السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صدقہ فطر میں انچھڑے چاول دینا کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بالخصوص ذکر دہان (برنج پوست دار) در حدیث شریف و آثار صحابہ از نظر نگذشتہ علماء درین مسئلہ اقوال مختلفہ است بعض میگویند کہ منصوصی تمرد شعیر واقط وزبیب وخط است غیر ازیں از حبوب آن قدر باید داد کہ قیمت آن بقدر قیمت صاع اشیاء منصوصہ یا نصف صاع حنظہ باشدو این است مذہب حنفیہ چنانچہ در و مختار وغیرہ کتب حنفیہ است
وما لم ینص علیہ کذرۃ وخبر بعتر فیہ القیمۃ وبعض میگویند ہرچہ غالب قوت آن بلد باشد اذان یک صاع شرعی دادہ شود مگر قوت را مخصوص اشیاء نمودہ وایں مذہب مالکیہ است و رسالہ ابی زید مالکی است وتؤدی من کل عیش ال ذالک البلد من برا وشعیرا وسلت اور تمرااد اقط او زبیب او خن او ذرۃ او ارز شارح رسالہ مذکورہ مے نویسد
واذا خرج من غیر ہذ الانواع التسعۃ لا تجزبہ علیٰ المشہور وبعض میگویند ہر غلہ کہ ودان عشر فیہ العشر فہو صالح لا خراج الفطر من الا رزو والذرۃ والدخن وغیرہ وبفہم احض قول راجح ہمیں است کہ ازہر قسم غلہ کہ دادہ بشود کفایت میکند و مؤید این است حدیث صحیحین از ابو سعید خذری کنا نخرج زکوٰة الفطر اذا کان فینا رسول اللّٰہ ﷺ صاعاً من طعامٍ من شعیرٍ او صاعاً من زبیب او صاعاً اقطٍ۔
عموم طعام دلیل رحجان این قول است حنابہ خصوصی بر و شعیر وتمرو زبیب واقط در صدقہ فطر میکنند باوجود قدرت بر اشیاء مذکورہ دادن شئی آخر کفائیت نمی کندو در صورت عدم وجدان اشیاء مذکورہ وادن غلہ دیگر جائز است در اقناع وشرح اقناع نوشتہ ولا یجزی غیر ہذہٖ الاصناف الخمسۃ مع قدرتہٖ علیٰ تحصیلہا ولا القیمۃ فان عدم المنصوص علیہ من الاصناف الخمسۃ اخراج ما یقول مقامہٗ من حب وتمر یقتات اذا کان مکیلا کالذرۃ واللدخن والماش ونحوۃ کاا رزوالتین ولتوت الیابس لان ذلک اشبہ بالمنصوص علیہ فکان اولیٰ۔
چاول میں افضل یہ ہے کہ پوست سے نکالے ہوئے دے اور اگر دہان دے تو بھی کفایت کرتا ہے جیسا کہ تمر مع گیہوں کے اور جود ماش وغیرہ مع پوست کے ۔ (حررۂ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفاء اللہ عنہ۔ فتاویٰ غزنویہ ص ۲۰۲ جلد۱)
’’اور دہان کا بالخصوص ذکر حدیث شریف اور آثار صحابہ میں نہیں۔ ہاں علما رحمہم اللہ کے اس بارہ میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ (صدقہ فطر میں) صاع ان ہی گلیوں میں سے دینا چاہیے، جن کا ذکرہ شارع علیہ السلام نے فرمایا ہے، کہ صاع کی قیمت کے برابر ہو یا گیہوں کے نصف صاع کی قیمت کے برابر ہوں حنفیوں کا یہی مذہب چنانچہ در مختار وغیرہ کتب حنفیہ میں ہے کہ جن حبوبوں کا ذکر شارع نے نہیں کیا، جیسے چینا، خبزو غیرہ ان میں قیمت کو اعتبار دیا جائے گا، اور بعضے کہتے ہیں کہ جو چیز عام طور پر اس شہر کی خوراک ہو اس میں سے ایک صاع شرعی دیا جائے گا مگر قوت کو ۹ چیزوں میں خاص کیا ہے، اور یہ مالکیہ کا مذہب ہے۔ ابن ابی زید مالکی کے رسالہ میں ہے کہ اس شہر والوں کو غالب قوت سے ادا کرے۔ یعنی گیہوں، جو۔ کابلی۔ جو کھجور۔ سادگی۔ کنگنی، چینا، چاول سے۔ رسالہ مذکورہ کا شارح لکھتا ہے۔ کہ ان ۹ قسموں کے سوا اگر نکالے تو جائز نہ ہو گا مشہور یہی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جس غلہ میں عشر واجب ہے اس کو صدقہ فطر میں دینا جائز ہے رحمۃ الامۃ میں لکھا ہے کہ جس چیز میں واجب ہے، وہ صدقہ فطر دینے کے لائق ہے جیسے چاول، چینا، کنگنی وغیرہ۔ احقر کے فہم میں قول راجح یہی ہے۔ کہ جس گلہ سے دیا جائے جائز ہے اور اس کی صحیحین کی حدیث ہے (بخاری، مسلم)
جو ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ایک صاع طعام سے یا جو سے یا کھجور سے یا ساؤگی سے یا پنیر سے صدقہ فطر نکالتے تھے طعام کا عموم اس قول کے رحجان کی دلیل ہے، حنبلیوں نے گیہوں، جو ، کھجور ، ساؤگی۔ پنیر کو صدقہ فطر میں دینا خاص کیا ہے۔ باوجود ان اشیاء کے میسر ہونے کے اور چیز میں سے دینا جائز نہیں جانتے۔ ہاں اگر اشیا مذکورہ نہ ملیں پھر جائز کہتے ہیں اقناع اور اس کی شرح میں ہے کہ ان پانچ چیزوں کی موجودگی میں اور جنس سے دینا جائز نہیں اور نہ ہی اس ان کے بدلے میں ان کی قیمت جائز ہے اگر یہ پانچ چیزیں نہ ملیں تو ان کے قائم مقام دانوں اور میووں سے جو قوت دے سکے ادا کیا جائے۔ بہتر ہے جب کیلی ہوں جیسے چینا اور کنگنی اور ماش اور مانند اس کے جیسے چاول اور انجیر اور توت خشک کیونکہ یہ پانچ بھی ان کے مشابہ ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب