔
5۔رسول اللہ ﷺ غریب صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم فرماتے تھے۔تاکہ وہ بھی اس سنت پر عمل درآمد کی سعادتوں سے ہمکنار ہوسکیں۔
6۔عید قربان کے دن عید گاہ سے واپسی تک کچھ نہیں کھاناچاہیئے۔اور واپس آکر اپنی قربانی کے گوشت کےساتھ کھانا تناول کرنا سنت ہے۔
7۔سفر کے دوران بھی صحابہ کرام اور رسول اللہ ﷺ قربانی ترک کرنا گوارانہ فرماتےتھے۔
8۔اونٹ کی قربانی میں سات سات حصہ داروں کی شراکت جائز ہے۔
9۔صحابہ کرام کے زمانہ میں عام قربانی کا رواج تھا۔اور ان میں قربانی کا شوق اتنا فراواں تھا۔کہ وہ اپنی قربانیوں کو خوب موٹا تازہ کرتے تھے۔گویا قربانی افزائش نسل کا سبب بن گئی۔آج بھی اس طرز عمل سے مویشیوں کی نسل میں برکت آسکتی ہے۔مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ صرف شعار اسلام پر اعتراض کرنا جانتے ہیں۔عمل کرنا نہیں جانتے۔
10۔صحابہ کرام بیماری کے با وصف قربانی فوت نہیں ہونے دیتے تھے۔لہذا ثابت ہوا کہ قربانی کے منکرین کے اس دعویٰ میں قطعاً کوئی صداقت نہیں۔کہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کو قربانی کا حکم نہیں دیا تھا۔
یہ بھی ملحوظ رہے۔کہ کوئی ایک سے ایک ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں ہے۔جو یہ بتاتی ہو کہ عید قربان کی یہ قربانی سنت رسول ﷺ نہیں ہے۔علاوہ ازیں یہ بات پھر جان لینی چاہیے۔کہ حج کےموقع پر مکہ مکرمہ میں نہ کوئی عید الاضحیٰ منائی جاتی ہے۔او ر نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پرھی جاتی ہے۔ اس لئے ان تمام احادیث میں لازماً بس اسی عید اور قربانی کا بیان ہے جو مکہ مکرمہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔
ایں راہ منزل قدس است میندیش دبیا
میل ازیں راہ خطا باشد بیں تانکنی
سطور بالا میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے قول و عمل میں سے ان چند باتوں کو زیب قرطاس بنایا گیا ہے جن سے بسہولت تام یہ معلوم ہو سکتا ہے۔کہ عہد رسالت ﷺ اور صحابہ کرام میں قربانی کا تصور کیا تھا۔اور اس پر عمل پیرا ہونے کا طریقہ کیا تھا۔یہ احادیث اصول روایت اوراصول درایت دونوں لہاظ سے اس قدر تسلی بخش ہیں۔کہ ان پر کوئی نقد و جرح ممکن نہیں۔اب پروفیسر رفیع اللہ شہاب اور ان جیسے دوسرے تحقیق گزیدہ دانشور جو آج مسئلہ قربانی کو اپنی نئی نئی تجویزوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔اور مسلمانوں کو قربانی سے متنفر کرنے کیلئے ایک نیا اختراعی تصور پیش کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔وہ یا تو ثابت کریں کہ یہ تمام احادیث جن سے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا طرز عمل واضح ہوتا ہے۔سرے سے وضعی اور خانہ ساز ہیں۔اور ان احادیث کو (معاز اللہ) فلاں مولوی نے فلاں دور میں وضع کیا تھا۔یا کسی قدیم نوشتہ سے ان کو نقل کیا تھا۔اور پھر انہیں بڑی چابک دستی کے ساتھ امام مالک۔امام شافعی۔امام احمد بن حنبل۔امام بخاری۔امام مسلم اور دیگر محدثین کے کانوں میں پھونک دیا تھا۔اور ان نیک دل آئمہ کرام نے بالاتفاق اور بے چون و چرا بغیر کسی تحقیق و تمحیص کے ان موضوع روایات کو اپنی کتابوں کی زینت بنا دیا۔بس یہ اصلیت ہے ۔موطا امام مالک کتاب الام شافعی ؒ ۔مسند احمد۔صحیح بخاری۔صحیح مسلم۔اور سنن اربعہ کی ان روایات کی مگر یہ بات ان تحقیق گزیدہ افراد سے ثابت نہ ہوسکے۔اور وہ ہرگز ثابت نہیں کر سکیں گے۔پھر ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ مسئلہ قربانی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے روشن طرز عمل کے ہوتے ہوئے ان کو یہ حق کسی نے دیا ہے کہ وہ قربانی کے متعلق اپنا بناسپتی متبادل طرز عمل ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کرتے پھریں۔
