سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(200) مردار ہڈی کی تجارت جائز ہے یا ناجائز ?

  • 3325
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1511

سوال

(200) مردار ہڈی کی تجارت جائز ہے یا ناجائز ?
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مردار ہڈی کی تجارت جائز ہے یا ناجائز مردار ہڈی سے یہ مراد ہے کہ  ہر ایک حلال و حرام جانور مردہ کی ہڈی جیسے ۔کتا۔سور وغیرہ کی ہڈی بھی مل کر رہتی ہے اس کی تجارت کا کیا حکم ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۔ حلال جانوروں کی ہو تو بلا شبہ جائز ہے ملی جلی  بے  امتیاز ہوتو مشتبہ ہے۔ واللہ اعلم  (اہل حدیث مرتسر جمادیالاول  سن 42ھ)

شرفیہ ۔ماکول اللھم  1۔مذبوح کی ہڈی کے جو ازپر کلام نہیں۔ اور غیر ماکول اللحم کے استعمال کو ہاتھی دانت پر قیاس کر کے جواز پر استدلال ہو سکتا ہے کہ حدیث و آثار صحابہ سے ہاتھی دانت کا استعمال ثابت ہے اور استعمال و فروخت کا حکم ایک ہے۔قال النبي ﷺ  في اخر حديث طويم يا ثوبانناشتر لفاطمة قلا دة من عصب وسوارين من عاج انتهي

1۔ ماکول اللحم وہ جانور  ہیں شرعا جن کا گوشت حلال ہے۔(12۔راز)

(ابو سعید شرف الدین دہلوی)

تشریح

ہڈی کی تجارت جائز ہے۔ ماکول اللحم کی ہو یا غیر ماکول اللحم صحیح بخاری ص170 جلد 1 میں ہے۔قال حماد لاباسبريش الميتة وقال الزري في عظام الموتي نحولافيم وغيره ادركتناسا من سلف العلما ء يمتشطون بها ويد هنون فيها لا يرون به با سا وقال بنسيرينوابراهيملاباس بتجة لاعاج انتهي

یعنی حماد بن ابی سلمان کوفی فقیہ نے کہا کہ مردار کے پر میں کچھ مضائقہ نہیں یعنی مردار کا پر نجس نہیں ہے۔ ماکول اللحم کا پر ہو یا غیر ماکول اللحم کا ہو اور زہری نے مردار جانور جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے بارے میں  یعنی ان جانوروں کی ہڈیوں کے بارے میں جو غیر ماکول اللحم ہیں کہا کہ میں نے بہت سے علماء سلف کو پایا کہ وہ ان ہڈیوں کے کنگے استعمال کرتے تھے۔اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے تھے اور  ابن سیرین اور ابراہیم نے کہا  کہ ہاتھی کی  دانت  کی تجارت میں کچھ مضائقہ نہین۔ ان بہت سے علمائے سلف ارابن سیرن و ابراہم کے قول کی تایئد ابو دوود کی اس  حدیث سے ہوتی ہے۔

يا ثوبان اشتر لقاطمة قلا دةمن عصب وسوارين من عاج الي اخره

(کتبہ محمد  عبد الرحمٰن المبارک  الفوری عفی اللہ عنہ)(فتاوی نزیریہ جلد دوم ص3)( فتاوی ثنایئہ جلد 2 ص 141)

   

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 204

محدث فتویٰ

تبصرے