سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) دارالحرب میں سود لینا جائز ہے یانہیں؟

  • 3298
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1915

سوال

(182) دارالحرب میں سود لینا جائز ہے یانہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دارالحرب میں سود لینا جائز ہے یانہیں؟ب۔ہندوستان دارالحرب ہے یادارالسلام؟

مروجہ دلالی اور آڑھت کی شرعی حیثیت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سود دینا مسلمان موحد کے لئے ہر جگہ حرام ہےخواہ درالاسلام ہو یا دارالحرب۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ ا۟لَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَو‌ٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَو‌ٰا۟ ۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَو‌ٰا۟ (بقرہ پ3 ع38)

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (اپنی قبروںسے) اس طرح سے اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جس کو آسیب نے لپٹ کر دیوانہ بنادیاہو یہ اس لئ کہ وہ کہا کرتے تھے ہ کسی چیز کا بیچنا بھی سود کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کوحلال کیا ہے اورسود کو حرام کیاہے۔اور فرمایا! يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ

(بقرہ پ3 ع38)اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جوسود لوگوں کے زمہ باقی رہ گیا ہے۔اس کو چھوڑ دو اگر تم  ایمان دار ہو۔اگر تم ایسا نہ کرو تو   اللہ اور رسول سےجنگ کیلئے آمادہ ہوجائو۔

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْكُلُوا۟ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ أَضْعَـٰفًا مُّضَـٰعَفَةً ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٣٠﴾

(آل عمران پ4 ع14)

اے ایمان والو سود در سود دگنا چوگنا مت کھائو اور اللہ سے ڈروتاک تم اپنی مراد کو پہنچو۔

یہ تینوں آیات کریمہ مطلق اور عام ہیں کسی خاص جگہ کےلئے مخصوص نہیں ہیں لہذاہر جگہ سود لینا دینا حرام ہے۔خواہ دارالحرب ہو یا دارالاسام ہو۔نبی ﷺ کی حدیثوں سے بھی تعمیم معلوم ہوتی ہے ۔اور بعض الناس جو  دارالحرب میں سود لینے کے جواز میں حڈیث  لا ربوا بين المسلم والحربي في دارالحرب پیش کرتے ہیں وہ صحیح متصل نہیں ہے مزید تفصیل درایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں ہے لہذا نصوص قرآنیہ قطعیہ کے مقابل حدی ظنی ضعیف مرسل کیسی طرح قابل حجت نہیں ہے جیسا نور الانوار حسامی اور توضیح تلویح وغیرہ میں اس کی تشریح موجو دہے کہ خبر واحد ظنی اور پھر ضعیف مرسل سے کتاب اللہ تخصیص نہیں کر سکتے ۔

ب۔فقیا حنفیہ کے نزدیک دار لاسلام کی یہ تعریف ہے کہ جس جگہ آزادی سےقرآن مجید کی تلاوت اور وعظ و نصیحت کرسکتے ہوں پنچ وقتی نماز  کی نماز وغیرہ اد کر سکتے ہوں۔چنانچہ  تنویر الابصار او الدر المختارو فصول عمادی وطحاوی وغیر میں ہے کہتصير دارالحرب دارالا سلام باجراء احكام الاسلام كجمعة وعيد اسلامی احکام نماز جمعہ و عید وغیریہ کے جاری کرنے سے دارالسلام ہوجاتا ہے ہندوستان میں پانچوں نمازیں جماعت سے اورجمعہ وعید کی نامز اسلامی شان سے مسلمان ادا کرتے ہیں وعظ و نصیحت بھی کرتے ہہں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں آپ ہی فیصلہ کر لیں کہ ہندوستان کیا ہے۔

از۔علامہ عزیززبیدی ۔وار برٹن

مروجہ دلالی اور آڑھت کی شرعی حیثیت

ایک استفتاء اور اس کا جواب

1۔دلالی۔جہانیاں سے مولانا عبد السلام  اور مولنا حافظ عبد القادر صاحب لکھتے ہیں کہ1۔ہر ملک میں جو دلالی کا جو نظام رائج ہے۔با اجرت یا بلا اجرت و ہ شرعا جائز ہے یانہیں؟

2۔کیا آڑھتی بھی اس ضمن میں آتے ہیں یا نہیں؟(مختصرا)

الجواب

احناف کیا خیال ہے کہ لوگ اس کے ضرورت  مند ہیں۔لہذاجائز ہے اجرت پر ہو تو وہ متعین ہونے چاہیے۔حدیث سئل عن محمد بن سلمة عناجرة السمسا ر فقال اوجوانه لا باس بهوان كمان في الا صل فلا سد لكمثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز نجوذ لحاجة الناساليبه كمدخول الحمام (رد المختار ج5 ص 53)