مسلم از سر بنی بیگانہ شد
باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد
مسئلہ قربانی کے متعلق فقہائے کرام کی رائے اور ان کے مذاہب مکمل شرح و بسط کے ساتھ ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔اور قربانی کی مشروعیت یعنی اس کے شرعی حکم ہونے پرتمام فقہا اسلام متفق ہیں۔مولفین صحاح ستہ نے اپنی اپنی صحیح میں قربانی کے لئے مستقل باب باندھے ہیں۔اور اسی طرح حنفی ۔مالگی۔شافعی۔حنبلی۔اور ظاہری مسلک کی کلیدی کتب میں بھی یہ اندازہ پایا جاتا ہے۔یہ کتاب کتاب الاضاحی یا کتاب الضحایا (قربانیوں کا باب) کے نام سے موسوم کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں فقہا مذاہب ان کی متد اول کتابوں میں ۔کتاب الضحایا۔کو کتاب الزبائج (ذبیحوں کا بیان) کے بعد متصل لکھا گیا ہے۔حالانکہ باب الہدی (حاجی کی قربانی کا باب) کو تمام فقہا کتاب الحج میں لائے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے۔کہ فقہا مذاہب حاجی کے علاوہ تمام مسلمانوں کے لئے عام قربانی کے بھی قائل ہیں۔اور کتاب الضحایا میں وہ اسی قربانی کے احکام درج کرتے ہیں۔اور قربانی کی اس قسم کو حج یا مکہ کے ساتھ مخصوص نہیں جانتے اگر ایسا ہوتا تو یہ باب بھی کتاب الحج کے ضمن میں مذکور ہوتا۔اس ضروری وضاحت کے بعد آئمہ مذاہب کی اراء اسلامیہ ملاحظہ فرمایئے۔
اما الوجوب فقول ابي حنيفة و محمد و زفر والحن واحدي الوواتين عن ابي يوسف (ہدایہ ج4 ص 443)
امام ابو حنیفہ۔امام محمد۔زفر۔امام حسن۔اور ایک روایت کے مطابق امام یوسف قربانی کو واجب کہتے ہیں۔مزید تفصیل کےلئے
(مبسوط سرخسی ج 12 ص 7۔بدائع الضائع للکاسانی حنفی ج5 ص 61۔62 وفتح القدیرج8 ص 425ورد المختار ج6 ص311 تا 313 عمدۃ القاری ج21 ص 144)
قربانی سنت ہے۔واجب نہیں ہے۔اور جو شخص قربانی خرید سکتا ہو۔اس کےلئے قربانی کا ترک کرنا اچھا نہیں۔ہدایۃ المجتہد لا بن رشد مالکی میں ہے۔وردی عن مالک مثل قول ابی حنیفہ ج 1 ص 314) اور امام مالک سے امام ابو حنیفہ کے موافق قول نقل کیا گیاہے۔
الضحايا سنة لا نحب تركها (کتاب الام ج2 ص 189)
قربانیاں سنت ہیں۔ہم قربانی کے ترک کو پسند نہیں کرتے۔مزید تفصیل نووی شرح صحیح مسلم ج2 ص 153 ونیل الاوطار ج5 ص 126 میں ملاحظہ فرمایئں۔
قال اشافعي واحمد هي مستحبة الا ان احمد قال ال يستحب تركها مع القدرة عليها النصاح علي المذهب الاربعة لا بن هبيدة حنبلي(ف 560ھ ج1 ص 305)
کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک قربانی مستحب استقا ہے تاہم امام ااحمد نے کہا ہے کہ استطاعت کے ہوتے ہوئے اس کا ترک مستحب امر نہیں۔شیخ الاسلام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی ف620ھ نے قربانی کوسنت موکدہ لکھا ہے۔
(عمدۃ الاحکام مع شرح المقنع ج1 ص481)
الا ضحية سنة حسنة وليست فرضا ومن تركها غير راعب عنها فلا حرج عليه في ذالك (محلی ابن حزم ج7 ص 357)
کہ قربانی سنت حسنہ فرض نہیں۔اگر کوئی شخص کسی وقت اس نیت سے چھوڑدے کہ یہ فرض نہیں تو اس پر کوئی حرج نہ ہوگا۔
(ج1 ص716)
کہ قربانی سنت موکدہ ہے۔قربانی کرنے والے کو ثواب ہوگا۔اور قربانی سنت موکدہ عینی ہے۔تارک کے لئے عذاب کے وہ بھی قائل نہیں۔
