اہل ہنود کے میلوں یا مسلمانوں کے عرس میں بغرض تجارت اپنا سامان لے جانا کوئی چیز خرید نے کے لئےجاناناجائزہے یا نہیں؟
اہل ہنود کے میلوں یامسلمانوں کے عرس میں تجارت یاکسی اور غرض سے شریک ہونادرست نہیں بلکہ عقلا اور نقلا ہرطرح قبیح ہے۔ہندوئوں کے تمام میلے شرکیہ اور فقیہ ہوتے ہیں پھر وہ غیر مسلموں کے تہوار میں اور رس خد ایک بدعت ہے پھر اس میں شریک ہونے والے عمومافاق و نجاراور مبتدعین ہوتے ہیں اور اس اجتماع میں شرک اور فسق فجور کا بازار گرم ہو جاتا ہے ظاہر ہے کہ ایسے خلاف شرع اور ناپاک بے ہودہ مجمع میں خرید فروخت وغریہ کی غرض سے بھی شرک ہونا کیونکہ مباح اورجائز ہوسکتا ہے مومن کی شان قرآن کریم میں یہ بیان فرمائی گئی ہے۔ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ اور ارشاد ہے۔ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾ اور ارشاد ہے۔ تَعَاوَنُوا۟ عَلَى لبر والتقوي وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ اور آپ ﷺ فرماتے ہیں۔من كثر سواد قوم فهو منهم خریدو فروخت کی بیت سے شریک ہونے والوں کا مقصد اگرچہ مراسم شرکیہ و فسقیہ میں شریک ہونا نہیں ہونا اور نہ تکثیر مجمع مد نظر ہوتا ہے لیکن بلا ارادہ اس خلاف شرع مجمع کی رونق بڑھانے کا زریعہ بن جاتا ہے۔ میلے اور عرس کو بازار پر قیاس کرنا کھلی ہوئی غلطی ہے۔
(مولاناعبید اللہ رحمانی ) (محدث دہلی جلد نمبر 9 شمارہ نمبر 4)