اگر فقیا ء کا یہ اصول تسلیم کر لیا جائے توس پھر دور حاضر میں شاید ہی کوئی بات ممنوع رہ جائے کیونکہ اکثر منہیات عام بھی ہیں اور لوگ ان ک ضرورت مندبھی جیسے سودی کاروبار۔

امام  نووی نے حضرت امام بو حنیفہ کا جو قول نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے لوگوں ی ضروت نہیں بلکہ اصل جزبہ الدین  نصیحہ ہے۔ اجرت پر ہویا بلا اجرت

حدیث وقال عطا ء ومجاهد والبو حنيفة يجوذ بيع الحاضر للبادي مطلقا لحديث الدين النصيحة(شرح مسلم ص4/6 كتاب البيوع)

اگر دلالی بلامعاوضہ ہو تو امام بخاری کے نزدیک بھی جائز ہے کیونکہ یہ بات  الدین  نصیحہ کے تحت آجاتی ہے۔حدیث

اما م بخاری کی تبویب سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے۔چنانچہ وہ لیکھتے ہیں۔

حدیث  لاشلا هل يبيع حاضر لباد بغيرا جوو هي يعينه او ينصعه وقال النبي صلي الله عليه وسلم اذا شستنصع احدكم اخاه فلينصع لهدر خص فيه عطاء (بخاري كمتاب البيوع ج1 ص289)

لیکن کتاب لاجارۃ باب اجرا السمسرہ صفحہ جلد1۔303 میں دلالی کی اجرت کو جازئ قرار دیا ہے۔حدیث قال ولم يرابن سيرين و عطاء وابراهيم والحن باجرا لسما ربا سا الخ

معلوم ہوتا کہ امام بخاری کے نزدیک یہ معروف جعل ہے وہ دلالی نہیں جو  لا يبيع حاضرلا لباد  میں ہے اصل میں یہ ای تکلیف ہے جو عموم حدیث کے خلاف ہے۔ شوافع کا نظ ریہ ہ کہ عام ضرورت کی شے کوئی اجنبی دیہاتی لے ک آتا ہے شہریاسے کہتا ہےے کہ اسے میرے پاس چھوڑ جایئں بتدریج اسے گراں قیمت پر بیچ کر ددوں گا۔حدیث قال اصحابنا ولامراديه ان يقدم غريب من البادية بمتاع تعم الحاجة اليه ليبيعه بسحر يومه فيقول له البلدي اتركهعندي لا بيعه علي التدريج باغلي (نووي شرحح مسلم ص 4/6)

صحیح یہ کہ بطور پیشہ جیسا کچھ یہ نظام دلالی رائج ہوگیا ہ جائز نہیں ہےآپﷺ کا ارشاد ہے ۔ لا يبيع حاضرلا لباد  (مسلم بخاری)

کوئی شہری دیہاتی کیلئے دلالی نہ کرے۔

حضرت ابن عباس سے کہا گیا کہ حاضر لباد کا کیا مطلب ہے۔؟

فرمایا ! اس کی دلا لی نہ کرے۔

حدیث فقلت لا بن عباس ما قوله حماضر لباد ؟ قال لا يكن له سمارا(مسلم ص 4/4 بخاري ج1 ص303)

امام بخاری اور دوسرے جن آئمہ کے نزدیک اس سے مراد بہ اجرت دلالی ہے ان کی دلیل وہ روایت ہے جس کے آکر میں آیا ہے کہ الا یہ کہ کوئی خیر خواہی کے جزبہ سے کرے۔

گو علی الانفرادیہ رویاات متکلمفیہ  ہیں تاہم بالکلیہ بیکار بھی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اس سے دلالی مراد لینا محل نظر ہے صرف یہ کہ وہ اسے مناسب معلومات  مہیا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس کا قریبہ وہ رعایت ہے جس میں آیا ہے کہ گو وہ باپ یا بھائی کیوں نہ ہو۔

حدیث  وان كان اباه او اخاه (ابو داود ونسائي) وان كان اخاه لا بيه وامه(بخاري و مسلم عن انس)

ظاہر ہے کہ اگر باپ یا بھائی یا ماں باپ کی طرف سے سگا بھائی ہو تو وہاں معاوضہ کی بتا تو نہیں ہو تی لیین اس کے باوجود رمایا اس کی دلالی نہ کی جائے۔