فرماتے ہیں۔آئمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شرائع اسلام میں سے ہے۔اختلاف صرف اتنا ہے کہ شوافع اور جمہور ک نزدیک قربانی سنت موکدہ علی الکفایۃ ہے۔اور ایک روایت کے مطابق شوافع کے نزدیک فرض کفایہ ہے۔اور اما ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے مگر صرف آسودہ حال پر(مسافراور حاجی پر نہیں)امام مالک سے بھی یہی قول منقول ہے۔ایک روایت کے مطابق لیکن امام مالک کے نزدیک مسافر پر بھی قربانی واجب ہے۔اور امام اوزاعی امام ربیعہ امام لیث سے بھی امام مالک کے قول کے مطابق فتوی منقول ہے۔البتہ احناف میں سے امام ابو یوسف اور مالکیہ میں میں سے امام اشہب نے اپنے آئمہ سے اختلاف کرتے ہوئے۔ جمہور سے اتفاق کیا ہے۔امام احمد نے فرمایا جس شخص میں قربانی دینے کی استطاعت ہو اُس کا قربانی نہ دینا مکروہ ہے۔اور امام محمد حسن شیبانی سے روایت یوں ہے۔ کہ قربانی سنت ہے۔لیکن اس سنت کے ترک کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری ج1ص2)
قلنا اخبارنا دلبل كونه للندل البحرالزخارج5 ص 311
ہماری پیش کردہ احادیث کے مطابق قربانی ایک مستحب امرہے۔
عن ابي جعفر قال الاضحية واحبة علي من وجد من صغير اوكبير وهي سنة من لا يحضره الفقيه (ج2ص292 باب الاضاحی)
حضرت ابو جعفر باقر فرماتے ہیں۔کہ قربانی سنت ہے او چھوٹے بڑے صاحب استطاعت پر قربانی کرنا ضروری امر ہے۔ان فقہی حوالی جات سے معلوم ہوا کہ قربا نی کے مشروع اومسنون ہونے پر تمام سنی اورشعیہ فقہا اور اسلام کا اجماع و اتفاق ثابت ہے۔اور کسی ایک فقیہ کا قول بھی اس کےخلاف نہیں ملتا۔لہذا ثابت ہوا کہ پروفیسر صاحب کا دعویٰ نرا مغالطہ سراسردوھوکا اور مسلمانوں کو قربانی سے متنفر کرنے کی ایک عامیانہ جسارت ہے۔اگر اب بھی ان کو اپنے ادعا پر ناز ہو تو پھر ہمیں بھی ان فقہا کا پتہ دیں جو قربانی کے مشروع اوور مسنون ہونے کے قائل نہیں۔کون ہیں۔؟کتنے ہیں سنی ہیں یا شیعہ ہیں۔تو وہ فقہا اہل حدیث میں سے ہیں یا فقہا مذاہب اربعہ میں سے اوراگر شعی ہیں و کون سے ہیں۔ان کا علمی اورعملی چوکٹھا کیسا ہے۔ان کا وہ کون سا فقہی سرمایہ ہے۔جس میں انھوں نے قربانی کی مشروعیت سے انکار یا اختلاف کیا ہے۔تاکہ ہم ان کے موقف کا جائزہ لے سکیں۔
هَاتُوابُرْهَانَكُمْإِنكُنتُمْصَادِقِينَ
لائو تو سہی زرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محض مگی ہوئی
کہ مذکورہ بالا فقہا ء اسلام کا یہ اجماع و اتفاق قربانی کے مشروع و مسنون امر ہونے پر بذات خود ایک مستقل اور ناقابل انکار شہادت ہے۔کیونکہ ان فقہا کرام کا زمانہ عہد نبوت اور صحابہ کرام سے اتنا قریب تھا۔کہ وہ بڑی آسانی سے شرعی احکا م و مسائل پر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام کاطرز عمل معلوم کر سکتے تھے۔کہ تحقیق و تفحص کے تمام زرائع موجود تھے۔
مثلاً امام مالک ؒ نے اسی مسئلہ قربانی کے متعلق رسول للہ ﷺ کی ایک حدیث صرف دو راویوں کے واسطہ سے نقل فرمائی ہے۔یعنی ابن مالک نے ابن زبیر مکی سے انھوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے وہ حدیث سنی۔موطا امام مالک ص 496 اسی طرح امام مالک نے قربانی کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضوان للہ اجمعین کے اقوال و آثار صرف ایک واسطہ سے روایت کئے ہیں۔یعنی امام مالک نے قربانی کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر کا طرز عمل اور ان کے آثار صرف ایک تابعی حضرت نافع کے واسطہ سے روایت کیے ہیں۔(موطا ص495 و 497)
امام ابو حنیفہ تو امام مالک سے تیرہ برس بڑے ہیں۔آپ کا مولا ومسکن کوفہ رہا۔کیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ تھا۔امام ابو حنیفہ کی ولادت اور حضرت علی کی شہادت کے درمیان صرف چالیس برس کا فاصلہ ہے۔امام موصوف کے زمانہ میں ایسے لوگ ہزار در ہزار موجود تھے۔جنھوں نے خلفاء راشدین کا عہد اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اور صحابہ کرام کی صحبت پائی تھی۔ایسے میں ان فقہا کے بارے میں کوئی یہ تصور کر سکتا ہے۔کہ ان کو یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل آڑے آسکتی تھی۔کہ قربانی کا یہ طرز عمل کب سے اور کیسے رائج ہوا اور کس نے اسے رواج دیا؟یہی حالت پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہا کی ہے۔ان سب کا زمانہ عہد نبوت اور عہد صحابہ سے اتنا قریب تھا۔کے ان کیلئے سنت اور بدعت کے درمیان تفریق کرنا کوئی اتنا بڑا مشکل امرنہ تھا۔او روہ آسانی کے ساتھ اس کا شکار نہ ہوسکتے تھے۔کہ جو عمل سنت نہ ہو اسے سنت یاد کر بیٹھیں۔
