سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) ایک دوکاندارنمک تیل وغیرہ کے ساتھ تمباکو سگریٹ بیٹری کی تجارت ..الخ

  • 3311
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 998

سوال

(193) ایک دوکاندارنمک تیل وغیرہ کے ساتھ تمباکو سگریٹ بیٹری کی تجارت ..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دوکاندارنمک تیل وغیرہ کے ساتھ تمباکو سگریٹ بیٹری کی تجارت بھی کرتا ہے کیا اس کی تجارت جائزہے اور اس کی دعوت و صدقہ قبول کرنا جائز ہے ؟ حدی شریدمیں آیا ہے ۔كل مسكر وفي رواية اخري نهي عن كل مسكر ومفتر آیا تمباکو مسکر و مفتر میں شامل ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض علماء کے نزدیک تمباکو کھانا اور پینا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ ان کی تحقیق میں تمباکوغیرعادی شخص کے حق میں مفتر ور مضر ہے۔اور حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں۔

ایک دوسری مرفوع روایت میں ہے۔

اور بعض علماء کے نزدیک تمباکو کھانا پینا محض مکروہ ہے حرام اور  ناجائز نہیں۔کیوکہ ان کے خیال میں اس کی حرمت و ممنوعیت پر کوئی صرح دلیل موجود نہیں وہ تمباکو کو نہ مسکر میں داخل مانتے ہیں نہ فقر میں۔

اور بعض علماء کرام بلاکراہت اس کے جوا اور اباحت کے قائل ہیں۔

پہلے گروہ کے نزدیک  تمباکو کی تجارت  ناجائز ہے اور اس کے فاجر کی دعوت و صدقہ قبول کرنابھی نا درست ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں۔لعن الله اليهود حرمت علهمالشحوم فبا عو هاوا كملوهااثما نهاوان الله حرمعليقوماكل شئ حرم علهم ثمته

دوسرے اور تیسرے گروہ کے نزدیک تمباکو کی بیع  وشرا جائز اور مباح ہے۔والقول الراجح عندي هوقول من ذهباليعدم اباحة اكل النبخ والتتنوالتبناكوشربد خانهبالنار جيلا ء وغيرها لا ضراره عاجلاوامابيعهمعليالمسلمان يحمتسبمنه لا يتكرثولا يتلطا من تلطخ به واشتغل بتجارته واكتسب بهفلا اقول بحرمة كسعيه وذلكلا جل اختلا ف العلما ء فيه فان اختلافالعلماء فيشئ يورثالتخفيف فيه

صورت مسولہ میں اس کی دکاندار کی تجارتگ جائز ہے اور اس کی دعوت و صدقی بھی درست ے اولا اس لئے کہ وہ تمباکو کے ساتھ دوسری بہت سی غیر مختلف فیل حلال و جائز چیزوں کی تجارت کرتا ہے ثانیا اس لئے کہ خود تمباکو کے بارے میں علماء مختلف  الرائے ہیں پس اس قدر تشدیدو تغلیط کہ اس کی بیع کو ناجائز و حرام کردیاجائےخلاف احتیاط ہے۔(عبیداللہ رحمانی) (محدث دہلی جلد 9 شمارہ 11)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 192

محدث فتویٰ

تبصرے