محرک۔

اس کی اصلی وجہ خود حدیث میں مذکور ہے کہ اجارہ دار کا خاتمہ ہو او آزاد انہ خریدو فروخت ہو تاکہ خلق خدا کو آسانی سے روزی میسر ہو۔

حدیث لا يبيع حاضر لباد د عواالناس يرزق الله بعضهم من بعض(مسلم 6/4)

اگر صاحب مال اپنا مال کے کر خود گاہک سے معامہ کرے تو بھائو اور نرخ میں جو گرانی راہ پاجاتی ہے اس کا یقینا سد باب ہو جائے۔

وذلك يتضمن الضروفي حق الحاضين فانه لم ترك البادي لكن عادة باعه وخيصا (حاشيه نسائي)

جب ہردیہاتی اپنے اپنے گھروں میں گندم باغ اور  وسرا مال کود بیچ سکتا ہے تو ہر میں جا کران کوکیا ہوجاتا ہے زیادہ سے زیادہ چند دن کی نا تجربہ کاری ہے اور وہ خود گھروں میں بھی برداشت کرلی جاتی ہے

دوسرا اس اس کا سبب نجش ہے وہ سچ مچ مسابقت کا نتیجہ  ہو یا صرف  فریب کا بہر حال یہ دونوں دلالی کی زمین سے ابھرتے ہیں اسلئے آپ ﷺ نے اس سے بھی روکا ہے فرمایا!

ان رسول الله  صلي الله عليه وسلم نهي عن النجش (مسلم صفحہ 3۔4 و بخاری صفحہ 1۔287)

نجش کے معنی بد نیتی پر مبنی بولی دینا بھی مراد لی جائے تو بھی دوسری حدیث سے اس مسابقت اور بڑھ چڑھ کر بولی دینے سے منع آگئی ہے گو وہ صرف لینے کے ارادہ سے بھی ہو فرمایا۔

لا يبيع بعضكم عليبيع اخيه حتي  يبتا ع ا ويزر (نسائی ص 3۔215)

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دلالی کی دردسریدرمیان سے نکل جائے تو یقینا اشیاء اس قدر گراں نہ ہوں۔ہاں بعض استثنائی صوتوں میں جبکہ اس سے غتض خصوصی اعانت ہو تو اس کی ئے کوئی شخص بولی پر بولی بھی دے سکتا ہے اور کوئی اس کی دلالی بھی کر سکتا ہے کیونکہ یہاں مقصد کاروبار نہیں اعانت ہے وایں  چیزے دیگرے۔

عن جابر بنعبد الله ان رجلا اعتق غلا ماه عنوبر فاتاج فاخذه النبي الله صلي الله عليه وسلم فقال من يشتريه من فاشتراه نعيم بن عبد الله بكذاو كمذافدفعه اليه(بخاري ص287)

حہم بہر حال اس سسٹم کے قطعا خلاف ہیں اور  مندرجہ  بالااحادیث سے ہمیں یہی بات قرین حکمت نظر آتی ہے کہ خریدوفروخت کے سلسلے میں جو دلالی راہ پاگئی ہے وہ  اثمهما اكبر من نفعهما کے قبیل کی چیز ہے خود صحابہ کا  یہ تاثر ہے کہ حضور ﷺ نے سمسار کے نام کو بدل دیا تھا کیوں کہ اسے نیک شہرت حاصل نہیں ہے۔

آڑھتی

آڑھتی اگر اجناس خود خریدتا اور آگے بیچتا ہ تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہاں اگر دلالی کا پیشہ بھی اختیار کرتا ہے تو یہ صرت صرف اسی حد تک ناجائز ہے خواہ وہ کمشن کے نام پر لیں یا چونگی کے نام پر سب دلالی ہے۔

دونوں صوتوں میں ہمارے بعض اہل حدیث علماء کے نزدیک یہ دلالی جائز ہے (فتاوی ثنائیہ)

مولانا شرف الدین نے  بعض صوتوں میں ان سے اختلاف کیا ہے باقی جماعت اسلامی مولنا سید ابو الاعلی مودودی کے نزدیکک بھی دلالی کی کسی حد تک گنجائش ہے ۔مگر تسامح سے خالی نہیں ہے۔حضرت امام شوکانی کے نزدیک دلالی شرعا  ممنوع ہے خواہ اس کی کوئی صرت ہو۔

پھر اسی سلسلے کی تخصیصات کا رد کرتے ہوئے امام ابن دقیق العبد کا قول نقل کر کے تفصیل سے جواب دیاہے۔

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 182-186

محدث فتویٰ

تبصرے