قربانی کے مشروع و مسنون عمل ہونے پر اس شہادت کے علاوہ ایک اور اہم ترین شہادت امت کے متواتر عمل کی ہے۔رسول اللہﷺ نے عید الاضحیٰ اور اس کی قربانی جس روز سےشروع فرمائی۔اسی روز سےوہ امت مسلمہ عملاً رواج پاگئی اور اسف تاریخ سےف آج تک دنیا کے تمام اطراف و اکناف میں تمام مسلمان ہر سال مسلسل اس پرعمل کرتے چے آرہے ہیں اس کے چودہ سو سال تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے ہر نسل نے پہلئ نسل سے اس کوسنت المسلمین کے طور پرلیاہے۔اور اپنے سے بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔یہ ایک ایس عالمگیری سنت ہے جوایک ہی انداز میں دنیا کے ہرہاس شہر او رقریہ میں ادا ہو تی چلی آرہی ہے ۔جہاں کوئی مسلمان آباد رہا ہے۔اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہﷺ کے عہد تک اس طرح مسلسل قائم ہے۔کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہوئی۔دراصل یہ ویسا ہی تواتر ہے۔جس تواتر کے برتے ہم نے قرآن کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب مانا ہے۔اور عرب کے در یتیم محمد بن عبد اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسولﷺ تسلیم کیاہے۔کوئی فتنہگر اگر اس تواتر کو بھی اگر مشکوک قرار دینے کی ٹھان لے تو پھر اسلام میں کونسی چیز شک سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یاد اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے۔ستانا دل کا
مختصر یہ کہ قربانی کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور ایسا گزرا وہ جس میں کسی معتمد فقیہ نے قربانی ایسی سنت موکدہ کو مشکوک ٹھرایا ہو۔(الحمد للہ علی ذالک)
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ اول اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی نے اپنی تمام زندگی بھر عید الاضحیٰ ک موقعہ پر قربانی نہیں کی۔محض اس لئے کہ پیروکار یہ نا سمجھ لیں کہ قربانی ایک واجب عبادت ہے۔(محلی ابن حزم ج7 ص 358)
جواب۔اس اثر سے یہ استدلال کرنا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضوان اللہ اجمعین کے نزدیک عید الاضحیٰ کی قربانی کی مشروعیت محل نظر تھی۔بوجوہ غلط محض اورسراسر خلاف واقعہ ہے۔
1۔اول اس لیے کہ چونکہ امام ربیعہ امام ثوری۔امام لیث۔امام اوزاعی۔امام ابو حنیفہ۔قربانی کے وجوب کے قائل تھے۔لہذا امام ابن حزم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔حضرت عمر اورحضرت ابو مسعود بدری ۔وغیرہ صحابہ کے یہ آثار پیش کرکے قائلین وجوب کے علی الرغم یہ ثابت کر رہے ہیں۔کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام سے قربانی کا وجوب ثابت نہیں۔جیسا کہ موصوف اسی صفحۃ پر یہ تصریح فرماتے ہیں۔(المحلی ج7 ص 358)
امام شافعی ؒ نے بھی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اس اثر کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے۔کتاب الام ج2 ص 189 جیسا کہ یہ حقیقت آپ کے پیش کردہ ترجمہ کی خط کشیدہ عبارت سے بھی صاف واضح ہے۔جس پر آپ نے نہ جانے کیوں نہیں غور فرمایا۔
امام محمد بن اسماعیل الامیرف 182ھ نے بھی ان آثار کا یہی مطلب متعین فرمایا ہے۔
وافعال الصحابة دالة علي عدم الا يجاب (سبل السلام ج4 ص91)
کہ صحابہ کرام کا یہ طرز عمل قربانی کے عدم وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب